جیل میں قید مائیں بہنیں بیٹیاں۔۔ معاشرتی رویوں سے نالاں

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء: شیبا شاہ ،ڈی آئی جی ویمن جیل کراچی ۔ڈاکٹر مسرور شیخ ، چیئرمین سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اقبال النساء، مرکزی نائب صدر ویمن ایڈ ٹرسٹ۔خیرالنساء ایگزیکٹو ممبر ویمن ایڈ ٹرسٹ اور ویمن جیل کی انچارج منجانب ویمن ایڈ ٹرسٹ۔زینب کوآرڈی نیٹر ویمن ایڈ ٹرسٹ۔ڈاکٹر حمیرا رسول ،میڈیکل آفیسر ویمن جیل خواتین قیدیوں کی بڑی تعداد شریک

باپ بھائی شوہر کوئی ساتھ نہیں دیتا،ہم تو سزا کاٹ چکیں پھر یہ سلوک کیو ں ہے؟ :   قیدی خواتین

جیل میں خواتین باہر سے زیادہ محفوظ ہیں:    ڈی آئی جی ویمن جیل

قیدی خواتین معاشرے کو بتائیں کہ تمہیں ہماری ضرورت ہے:   چیئرمین ایس بی ٹی ای

آئی جی سندھ کمپیوٹر کورسز پر خواتین کی سز ا میں کمی کریں:   مرکزی نائب صدر ویمن ایڈ ٹرسٹ

 

موضوع: ’’جیل میں خواتین قیدیوں کی اصلاح ،انقلابی اقدامات‘‘

 

جیل،قید خانہ،سلاخیں۔۔۔ایک ایسی دنیا جو بالکل الگ ہے،جہاں پہنچنے پر اپنے پرائے اور پرائے اپنے ہوجاتے ہیں،لیکن نہایت کربناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہاں سے رہائی کا پروانہ ملنے کے بعد بھی اپنے پرائے ہی رہتے ہیں،معاشرہ مجرم ہی کہتا ہے،سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا،جن گناہوں کو اللہ کے ہاں معافی مل جاتی ہے انہیں معاشرہ معاف نہیں کرتا،وہی معاشرہ جو خود نہایت گندہ اور غلیظ ہوچکا ہے لیکن اللہ نے پردہ رکھا ہے مگر وہی معاشرہ سمجھتا ہے وہ بڑا پارسا ہے۔ویمن ایڈ ٹرسٹ کی مس زینب نے ڈی آئی جی شیبا شاہ سے ملاقات کرائی،انہیں اپنے فورم کا مقصد بتایا تو وہ بہت خوش ہوئیں کہ میڈیا میں ابھی سنجیدگی باقی ہے۔آئی جی جیل خانہ جات قاضی نذیر احمد نے فوری درخواست قبول کی ۔

خواتین جیل کے بارے میں باہر کی دنیا میں نہایت بیہودہ اور غلیظ کہانیاں مشہور ہیں،مجھے ایسا لگتا ہے کہ بعض اوقات انسانی خواہشات سے بھی یہ کہانیاں جنم لیتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔وہ خواتین اور کم عمر بچیاں جو جیل میں اپنی عمر کی اہم ساعتیں گزارکر کسی نہ کسی طرح رہاہوجاتی ہیں معاشرہ انہیں جینے نہیں دیتا۔بھیڑیئے نما لوگ حوس کی نگاہ ڈالتے ہیں،یہی شکوہ تھا جیل میں قید خواتین کا ۔

