قوانین صرف خواتین کے حق میں، مظالم کا شکار مرد بھی!

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : ماجد حسین بمقام:محمد علی جناح یونیورسٹی آڈیٹوریم لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:شکیل خان (رکن گورننگ باڈی آرٹس کونسل کراچی)ڈاکٹر کلیم خان (اورل سرجن،کے ایم ڈی سی)ملکہ خان(صوبائی پروگرام منیجر ،عورت فائونڈیشن)صبیحہ شاہ ( سی ای او ویمن ڈیولپمنٹ فائونڈیشن)ایڈووکیٹ طلعت یاسمین(چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم)فرحت پروین(ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیشنل آرگنائزیشن فار ورکنگ کمیونیٹیزبابر سلیم(سربراہ بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی)ہمایوں نقوی(سماجی رہنما)

 اخبارات میرا ظلم بتاتے ہیں،گھر کیلئے میری قربانی نہیں بتاتے:   شکیل خان،آپ روئیں تو آنسو پوچھنے والے دس اور ہم کو رونے کی اجازت بھی نہیں:  بابر سلیم

مرد بھی رو ناچاہتا ہے لیکن رو نہیں سکتا ،اسے کہا جاتا ہے تم تو مرد ہو:  ملکہ خان،خواتین کیلئے ایسے قوانین بنائے گئے کہ مرد متاثر ہوگیا:  ایڈووکیٹ طلعت یاسمین

 قدرتی طور پر عورت کو مرد میں اپنے تحفظ کا احسا س ہوتا ہے:   ڈاکٹر کلیم خان،صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی مظالم کا شکار ہوتے ہیں :  صبیحہ شاہ

 مرد اپنی خواتین کو دوسرے مردوں سے بچانے کیلئے پریشان رہتا ہے:   فرحت پروین

 

موضوع:‘‘کیا مرد بھی مظالم کا شکار ہوتے ہیں؟‘‘

 

 دنیا فورم میں اس بات پر تو سب ہی متفق نظر آئے کہ مرد بھی مظالم کا شکار ہیں،مگر یہ مظالم کچھ الگ انداز کے ہیں،کہیں معاشرتی دبائوکا ظلم ہے تو کہیں مالی بوجھ پہاڑ بنا کھڑا ہے،کہیں بھیڑیئے نما اپنے ہی جیسے مردوں سے اپنی محرم خواتین کی حفاظت کی پریشانی ہے،مرد کماتا ہے ،محنت کرتا ہے تو کوئی احسان نہیں کرتابلکہ حقیقت میں خواتین اسے سراہتی بھی ہیں،گھروں کو سنبھالنے والی خواتین لائق تحسین ہیں جن کی قربانیوں کی وجہ سے ہی مرد باہر کام کرپاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مرد پر ہونے والے مظالم کہیں اجاگر نہیں کئے جاتے،خواتین کی حقوق کے تنظیمیں موجود ہیں مردوں کی نہیں،یہ فورم کرنے کا خیال یوں آیا کہ 19نومبر 1960ء سے مردوں کا عالمی دن منایاجاتا ہے جسے تاحال اقوام متحدہ سے تصدیق کی سند نہ مل سکی تاہم دنیا کے بیشتر ممالک میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں جس میں مردوں کی قربانیوں کو اجاگر کیاجاتا ہے،

لیکن جب ہم بات اپنے اسلامی اور مشرقی معاشرے کی کرتے ہیں تو پھر یہاں مرد وعورت دونوں اپنے خاندان کیلئے ایسی لازوال قربانیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ مغرب کے یہ ایک دن ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے،حقیقت میں دنیا فورم کا بھی حاصل یہی رہا کہ مر اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کی قربانیوں اور محنت کو سراہنا چاہیے تب ہی بہتر معاشرہ وجود میں آسکے گا،آپ کی رائے کا منتظر۔

مصطفیٰ حبیب صدیقی (ایڈیٹر فورم )

برائے رابطہ: 0092-3444473215

00923212699629  

ای میل : mustafa.habib@dunya.com.pk     

دنیا:کیا واقعی مرد مظالم کا شکار ہیں؟

ملکہ خان: اگر مردوں پر ظلم ہوتا ہے توکتنے فیصد ہوتا ہے؟اور میڈیا میں کتنا آتا ہے؟اگر آپ کا کہنا ہے کہ مرد زیادہ مظلوم ہیں تو ہمیں بتائیں کہ مرد کس کس سطح پر خود کو مظلوم سمجھ رہے ہیں؟ میں اندرون سندھ اور بلوچستان ٹھٹھہ سے سبی تک جاتی ہوں۔میں اس زمانے میں بھی گئی ہوں جب گاڑی سمیت بندوں کو غائب کردیاجاتا تھا ،میں خوف زدہ نہیں ہوئی۔میں سندھ سے بلوچستان جاتی تھی۔ خواتین نے مجھے بہت سراہا،خواتین کہتی تھیں کہ ہمیں آپ سے ڈر لگتا تھا لیکن اب ہم میں اعتماد آیا ہے۔

