اتائی ڈاکٹر !مسیحا یا قاتل۔۔۔۔۔عوام کو سمجھنا ہوگا

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:ڈاکٹر محمد کلیم خان ، اورل سرجن کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ۔ڈاکٹر محمد عمران یوسف ،ماہر ذہنی صحت اور اعزازی قونصل جنرل فلپائن۔ڈاکٹر اقراء انصاری،ریسرچ ہیڈ چلڈرن اسپتال کراچی ۔ڈاکٹر شفق احمد،اسسٹنٹ پروفیسر انسٹیٹیوٹ آف کلینکل سائیکالوجی۔ڈاکٹر قمر جبار،نیورومائنڈ اسپتال۔ڈاکٹر عروبہ طاہر، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر۔ ڈاکٹر انصب، ڈائومیڈیکل کالج اور اسپتال اوجھا کیمپس۔

ڈاکٹر منصوبہ بندی کریں تو کم پیسوں میں بھی علاج کیا جاسکتاہے :   ڈاکٹر کلیم خان۔سندھ ہیلتھ کمیشن غیرقانونی کلینکس اور اسپتالوں کیخلاف کارروائی کرے :   ڈاکٹر عمران یوسف

 محلے میں کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کو پی ایم سی کا امتحان دینا ہوگا:   ڈاکٹر اقراء انصاری،پاکستان میں ماہر نفسیات کیلئے کوئی بھی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں :   ڈاکٹر شفق احمد

جعلی ڈگری روکنے کیلئے ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر بنانے ہوں گے:   ڈاکٹر قمر جبار

 

 موضوع:’’طب کے شعبے میں ڈگری کی اہمیت‘‘

 

 

دنیا فورم کا موضوع تھا ’’طب کے شعبے میں ڈگری کی اہمیت‘‘ تو ایک معروف حکیم صاحب کا فون موصول ہوا،صبح صبح اور انہوں نے شکوہ کیا کہ اس موضوع کی مناسبت سے حکیموں اور ہومیوڈاکٹرز کو بھی مدعوکرنا چاہیے تھا ،بہرحال ہم نے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ جلد حکیموں اور ہومیو ڈاکٹرز کے ساتھ بھی فورم کرینگے۔ چلڈرنز اسپتال کے تعاون سے ہونے والے دنیا فورم میں جعلی ڈاکٹروں کیخلاف حکومت سے کارروائی کا مطالبہ تو کیا ساتھ ہی گلی محلے کے ڈاکٹروں کو کارآمد بنانے کیلئے امتحان سے گزرنے کا بھی مشورہ دیا،ڈاکٹروں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ مریضوں کو سمجھنا ہوگا کہ انکی صحت کے ساتھ یہ جعلی ڈاکٹرز کیا کھلواڑ کر رہے ہیں۔کئی مرتبہ مریض کی جان بھی چلی جاتی ہے جبکہ حکومتی ادارے حادثہ ہونے پر جاگتے ہیں اور پھر میڈیا سے خبریں جاتے ہی وہ پھر سوجاتے ہیں۔

یہاں یہ شکوہ بھی کیا گیا کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر اپنی جیب سے بھی مریضوں کا علاج کررہے ہیں،مفت دوائیں بھی دیتے ہیں لیکن میڈیا پر ان کی خبریں کم ہی چلتی ہیں۔بہر حال دنیا فورم کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ ہم جہاں مسائل اور خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں وہیں اچھے کاموں کی تعریف بھی کرتے ہیں اور حل بھی پیش کرتے ہیں۔یہ فورم بھی بہت ہی اہم ہے امید ہے قارئین کو پسند آئے گا۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا،شکریہ

