شارٹ کٹ نہیں۔ صبر ، شکر ، محنت ، لگن۔۔ترقی کے ضامن

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء: سید شجاعت علی ، سابق چیئرمین پاکستان لیدر گارمنٹس اینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن۔ام سلمیٰ منصور ،رکن مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی آباد،چیئرپرسن باسودہ این کوروائی گروپ آف کمپنیز ۔ پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس ،ڈین آرٹس فیکلٹی جامعہ کراچی۔ ڈاکٹر سہیل شفیق ، چیئرمین شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر سکینہ ریاض، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سوشل ورک۔ڈاکٹر ثمینہ ، لیکچرار نعمان شیخ طلبہ وطالبات کی کثیر تعداد۔

  کامیابی کا راستہ کٹھن ہے،مایوسی پر کامیابی رک جائے گی:  سید شجاعت علی،شوہر کے قتل کے بعدڈاکٹری چھوڑی، بلڈر بن گئی،مردانہ معاشرے میں بہت جدوجہد کی:  ام سلمیٰ

اپنے اندر شکر گزار ی پیدا کریں خود ہی وسائل جمع ہو جائینگے:  ڈاکٹر نصرت ادریس،کامیابی کی اصل قیمت ناکامی کا اعتراف ہے:  ڈاکٹر سہیل

کامیاب زندگی پھولوں کی سیج نہیں نہ ہی پلیٹ میں رکھ کر ملتی ہے :  ڈاکٹر سکینہ

 

 موضوع: ’’کیا وسائل کی کمی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتی ہے؟‘‘

 

 

 

 

 کامیابی کیا ہے؟یہ وہ سوال ہے جو ہر شخص کو خود سے پوچھنا چاہیے،ہر روز پوچھنا چاہیے اور جواب تلاش کرنا چاہیے،ہر شخص کے نزدیک کامیابی کا معیار مختلف ہوسکتا ہے،شارٹ کٹ نہیں، صبر، شکر، محنت اورلگن ترقی کے ضامن ہیں۔کسی کو دولت مند بننا کامیاب بناتا ہے،کسی کو شہرت میں کامیابی نظر آتی ہے،لیکن حقیقت جانیں تو ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے کامیابی بس دنیا وآخرت میں نجات ہے۔ہم نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ اور شعبہ سماجی بہبود کے تعاون سے آرٹس آڈیٹوریم میں دنیا فورم کا انعقاد کیا،دعوت دی زندگی کی دوڑ میں خود کو جیت سے ہمکنار کرنے والی دو اہم شخصیات کو،سید شجاعت علی اور ام سلمیٰ،سوال رکھا کہ ’’کیا وسائل کی کمی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتی ہے‘‘،دونوں کا جواب ان کی کہانی کے ذریعے حاصل کیا،آرٹس آڈیٹوریم میں سیکڑوں طلبہ وطالبات کے سامنے دونوں نے اپنی زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھایا،چلتے چلتے گرنے،دوڑتے دوڑتے ٹھوکریں کھانے اور پھر سنبھلنے کے واقعات سنائے،

زندگی کے ان لطیف پہلوئوں پر بھی بات کی جو ہمیں جینے کیلئے توانائی فراہم کرتے ہیں لیکن کیا وہ خوشگوار لمحات ایسے ہی نصیب ہوگئے؟ہر گزنہیں،لوگوں کی خودغرضیاں،بے وفائیاں اور دھوکے دہی کے اسپیڈ بریکرز نے انہیں بھی جگہ جگہ روکا لیکن وہ چلتے رہے اور پھر دنیا کیلئے مثال بن گئے۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوان اس دنیا فورم سے بہت کچھ سیکھیں گے اور زندگی کے کٹھن راستے پر چلنے کیلئے بہت کچھ پالیں گے۔آپ کی رائے کا منتظر رہوںگا۔

مصطفی حبیب صدیقی ،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی

برائے رابطہ اور رتبصرہ:ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

یا فون اور واٹس ایپ:0092-3444473215

 

دنیا: شجاعت حسین کی محنت ،لگن اور کامیابی کی داستان آج کے نوجوانوں کیلئے بہت اہم ہے ،غور سے سنیں اور پڑھیں۔۔