انہیں میڈیا سے بھی شکایت تھی کہ میڈیا ان کی حقیقی تصویر پیش نہیں کرتا۔ معاشرے کی تربیت کی ضرورت ہے،آئمہ مساجد ،میڈیا ،تعلیمی ادارے معاشرے کی تربیت کیلئے اگر سنجیدہ کوششیں نہیں کرینگے تو پھر تباہی اب زیادہ دور نہیں۔ قیدی خواتین نے ڈی آئی جی ویمن جیل شیباشاہ کی تعریف کی جن کی کوششوں سے جیل قیدخانہ نہیں بلکہ اصلاح خانہ بن چکی ہے۔امید ہے کہ اس دنیا فورم سے بھی معاشرے کی بہتری کیلئے کچھ کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔اللہ قبول کرے۔آپ کی تجاویز کا منتظر رہوں گا۔

مصطفیٰ حبیب صدیقی (ایڈیٹرفورم روزنامہ دنیا کراچی )

برائے رابطہ:  0092-3444473215  واٹس ایپ 

اور فون،   0092-3212699629

ای میل:   mustafa.habib@dunya.com.pk

 دنیا: جیل میں خواتین کیلئے کیا سہولتیں ہیں؟

 ڈی آئی جی شیبا شاہ :دنیافورم کی ٹیم کا شکریہ جنہوں نے خواتین جیل کے بارے میں معاشرے میں منفی تاثر ختم کرنے کیلئے فورم کا انعقاد کیا۔عام طورپر باہر لوگوں کا خیال ہوتاہے کہ جیل میں خواتین کال کوٹھری میں وقت گزارتی ہوں گی ۔کوئی مثبت سرگرمیاں نہیں ہو تیں ہونگی ،ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی یہ کہنا غلط ہے،سندھ کی تمام28جیلوں میں سندھ حکومت خاص طور پر آئی جی سندھ کی طرف سے ہدایت ہے کہ قیدی مثبت سرگرمیوں میں اپنا وقت گزاریں ۔ جیل میں قیدی خواتین کی اصلاح کا بہترین نظام ہے، ویمن جیل کراچی میں مختلف اداروں کے تعاون سے 10اسکلز ڈیولپمنٹ پروگر امز ہورہے ہیں۔جو بچے اپنی والدہ کیساتھ ہیں جن کاجرم صرف یہ ہے وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہیں ان بچوں کیلئے جیل میں بہت اچھا مونٹیسوری اسکول ہے جس کا معیار باہر کے پرائیویٹ اسکول سے کم نہیں اور دیگر کھیلوں کیلئے تفریح سامان بھی ہے خواتین کیلئے آرٹس کی کلاسیں بھی ہوتی ہیں۔جم ہے ،آگہی سیشن بھی ہوتے ہیں،قرآن شریف کی کلاسیں ہوتی ہیں،ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تحت جیل میں کمپیوٹر لٹریسی کے پروگرام کے ساتھ ہر جمعرات کو درس دیا جاتاہے ۔پورا رمضان بہت اچھے طریقے سے گزارا جاتاہے۔

جیل میں موقع کی مناسبت سے پروگرام منعقد کیئے جاتے ہیں،ربیع الاول کا مہینہ چل رہاہے اس بابرکت مہینے میں سیرت النبی ﷺ پر جلسے منعقد کرائے گئے۔ طبی کیمپ بھی لگاتے ہیں جس میں علاج کیساتھ ویکسی نیشن بھی ہوتی ہے۔کورونا صورت حال میں خواتین جیل میں اللہ کے فضل سے آج تک کسی بھی خاتون کو کورونا نہیں ہوا۔جس کی بنیادی وجہ یہاں تما م خواتین کا ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا ہے۔کئی خواتین اپنے ہاتھوں سے چیزیں بناتی ہیں جو باہر فروخت کرکے انہیں پیسے دیتے ہیں جو اپنے بچوں کو بھی بھجواتی ہیں۔خواتین جیلوں میں اپنے گھروں سے زیادہ محفوظ ہیں۔