مصطفیٰ حبیب صدیقی ،ایڈیٹر فورم 

روزنامہ دنیا کراچی

برائے رابطہ اور رائے

mustafa.habib@dunya.com.pk

فون یا واٹس ایپ

0092-3444473215

 دنیا: جعلی ڈگری لینا آسان کیو ں ہوتا جارہا ہے ؟تصدیق کہا ں سے ہوتی ہے؟

ڈاکٹر کلیم خان : ڈگری کی تصدیق کیلئے مختلف کونسلزہیں جو حکومت کے ماتحت ہیں۔ میڈیکل کالج سے فارغ ہونے کے بعد فوری رجسٹریشن ہوتی ہے، ایک سال کی ٹریننگ کے بعد ایک سر ٹیفکیٹ جاری ہوجاتاہے، جعلی ڈگری صرف میڈیکل کے شعبے میں نہیں کئی شعبوں میں ہوتی ہے۔جعلی ڈاکٹروں کی وجہ سے مریض کی جان کو خطرہ ہوتا ہے اس لیے عوام کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ جعلی ڈگر ی جاری نہیں ہوتی لوگ خود ہی کام کرلیتے ہیں آج کل تو فوٹو شاپ پر سب ہوجاتا ہے۔ لوگ مقامی طور پر معاملات طے کرلیتے ہیں اور کاروبار چل رہا ہے ۔پہلے چینی دندان ساز بہت مشہورتھے جن کی دانتوں کے علاج میں بہت پریکٹس ہوتی تھی وہ دانت کو نکالنے اور لگانے کا کام کرتے ہیں لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کی مددسے دانتوں کو نکالا نہیں بلکہ علاج کیا جاتاہے ۔ حکومت کاان معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے چیک اینڈبیلنس نہیں ہے، حکومتی ادارے فعال نظر نہیں آرہے ہیں،مختلف کونسلزمیں ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور تربیت ہوتی ہے اس کے بعد سر ٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔

دنیا: غیر ڈگری یافتہ ڈاکٹروں کے خلاف حکومت یا پی ایم ڈی سی کارروائی کیوں نہیں کرتی؟

ڈاکٹر کلیم خان:حکومت کوشش کررہی ہے ،چھاپے بھی مارے گئے ہیں جس کے باعث کئی جعلی کلینک بند ہو ئے ، حکومت نے سندھ ہیلتھ کمیشن کو لائسنس بھی جاری کیا ہے ،کمیشن کے افراد کلینکس پر جارہے اور چیزوں کو دیکھ کر رجسٹر ڈ کررہے ہیں، اسے مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹرعمران یوسف : ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے اگر4 کلینک ہیں تو ایک پر بیٹھتا ہے اور3 جگہ پر خود نہیں اسکا کمپاؤنڈر ہوتا ہے جو مریضوں کے علاج کے ساتھ سارے کام کررہاہوتاہے۔معلوم کرو توپتہ چلتا ہے ڈاکٹر صاحب کو کلینک آئے 15 روز ہوگئے ہیں ۔ سندھ ہیلتھ کمیشن کوغیرقانونی کلینکس اور اسپتالوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ۔ یہ حقیقت ہے سندھ ہیلتھ کمیشن کے پاس افرادی قوت کم ہے اس لئے سب کیخلاف کارروائی مشکل ہے ،کمیشن نے کئی علاقوں میں غیر قانونی کلینک سربمہرsealed بھی کیے جوکچھ روز بعد پھر کھل گئے ۔بدقسمتی سے پورے شہر میں غیرقانونی ڈاکٹروں اور کلینکس کی بھر مار ہے جنہیں کنٹرول کرنا آسان نہیں۔پنجاب ہیلتھ کمیشن نے بہت کام کیا ہے وہ عمل بھی کررہے ہیں۔