شجاعت حسین : میرا تعارف یہ نہیں میں پاکستان کے بڑے کاروباری افراد میں شمار ہوتا ہوں، میرا اصل تعارف یہ ہے کہ آج سے 40سال پہلے اسی(جامعہ کراچی )آرٹس آڈیٹوریم میں مہمانوں کی جگہ کے بجائے سامنے طلباء میں بیٹھا تھا او ر سوچتا تھاوہ وقت کب آئے گا جب میں بھی مہمانوں کی جگہ بیٹھاہوں گا اور اللہ نے آج وہ دن دکھایا۔کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ کھیل کی بنیاد پرہوا جس میں کوئی فیس نہیں دینی ہوتی تھی ۔یونیورسٹی کے زمانے میں صرف 4 پینٹ اور5,6شرٹیں ہوتی تھیں جو لائٹ ہاؤس سے چھانٹ کر لاتا اسی سے گزارا کرتاتھا اسی طرح تعلیمی سفر طے کیا کیونکہ پیسے نہیں ہوتے تھے۔سارے کام کرتے کرتے چمڑے کے کام کو اپنا پیشہ منتخب کیا،جو بچے گوگل پر سرچنگ کرتے ہیں وہ ہارورڈ یونیورسٹی کا بزنس ریویو سرچ کریں،15دسمبر2017ء میں میری کہانی شائع ہوئی ۔یہ آرٹیکل میری بائیوگرافی ہے۔کراچی یونیورسٹی میں فیکلٹی اور یونیورسٹی کی سطح پر کپتان بنا۔1986ء میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (UGC) پاکستان میں کراچی یونیورسٹی کی طرف سے کپتان بنا،جس پر اسلام آبادمیں کلرایوارڈ بھی دیا گیا۔کراچی کی 5بڑی سرفہرست یونیورسٹیوں میں 200 کے قریب لیکچر دے چکاہوں،لیکن آج کراچی یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس میں لیکچر دیتے ہوئے جو فخر محسوس کررہا ہوں وہ بیان نہیں کرسکتا،میں ایڈیٹر فورم مصطفی حبیب کا شکر گزار ہوں جن کی بدولت اس جگہ کھڑا ہوں جو میراخواب تھا وہ انہوں نے پورا کیا ۔

بڑی یونیورسٹیوں میں لیکچر کے دوران ایک فرق بہت واضح نظر آیا کہ یہ یونیورسٹیاں جتنے پیسے لے کر داخلہ دیتی ہیں،ان بچو ں کے پیچھے ان کے والدین کا سہارا ہوتاہے جبکہ کراچی یونیورسٹی میں میرے اندازے کے مطابق 70 فیصد طلباء مستقبل کے راستے اور کامیابی کے منتظر ہوتے ہیں،ا س کامیابی کیلئے مجھے اپنی کہانی بتانا ضروری ہے تاکہ طلباء حوصلے سے کام شروع کریں ۔ زیب النساء مارکیٹ صدر سے 3 ہزار روپے کا چمڑا خریدا جس سے 3 جیکٹس بنیں،ان جیکٹس کی پاکستان میں اس وقت ڈیمانڈ نہیں تھی سوچا اس جگہ فروخت کی جائے جہاں ڈیمانڈ ہو،صدر میں ایک معروف ہوٹل کے سامنے شاپنگ آرکیڈ تھا وہاں لیدر کی دکان پر گیا کہا جیکٹس بنائی ہیں اس کو خرید لیں وہ مسکرانے لگے کہا یہ نہیں خرید سکتے ہم اپنی جیکٹس خود بناتے ہیں ۔

میں نے دکاندار کے سامنے اداکاری کی ،عجیب سا چہر ہ بنا کے کہا کہ یہ جیکٹس بنائی ہے تاکہ کچھ پیسے مل جائیں گے ، انہوں نے یہ کہہ کر جیکٹیں رکھ لیں کہ کوئی گاہک آئے گا تو فروخت کردیں گے ۔شام کو ان صاحب کا فون آیا جیکٹس فروخت ہوگئی ہیں پیسے لے جاؤ مزید 10 کا آرڈر ہے کب تک دوگے پھر 100 کا آرڈر آیا ، طلباء کو مشورہ دوں گا اپنے کاروبار کو چھوٹی سطح پر حلا ل طریقے سے شروع کریں یہی عمل ان کو آگے لے جائے گا۔آج اللہ کے فضل سے پاکستان کا معرو ف گارمنٹس ایکسپورٹر ہوں،کمپنی سال میں ایک لاکھ جیکٹس تیار کررہی ہے۔فیکٹری میں750 افراد کام کرتے ہیں،یور پ کے 32ممالک میں سے 18 ملکوں میں کاروبار کررہے ہیں۔ہر بڑا برینڈ بنارہے ہیں۔یہ بات درست ہے میرے سامنے کوئی آسان راستہ نہیں تھا ،دنیا کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہوگا کہ کامیابی کے پیچھے راستے آسان ہوتے ہیں اس راستے میں بہت رکاوٹیں آتی ہیں۔