دنیا: جیلوں میں ووکیشنل ٹریننگ کرنے والی قیدی خواتین کی سزا میں کمی ہوتی ہے؟ 

 چیئرمین ایس بی ٹی ای ڈاکٹرمسرور احمد شیخ :دنیا میں ہنر کی بڑی قدر ہے،اگر کچھ سیکھ لیں گی تو معاشرے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، ہر کوئی ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا لیکن ہنر ہوتو ان سے زیادہ بھی کما سکتاہے۔دنیا میں ہنر کی عزت ہے،اس وقت جیل میں چائلڈ ہوم اورون ٹو تھری کا پروگرام ہے جس میں چھوٹے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین باہر جا کر ٹیچر بن سکتی ہیں۔ٹیکنیکل ووکیشنل ٹریننگ ایجوکیشن پر پاکستان میں تبدیلی آرہی ہے ۔ نیشنل ووکیشنل کوالیفکیشن فریم ورک بن چکا، لیول1سے لیول 8 تک کورس کرسکتی ہیں، رہائی کے بعداسی بنیاد پر مزید تعلیم لے سکتی ہیں۔کوئی خاتون جیل میں کام سیکھتی ہے تو رہائی کے بعدامتحان دے کر سرٹیفکیٹ لے سکتی ہے۔ جیل میں پیداواری یونٹ بن جائے تو ا س سے کمایا بھی جاسکتاہے جو ادارے جیل میں خواتین کی فلاح بہبود کیلئے کام کررہیں وہ اس کام کی ترویج کرسکتے ہیں اس سے قیدی خواتین کو فائدہ ہوگا۔میٹرک کا امتحان دلواکر ٹیکنیکل کورسز کرایا جائے تو خواتین کیلئے بہت سود مند ہوگا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیاکہ میٹرک یا انٹر کرنے پر قیدیوں کی سزا میں کمی ہوتی ہے لیکن ووکیشنل تعلیم کی بنیاد پر کوئی کمی نہیں ہوتی۔خواہش ہے جیل میں سیکھنے کے بعد سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں تو اس کی بنیاد پر سہولت ملنی چاہیے ۔ اس کام کیلئے رعایت دینی پڑی تو تیار ہوں۔

ڈی آئی جی شیبا شاہ :خواتین جیل میں وکیشنل ٹریننگ کے حوالے سے قانون موجودہے،جو خواتین ووکیشنل ٹریننگ اور فائن آرٹس میں کام کررہی ہیں ان کو لیبر چارجز مل جاتے ہیں جس سے قید ی خواتین روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرلیتی ہیں ۔کچھ ایسی بھی ہیں جو جیل سے وکلاء کی فیس اور باہر بچوں کی بھی مدد کرتی ہیں۔ جیل میں فائن آرٹس کی نمائش بھی لگتی ہیں جس میں قیدی خواتین کی پینٹنگز فروخت ہوتی ہیں اور اچھے پیسے مل جاتے ہیں ۔

دنیا: جیل میں آپ کا ادارہ درس و قرآن کے علاوہ اور کیا کررہاہے؟

 اقبال النساء مرکزی نائب صدر ویمن ایڈ ٹرسٹ : کراچی سینٹر ل خواتین جیل میں 1996ء سے خواتین کی قانونی مدد اور دیگر سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔جیل میں قرآن کا ہفتہ وار درس ، کڑھائی سلائی ،ہنڈی کرافٹ میں پھول بنانا اور دیگر کام شروع کیے۔ آئی جی سندھ کی منظوری سے 12 سال سے شعبہ آئی ٹی میں کمپیوٹر کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔کئی قیدی خواتین کی کمپیوٹر سر ٹیفکیٹ لینے کی وجہ سے 3، 3 ماہ کی کمی ہوئی۔فورم کے توسط سے دوبارہ آئی جی سندھ سے درخواست ہے کہ جو خواتین کورسز کرکے سر ٹیفکیٹ لے رہی ہیں ا ن کی سزا میں کم از کم 6 ماہ کی کمی جائے۔ ڈی آئی جی ویمن شیبا شاہ اور جیل انتظامیہ کا شکر اداکروں گی جو ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم قیدی خواتین کی مدد اور سہولت فراہم کررہے ہیں۔ ڈی آئی جی شیبا شاہ کی مدد سے ربیع الاول کے آغاز میں سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے ایک بڑا پروگرام بھی کیا ہمارا اصل کام ہی خواتین کے حقوق کی علمبرداری ہے اس کی بنیا دپر جیل میں کام شروع کیا۔