شکیل خان: جب ہم ظلم یا مظلوم کی بات کرتے ہیں تو منفی بات ہوجاتی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ میں مظلوم ہوں یا عورت مظلوم ہے؟ سوال یہ ہے کہ اس معاشرے میں جہاں ہم رہتے ہیں وہاں کیا ہم عورت اورمرد ایک دوسرے کے حریف ہیں؟ایک دوسرے کے دشمن ہیں؟ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ یا ہم ایک دوسرے کے حلیف ،ساتھی ،ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے والے،ایک دوسرے سے محبت کرنے والے،ایک دوسرے کو نبھانے والے ہیں؟۔یہ کہاجاتا ہے کہ مرد عورت پر ظلم کررہا ہے ،چلیں جی مان لیتے ہیں۔یہ اخبار اس بات سے بھر ا ہے کہ میں نے عورت پر بڑا ظلم کیا ہے،لیکن کیا یہ اخبارات یہ بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے خاندان کیلئے کیا قربانیاں دیں؟ ۔میں نے کیا کچھ کیا ہے ان بچوں کیلئے جو میرے بچے ہیں یا اس معاشرے کے بچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں مظلوم ہیں اور ہم دونوں ظالم ہیں۔جہاں عورت کا بس چلتا ہے وہ ہم پرظلم کے پہاڑ توڑ دیتی ہے اور جہاں میرا بس چلتا ہے میں بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ دکھا جاتا ہوں۔

دنیا :ایک مرد گھر سے باہر نکلتا ہے کام کرتا ہے محنت کرتا ہے تو کیا احسان کرتا ہے؟

شکیل خان:گھر سے باہر نکلنا میری ذمہ داری ہے، میں اپنے خاندان پر کوئی احسان نہیں کر رہا۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں اپنی بچی کو دنیا کی بہتر ین انسان بنائوں،میر ی ایک ہی بیٹی اور ایک بیٹا ہے ،میری اہلیہ کہتی ہیں کہ جب آپ اپنے بیٹے سے بات کرتے ہیں تو سخت ہوتے ہیں جبکہ بچی سر پر ناچتی رہتی ہے اسے کچھ نہیں کہتے ۔میں جواب دیتا ہوں تم اپنے بیٹے سے زیادہ محبت کرتی ہو میں اپنی بیٹی سے کرتا ہوں،میں اپنی بیٹی سے آخری دم تک محبت کرتا رہوں گا کیونکہ میرے لئے میری بیٹی دنیا میں سب سے قیمتی ہے۔

بابر سلیم :یہاں کہا گیا کہ اخبار میں کتنے فیصد مردوں پر ظلم کے بارے میں بتایا جاتا ہے میں کہنا چاہوں گاکہ یہ ہم پر بذات خود ایک بڑا ظلم نہیں کہ ہم پر ہونے والے ظلم کو دنیا کو بتایا بھی نہیں جاتا ۔آپ روئیں تو دس آنسو ں پوچھنے والے اور ہم کو رونے کی اجازت بھی نہیں۔

ملکہ خان: اصل میں مسئلہ شروع سے ملنے والی تربیت کا ہے ۔گھروں میں بیٹے اور بیٹیوں کی تربیت کے دوران بیٹے کے رونے پر کہاجاتاہے کہ اچھا لڑکیوں کی طرح روتے ہو؟آپ نے درست کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے آنسوں پونچھنے والے دس لوگ ہوتے ہیں لیکن مرد کے سینے میں بھی وہی دل ہے جو عورت کے سینے میں ہوتا ہے ۔جس طرح عورت تکلیف محسوس کرتی ہے ایسے ہی مرد بھی کرتا ہے اس کا بھی رونے کا دل چاہتا ہے لیکن وہ رو نہیں سکتا کہ اسے پروان ہی ایسے چڑھایا گیا ہوتا ہے کہ تم سخت ہو،مرد ،تم رونہیں سکتے۔اکثر سننے میں آتا ہے کہ میرا باپ بھی بیوی کو مارتا تھا میں بھی ماروں تو کوئی مسئلہ نہیں،جب ہم شروع سے بیٹے اور بیٹی کی تربیت برابر کریں گے ،کسی بھی چیز میں حق تلفی نہیں کریں گے تو پھر ایسا نہیں ہوگا۔