دنیا: ترقی یافتہ ممالک میں کیا ہوتاہے؟

ڈاکٹر اقراء قمر:امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ایسے حضرات ڈاکٹر کا نام لگا کر پریکٹس کرتے ہیں، لیکن وہاں ہر چیز ریگولیٹ ہوتی ہیں ایسا نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے وہ دکان کھول کر بیٹھ جائے۔ہمارے قانون میں ہیلتھ کیئر کو اہمیت دی گئی ہے لیکن فنڈز نہ ہونے سے ہیلتھ کیئر سسٹم بہتر نہیں چل رہا۔عام آدمی کو معلومات فراہم کرنے کیلئے بنیادی صحت کا نظام ہوتاہے جب تک یہ نظام مضبو ط نہیں ہوگا چیزیں بہتر نہیں ہوں گی، ہمارے پاس نظام ہے لیکن عمل نہیں ہوتا۔پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC)کے تحت این ایل ای کا امتحان دیا جاسکتاہے جو پوری دنیا میں لیا جاتاہے۔اس سے جدید علاج کے بارے میں معلومات رہتی ہے۔ گلی محلے میں کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کو لائنس کی تجدید کرانے کیلئے اب اس عمل سے گزرنا ہوگا۔

اچھا اقدام ہے اس سے معیار میں بہتری آئے گی۔5سال پہلے سندھ میں دانتوں کے کلینک یا اسپتال کھولنے کیلئے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں تھی جہاں رجسٹریشن کرائی جاسکے ۔طالب علم میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے ہی پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر بننے کے بعد اسپتال کھولنا چاہا تو معلوم ہوا کہ کوئی ریگولیٹری اتھارٹی ہی نہیں ۔ ڈگری کی بنیاد پر اسپتال کھول لیا۔اسپتال کھولنے کے بعد معلوم ہوا کہ حکومت نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کا آغاز کیا ہے اس کے بعد اسپتال کو رجسٹرڈ کرایا۔کمیشن نے فارم میں ہومیو پیتھک، میٹرنٹی ہومزاو رطب کے کئی شعبوں کو شامل کیا ہے تاکہ سب رجسٹرڈ ہوسکیں،بدقسمتی سے ہمارے میٹرنٹی ہومز بھی بغیر ڈاکٹروں کے چل رہے ہوتے ہیں۔ مڈوائف اور نرسز کے کورسز پی ایم سی میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔امریکا جیسے ملک میں بھی ایسے لوگوں کو شامل کیا جاتاہے کہ جو لوگ ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ہیں لیکن تازہ ایم بی بی ایس کیا ہے وہ پریکٹس کرکے کلینک کھول سکتے ہیں ان کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے آزاد نہیں چھوڑا جاتا ۔ریگولیٹری اتھارٹی ان کو مانیٹر اور تربیت کرتی ہے،جب امریکا یہ کام کرسکتا ہے توہم لوگ کیوں نہیں کرسکتے جب کہ ہمیں ایسے لوگوں کی اشدضرورت ہے۔ ان چیزوں کوسمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔اکثر ڈاکٹر عوام کی سہولت کیلئے سستی کلینکس بھی کرتے ہیں ،اسپتالوں میں فیس معاف کی جاتی ہے تاہم میڈیا میں منفی خبروں کو اجاگر کیاجاتا ہے جبکہ معاشرے میں مدد کا جذبہ سب سے زیادہ ہے۔

دنیا:عام آدمی جعل ساز ڈاکٹروں کے پاس جانے کو کیوں ترجیح دیتا ہے ؟

ڈاکٹرشفق احمد : انسان کی شخصیت پر سوچوں کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔ا س کے جسم میں عقیدے کا نظام(Belief System ) ہوتا ہے جس پر وہ اعتماد کرتا ہے ، اس کے نتائج سامنے آتے ہیں۔اگر وہ سوچتا ہے مجھے اس ڈاکٹر سے شفا ہوگی تو ہوجاتی ہے۔غیرقانونی کلینک میں مریضوں کا رش زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث عام آدمی ان کی طرف جاتا ہے، لیکن جب کوئی بڑا نقصان یاحادثہ ہوجا ئے توجعلی ڈگری کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ سارے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں لیکن مسائل کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی،لوگ تھوڑے عرصے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ پاکستان میں ماہر نفسیات کیلئے کوئی بھی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ۔ 