شجاعت علی کا یادگار سفر اور جرمنی میلے میں شرکت

 1995میں پہلی مرتبہ ملک سے باہر جانے کا موقع ملا اس سے پہلے کبھی جہاز میں نہیں بیٹھا تھا یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہا تھا 12:15 بجے میں اس تاریخ کو جہاز میں بیٹھوں گا،اس وقت چمڑے کے کاروبار کا وسیع تجربہ نہ تھا اور نہ ہی ان ممالک کے بارے میں معلومات تھی کہ کیا فیشن چل رہاہے کاروبار کیسے ہوتے ہیں۔اس وقت گوگل بھی نہیں تھا آج تو گوگل سے ساری دنیا کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہے ۔جہاز میں داخل ہوا ایک صاحب نے کہا کھڑکی کے پاس بیٹھنا اوپر سے نیچے دیکھو بڑااچھا لگتاہے،ایئرہوسٹس نے پوچھا کہاں بیٹھیں گے کہا کھڑکی کے پاس ،ساتھ والی سیٹ پر ایک بڑی عمر کے صاحب بیٹھے تھے انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا پہلی مرتبہ میں نے کہا جی ،انہوں نے کہا ٹکٹ کیسے خریدا میں نے کہا ٹریول ایجنسی سے ،انہوں نے کہا اس میں کھانے کے پیسے دیئے تھے اگر نہیں دیئے تھے تو دینے چاہیے تھے جہا ز میں کھانابہت مہنگا ملتاہے،میں نے کہا میں تو کھانا کھاکر آیا ہوں،انہوں نے کہا اتنا بہترین جہاز ہے اور ایئرکنڈیشنڈ بھی نہیں چل رہا تمہیں پسینہ بھی آرہا ہے ایسا کرو شیشہ اتار لو ۔یقین کریں مجھے واقعی پسینہ آرہا تھا اور یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ جہاز کا شیشہ نہیں ہوتا میں شیشے اوپر کرنے کیلئے ہینڈل تلاش کرنے لگا۔ان صاحب نے کہا یہ وہ جہازنہیں ہے جس میں شیشہ اترتا ہے ۔کچھ دیر بعدایئر ہوسٹس کھانا لائی، میں نظرانداز کرتے ہوئے کھڑکی طر ف دیکھتا رہا کہیں پیسے نہ دینے پڑجائیں۔وہ کھانا لے کر واپس چلی گئی ۔برابر میں ان صاحب کو دیکھا اچھا کھانا تھا وہ مجھ سے کہنے لگے آ پ میرے ساتھ کھا لیں میں نے کہا میں ناشتہ کرکے آیاہوں آپ کھائیں یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ تھا ان صاحب نے مجھے ماموں بنایا ۔پھران صاحب نے ایئر ہوسٹس کو بلاکرکہا ا ن کو کھانا دیں میں نے ان سے مذاق کیا تھا۔ جرمنی فیئر میں پہنچا ، ایک شخص بھی میری جیکٹ دیکھنے نہیں آیا،جرمنی کی زمین کاٹ رہی تھی کہ کسی بھی طرح واپس چلا جاؤں ،مجھے شعر یا د آیا۔

 تم دور کھڑے دیکھا ہی کیئے ۔اور ڈوبنے والا ڈوب گیا

تم ساحل کو منزل سمجھے تم لذت دریا کیا جانو

یہی سبق ہمارے پیارے نبی ﷺ دیتے ہیں ،یہی سبق والدین دیتے ہیں ،میں نے فیصلہ کیا فیئر کا آخر ی دن ہے پھر کوشش کرتے ہیں ، میں ایک بڑے اسٹال کے پاس گیا اور دیکھتا رہا ا س کا مالک کون ہے تھوڑی دیربعد اسٹال سے خاتون نکلی مجھے اندازہ ہوا یہی اس کی مالک ہے،اس سے کہا اگر آپ کے پاس وقت ہے تو میرے اسٹال پر ایک دورہ کر لیں اس نے کہا میرے پاس وقت نہیں ،میں نے پھر چہرے پر مایوسی کے آثار نمایاں کیئے اس نے کہا اچھا میں 6بجے تمہارے اسٹال پرآؤں گی ۔وہ 6 بجے آئی او رکہا تم مجھ سے کیا چاہتے ہو میں نے کہا مجھے 4 دن ہوگئے ہیں اسٹال پر ایک شخص بھی نہیں آیا ہے میں بہت پریشان ہوں سمجھ نہیں آرہاکیا کروں ا س نے کہا ان اسٹالز کو دیکھو سمجھو پھر دوبارہ آنا ، جاتے ہوئے کہا واپس کب جاؤ گے میں نے کہا دودن بعد اس نے کہا میرے آفس آؤ میں اگلے ہی دن آفس پہنچ گیا، خاتون نے مجھے وہاں 18ماہ کافیشن ڈیزائن کا کورس کرایا ، پاکستان میں پہلا لیدر گامنٹس میں سرٹیفائڈ فیشن ڈیزائنر ہوں ،اپنی جیکٹس خود ڈیزائن کرتا ہوں ۔2010ء میں امریکا سے کسی کا فون آیاکہ آپ کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ انٹرویو سے اندازہ لگاتے ہیں دنیا میں ہر سال وہ کون سے 300 افراد ہیں جنہوں اپنی زندگی میں بہت جدو جہد کی ۔میرا انٹرویو ہوا ور دسمبر 2010 ء میں بیسٹ بزنس مین ان دی ورلڈ کے اعزاز سے نوازہ گیا۔