ہم جیل اور باہر خواتین کو لیگل ایڈ فراہم کرتے ہیں۔رہا ئی کے بعد بھی خواتین کی مدد کرتے ہیں۔ڈی آئی جی شیبا شاہ کے کہنے پر کئی خواتین کی ضمانت کرائی اور رہا بھی کرایا ۔جن خواتین کو گھر والے قبول نہیں کرتے انہیں ادارہ گوشہ عافیت میں رکھتے ہیں وہاں قیدی خواتین او ر ان کے گھر والوں کو بلواکر سمجھاتے اور تربیت کرتے ہیں جب وہ مان جاتے ہیں پھر ان کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ جو نہیں جاتیں یا جن کا گھر نہیں ہوتا ان کی تعلیم و تربیت کیساتھ روزگار کی بھی کوشش کرتے ہیں کئی خواتین ملازمت بھی کررہی ہیں اور کچھ کی شادی بھی ہوچکی ۔انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک خاتون شوہر کے قتل میں رہا ہونے کے بعد گھر گئی تو انہوں نے قبول نہیں کیااور سسرال والوں نے کہا اسے کہیں بھی دیکھیں گے تواس کو اس کے بچے کو بھی مارڈالیں گے۔اس خاتون کو گوشہ عافیت میں رکھا اور اس کی والدہ سے رابطہ کیا آپ کی بیٹی ہمارے پاس ہے جب بھی چاہیں ملاقات کرسکتی ہیں، اس خاتون کو میٹر ک اور انٹر کرایا اس کے بعد ملازمت کی اب اس کی دوسری شادی ہوگئی ہے اس سے رابطے میں ہیں۔

 خیرالنساء ،ویمن جیل انچارج برائے ویمن ایڈ ٹرسٹ : جیل میں آزادی نہیں اس کے علاوہ کوئی سختی نہیں،جیل میں خواتین سے یہی کہتی ہوں ڈرو نہیں ،یہ نہیں سوچیں ہم کسی گناہ کی وجہ سے جیل میں آئے ہیں، آزمائش ہے اللہ نے چاہا تو جلد ختم ہوجائے گی ۔ 21سال پہلے ایک دیہاتی عورت کی قتل کیس میں رہائی ہونے والی تھی اس نے کہا میرا کوئی سہارا نہیں ہے ہمار ا ارادہ تھا اسے گوشہ عافیت میں رکھیں گے رہا ئی کے وقت اس نے ضد کی گھر جاکر دیکھنا چاہتی ہوں گھر والے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں، اس کا گھرسائٹ کے قریب تھا ٹیم کے ساتھ اس کے گھر پہنچے ان کے گھر والوں کو سمجھا یا وہ اس کو رکھنے پر راضی ہوگئے ہماری محنت وصول ہوگئی ۔ایک خاتون اغواء کے کیس میں آئی اس کی رہائی کیلئے باہرجس صاحب کا بچہ اغواء ہوا تھا ان کے پاس گئے اور کہا اللہ کیلئے اس خاتون کو معاف کردیں انہوں نے کہا ہم اس کو کبھی معاف نہیں کریں گے اگر آپ کا بچہ ہوتا تو پتہ چلتا بیٹا کیا ہوتا ہے میں نے کہا کہ میرے بچے کا بھی قتل ہوچکا معلوم ہے بچے کا غم کیا ہوتا ہے، اللہ ایسے غم کسی کو نہ دکھائے یہ الفاظ کہتے ہوئے خیرالنساء کی آواز درد بھری اور دھمی ہوگئی جسے سن کر شرکاء کو بھی دکھ ہوا۔