 فورم کے دوران ایڈیٹر فورم نے واقعہ سنا یا کہ ایک بچی کینسر کے مرض میں مبتلا تھی وہ طبیب کے پاس گئی ا س نے دوائی دی اور کچھ پڑھا جس سے بچی بالکل صحیح ہوگئی اور3 دن ایسالگا جیسے اس کی بیماری ختم ہوگئی ہو لیکن اچانک اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی اور خراب ہوتی چلی گئی بہت علاج کرایا لیکن صحتیاب نہیں ہوئی 3 ماہ قبل بچی کا انتقال ہوچکا ہے۔ یہ Belief System تھا یا واقعی کوئی ایسی دوا ہوتی ہے جس سے مریض فوری صحیح ہوجاتا ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے ماہر نفسیات عمران یوسف نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ دیا تھا کہ آپ کے ہاتھ لگا نے سے شفاء ہوجاتی تھی ،بائبل میں ہے ایک بیمار خاتون حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس تشریف لائی،حضرت عیسی ٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور خاتون تیرا یہ یقین کہ میں تجھے ہاتھ لگاؤں گااور تجھے شفاء ہوجائے گی ،شفاء دراصل تیرے اس یقین میں ہے۔

نفسیاتی پہلو سے دیکھیں تو معلوم ہوتاہے epigenetics رویوں کو تبدیل کردیتی ہے۔ انسانی خدمت کے جذبے کے تحت کچھ لوگ انفرادی طورپر بھی کام کرتے ہیں۔لوگوں میں آگہی نہ ہونے سے مسائل سامنے آتے ہیں ۔لوگ ان کلینکس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ہمارے پاس کچھ مریض ایسے آئے جوکینسر میں مبتلا تھے اور میڈیکل سائنس کے مطابق وہ 3 سے 4 ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں لیکن وہ 7 سال سے زندگی گزار رہے ہیں اور کئی فورم پر اظہار خیال بھی کرچکے ہیں ۔ Belief کی کوئی منطق نہیں ہوتی ، انسان یہ سمجھتا ہے کہ میری کوشش سے ہوجائے گا تووہ ہوجاتاہے۔ بعض مرتبہ انسان بے بسی کی حالت میں کوشش کرتاہے اور اسی کوشش میں فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں یہ چیزیں عام ہوتی جارہی ہیں کہ جومیڈیا پر آرہا ہے وہ مستند ہے۔ یہ چیزیں ہمارے Belief System کی ترجمانی کرتی ہیں۔

ڈاکٹر شفق احمد: انسٹی ٹیوٹ آف کلنیکل سائیکالوجی میں اندرون سندھ اورخیبرپختونخوا کے طلباء کراچی پڑھنے آتے ہیں اور واپس جاکر اپنے علاقوں میں کام کرنے کے بجائے یہیں ملازمت حاصل کرلیتے ہیں جبکہ کراچی کے ڈاکٹرز کو ملازمتیں نہیں ملتیں اور وہ ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔8سے 10 میڈیکل کے ڈاکٹرز باہر جانے کی تیاری کررہے ہیں۔برطانیہ میں ایک نظام ہے نیشنل ہیلتھ سروسز( NHS ) جس کے تحت سارے اسپتال اور کلینک اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔تمام ڈاکٹر اس سسٹم کو فالو کرتے ہیں۔وہاں ہر قسم کے ڈاکٹر رجسٹرڈ ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ماہر نفسیات کو رجسٹرڈ کرنے کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں۔گزشتہ 7 سال سے ریگولیٹری باڈی بنانے کی کوشش کررہے ہیں ،ایک ماہ پہلے اس کا ایپ بھی تیار کیاہے،اس پر کا م جاری ہے۔میڈیا آگہی او ر مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتاہے، فورم کے توسط سے درخواست ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور مسائل کا حل نکالیں۔

