تعمیراتی صنعت:جدت کی متقاضی،یورپ سے سیکھیں

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سید ماجد حسین بمقام:سرسید یونیورسٹی آڈیٹوریم لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:آفتاب کھوکھر(آسٹریا میں پاکستانی سفیر) فلیمر احمتی(آسٹریا کے آرکیٹکٹ)بذریعہ ویڈیولنک فرحان قیصر(سینئر ڈائریکٹر ایس بی سی اے ) پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین (وی سی سرسید یونیورسٹی برائے انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) پروفیسر ڈاکٹر شبر علی (ڈین فیکلٹی آف سول انجینئرنگ اینڈ آرکیٹکٹ)

کئی ممالک کراچی جتنی آبادی والے ہیں ،حکومت تعمیراتی صنعت کو اہمیت دیتی ہے:   سفیر پاکستان 

آسٹریا کی تعمیراتی صنعت میں بہت مواقع ہیں،لیکن معیار پر سمجھوتہ نہیں کیاجاتا:  آسٹرین آرکیٹکٹ

آبادی کے لحاظ سے یورپ کو افقی اور ہمیں عمودی عمارتوں کی ضرورت ہے:   سینئرڈائریکٹر ایس بی سی اے

2019ء کے بعد2سال کے دوران تعمیراتی صنعت میں تیزی آئی:  وائس چانسلر سرسید یونیورسٹی

 

 

 

اس مرتبہ دنیا فورم کا موضوع غیرمعمولی سنجیدہ اور قابل توجہ تھا،دو براعظموں کی تعمیراتی صنعت کا احاطہ کرنے کی جسارت کی گئی تھی،سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے بھرپور تعاون کیا ،آسٹریا سے پاکستانی سفیر آفتاب کھوکھر اور مقامی آرکیٹکٹ فلیمر احمتی بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئے جبکہ کراچی سے سندھ بلڈ نگ کنٹرول اتھارٹی کے سینئر ڈائریکٹر فرحان قیصر اور وائس چانسلر سرسید یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے دنیا فورم میں اپنے خیالات کا اظہارکیا،سول انجینئرنگ اینڈ آرکیٹکٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر میر شبر علی نے مشترکہ میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔انہوں نے کہا کہ یہ نہایت اہم موقع ہے کہ جب بین الاقوامی سطح پر انجینئرز کو سننے کا موقع مل رہا ہے ،یقیناً اس سے ہمارے طلباء کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

دنیا فورم میں کوشش کی گئی کہ ایک ترقی یافتہ ملک کی تعمیراتی صنعت میں قوانین ،اصول اور ضوابط کا موازنہ پاکستان کی تعمیراتی صنعت سے کیاجائے ،یہ سمجھا جائے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کو اپنا کر ہم بھی میٹروپولیٹن شہر کراچی کو دنیا کے جدید شہروں میں شامل کرسکتے ہیں۔یقیناً اس دنیا فورم سے سول انجینئراور آرکیٹکچر کے طلباء کو بہت فائدہ ہوگا۔میں یہاں خاص شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ہمارے سفیر پاکستان آفتاب کھوکھر صاحب کا ،جنہوں نے ہر مرتبہ ہمارے موضوعات کو اہمیت دی اور وقت نکالا۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ

مصطفیٰ حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم ،دنیا اخبار کراچی)

برائے رابطہ :  0923444473215

ای میل :   mustafa.habib@dunya.com.pk

 

دنیا:تعمیراتی صنعت کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟

وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر ولی الدین : یہ ہمارے لئے اعزاز ہے کہ تعمیراتی صنعت کے حوالے سے اتنا اہم دنیا فورم یہاں منعقد ہو ا۔موجودہ حکومت تعمیراتی صنعت کی ترقی کیلئے بہت اقدامات کررہی ہیں۔2019ء کے مقابلے میں گز بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ جنوری2007ء میں یورپ میں قانون بنایاگیا کہ ہر عمارت کی تعمیر سے پہلے انرجی سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہوگا۔یہ انرجی سرٹیفکیٹ بہت ہی اہم کاغذ ہے۔مثال کے طور پر ایک گھر بناتے وقت انرجی سر ٹیفکیٹ لیاجاتا ہے کہ اس عمارت کو کتنی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیزائنراس کی ضرورت کے مطابق ہی عمارت کا نقشہ بنائے گا۔ آپ ایک خوبصورت عمارت کا ڈیزائن بنالیں لیکن اس مکان کی ضرورت کے مطابق انرجی سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا توانتظامیہ ا س کی تعمیر کی اجازت نہیں دے گی۔