دنیا: خواتین کی رہائی کے بعد کیا کیا جائے کہ معاشرہ قبول کرلے؟

ڈی آئی جی شیبا شاہ:ساری خواتین کے ساتھ ایسے مسائل نہیں ہوتے کہ انہیں گھر والے قبول نہ کریں ، 90فیصد رہا ہونے والی خواتین کو گھر والے لے جاتے ہیں۔10 فیصد ایسی خواتین ہوتی ہیں جنہیں گھر کی سپورٹ نہیں ملتی ۔رہائی کے بعد بھی خواتین کی مدد کرتے ہیں،اگر گھر والے قبول نہ کریں تو حکومت سندھ کے ادارے ’’ پناہ شیلٹر ہوم‘‘ میں بھجوادیتے ہیں ۔پہلے باہر جیلوں کا تصور اچھا نہیں ہوتا تھا۔خواتین عدالت میں پیشی پرجاکر حالات کا بتاتی ہیں اس سے معاشرے پراچھے اثرات مرتب ہوں گے ۔اب میڈیا بھی جیل کے اندر کے حالات مثبت انداز میں دکھا رہا ہے،آج کافورم بھی دیکھ کر اندازہ ہورہاہے میڈیا بہت اچھا اور مثبت چہرہ دکھا رہا ہے۔اب ایسا نہیں کہ خواتین کی جیل میں کوئی عزت نہیں، سینٹرل جیل کراچی کے علاوہ حیدرآباد،سکھر اور لاڑکانہ جیل میں بھی خواتین باہر سے زیادہ محفوظ ہیں۔ جیل انتظامیہ خواتین کو ہر طرح کی سیکیورٹی فراہم کرتی ہیں،جیلوں میں مردوں کا داخلہ منع ہے،باہر کے مرد جنہیں کسی کام سے جیل میں آنا ہوتا ہے وہ خواتین اسٹاف کے ساتھ ہی اندر آسکتے ہیں اسکے بغیر اندر آنے کی اجازت نہیں۔

ڈاکٹر حمیرا رسول ،میڈیکل آفیسر : ہمارے اندر برائی اور اچھائی سمجھنے کی تمیز نہیں ہوگی توآگے نہیں بڑھ سکتے۔ جرم ہونے کے بعد تہیہ کریں کہ دوبارہ ایسا نہیں کریں گے،خواہش ہے سب لوگ جیل سے رہا ہوکر اپنے گھروں کو جائیں یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اپنے آپ سے مخلص ہوں گے۔غلطی تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ نہ کرنے کا عہد کریں تو ہم زندگی میں تبدیلی لاسکتے ہیں ۔خود کو اور دوسروں کو بھی معاف کریں۔اللہ معاف کرنے والے کوپسند کرتا ہے۔

 

خواتین قیدیوں سے گفتگو

دنیا فورم میں خواتین قیدیوں نے بھی گفتگو کی تاہم قانونی مسائل کی وجہ سے ان کے نام ظاہر نہیں کئے جاسکتے۔ ایڈیٹر فورم نے قیدی خواتین سے سوا ل کیا کہ باہر جانے کے بعد معاشرے اور اہل خانہ سے کس رویئے کی توقع ہے؟

 قیدی خاتون: 3سال سے قید ہوں خواتین جب رہاہوکر باہر جا تی ہیں تومعاشر ہ قبول نہیں کرتا، باپ بھائی شوہر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا۔ہم تو اپنی سزا کاٹ چکی ہوتی ہیں پھر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیاجاتا ہے؟،آپ کے توسط سے کہنا چاہوں گی عدالتی نظام تیز اور بہترہوناچاہیے میرے جرم میں 10سال بعد فیصلہ ہوا جس نے میری زندگی تباہ کردی ۔ضمانت پر باہر گئی ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ۔عیسائی مذہب سے اسلام قبول کیا ۔ فیصلہ تاخیر سے ہونے سے میری ایک نہیں دو زندگی برباد ہوگئی ۔