میں نے اپنے ایک پروگرام میں خواتین سے پوچھا کہ جب گھر میں کھانا پکتا ہے تو پہلے کون کھاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں ابھی بھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے مرد کھاتے ہیں۔بلوچستان میں عورتوں کو بہت کم گوشت دیاجاتا ہے جبکہ را ت میں دودھ کا گلاس بھی بھر کر مردوں کو دیاجاتا ہے ۔ بلوچستان میں لڑکوں نے بتایاکہ ایسا ہی ہوتا ہے ،ہمیں یہ سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اندرون سندھ کی حالت تصور ہی نہیں کرسکتے۔اگر کسی گھر میں معذور بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اسے جانور وں کے ساتھ رکھا جاتا ہے ،اور پھر وہ بچے ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتے بلکہ جانور کی طرح منہ جھکا کر کھانا کھاتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ ہم یہاں دنیا فورم سے کچھ سیکھ کر جائیں ،بجائے لڑنے کے۔

دنیا:کبھی عدالت میں کوئی ایسا کیس آیا ہے کہ مرد شکایت لے کر آیا ہو کہ بیوی نے مارا ہے؟

ایڈووکیٹ طلعت یاسمین: موضوع بہت  ہولناک ہے۔ مظلومیت ایک بیمار تصور ہے ،جس سے مغرب چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔کیونکہ مظلوم بن کر کبھی بھی حق حاصل نہیں کیاجاسکتابلکہ اپنے حقوق سے دستبردار ہوجایا جاتا ہے۔اللہ نے مرد اور عورت کو پیداکرکے انہیں ایک دوسرے کا ساتھی اور ہمدرد قراردیا۔آپ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور مرد کو قوام بنایا۔ قوام کا مطلب محافظ ،نگہبان ہے،مرد نہ صرف اپنی ماں ،بہن ،بیوی اور بیٹی کا محافظ ہوتا ہے بلکہ اللہ نے اسے معاشرے میں موجود تمام خواتین کا محافظ بنایا ہے۔ہمارے ہاں اسلام کا مکمل علم نہیں۔ دیہاتوں میں مسئلہ عورت اور مرد کا نہیں بلکہ علم کا ہے۔آگہی نہیں،انہیں صفائی کے بارے میں نہیں معلوم ،وہ عام باتیں نہیں جانتے تو وہ اتنے حقوق کی باتیں کیسے سمجھ سکیں گے۔وہ ایک دوسرے کے حق غضب کرتے ہیں۔ جب ہمارے یہاں مظلومیت کی بات کی گئی تو اسلام کے بغیر کی گئی اور ایک ایجنڈے کے تحت عورت کو اس قدر مظلوم قرار دلادیا کہ توازن ہی بگڑگیا۔

حقیقت میں عورت مظلوم نہیں بلکہ معاشرے نے مظلوم بنا دیا۔ ظاہر ہے جو کمزور ہوتا ہے وہ دب جاتا ہے ۔پھر خواتین کیلئے ایسے ایسے قواتین بنائے گئے کہ مرد بہت متاثٖر ہوا۔جب عورت خلاء کیلئے آتی ہے تو اس کے جہیز اور مہر سمیت تمام دعوے فیملی کورٹ میں ہوتے ہیں اور وہیں سے مل جاتے ہیں لیکن مرد نے جتنا کچھ عورت کو دیا ہوتا ہے وہ اسے فیملی کورٹ سے نہیں ملتا بلکہ اسے دوسری عدالت میں جاکر مقدمہ کرنا پڑتا ہے۔یہ سب کیوں ہوا،اسلئے کہ مظلومیت میں عورت کو بہت آگے کرنے کی کوشش میں مرد پر ظلم ہوگیا۔اسی طرح تشدد کا معاملہ ہے ،تشدد جسمانی اور دماغی دونوں ہوتا ہے۔مرد کیونکہ عورت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس لئے مرد عموماً جسمانی تشدد کا شکارنہیں ہوتے بلکہ ذہنی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

میرے پاس 5کیسز ہیں ،معاشرہ ایساکردیتا ہے کہ تم باپ ہو عورت نے خلاء ہی لی ہو تمہیں بچوں کامالی بوجھ اٹھانا ہے جبکہ تم بچو ں سے مل بھی نہیں سکتے۔مظلومیت تو ایک بیماری ہے ہم اس بیماری کا شکار کیوں ہوں۔ ہمیں اللہ نے بہت با صلاحیت بنایا ہے ،مرد وعورت اور لڑکے اورلڑکیوں دونوں کواس مظلومیت کی صفت سے نکلنا ہے ۔