ڈاکٹر قمر جبار:ہمارے جسم میں کچھ ہارمونز ہوتے ہیں جو Belief System کی وجہ سے جاری ہوجاتے ہیں جس سے انسان وقتی طورپر اپنی چیزوں کو بھول جاتاہے، مریض اتائی ڈاکٹروں سے اس لیے صحت یاب ہوجاتے ہیں یہ مریضوں کو چار پانچ اینٹی بایوٹک دوائیں دے دیتے ہیں جس سے وقتی طورپرٹھیک تو ہوجاتاہے لیکن ا س کے نقصان اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ مریض کو بعض مرتبہ چھوٹی سے بیماری میں بھی Non Antibiotic دوائیاں اثر نہیں کرتی جس کی وجہ سے ہائی Antibiotic دوا دینی پڑتی ہے جس کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں، بعض مرتبہ Antibiotic کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دے دی جاتی ہے کہ مریض کسی دوائی سے تو ٹھیک ہوجائے گا۔ اتائی ڈاکٹروں کو انداز ہ ہی نہیں میں ان کے ساتھ کیا کر رہا ہوں۔ جعلی ڈگری کیوں آرہی ہیں ،ہمیں اس کے حل کی طرف جانا ہوگا،ہمیں ڈاکٹر بنانے ہوں گے۔2001 میں آسٹریلیا میں ڈاکٹرز کی کمی تھی ، کمی کو دور کرنے کیلئے وہ باہر سے ڈاکٹر لیتے تھے ، اس کے بعد اس نے نئی پالیسی بناتے ہوئے میڈیکل میں نشستوں کا اضافہ کردیا،2008 میں ڈاکٹروں کی کثیر تعداد میں اضافہ ہوگیااب وہ باہر سے ڈاکٹر نہیں لے رہے۔

فورم کے توسط سے سوال ہے کہ ہم ایسی پالیسی کیوں نہیں بناتے۔اتا ئی کلینک بند کرنا مسئلے کا حل نہیں کچھ دن بعد دوبارہ کھل جائے گا وہاں نہیں تو کسی اور جگہ کھل جائے اس کو رو ک نہیں سکتے ،امریکا میں اس پر باقاعدہ کام ہورہا ہے ، ایک سسٹم کے ذریعے ایسے ڈاکٹروں کی تربیت کرکے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں جب وہ کرسکتے ہیں تو ہم ایسا نظام کیوں نہیں بنا سکتے۔سسٹم بن جائے تو ایسے علاج کرنے والے بھی معاشرے کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں ڈاکٹر اور مریض کا وہ تناسب نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔معاشرے میں اچھے ڈاکٹر بھی ہیں۔جن مریضوں کے پاس چیک اپ کرانے کے پیسے نہیں ہوتے ڈاکٹر ان کو مفت دیکھتے اور مالی مدد بھی کرتے ہیں یہ سب ہم نے معاشرے اور تعلیم سے ہی سیکھا ہے ایسا نہیں کہ ہم میں اخلاقیات نہیں۔ 

دنیا: بھاری فیسیں لینے والے ڈاکٹر ایسا نظام کیوں نہیں بناتے جس سے عام آدمی کی بھی رسائی ہو؟

ڈاکٹر کلیم خان : ایک ویلفیئر آرگنائزیشن کے ساتھ کا م کیا وہاں سیکھا ہے کہ ہمیں خود طے کرنا ہوگا کہ مریض کا کم پیسوں میں علاج کس طرح کیا جاسکتاہے۔یہ مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔بدقسمتی سے ہم کمرشلائزیشن کی طرف جارہے ہیں، جس میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دھن ہوتی ہے۔ڈاکٹر حضرات منصوبہ بندی کریں تو آسانی سے کم پیسوں میں بھی علاج کیا جاسکتاہے ۔

ڈاکٹر قمرجبار: سائیکالوجیکل تھیور ی کے مطابق انسان کی ضروریات دو چیزوں میں تقسیم ہوجاتی ہے،معاشرے میں ایک عا م انسان اپنی سوچوں کو پروان نہیں چڑھا تا صرف دو وقت کی روٹی کیلئے کوشش کرتاہے،کوشش ہونی چاہیے کہ کم پیسوں میں علا ج کیا جائے اس سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا آمدنی بڑھے گی او ر غریب بھی آسانی سے علاج کراسکتا ہے۔