دنیا:انرجی سرٹیفکیٹ کس کیلئے اہم ہوتا ہے؟

فلیمر احمتی :انرجی سر ٹیفکیٹ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کیلئے ضروری ہے۔آسڑیا میں لائسنس کے بغیر کوئی آرکیٹکٹ کام نہیں کرسکتا۔ایک لائسنس حاصل کرنے کے لئے4ہزار گھنٹے جو 2سال بنتے ہیں کاتجربہ ضروری ہے۔ عمارت کی تعمیر سے پہلے یہ اندازہ لگایاجاتا ہے کہ یہ عمارت کتنے افراد کی ضرورت پوری کریگا،نکاسی آب کی تفصیلات وغیرہ سب فراہم کرنی ہوتی ہے یہ کام سول انجینئر کاہوتا ہے۔جب ہرعمل تسلی بخش ہوجاتا ہے تو بلڈنگ سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔

طالب علم :آسٹریا میں کیا کوئی بھی آرکیٹکٹ لائسنس حاصل کرسکتا ہے؟

فلیمر احمتی : آسٹریا میں بہت سخت قوانین ہیں ،ایک چھوٹا سا مکان بھی بناتے وقت ان قوانین پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔آسٹریا میں 9بلڈنگ کوڈز ہیں۔ہر آرکیٹکٹ کو لائسنس نہیں ملتا ۔ہر ریاست میں بلٖڈنگ کوڈز مختلف ہیں تاہم اصول ہر جگہ ایک ہی لاگو ہوتے ہیں۔یہاں بلڈنگ کوڈزسے ہی مکان کا معلوم ہوتاہے۔ہر آرکیٹیک کو مختلف ریاست میں کام کیلئے الگ لائسنس درکا ہوتا ہے ۔

طالب علم :آسٹریا میں حکومت کو کن کاغذات کی ضرورت ہوتی جن کے بعد مکان بنانے کی جازت ملتی ہے؟

فلیمر احمتی : مکان بناتے وقت حکومتی اداروں کو نکاسی آب کے کاغذات سمیت دیگر بھی اہم کاغذات فراہم کرنے ہوتے ہیں۔جرمنی ،سوئٹزر لینڈ ہر ملک میں باقاعدہ طے شدہ منصوبے کے تحت ہی تعمیر ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ایک گاڑی اور اسمارٹ فون کے ڈیزائن میں کیافرق ہوتا ہے یہ ایسے ہی جیسے کار ایک کئی منزلہ عمارت ہے جبکہ آئی فون سنگل مکان ہے ۔گاڑی چونکہ بڑی ہے اس لئے اس کو مزید سخت اصولوں کے مطابق بنایاجاتا ہے جبکہ آئی فون ایک سنگل مکان کی طرح ہے ۔

احمد حسین(سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ):آسٹریا میں عمارت کی تعمیر کیلئے اجازت کیسے ملتی ہے؟

فلیمر احمتی:یہاں مختلف ریاستوں میں مختلف طریقے رائج ہیں،کہیں بہت سخت ہیں کہیں کچھ نرم ہیں لیکن اصول یکساں ہیں۔بلڈنگ ڈیزائن ،انرجی سر ٹیفکیٹ اورپر ی اسٹیسٹک درکار ہوتے ہیں۔سول انجینئر یہ بتاتا ہے کہ یہ عمارت کتنے لوگوں اور کتنی مدت کیلئے کارآمد ہوگی۔