ڈاکٹر کلیم خان:ہم نے اپنی پریکٹس کے دوران دیکھا کہ خواتین خود کو مرد وں کے ہاتھوں میں ہی محفوظ تصور کرتی ہیں۔آج بھی ہمارے پاس دانتوں کے علاج کیلئے جو خواتین آتی ہیں وہ مردوں سے ہی علاج کرانا چاہتی ہیں۔ہم نے اپنی کلینکس میں خواتین ڈاکٹرز اسی لیے رکھی ہیں کہ خواتین کا علاج وہ ہی کریں لیکن خواتین جب آتی ہیں تو چاہتی ہیں کہ خواتین ڈاکٹرزمقابلے میں میں ہی ان کے دانت کی تکلیف کا علاج کروں۔یہ اس لئے ہے کہ اللہ نے ایک فطرت رکھی ہے۔ عورت کو مرد میں اپنے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔اسے لگتا ہے کہ یہ میری زیادہ بہتر دیکھ بھال کرسکے گا۔یہ قدرت کا کام ہے۔اس میں کوئی جھگڑے کی بات ہی نہیں،اب تو مرد وخواتین ایک ساتھ چلتے ہیں اب خواتین پر ظلم کی وہ کیفیت نہیں۔

دنیا:ہمارے معاشرے میں خواتین کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی،جب وہ باہرملازمت سے آتی ہیں انہیں زیادہ پذیرائی ملتی ہے؟

شکیل خانـ : بھائی مصطفیٰ پھر تو تم سوال ہی تبدیل کرو،تم تو بائیں بازو والوں کی طرف تو آہی نہیں رہے۔دائیں بازووالوں کی بات کررہے ہو۔ ہاہاہا(بائیں جانب مرد اور دائیں جانب خواتین بیٹھی تھیں )۔

بابر سلیم :اگر اسلا م کو دیکھا جائے ۔تو اسلام نے تو عورت کو عزت دیدی۔مرد ہے جسے عزت کمانی پڑتی ہے۔ماں ،بیٹی ،بیوی بہن ، انہیں اللہ نے عزت دیدی،ہم کو اپنے اخلاق اورعمل سے عزت کمانی پڑتی ہے۔میں اپنے طلباء کو اچھا پڑھائوں گا تو یہ میری عزت کرینگے لیکن اگر ایک خاتون استاد آتی ہیں تو انہیں پہلے دن سے عزت دینی ہوگی ،کیونکہ انہیں اس میں اپنی بہن اور ماں نظر آرہی ہوتی ہے۔

دنیا :ایک مردخاندان کیلئے کئی مرتبہ اپنی انا کی قربانی دیتا ہے ،کیا اس کی اس قربانی کا اعتراف کیاجاتا ہے؟

صبیحہ شاہ:میں گزشتہ 30سال سے لیاری میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کررہی ہوں جبکہ بلدیہ سمیت دیگر علاقوں میں بھی جانا ہوتا ہے جہاں صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی مظالم کا شکار ہوتے ہیں۔عورتوں پر گھریلو تشدد بہت زیادہ ہوتا ہے ،عورتوں کو وہ حقوق نہیں دیئے جاتے جو ان کا حق ہے،ایک ڈاکٹر لڑکی ہے اسے کام پر نہیں جانے دیاجاتا،ایم اے پاس لڑکی کو کام نہیں کرنے دیاجاتا،میرے پڑوس میں دو نوں میاں بیوی ڈاکٹرز ہیں ،مرد اپنی کلینک کیلئے اسپتال جاتا ہے لیکن بیوی نہیں جاتی اسے گھر میں اپنی بچی سنبھالنی ہوتی ہے ۔بالکل آپ کا سوال درست ہے کہ مرد باہر جاتا ہے محنت کرتا ہے کام کرتا ہے ،لیکن مرد کو اللہ نے کفیل بنایا ہے ۔ وہ عورت کا کفیل ہے ۔اس پر ذمہ داری ہے اسے اپنے گھر کیلئے کمانا بھی ہے ۔جب وہ چھوٹا ہوتا ہے جب وہ کالج جانا شروع ہوتا ہے ماں کہنا شروع کردیتی ہے کہ بیٹا کچھ کام بھی شروع کرو ،کچھ کمائو بھی تمہاری بہن ہے ۔اس کی شادی بھی کرنی ہے ۔

اسے جہیز بھی دینا ہے ۔مانتے ہیں کہ مرد یہ سارا کچھ کرتے ہیں ،اور وہ اسے ذمہ داری کے ساتھ نبھاتے بھی ہیں،لیکن اس وقت وہ عورت بھی ظالم بن جاتی ہے اور مرد بھی ظالم بن جاتا ہے جب دوسری عورت گھر آتی ہے۔چاہے بہو کی شکل میں آتی ہے۔ بہن کی شکل میں تو بھائی بڑی حفاظت کرتا ہے لیکن بیوی کی شکل میں اس پر ہاتھ بھی اٹھاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ مرد ہی قصور وار ہے ،اس میں اس کی ماں کا بھی کردار ہوتا ہے، جوایک ساس بھی ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پرورش اس معاشرے نے کی ہے اور اس معاشرے میں جہاں بچیوں کو دبایا جاتا ہے وہیں بیٹو ں کو بھی دبایا جاتا ہے کہ تمہیں ہمارے مطابق چلنا ہے،یہ نہیں کرناوہ نہیں کرنا۔