دنیا: ہماری یجوکیشن میں انسانیت کی خدمت کی آگہی کیوں نہیں دی جاتی ؟

ڈاکٹرعمران یوسف:وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر شفقت محمود سے نصاب کے حوالے سے بات ہوئی،ایم بی بی ایس کرنے کیلئے 25 سال لگتے ہیں اس پورے عرصے میں اخلاقیات کی تعلیم نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے نصاب میں شامل ہے۔ گھر کی تربیت میں بھی نہیں ہے،مدارس اور میڈیا پر بھی نہیں ہیں۔ ہم شروع سے بچے کی صحیح تربیت ہی نہیں کرتے اور توقع کریں یہ بہت رحم دل اور سخی بنے ،یہی وجہ ہے لوگوں سے یہ بھی کہتے سنا ہے ڈاکٹر باہر نکلتا ہے تو قصائی ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر اقراء انصاری : سب باتوں کے باوجود جتنے فلاحی کام ہمارے ملک خاص طورپر کراچی میں ہوتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ،دنیا کے کئی ترقیافتہ ممالک میں یونیورسل ہیلتھ کیئر کوریج نہیں ہوتی ،پاکستان ان ممالک میں ہے جس میں ہیلتھ کیئر کوریج ہے،ہمیں اخلاقی طورپر ہر پاکستانی کو بنیادی ہیلتھ کیئر سروس آنی چاہیے ، قانون بھی موجود ہے،ہمار ے سرکاری اسپتالوں میں ایک بستر کیلئے 6,6 مریضوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔

دنیا: جناح اسپتال میں مریضوں کا رش ہوتا ہے کیسے منیج کرتی ہیں؟ 

ڈاکٹر عروبہ طاہر : حقیقت ہے جناح اسپتال میں مریضوںکا بہت رش ہوتاہے، اکثر مریضوں کے پاس دوائیوں کے پیسے بھی نہیں ہوتے ان کی مدد کرتے ہیں، پرائیویٹ اسپتالوں میں ہر چیز کے پیسے ہوتے ہیں جو غریب مریض برداشت نہیں کرسکتا۔ حکومت جناح اسپتال کو ضرورت کے مطابق فنڈز مہیا نہیں کرتی جس کے باعث عوام کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔سرکاری اسپتالوں میں وسائل محدود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پرائیویٹ اسپتا ل جیسی سہولتیں دستیاب نہیں ہوتی ۔ سرکاری اسپتالوں میں زیادہ تروہی مریض آتے ہیں جو اخراجات برداشت نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے ان کو لائنوں میں لگنا ہوتا ہے اور آپریشن کیلئے کافی عرصہ انتظار کرنا پڑ تا ہے جس سے مریضوں کو نقصان بھی ہوتا ہے۔ 

دنیا:کیا پرائیویٹ اسپتالو ں میں مریضوں کو مفت میں سہولتیں ملتی ہیں؟

ڈاکٹر انصب : پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کیلئے مخصوص کوٹہ ہوتاہے ،زیادہ فیسیں لینے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیکل کی تعلیم بہت مہنگی ہوگئی ہے ،بی ڈی ایس میں داخلہ میرٹ پر حاصل کیا اس کے باوجود پڑھائی کے اخراجات برداشت کر نا آسان نہیں، ڈاکٹروں کی ایک تعداد ہے جو پرائیویٹ کلینک چلا نے کے ساتھ فلاحی کام بھی کررہے ہیں، ڈاکٹر مریضوں کا معاشی خیال بھی کرتے ہیں،ڈائو میں اکثر مریض 100روپے بھی نہیں دے پاتے تو ڈاکٹرز اپنی جیب سے ادا کردیتے ہیں مگر مریض کو واپس نہیں جا نے دیتے ۔

دنیا: کون سے ادارے عوام کو آگہی دینے کیلئے کردار ادا کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر اقراء انصاری:جب تک ہمار ا پبلک ہیلتھ سسٹم مضبوط نہیں ہوگا اس وقت تک کوئی سسٹم کام نہیں کرے گا، سسٹم کا بنیاد ی مقصد عام معلومات عوام تک پہنچانا اور اس ان کی سمت متعین کرنا ہوتا ہے۔ہر شخص کی اس کی سطح پرجاکر اس کو سمجھانا ہوتاہے۔بنیادی ہیلتھ سسٹم میں ڈاکٹروں کے ساتھ نرسز اور مڈوائف کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔پی ایم ڈی سی نے این ایل ای کے امتحان متعارف کرائے ہیں۔