واشنگٹن گیا جہاں ایوارڈ ملا۔زارا کے نام سے کون واقف نہیں ہوگا , 20سال سے زارا پاکستان میں لوگوں کے ساتھ کام کررہا ہے ۔ ہمارے ساتھ 7سال سے کام کررہاہے، فیکٹری میں زارا کا پورا گروپ آرہا ہے۔زارا کے دنیا میں 22ہزار اسٹورز ہیں اس کا مالک درزی کا کام کرتا تھا جو 2017ء میں دنیا کا امیر ترین آدمی تھا۔یورپ میں فیکٹریوں میں 60فیصد خواتین کام کرتی ہیں، آج فورم میں زیادہ تر طالبات ہیں انہیں پیغام دینا چاہوں گا کہ ای شاپ پر حجاب کا کاروبار شروع کریں اس کی دنیا میں بہت ڈیمانڈ ہے ۔ چین بدھ مذہب ہے اس کے باوجود حجاب پر سالانہ 36بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتاہے۔آج لوگ کپڑوں کی میچنگ کے ماسک استعمال کرتے ہیں جو فیشن بنتا جارہا ہے، حجاب کے برانڈز بن گئے ہیں ،غوروفکر کریں کون سے کام ہیں جو اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرسکتے ہیں او ر جس کی دنیا بھر میں ڈیمانڈ بھی ہو۔ دنیابھر میں مسلمان اپنے بچوں کو قرآن شریف پڑھا نا چاہتے ہیں، قرآن پاک پڑھانے کیلئے ویب سائٹس آگئی ہیں جو قرآن پڑھاتے اور فیس لیتے ہیں،آ پ لوگ کاروبار کریں ،یونیورسٹی میں 6 سال پڑھا ہوں طالب علموں کی مدد کیلئے تیار ہوں۔ فیکٹری میں بورڈ بنا یا ہے جو آپ کو آگے جانے کیلئے رہنمائی کریگا۔پاکستان میں اسٹیٹ آف دی آرٹ فیکٹری بنائی ہے ،آپ لو گ آئیں اورسیکھیں میں صرف بتاکر چلا جاؤں گا ہمت آپ نے کرنی ہے آپ کواپنا راستہ خود بنانا ے۔فرانس میں مسلمان خواتین بہت کام کررہی ہیں۔کامیابی کیلئے وہ راستے بتاؤں گاجن سے گزر کر آیا تاکہ میرے جیسے کئی نوجوان جو اچھے مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں ان کی رہنمائی ہوسکے۔

بطور ماہر معاشیات کچھ بتانا چاہتا ہوں اس وقت ٹیکسٹائل پہلے ، چمڑا دوسرا اور چاول کا کاروبار تیسرے نمبر پر ہے، اس زمانے میں مجھے چمڑے کی جیکٹ کا بہت شوق تھا اس لیے ،لیدرکا کام شروع کیااور2019 میں پاکستان لیدر گارمنٹس انڈسٹری کا چیئرمین بنا۔ والد ہ کی دعاؤں اور زندگی میں جدوجہد سے اللہ نے بہت نعمتو ں سے نوازا۔ 3 بیٹیاں ہیں جن کی شادی ہوچکی ۔ ایک نے آئی بی اے دوسری نے سی بی ایم سے گریجویٹ کیا ہے جو فورسز میں پڑھا رہی ہے،تیسری سب سے چھوٹی ہے جو آسٹریلیا میں عالمہ کا کورس کررہی ہے اوردرس دیتی ہے۔بیٹے نے ترکی سے ماسٹر کیا اورپورے ترکی میں اعلیٰ پوزیشن لی ۔چھوٹا بیٹا بھی ترکی میں پڑھ رہا ہے۔ 48ممالک میں گیا ہوں وہاں مسلمانوںکی ایک تعداد ہے، مسلمان پوری دنیا میں ہیں،فرانس میں ریسرچ سامنے آئی ہے کہ 6سال بعد مسلمان زیادہ اور کرسچن کمیونٹی کے لوگ کم ہوجائیں گے۔ہمیں محنت سے آگے جانا ہے ۔اپنی کمپنی بنانا ہے،آپ لوگ جدوجہد کرنے وا لوں میں شامل کیوں نہیں ہوتے؟،دبئی سے ایک خاتون آئی جو مسلمان تھی ایسی پروڈکٹ بنائی او ر اپنے برانڈ کو بڑھایا کوئی مجھے اس برانڈکا نام بتا سکتاہے ،ایک طالبہ نے عبایہ او ر ایک نے حجاب بتایا ،انہوں نے کہا حجاب درست میں دونوں طالبات کو میری طر ف سے زارا کی جیکٹ دیتاہوں۔ 1982 میں جامعہ کراچی کے شعبہ اکنامکس میں داخلہ ہوا۔