دنیا:ہمارے ہاں مرد اور عورت کو مد مقابل لاکر کھڑاکردیاگیا ہے کیا یہ رویہ درست ہے؟

صبیحہ  شاہ: دیکھیں ہمارا معاشرہ مرد انہ معاشرہ ہے اور اس میں چونکہ مرد ہی کو ہر جگہ نگراں سمجھاجاتا ہے اور لیڈر ماناجاتا ہے ،لیکن نگراں کی بات الگ ہے اور مالک کی بات الگ ہے ،ہم نے تو مرد کو مالک بنادیا ہے۔

بابر سلیم:یہ بہت اہم بات کی ہے ۔لیکن پہلے بات مذہب کی جانب گئی تھی اب بات سماجی رویوں کی ہورہی ہے تو میں کہنا چاہوں گا کہ آدمی کی تربیت بھی ایک عورت ہی کررہی ہے ۔اگر مرد کسی عورت پر ظلم کررہا ہے تو اس کے پیچھے بھی عورت ہے۔اگر کوئی اپنی بہو پر ظلم کررہا ہے تو ماں کی تربیت تھی جو ظلم کررہا ہے، اگر کسی بیوی پر ظلم ہورہا ہے تو اس کے پیچھے بھی عورت ہوتی ہے جو ماں ہوتی ہے،لیکن اگر کسی آدمی پر ظلم ہورہا ہوتا ہے تو اسکے پیچھے بھی ظالم کی ماں ہوگی۔

 صبیحہ شاہ:میں یہ نہیں مانتی ،اس وقت آپ لوگوں کی عقلیں کہاں چلی جاتی ہیں جب آپ لوگ ظلم کررہے ہوتے ہیں ۔آپ لوگ کہتے ہیں کہ عورت ناقص العقل ہے تو جب آپ لوگ ایک عورت کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ مردوں کی عقلیں کہاں چلی جاتی ہیں۔کیا اپنے دماغ سے کام نہیں لیتے۔اس وقت آپ اپنے آپ کو بہادر کہتے ہیں،بولڈ کہتے ہیں ،کیا اس وقت عقل ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔

دنیا: مرد کو کس سے خطرہ ہوتا ہے؟

فرحت پروین: پہلی بات تو یہ ہے کہ مرد بھی مظالم کا شکار ہیں۔ لیکن ہمیں گھر سے باہر نکل کر دیکھنا ہوگا۔ہمارا معاشرہ طبقاتی ہے۔ایک مرد کسان ہے اور دوسرا جاگیردار ،زمیندار ہے، ایک مرد صنعتکار ہے اور دوسرا مزدور یا ملازم ہے۔ظاہر ہے وہاں پر مرد مظالم کا شکار ہوتے ہیں۔ایک اور جگہ مرد ظلم کا شکار ہوتے ہیں کہ اسے کہا جاتا ہے کہ تمہیں اپنی بہن کی حفاظت کرنی ہے کیونکہ باہر جانور گھوم رہے ہیں۔مرد ایک ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی بہن بیٹی یا کسی بھی ذمہ داری میں موجود خاتون کیلئے۔ وہ سوچتا ہے کہ میں اسے ڈرائیور کیساتھ بھیجوں یا نہیں ۔باہر بھیجوں تو کیا ہو گا۔ تو اسے ڈر اپنے ہی جیسے ایک مرد سے ہے۔ایک مرد کو دوسرے مرد سے خوف ہے۔ہمیں اپنے گھر کی عزت کو ایک اور مرد سے محفوظ کرنا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی ماں کی بات مانتے ہیں لیکن اسی معاشرے میں قتل ہونے والی عورتیں مائیں ، بہنیں ،بیویاں ہیں ۔

ایسی بھی عورتیں ہیں جن سے مرد شادی کرنا چاہتا ہے اور نہ ہونے پر تیزاب پھینک دیتا ہے۔تو ہر مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے ۔اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا کہ انسان اپنے حالات بدل سکتا ہے۔کل آپ جنگل میں تھے تو آج شہر میں ہیں۔انسان کی زندگی میں امکانات ہیں۔میں مردوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکوں سے کہنا چاہوں گی کہ آپ ضرور سوچیے گا کہ جس طرح قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں یہ حکم صرف عورت کیلئے نہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی ہے۔ آپ سوچیں کہ اگر ہم چاہیں تو ہم اپنے معاشرے کے رویے بدل سکتے ہیں۔کیا ملازمین کو ان کے حق کی تنخواہیں دی جاتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے کم ازکم تنخواہ 25ہزار کی ہے تووہ بھی مالکان دینے کو تیار نہیں ۔تو عورت مرد پر ظلم کررہی ہے یا مرد مرد پر ظلم کررہا ہے؟