 قیدی خاتون: 9سال سے قید ہوں۔خواتین کو پیغام دینا چاہوں گی کہ خدار اایساکام نہ کریں جوجیل میں آنا پڑے،خواتین غصے کو قابو میں رکھیں اور صبر سے کام لیں،خواتین افسران اورذمہ داران بہت تعاون کرتی ہیں۔رہا ہونے کے بعد اپنی اصلاح کروں گی ۔

قیدی خاتون: ایس بی ٹی ای جیل میں کورسز کرنے و الی خواتین کو سر ٹیفکیٹس دے تاکہ باہر جاکر ملازمت کرسکیں اور اس سر ٹیفکیٹ پر جیل کا نام نہ ہو ورنہ معاشرہ جینے نہیں دیگا۔ہم نے جیل میں کمپیوٹر کورسز، سلائی کڑھائی اور بیوٹی شن کا بھی کام سیکھا ہے۔ڈی آئی جی شیباشاہ نے کہا کہ فورم میں چیئرمین ایس بی ٹی ای کو بلانے کا مقصد بھی یہی ہے وہ کام سیکھنے والی قیدی خواتین کو اپنے ادارے کی جانب سے سر ٹیفکیٹ جاری کریں تاکہ باہر جاکر ملازمت کرسکیں اورسر ٹیفکیٹ پر جیل کی مہر نہ ہو ،آئی جی جیل خانہ جات کی بھی خواہش ہے کام سیکھنے والی خواتین کو اچھے اداروں کی طرف سے سر ٹیفکیٹ جاری کیئے جائیں تاکہ عزت کے ساتھ ملازمت کرسکیں۔ہم جیل میں خواتین کو جاری کرنے والے سر ٹیفکیٹ پر جیل کی مہر نہیں لگاتے تاکہ انہیں باہر شرمندگی نہ ہو۔چیئرمین ایس بی ٹی ای ڈاکٹر مسرور احمد شیخ نے کہا کہ اس پرکام کریں گے 

،کسی ادارے سے جیل کے سینٹر کو رجسٹر ڈ کروائیں گے تاکہ وہاں سے سر ٹیفکیٹ جاری ہوسکے۔ جو بھی قیدی خاتون کام سیکھے گی کوشش کرکے اس کو سر ٹیفکیٹ دلوائیں گے تاکہ وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کرسکے اور لوگوں کوبتائے ہمیں آپ کی ضرورت نہیں بلکہ آپ کو ہماری ضرورت ہے۔

 قیدی خاتون: جیل میں آنے کے بعد بہت مایوس تھی لیکن آہستہ آہستہ ماحول میں دل لگ گیا یہاں کمپیوٹر اور سلائی کڑھائی سیکھی ۔ اب میرے پاس ہنر ہے ۔جیل میں ابو اور بھائی بھی قید ہیں ،عمر قید کی سزا ملی ہے۔وکیل ہے لیکن فیس دینے کیلئے پیسے نہیں ۔مس زینب نے وکیل کا انتظام کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے امید ہے کیس جلد ختم ہوجائے گا۔ایک اور قیدی خاتون نے کہا کہ شروع میں بہت پریشان تھی ۔8ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔یہاں کمپیوٹر کی کلاسیں لیتی ہوں یہ سہولت باہر نہیں ، مجھے کمپیوٹر سیکھنے کا بہت شوق تھا جویہاں پورا ہورہا ہے، کمپیوٹر پر گیمز بھی کھیلتے ہیں ۔جیل انتظامیہ کی طرف سے تفریح کی سہولت ہے۔جس سے اچھا وقت گزر جاتاہے،خاندان والے سپورٹ نہیں کرتے درخواست ہے میری پڑھائی مکمل کرادیں میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔ جس عمر میں جیل آئی ہوں باہر جاکر تعلیم مکمل نہیں کرسکتی ۔ڈی آئی جی شیبا شاہ کی قیادت میں خواتین جیل میں اصلاح کا بہترین کام ہورہاہے ۔ہمیں سلائی کڑھائی،کمپیوٹر ،بیوٹیشن 