یہی میرا اصل تعارف ہے۔یہی چیز پوری دنیا میں لے کر جاتاہے مجھ سے کوئی پوچھتا ہے آپ نے بات کرنے کا سلیقہ ،تہذیب اوراتنا اچھا کاروبار کیسے منظم کیا جواب دیتاہوں کراچی یونیورسٹی میں گزرے سال سے بہت کچھ سکھایا ہے ۔ 1988ء میں کراچی یونیورسٹی سے فارغ اتحصیل ہوا اس وقت کوئی ملازمت نہیں تھی ،تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اپنے گھر کو سنبھالنا ہوتاہے ،والدین جو پڑھا کر یہاں تک پہنچاتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے ان کو پورا کرنا ہوتاہے جو میر ے بس میں نہیں تھا،مستقبل کیلئے راستہ نظر نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟۔میں نے زندگی میں کیا کیا کام کیئے اس فورم پر بتاتے ہوئے کوئی شرمندگی نہیں ۔زندگی کا سب سے پہلا سچ 17سال کی عمر میں جمعہ بازار میں 35 روپے میں تختے کا اسٹال لے کر بچوں کی فراکیں بیچا کرتا تھا، ساتھ میں فوٹو گرافی بھی کرتا تھا،والد عبداللہ ہارون روڈ پر کتابیں فروخت کرتے تھے ،والدہ ٹیچر تھیں ۔آج اللہ کے فضل سے چمڑے کی صنعت کا سب سے بڑا یکسپورٹر ہوں۔

آخر میں ان اشعار پر گفتگو ختم کروں گایہ اشعار مجھے یونیورسٹی میں فارغ ہوتے ہوئے میرے نام کیئے گئے تھے ۔

’’ڈوب کا بحر حوارس میں نکھرتی ہے حیات ،ہم تو طوفان کے طلب گار ہیں ساحل کے نہیں‘‘

’’ہم وہ دیپک ہیں جو آندھی میں جلا کرتے ہیں ،ہم وہ غنچے ہیں جو کانٹوں میں کھلا کرتے ہیں‘‘

’’آج ہرموڑپر لکھیں گے کہانی اپنی ،اپنی ترقی میں سمودیں گے جوانی اپنی ‘‘

 ام سلمیٰ منصور :آرمی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔یہ سفر کیسے شروع ہوا کبھی اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا میڈیکل کے شعبے سے اٹھ کر تعمیرات کے شعبے میں آجاؤں گی۔شوہر بلڈر تھے جنہیں 1997 میں قتل کردیا گیاتھااس وقت 28 سال عمر تھی ، ان کے بعد 6 بچوں او رگھر کی ساری ذمہ داری سنبھالی ۔کئی پروجیکٹ اور ہاؤسنگ اسکیمیں بنائیں ،اب تک 2ہزار گھر بنا چکی ہوں،خواہش تھی ڈاکٹر بنوں لیکن نہ بن سکی ۔اسپتال بنا کر پورا کررہی ہوں،شوہر کے بعد بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اللہ کے فضل سے وہ آج اعلیٰ عہدوں پر ہیں۔لوگوں نے بچے چھیننے کی کوشش کی،دولت ہتھیانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن ہمت نہیں ہاری اور فیصلہ کیا بچے خود پالوں گی اور ہر وہ سہولت دوں گی جو ایک باپ دیتاہے،یہ سفر بہت مشکل تھا اتنا مشکل کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہاں کہاں رکاوٹیں آئیں گی،

شوہر نے بہت کچھ چھوڑا کئی پلاٹس تھے،نہ صرف شوہر کے پراجیکٹس مکمل کئے بلکہ اپنے نئے پراجیکٹس بھی شروع کئے۔ایک عورت کیلئے سب سے زیادہ مشکل اس کی اپنی فیملی ہوتی ہے۔میرا کوئی بھائی اور بہن نہیں تھی (یہ باتیں بتاتے ام سلمیٰ کی آنکھیں نم ہوگئیں جس سے ہال میں موجود لوگ بھی افسردہ ہوگئے) ۔انہوں نے کہا کہ والد کا انتقال ہوچکا تھا ،میں نے اس مردانہ دنیا کے ساتھ بہت جدوجہد کی ، لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور خود پر بھروسہ ہونا چاہیے تاکہ مشکلات کا سامنا کرسکیں۔اس وقت کمپنی کی چیئرپرسن ہوں ۔آرکیٹیکچر فر م ہے،ا سکے ساتھ کہیں مجھ میں ایک ڈاکٹر بھی چھپا ہوا ہے جس کی وجہ سے 500 بستروں پر مشتمل کینسر اسپتال بنا رہی ہوں،روتے ہوئے کہا یہی میری کہانی ہے اس سے زیادہ اورکچھ نہیں بتا سکوں گی ۔

پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس : وسائل کی کمی نہیں یہ میرا اور آپ کا نظریہ ہے۔اساتذہ بہت یاد آتے ہیں جنہوں نے بہت کچھ سکھایا،ہوگا وہی جو اللہ نے نصیب میں لکھا ہے۔بااد ب با نصیب، بے ادب بے نصیب ۔دنیا کا سارافلسفہ بدل گیا ہے لیکن یہ جملہ نہیں بدلا ۔اپنے اندر شکر گزار ی پیدا کریں خود ہی وسائل جمع ہو جائیں گے۔جب میں کسی فور م میں طلبا ء سے بات کرتی ہوں ایسالگتا ہے میں ان سے کچھ سیکھ رہی ہوں اور بہت سے راستے لے کر اٹھتی ہوں ،ان اساتذہ کوسلام پیش کرتی ہوں جو کورونا صورت حال میں سارے کاموں کیساتھ طلباء کو علم کے راستے دکھاتے ہوئے سمت پر گامزن کررہے ہیں۔طلباء یہ نہ کہیں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتے ،یہ صرف ہماری سوچیں ہیں۔ا پنے ماتحت لوگوں اور غریبوں کیلئے نرم رویہ رکھیں ،اسلام مکمل ضابطہ اخلا ق ہے اس نے انسان کو اکیلا نہیں چھوڑا ۔ استاد اس وقت زیادہ خوش ہوتا ہے جب اپنے شاگرد کو اونچے منصب پر دیکھتاہے۔

 ڈاکٹر سہیل شفیق : دنیا میں ناکامیاں اور کامیابیاں ساتھ ساتھ ہیں، کامیابی پر خوشی کا اظہار تو ہرشخص کرلیتا ہے، جب انسان مشکلا ت کا شکار ہوتا ہے اس کے سامنے مثبت اورمنفی رویہ ہوتا جسے و ہ اختیار کرتاہے۔ تاریخ میں ایسے افراد کم ہی نظرآتے ہیں جو ناکامی کی صورت میں مایوسی کی بجائے ایک نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھے۔منفی رویئے اختیار کرنے والے افراد خوف ،جرم ،احساس کمتری حتیٰ کہ خود کشی کے انتہائی اقدام تک پہنچ جاتے ہیں،انگریزی زبا ن کی مشہور لغت ’’ویسٹرن ڈکشنری ‘‘کے مصنف ڈینئل ویسٹر ک کے متعلق کہا جاتا ہے وہ کلاس کا انتہائی نالائق طالب علم تھا جب اسے پڑھنے کیلئے ہمپشائر بھیجا گیا تو مایوس ہوکر لوٹ آیا اور رونے لگا،ایک پڑوسی نے کہا تم کیوں رو رہے ہو اس نے کہا میں کلاس کا سب سے نالائق بچہ ہوں مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آتی،اب میں دوبارہ اسکول نہیں جاؤں گا،پڑوسی نے کہا دوبارہ اسکول جاؤ او ریہ یقین رکھو تم کلاس میں سب سے زیادہ ذہین بچے سے بھی زیادہ ذہین ہو۔اس کیلئے کلاس میں ذہین بچے سے زیادہ تم کو محنت کرنی ہوگی،ڈینئل اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اسکول ایک نئے جذبے کے ساتھ گیا او رعمل شروع کردیا او رآج کروڑوں افراد اس کی ڈکشنری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہمیں تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جہاں انسان نیچے سے اوپرگیا ہے۔

ابھی جو آیات تلاو ت کی گئی اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور آسانی کے ساتھ مشکل ہے۔کوئی بھی تبدیلی مشکل حالات کے بعد ہی آتی ہے،ہمیں خودکو مشکل حالات کیلئے تیار رکھناہوگا، فارسی کے شاعر نے کیا خوب کہاتھا’’دریں چمن کہ بہارو خزاں ہم آغوش است ۔زمانہ جاں بست و جنازہ بدوشت است‘‘ ۔چمن میں بہار اور خزاں ایک ساتھ ہوتی ہیں، زمانے کے ایک ہاتھ میں خوشیوں کا جام اور کاندھے پر جنازہ ہوتاہے۔یہ دونوں چیزیں خوشیاں اور غم ساتھ ہیں۔ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے نتیجہ میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔کامیابی کی اصل قیمت ناکامی کا اعتراف کرنا ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جو سفر ہم طے کررہے ہوتے ہیں اس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نہیں نکلتا لیکن اس ناکامی میں جو تجربہ حاصل ہورہا ہوتاہے دراصل یہی کامیابی ہے۔کامیابی ان ہی کو ملتی ہے جو مستقل مزاجی اور صبر سے کال لیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ’’وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فرزاں ‘‘۔امتحانات سے گزر کر منزل تک پہنچنا ،قربانیاں دینا اور زندگی کا استحقاق ثابت کرنا ہر زندہ دل اور باشعور قوم کیلئے ایسی شرط ہے جس کے بغیر دنیا میں کوئی ممتاز اعزاز حاصل نہیں کرسکتا۔

 اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سکینہ ریاض :مشکلات سے لڑکر ہی منزل پائی جاتی ہے،نوجوان حالات کا دھارا اپنی طرف موڑنے کیلئے کمرکس لیں۔ ’’ تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے وقت اور حالات سب کیلئے الگ الگ رکھے ہیں۔چیئر پرسن شعبہ سماجی بہود نصرت ادریس کی بے حد مشکور ہوں جنہوں مصروفیت کے باوجو د فورم میں شرکت کی۔شعبہ اسلامی تاریخ اور شعبہ سماجی بہبود کی جانب سے تمام شرکاء اور طلبا ء کا بھی شکریہ اداکرتی ہوں جنہوں فورم کو کامیاب بنا نے میں تعاون کیا۔یونیورسٹی وہ درسگاہ جو طلبا ء کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے پہلی سیڑھی ہوتی ہے،جو عملی زندگی میں قدم رکھنے کیلئے سود مند ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے ،زندگی پھولوں کی سیج نہیں نہ ہی پلیٹ میں رکھ کر ملتی ہے،اس سفر میں بہت مشکلات اور پریشانیاں ہوتی ہیں ،کچھ پانے کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں،پھلدار درخت ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا ہے،یقینا کامیابی رستہ دیکھ رہی ہوتی ہے ہم سر نگوں ہونا سیکھیں ۔

ڈاکٹر ثمینہ رؤف:کامیابی کی اصل کنجی تمام توجہ مقاصد پر مرکوز رکھنے پر ملتی ہے،،طلباء کیلئے سب سے اہم مقصد زندگی کا فلسفہ حیات ہوتا ہے،زندگی کے اصل مقصد کو پہنچانا ہی کامیابی کی سیڑھی ہوتی ہے،کوئی بھی رکاوٹ آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی ۔

لیکچرر نعمان شیخ :اگر ہم یہی سوچ لیتے ہیں کہ وسائل کی کمی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو آج پاکستان نہ بنتا،ڈاکٹر قدید خان ہمیں ایٹمی پاور ملک نہ بناتے،عبدالستا ر ایدھی جیسا ادارہ ہمارے درمیان نہ ہوتا،ڈاکٹر ادیب رضوی ایس آئی یوٹی جیسا ادارہ نہ بناتے ۔ڈاکٹر عبدالباری آج پاکستان کا پہلا پیپر لیس او رکیش کاؤنٹر کے بغیر چلنے والا اتنا بڑا سپتال نہ بنا تے۔

دنیا فورم کے دوران طلباء نے ملی نغمے پیش کیا

دنیافورم کے دوران فرحان ،صائمہ اور اسامہ نے ملی نغمے ’’خوشبو بن کر مہک رہا ہے میرا پاکستان ۔۔سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد۔۔

 ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔۔میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے سنایا جس پر آڈیٹوریم میں موجود شرکا ء اور طلباء نے تالیاں بجاکر ان کی حوصلہ افزاء کی ۔فورم میں شجاعت علی نے تلاوت قرآن پاک سنانے، نغمے سنانے ،جن طالبات نے صحیح جوابات دیئے او ر آنکھوں سے محروم طالب علم حافظ ذوالفقار علی سمیت ایسے 3طلباء کو لیدر کی جیکٹس دینے کا اعلان کیا جو اس دنیا فورم کے حوالے سے بہترین آرٹیککل لکھیں گے۔ بینائی سے محروم طالب علم حاٖ فظ ذوالفقار نے سوال کیا کہ نابینا افراد کیسے زندگی میں ترقی کرسکتے ہیں۔سید شجاعت علی نے کہا کہ آپ کے پاس لکھنے بولنے اور سننے کی صلاحیت ہے اور مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے نظم بھی کہی ہے ،انہوں نے اسی وقت ذوالفقار کی نظم اپنی کمپنی کیلئے خریدنے کا اعلان کیا جبکہ ذوالفقار کو مزید ہر ممکن سہولت دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔فورم میں شعبہ اسلامی تاریخ کی ڈین ڈاکٹر نصرت ادریس نے شجاعت حسین سے درخواست کی وہ شعبہ اسلامی تاریخ کے طلبا ء کیلئے گولڈ میڈل کااعلان کریں تو ان کا نام بھی جامعہ کراچی کے ساتھ جڑ جائے گا او ر بچوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی ۔شجاعت حسین نے کہا فورم کو گواہ بناتے ہوئے کہہ رہا ہوں شعبہ اسلامی تاریخ اور شعبہ سماجی بہبود دونوں کیلئے طلباء میں دو،دو گولڈ میڈل ایوارڈ کرتاہوں۔

 

دنیا فورم میں سوال وجواب کا سیشن

 طالب علم عابد انصاری : بہت کام کرتے ہیں لیکن ترقی نہیں کر پاتے کیا وجوہات ہیں۔

شجاعت حسین : کوئی کام ایسا نہیں جس میں ناکامی نا ہو،خواب بڑے دیکھو پورا کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے اور یہ امتحان کئی مرتبہ آئے۔ایک مرتبہ میری پوری فیکٹری جل گئی تھی جوبہت بڑا نقصان تھا،لیکن مایوس نہیں ہوا ،اللہ سے دعا کرتا رہا اور کوشش کرتارہاآج اس سے زیادہ اچھی حالت میں ہوں جس دن مایوسی نے جگہ لی اسی دن کامیابی کا سفر رک جائے گا۔آپ میں جد ت نہیں ہے نئی چیزیں بناؤ۔