فرحان قیصر : دونوں ممالک میں بہت فرق ہے۔ وہاں کی آبادی،موسم ،طرز زندگی سب مختلف ہے۔ آسٹریا کے پاس رقبہ زیادہ ہے جبکہ آبادی کم ہے جبکہ ہمارے کراچی میں آبادی بہت ہے۔پاکستان میں لائسنس یافتہ آرکیٹکٹ کے ذریعے ہی نقشہ جمع کرایا جا سکتا ہے ۔جس کے بعدمنظور شدہ سول انجینئرز کے دستخط ہوتے ہیں۔

فلیمر احمتی:ویانا میں50سال پرانی عمارتیں بھی ہیں۔یہ معاشی حب بھی ہے۔یہاں بہت سے بلڈنگ ڈپارٹمٹس ہیں ۔قانون میں سخت پابندیوں کی وجہ سے بھی مکانات کی یکسانیت مختلف ہے۔

طالب علم :جدید دنیا توانائی کی بچت وغیرہ کو اہمیت دیتی ہے لیکن مکان کی خوبصورتی Esthetics کو نہیں دی جاتی؟

فرحان قیصر:یہ ایک اچھا سوال ہے کراچی میٹروپولیٹن شہر ہے ۔ہمارے ہاں 8سے9ماہ تک سورج رہتا ہے،اس لیے ہمیں عمودی عمارت کی ضرورت ہے۔مکان کی خوبصورتی کیلئے ضروری ہے کہ وہاں کے رہائشی اسے خوبصورت رکھیں ۔ اس کے رنگ وروغن کا خیال رکھیں۔کپڑے باہر نہ سکھائیں۔سیوریج کا نظام بہتر بنائیں ۔ مینٹیننس سوسائٹی اپنا کام کرے۔کراچی کے موسم اور ماحول کی وجہ سے اگر عمارت کا خیال نہ رکھاگیا تو وہ 40، 45 سال میں ختم ہوجاتی ہے اگر خیال رکھا جائے تو 60، 65سال تک چلتی ہیں۔

طالب علم :آسٹریا میں کس طرح کام شروع کیاجاسکتا ہے؟ 

فلیمر احمتی:سول انجینئر،الیکٹرک یا آرکیٹکٹ ، آسٹریا میں سب کو ایک ٹیسٹ سے گزرنا ہوتا ہے جبکہ طے شدہ گھنٹے کام کا تجربہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ممبر شپ کیلئے ایک فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔

عثمان ملک(سول انجینئر): ایک کامیاب سول انجینئر کیلئے کیا ضروری ہے جبکہ دوسرا سوال ہے کہ آسٹریا اور ڈنمارک وغیرہ میں سول انجینئرز کیلئے تعمیراتی صنعت میں کتنے مواقع ہیں؟

فلیمر احمتی:کامیاب انجینئر اور آرکیٹکٹ کیلئے اپنے شعبے سے مخلص ہونا ،عہد کا پابند اور معیاری کام ضروری ہے۔آسٹریا کی تعمیراتی صنعت میں سول انجینئر،آرکیٹکٹ سب کے لئے مواقع ہیں،لیکن اہم یہ ہے کام کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد باصلاحیت ہوں۔ سول انجینئر جانتا ہو کہ عمارت کی تعمیر کیلئے رقم کب اور کہاں سے ملے گی۔ تعمیراتی صنعت سے وابستہ تمام ہی شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے آپ کے تعلقات اچھے ہوں تاکہ کسی بھی چیزکی ضرورت کے وقت کوئی مشکل نہ ہو۔

فرحان قیصر:تعمیراتی صنعت کے قیام کیلئے بہت رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔میرا مشورہ ہے کہ پہلے کہیں انٹرن شپ کریں ۔ تجربہ حاصل کریں ۔ ماہر تعمیرات کے ساتھ کام کریں۔یہ بہت بڑ ی دنیا ہے یہاں بہت مواقع ہیں۔آپ کو اپنے لئے بہترین مواقع تلاش کرنے ہیں۔

ڈاکٹرشبر علی:ایک نیاکاروبار شروع کرنے کیلئے آپ کو مستقل مزاج ہونا ضروری ہے۔مستقل مزاجی سے ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

فریحہ( طالبہ شعبہ آرکیٹکٹ):کراچی میں بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے ،بھیڑ بھی بہت ہوتی ہے ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منصوبہ بندی کیوں نہیں کر تی؟