ڈاکٹر عمران یوسف : جس ملک میں بچے حادثاتی طور پر پیدا ہوں ،چاچی ،مامی ، پھوپھی کے دباؤ پر بچے پیدا ہوں کہ اتنے دن ہوگئے ہیں اب تک بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا۔مدر چائلڈ ہیلتھ کیئر پر پاکستان دنیا کے آخری نمبر پر ہے۔ماہر نفسیات کے حوالے سے پاکستان کی آبادی کا تناسب نکالیں تو پتہ چلتا ہے ہمار ے ملک میں صرف400 نفسیاتی ڈاکٹرز ہیں جس میں 200  کو بھتہ دے کر بھگا دیا گیا،2ہزار کے قریب کلنیکل سائیکالوجسٹ ہوں گے، 22 کروڑ کی آبادی میں تناسب نکالیں تو ایک ڈاکٹر پر سوالاکھ افراد ہوں گے۔

ڈاکٹر قمر جبار: دنیافورم کے توسط سے کہنا چاہوں گا کہ گلی محلوں میں کلینک چلانے والے اتائی ڈاکٹروں کو مڈلیول پریکٹس کیوں نہیں کراتے،مڈ لیو ل پریکٹشنر کی ڈاکٹر ٹریننگ کرتے ہیں،پاکستان میں 6لاکھ اتائی ڈاکٹرہیں ان کی تربیت کرکے استعمال کیا جائے تو ان کو باعز ت روزگار مل سکتا ہے۔ مڈلیول پریکٹشنر کورس ہیلتھ کیئرکے شعبے میں فاصلے کو کم کرنے کیلئے متعارف کرایا گیاہے یہ فاصلہ صرف پاکستان ہی نہیں ترقیافتہ ممالک میں بھی ہے،اس کورس میں روزمرہ کے مسائل جیسے نزلہ،کھانسی،زکام ،بخار بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ کورس 2سا ل کا اور اسپتال کے ماتحت ہوتا ہے اس کے بعد رجسٹرڈ لائسنس نمبر جاری کردیا جاتاہے،اس کو رس کو امریکامیں فزیشن اسسٹنٹ کے طورپر لوگ فرائض انجام دے رہے ہیں۔نرسز بھی کام کررہی ہیں،

یہ دنیا کے کئی ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے ، کورس کرنے والے آپریشن ،کینسر اور دیگر مشکل علاج نہیں کرسکتے، کورس پاکستان میں متعارف کرایا جائے گا۔اس سے اتائی ڈاکٹرز معاشرے کونقصان دینے کے بجائے فائدہ پہنچائیں گے۔ان کے لائنس کو سالانہ تجدید کیا جائے تاکہ ان کی طبی معلومات بھی وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ رہے، ملک کی ریگولیٹری باڈی پاکستان میڈیکل کمیشن جو پورے پاکستان کو کنٹرول کرتی ہے، وہ ملک کی پالیسی ساز اداروں میں کردار ادا کرسکتی ہے ۔

ڈاکٹر کلیم خان : دو سال کا Oral Hygenic کورس ہوتا ہے ،حکومت کی طرف سے اس کی پروموشن نہیں ہوتی ،ڈاکٹر کمیونٹی بھی اس طرف توجہ نہیں دیتی ،اورل ہائی جینک میں دانتوں کی صفائی ،فلنگ اور دیگر کام ہوتے ہیں ،یہ ڈاکٹرز کے ساتھ ہوتے ہیں جو مریض کو تیار کرکے ڈاکٹر کے پاس بھیجتے ہیں ،اسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے عام طورپریہ کام بھی ڈاکٹر خود ہی کرتے ہیں۔ا س کورس کی حکومتی سطح پر پروموشن ہونی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