سمیت کھانے پکانے کی بہترین تربیت مل رہی ہے،ٹی وی پر ڈارمے بھی دیکھتے ہیں،ڈی آئی جی شیبا شاہ نے کہا کہ تفریح کے ساتھ خواتین مذہبی کاموں میں بھی آگے رہتی ہیں۔نماز کیلئے وقفہ بھی دیاجاتا ہے۔70فیصدخواتین پانچوں نمازیں پابندی سے پڑھتی ہیں۔قیدی خواتین کو مشورہ ہے کہ ڈراموں اور حقیقت میں فرق جا نیں ،لیگل ایڈ کی کلاسیں لیں تاکہ بنیادی حقوق کے بارے میں آگہی ہو۔ایک قیدی نے نم آنکھوں سے اپنے بچوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ دن رات ان کی یاد آتی ہے،یہاں جو کچھ سلائی کڑھائی سے کماتی ہوں بچوں کو بھجوادیتی ہوں۔ایک قیدی خاتون نے کہا کہ میڈیا جیل میں قید خواتین کی منفی تصویر پیش نہ کرے،آزاد دنیا میں رہنے والی خواتین اپنی آزادی کی حدود کی قدر کریں،برداشت پیدا کریں۔

ڈراموں میں جود کھایاجاتا ہے اس پر یقین نہ کریں۔ایک قیدی خاتون نے کہاجیل میں ہرکوئی خراب نہیں ہوتا، بعض لوگ بے قصور بھی آجاتے ہیں لیکن جیل کے نام کی وجہ سے زندگی خراب ہوجاتی ہے۔ باہر خواتین کسی کا منہ بند نہیں کرسکتیں جتنی زبانیں اتنی باتیں ،ہماری بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا ،میڈیا ہماری آواز بنے ۔ میڈیا سے درخواست ہے وہ اس تاثر کوتبدیل کرنے کا کردار ادا کرے تاکہ خواتین باہر جاکر عزت سے زندگی گزار سکے۔والد اور بھائی بھی جیل میں ہیں ،خاندان والے سپورٹ کرتے ہیں۔ڈی آئی جی شیبا شاہ نے کہا آج کے فورم کا مقصد بھی یہی ہے کو باہر لوگوں کو پیغام دیا جائے کہ جیل میں ہر خاتون غلط نہیں ہوتی اور جو خواتین کچھ سیکھ کر جارہی ہیں وہ معاشرے میں عزت سے کام کریں اور معاشرہ بھی قبو ل کرے ۔

فورم کے بعد دنیافورم اور دنیا چینل کی ٹیم نے ڈی آئی جی ویمن جیل شیبا شاہ ،ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ حمیرا قیوم ،ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ذمہ داران اور دیگر اسٹاف کے ہمرا ہ خواتین جیل کے مختلف شعبوں ، کمپیوٹر لیب، لائبریری ،کڑھائی سلائی سینٹر،آرٹ پینٹنگ اور بچوں کی مونٹیسوری کی کلاسیں اور پلے گراؤنڈ کا سروے کیا ۔سروے کے دوران قیدی خاتون سلائی سینٹر میں کپڑے سلائی کر رہی تھی اس نے بتایا کہ جیل میں 

13سال 3ماہ سے قید ہوں۔رہائی کا کچھ معلوم نہیں؟،کپڑے سینے سے میری او ر بیٹے کی مالی مدد ہوجاتی ہے ۔بیٹے نے اے ون گریڈ سے 