اگر ایک مرد کے خاندان کو جتنی ضرورت ہے وہ اتنا کماکر نہیں لے جاپارہا تو وہ ظلم ماں باپ ،بیوی بچوں سب پر ہے۔اس لحاظ سے دیکھیں تو یقیناً مرد بہت زیادہ ٹینشن کا شکار ہیں ، کہ اسے اپنے گھرکو ،اپنی خواتین کوبھیڑیئے نما معاشرے سے بچانا ہے تو وہ کس قدر مشکل میں ہے۔میں مردوں سے کہنا چاہوں گی کہ وہ کوشش کریں کہ ان کے ہاتھوں سے کوئی دوسرا مرد یا انسان ظلم کا شکار نہ ہو۔

شرکاء اور طلبہ وطالبات کے سوال و جواب

عبدالرحمٰن عابد راجپوت:قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا کہ جو امن وسکون چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے عمل کے قریب آجائے ۔یقیناً محمد ﷺ کے پاس ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

عبداللہ انور (طالب علم بی بی اے ):خواتین کے پینل میں سے کسی نے کہا تھا کہ مرد کو پہلے کھانا دیاجاتا ہے میں کہنا چاہتا ہوں کہ مرد صبح سے نکلا ہوتا ہے۔دوپہر کے کھانے کا وقت آتا ہے،حتیٰ کے ہمارے اساتذہ بھی ہیں ہم انہیں بھی دیکھتے ہیں کہ 4بجے تک ہماری کلاسزچلتی ہیں ۔میرے والد صاحب صبح نکلتے ہیں اور وہ کام میں اس قدر مصرو ف رہتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا نہیں کھاپاتے،اگر رات کو واپس آکر بھی انہیں پہلے کھانا نہ ملے تو یہ زیادتی ہوگی۔ہمارے گھر میں میری امی ،میں ،بھائی بہن سب بھوکے رہتے ہیں کہ جب والد صاحب گھر آئیں گے تو سب ان کے ساتھ کھانا کھائیں گے کیونکہ یہ ان کی قربانی کے بدلے ان کی عزت ہے۔اگر ہم انہیں یہ عزت نہ دیں تو یہ ظلم ہوگا۔

ملکہ خان:ہم عزت کو نہیں منع کررہے ،لیکن جب ایک عورت سارا دن کام کرتی ہے تو وہ پہلے کھانا کیوں نہیں کھاسکتی،آپ کے گھر میں ایسا ہوتا ہوگا کہ سب ساتھ بیٹھتے ہیں لیکن بہت سارے گھروں میں ایسا نہیں ہوتا،ایک صاحب روز اپنی بیوی سے کہتے تھے تم سارا دن کیا کرتی ہو ،کون سا پہاڑ توڑ رہی ہے،ایک دن بیوی نے کوئی کام نہیں کیا اور آرام سے بستر پر لیٹی رہی ،جب وہ صاحب گھر آئے تو پورا گھر بکھرا پڑا تھا وہ غصہ میں آگئے جس پربیوی نے کہا کہ آج میں نے کوئی کام نہیں کیا۔بچوں نے کھانا کھایا ادھر ادھر پھینک دیا۔بیوی نے کہا کہ میں دن میں10مرتبہ صفائی کرتی ہوں پھر بھی تمہیں گھر گندہ ہی لگتا ہے۔

محمد عیان:میں خود فیمینسٹ ہوں،لیکن میرا سوال ہے کہ ہمارا معاشرہ عورتوں کو حقوق دلانے کے چکر میں کہیں مردوں کے مخالف تونہیں جارہا ؟

ایڈووکیٹ طلعت یاسمین:بہت ہی عمدہ سوال ہے ۔میں نے پہلے بھی بتایاتھاکہ ہمارے ہاں خواتین کو مظلوم بنایاجارہا ہے او راس حوالے سے جتنے بھی قوانین بن رہے ہیں وہ مردوں کے مخالف ہورہے ہیں۔یاد رکھیں کہ قوانین ہمیشہ انسانیت پر بنتے ہیں جب آپ کسی کو مظلوم کرکے بنائیں گے تو دوسری چیز کو نیچے کردینگے۔فیمینسٹ کے حوالے سے جو آپ بات کررہے ہیں تو ہم کیوں کونے کونے کی بات کرتے ہیں،ہم کیوں نہیں پورے معاشرے اور نظام کو تبدیل کرنے کی بات کرتے۔جس طرح میڈم نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے حقوق کو غضب کررہے ہیں،تو ایک نظام ایسا کیوں نہیں بنتا کہ کوئی کسی کے حقوق کو غضب نہ کرے،چاہے وہ حق مرد مرد کاکرے یا عورت عورت کا حق غضب کرے۔ہماری بہن نے بہت اچھی بات کہی کہ اللہ نے مرد کو قوام بنایا ہے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے عورت کو غلام بنادیا اور مرد مالک ہے۔