 ارم(طالبہ بین الاقوامی تعلقات) ہمارے معاشرے میں خواتین کی کیا اہمیت ہے؟۔

شجاعت حسین : حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اسلامی دنیا کی سب سے پہلی کاروباری خاتون تھیں جن سے ہمارے نبی ﷺ نے شادی کی ،عورت کا یہ مقام ہے۔معاشرے میں تنقید کرنے والے بہت ہیں ان کی طرف توجہ نہ دیں جو کرنا ہے کرتی چلی جائیں آہستہ آہستہ مقام پالیں گی۔اللہ نے سب کو قابلیت دی ہے فرق صرف اتنا ہے ہمیں اپنے ٹیلنٹ کو پہنچاننا ہے۔

طالبہ ہمانور (شعبہ اسلامی تاریخ ) میرا سوال سلمیٰ منصور سے ہے کیا چیزیں اپنائیں جن سے معاشرے میں لڑنے سے کامیاب ہوئیں ۔

سلمیٰ منصور: خود اعتمادی ہونی چاہیے اور مقصد سامنے ہوناچاہیے اس کو مد نظر رکھیں گی تو کامیابی مل جاتی ہے میرے سامنے 6 بچے تھے جن کا مستقبل سامنے تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد کی ۔

 طالبہ ارم: برانڈ لانے کیلئے کوئی کورس کیا جاتاہے ؟۔

شجاعت حسین ــ دو بھا ئی اپنی بیویوں ثنا ء اور سفینہ کے نام سے برانڈ لائے۔برانڈ اپنے گھر سے شروع کریں یہ دماغ میں ہوتاہے، اس کے پیچھے ایک پہچان ہوتی ہے۔جیسے آج کل چہرے کے ماسک بن رہے ہیں اس پر کام کریں خود ہی برانڈ بن جائیگا۔

طالبہ علیمہ طارق: ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں سوالات بہت اٹھتے ہیں کیا کریں؟

شجاعت حسین : ان چیزوں کو سوار کریں گی تو کامیابی کا سفر رکے گا نظرانداز کریں گی تو کامیاب ہوں گی۔صرف اپنے کام پر توجہ دیں اور محنت سے کرتی جائیں بہت جلد معاشرے میں اپنا مقام بنالیں گی۔سب سے پہلی درسگا ہ آپ کے والدین ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔

 طالب علم اخترحسین (شعبہ اسلامی تاریخ ) پاکستان اپنی صلاحیت پر ترقی کیوں نہیں کرسکتا؟۔

شجاعت حسین : ایسانہیں ہے ،اللہ کے فضل سے جتنا ٹیلنٹ پاکستان کے پاس ہے شاید ہی کہیں اور ہو، کمی ہم اور آپ میں ہیں،اگروسائل کی کمی کا سوچتے رہیں گے توکبھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔اللہ نے پاکستان کو ہرچیزسے نوازہ ہے ہم بس محنت اور تلاش کرنیوالے بن جائیں۔فرق صرف اتنا ہے ہمارے پاس وسائل کو استعمال کرنے کیلئے ٹیکنالو جی نہیں ہے جس کی وجہ سے ترقی نہیں کرپاتے۔

طالبہ صائمہ: میرا سوال شجاعت حسین سے ہے کاروبار کیسے شروع کیا۔؟

شجاعت حسین : 3 ہزار روپے سے کاروبار شروع کیا آج تک بینک سے پیسہ نہیں لیا۔ہالینڈ میں بھی رہا وہاں گھا س کاٹی اور باتھ روم بھی صاف کیئے محنت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔آج آپ کے سامنے ہوں۔

طالبہ مریم: یورپ میں60فیصد خواتین کام کرتی ہیں اگر پاکستان میں بھی کام کریں گی تو مردوں کو بے روزگاری کا سامنا ہوگا کیا یہ سچ ہے؟ شجاعت حسین : میں اس بات کی سختی سے مذمت کرتاہوں،ایسا نہیں ہے میر ی فیکٹری میں خواتین بھی کام کرتی ہیں اور جو معیاری کام وہ کرتی ہیں وہ مرد نہیں کرتے،دنیا میں سب سے زیادہ کاروبار فٹ بال کا ہوتا ہے جو الٹا کرکے بنایا جاتا ا س کیلئے پتلی انگلیوں کی ضرورت ہوتی ہے،خواتین یہ کام بہتر انداز میں کرتی ہیں۔

فورم کے دوران شجاعت حسین نے دونوں شعبو کے چیئرمین ڈاکٹر سہیل شفیق اور نصرت ادریس سے درخواست کہ جو بچے فورم میں شریک ہیں ان کو Grace Marks دیئے جائیں تاکہ ان کی دل چسپی برقرار رہے، آئی بی اے میں ایسا ہوتاہے۔ 

آخرمیں ان نغموں پر’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار ۔۔جستجو جوکرے وہ چھوئے آسمان ۔محنت اپنی ہوگی پہچان کبھی نہ بھولو سناکر فورم کا اختتام ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