میٹرک کیا اس کے تعلیمی خرچے یہیں سے پورے کرتی ہوں۔بیٹا 15دن بعد ملنے آتا ہے 5سے 6ہزار روپے جو سلائی کے جمع ہوتے ہیں اسے دے دیتی ہوں،یہاں اسٹاف اور میڈم کپڑے سلانے کیلئے دیتے ہیں ان سے کافی مدد مل جاتی ہے۔لائبریری میں کچھ قیدی خواتین مطالعہ بھی کررہی تھی ۔ پینٹنگ کا بھی شعبہ دیکھا جہاں کچھ خواتین پینٹنگ کررہی تھی اور شیلف میں بہت ساری تیار پینٹنگ بھی نظر آئیں۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ حمیرا قیوم نے بتایا کہ اس شعبے میں 4 خواتین کام کررہی ہیں۔اس وقت 25پینٹنگز تیار ہوچکیں مزید بن رہی ہیں ۔80ہوجائیں گی تو نمائش میں رکھیں گے ان سے جو بھی رقم ملے گی وہ اسی قیدی خاتون کو دی جاتی ہے جو بناتی ہے۔ اس سے ان کی کافی مالی مدد ہوجاتی ہے۔پینٹنگزبنانے کیلئے سامان جیل انتظامیہ اور لیگل ایڈ ادارہ فراہم کرتاہے۔سروے کے دوران مونٹیسوری اسکول کا پلے گراؤنڈ اور کلاسیں بھی دیکھیں جہاں قیدی خواتین کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں،جن کا معیار باہر اچھے اسکولوں سے کم نہ تھا ۔

بچے مختلف جھولوں سے لطف اندوز ہورہے تھے ،کلاس روم بھی دیکھی جو بہت اچھی طرح سجائی گئی تھی او ر اے سی بھی لگا تھا۔اندازہ ہورہا تھا یہاں بچوں کی تربیت بھی اچھی ہوتی ہوگی۔اس دوران کلاس ٹیچر اور مونٹیسوری ڈائریکٹر نادیہ نے بتایا کہ مونٹیسوری کو قائم ہوئے 5 سال ہوگئے ۔7 بچے ہیں ،بچوں کو پرائیویٹ اسکول کے اساتذہ پڑھاتے اور تربیت کرتے ہیں۔بچوں کی کارکردگی کے حوالے سے والدہ کو بلا کر میٹنگ کرتے ہیں بچوں کی سالانہ پروگریس رپورٹ بھی بنتی ہے۔

 

قیدی خواتین کے تاثرات اور احساسات

  آزادی کی قدر کریں،چڑھاوے میں نہ آئیں،

میڈیا منفی تصویر نہ پیش کرے۔

   خدار اایساکام نہ کریں جوجیل آنا پڑے۔خواتین غصے کو قابو میں رکھیں۔

    پڑھنا چاہتی ہوں۔ جس عمر میں جیل آئی ہوں باہر جاکر تعلیم مکمل نہیں کرسکتی۔

    شیبا شاہ کی قیادت میں خواتین جیل میں اصلاح کا بہترین کام ہورہاہے ۔

  دن رات بچوں کو یاد کرتی ہوں،یہاں جو کچھ سلائی کڑھائی سے کماتی ہوں بچوں کو بھجوادیتی ہوں۔

    میڈیا جیل میں قید خواتین کی منفی تصویر پیش نہ کرے۔آزاد 

دنیا میں رہنے والی خواتین اپنی آزادی کی حدود کی قدر کریں۔

    برداشت پیدا کریں۔ڈراموں میں جود کھایاجاتا ہے اس پر یقین نہ کریں۔

   جیل میں ہرکوئی خراب نہیں ہوتا، بعض لوگ بے قصور بھی آجاتے ہیں لیکن جیل کے نام سے زندگی خراب ہوجاتی ہے۔

   نظام انصاف کو تیز کیاجائے۔

    وکیل ہے لیکن فیس کیلئے پیسے نہیں ۔مس زینب نے وکیل کا انتظام کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