اللہ نے جہاں یہ حکم دیا کہ مرد کی اجازت کے بغیر تم نفل روز ہ نہ رکھووہاں یہ بھی حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پامالی ہو تو تم مرد کے حکم کو نہیں مان سکتی ۔یعنی اللہ کے بتائے طریقے کے مطابق تو مرد کا حکم مانا جاسکتا ہے لیکن مرد عورت کا مالک نہیں۔اللہ نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا دوست اور ساتھی بنایا ،ایک طرف جب آپ صرف عورت عورت اور فیمینسٹ کی بات کرینگے تو لامحالہ آپ دوسری طرف مرد کے حوالے سے عدم توازن کا شکارہوجائیں گے۔

بابر سلیم:آپ نے بولا کہ میں فیمینسٹ ہوں تو میں کہوں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس جب ماں بہن تشریف لاتی تھیں تو آپ ﷺ اپنی چادر مبارک بچھادیا کرتے تھے تو اس لحاظ سے توہم سب کو فیمینسٹ ہونا چاہیے ۔ہم سب اگر صحیح مسلمان ہونگے تو سب فیمینسٹ ہونگے کیونکہ ہم اپنی ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کو عزت دینگے،ان کا خیال رکھیں گے اور انکے حقوق دینگے۔

دلشا منیر(طالبہ بی بی اے):ہم ہمیشہ سے عورتوں کے حقوق کی بات سنتے آئے ہیں۔کبھی مردوں کے حقوق کی بات نہیں سنی،میڈم نے بلوچستان میں بتایا کہ مردوں کو پہلے دودھ اور گوشت دیاجاتا ہے لیکن بلوچستان میں چائلڈ لیبر میں اتنے لڑکے قتل کردیئے جاتے ہیں جو کہیں نہیں اجاگرکئے جاتے۔اکثریت مردوں کو بند کرکے تشدد کیاجاتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تصور ہے کہ مرد پر تو کوئی تشدد نہیں کرسکتا۔ہم عورتوں نے ہی اپنے حقوق اتنے زیادہ اجاگر کردیئے کہ مرد مظلوم ہوگیا،میرے والد عورت مارچ کے خلاف ہیں۔ہم مردوں کے حقوق کی بات کہاں کرتے ہیں۔

بابر سلیم:خواتین اپنے حقوق کو اتنا زیادہ اٹھارہی ہیں تو یقیناً کہیں نہ کہیں ہم مرد بھی ظلم کررہے ہیں۔ایک معاشر تی مسئلے کے طور پر دیکھاجائے تو کہیں نہ کہیں ہم غلط ہیں ہمیں بدلنے کی ضرورت ہے۔

فرحت پروین:ایک حقیقت پسندانہ سوچ ہونی چاہیے ۔یہ درست ہے کہ بہت ساری جگہوں پر خواتین ہی خواتین کے حقوق پامال کرتی ہیں لیکن اس سے یہ حقیقت نہیں بدل جائے گی کہ پاکستان میں آج بھی بچے کی پیدائش سے پہلے یہ جاننے پر کہ لڑکی پیدا ہوگی اس کا قتل کردیاجاتا ہے۔جب گھر میں جھگڑا ہوتا ہے تو گھر کون چھوڑتا ہے؟عورت یا مرد،بلوچستان میں عورتوں کی خوراک کم ہے،کہا جاتا ہے کہ لڑکے کو اچھی خوراک دو کیونکہ اسے کمانا ہے،اگر آپ اپنے بھائی سے اپنا حصہ مانگیں تو کہاں ملتا ہے۔

بابر سلیم: میں کہوں گا کہ جیسے فرحت کی بات مان لی جائے تو سوچیں کیا وجہ ہے کہ لڑکی کو پیدا ہونے سے پہلے قتل کیاجاتا ہے اور لڑکے کو پیدا کیاجاتا ہے ،اس لئے کہ لڑکے کو بڑاہوکر گدھا بناناہے ،اس سے کام کرانا ہے ،اس سے کمانا ہے۔مزید ریسورس چاہئیں اس لئے وہ بچہ چاہئیے۔آدمیوں کے پاس گاڑیاں ہیں اور خواتین کے پاس گاڑیاں ڈرائیور کیساتھ ہیں۔

محمد علی (بی بی اے آنرز):اب کافی چیزیں تبدیل ہورہی ہیں،اب خواتین منیجر زیادہ آرہی ہیں،اب تبدیلی آگئی ہے،عورتو ں کے اندر زیادہ صلاحیت ہوتی ہے مردکے اندر کم ہوتی ہے۔ساتھ ہی وہ گھر بھی چلاتی ہے۔سوال ہے کہ عورتیں جو منیجر ہوتی ہیں وہ بھی تومردوں پرظلم کرتی ہیں؟

طالبہ:میں فیمینسٹ نہیں ہوں۔میں سمجھتی ہوں کہ مرد بھی مظلوم ہیں۔یہ کہاگیا کہ مرد اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے تو اسکی ماں نے سکھایا ہوگا لیکن کیا ضروری ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے سیکھا ہو؟

بابر سلیم ـ:کوئی ماں اپنے بیٹے کو نہیں سیکھاتی لیکن اگر اس کا باپ اس کی ماں کو مارتا تھا اور اس کی ماں یہ ظلم سہتی رہی تو وہ اپنے بیٹے کو بھی سکھاتی ہے کہ تم بھی مارو۔۔۔

شکیل خان: یہ باتیں کیوں ہوتی ہیں کہ دادی اور امی نے سکھایاہوگا اس سے آگے جائیں۔ آپ بچوں میں بڑی ہمت ہے کہ ایک بچے نے کہا میں فیمینسٹ ہوں اور ایک بچی نے کہا کہ میں فیمینسٹ نہیں ہوں یہ طاقت آپ لوگوں کو آپ کے گھروں سے ملی ہے۔دنیا بہت آگے چلی گئی ہے۔اب اپنی زندگی جیو،نئی نسل تیار کرو،یہ سب باتیں بہت پرانی ہوگئیں ۔میرے گھر میں کبھی میری ماں کو نہیں ماراگیا ،میں کبھی تصور نہیں کرسکتا اپنی بیوی کومارنے کی ،احترام کی با ت کریں،ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کی بات کریں اور ساتھ دیں۔

ہمایوں نقوی:ہمارے جو مرد خلیجی ممالک میں ملازمت کیلئے جاتے ہیں ان کی زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے ۔اس کی پوری ذمہ داری اس عورت پر ہوتی ہے جو اس کے گھر میں ہوتی ہے ۔اللہ نے سورہ فرقان میں فرمایا کہ اچھے اور بہترین لوگ وہ ہیں جو اعتدال سے کام لیتے ہیں،نبی اکرم ﷺ کی غزوہ حنین میں بنوسعدسے لڑائی ہوئی اور فتح ہوئی ۔بنوسعد کے لوگ پکڑے گئے ،لوگوں نے پیسے جمع کئے کہ اپنے بندے چھڑالیں لیکن پیسے جمع نہ ہوسکے ۔ایک عورت اٹھی اس نے کہا میں نبی اکرم ﷺ کے پاس جاتی ہوں وہ عورت نبی اکرمﷺ کے خیمے کے پاس گئی اورصحابہ اکرام ؓسے کہا کہ میں تمہارے نبیﷺ کی بہن ہوں ۔صحابہ نے نبی اکرم ﷺ کو اطلاع دی ۔نبی اکرم ﷺ نے اپنے پاس بلالیااور پوچھا تم کس قبیلے کی ہو اور تمہارا نام کیا ہے ،اس عورت نے کہا کہ میں بنو سعد سے ہوں اوراپنے قیدیوں کو چھڑانے آئی ہوں،میں آپ کی بہن ہوں ،نبی اکرمﷺ نے پوچھا کہ تم میری بہن کیسے ہوگئی ،

انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ میرے ہی گھر میں پلے ہیں۔جب آپ چھوٹے تھے تو میں ہی آپ کا خیال رکھا کرتی تھی،اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا کہ اس کی کوئی نشانی ہے تو ،انہوں نے بتایا کہ آپﷺ نے ایک مرتبہ مجھے کاٹا تھا اور وہ کاٹے کا نشان دکھایا،تو آپ ﷺ بہت روئے اور اپنی چادر مبارک بچھائی اور کہا کہ آج جو شیما کہے گی ویسا ہی ہوگا اور بغیر کسی معاوضے کے تمام قیدی رہا کردیئے۔یہ تو ایک اعتدال کا معاملہ ہے بحث ومباحثے کا نہیں ہے۔عورت کااصل کام اولاد کی تربیت ہے ،مرد تو دن بھر اپنے روزگار کیلئے گھر سے باہر رہتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