فرحان قیصر: کراچی میں ری سائیکلنگ کے پراجیکٹس پر کام ہورہا ہے ۔گھروں کی چھتوں پر گارڈن بنائیں گے،استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرکے گارڈن وغیرہ میں استعمال کیاجائے گا۔اسی طرح صاف پانی بھی بہت ضائع ہوتا ہے اسے بھی محفوظ بنانے کے لئے کام کررہے ہیں۔

فلیمر احمتی:میرا خیال ہے کہ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ اس میں ماہرین کی ضرورت کو اجاگرکیاگیا ہے۔کسی بھی شہر میں ماہر آرکیٹکٹ ہی شہر کو کامیاب اور خوبصورت بناتا ہے۔نکاسی آب کا بہترین نظام ماحول بھی بہتر بناتا ہے اور مکان کی زندگی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔میرا خیال ہے اس سوال میں ماہر آرکیٹکٹ کی ڈیمانڈ ہے۔مثال کے طور پر سوفٹ ویئر اور ہارڈ ویئر۔۔۔آرکیٹکٹ سوفٹ ویر ہے اور اسے ہارڈ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے ۔بجلی ،پانی اور نکاسی آب کا نظام بنانا ہارڈ ویئر ہے۔کسی بھی مکان میں اچھا ہارڈ ورک ہوگا تو وہ زیادہ کامیاب ہوگی۔

رضوان حسین(طالب علم):آسٹریا میں انڈر پاسز کے اندر نکاسی آب کا نظام کیسے بناتے ہیں؟

فلیمر احمتی:آسٹریاکے قانون میں کوئی بھی پانی کے حوالے سے بہت سخت قانون ہے۔صرف آسٹریا ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے نکاسی آب سمیت دیگر پانی کے اخراج کیلئے پورا نظام بنانا ضروری ہے۔

شبر علی:آفتاب کھوکھر صاحب سے ایک سوال ہے کہ ہمارے سول انجینئرز کیلئے آسٹریا یا یورپ میں کیا مواقع ہیں؟

آفتاب کھوکھر: آسٹریا میں بہت اچھی تعلیم او رسستی بھی ہے جبکہ سول انجینئرز کا شعبہ پاکستان میں بھی بہت کامیا ب ہے ۔طلباء یہاں ضرورر آئیں تعلیم حاصل کریں،لیکن یہاں گریجویٹ تک جرمن زبان میں تعلیم لینی ہوگی جبکہ ماسٹرز کی سطح پر انگریزی میں تعلیم ہوتی ہے۔یہاں جدید تعلیم حاصل کرکے پاکستان جائیں اور اپنے ملک میں کام کریں۔

طالبہ:آسٹریا میں عمارت کی مضبوطی اور قائم رہنے کیلئے کیا میٹریل استعمال کرتے ہیں؟

فلیمر احمتی:آسٹریا میں عمارت کی تعمیر میں عموماً کنکریٹ کالمز اور اسٹیل استعمال کرتے ہیں۔آگ سے محفوظ رکھنے والے سامان کو استعمال کیاجاتا ہے،اینٹیں کنکریٹ کی ہوتی ہیں۔50سال اور کچھ عمارتیں80سال تک کے اندازے کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔

فرحان قیصرـ:ہمارا اور یورپ کی ثقافت میں زمین آسمان کا فرق ہے،شہر صرف عمارتوں سے نہیں رکشے،گاڑی اور فیکٹری آلودگی سے بھی ہوتا ہے،ہم بہت محنت کررہے ہیں۔ہماری ویب سائٹس وزٹ کریں۔ہمارے ہاں نکاسی آب کا کوئی نظام ہی نہیں ،ہم سمندر میں گندہ پانی ڈالتے ہیں۔

طالب علم :کوئی مکان یا زمین خریدتے وقت یہ تسلی کیسے کریں کہ وہ قانونی ہے؟

فرحان قیصر:جب بھی کوئی جگہ ،دکان ،مکان ،فیکٹری کچھ بھی خریدیں پہلے ایس بی سی اے سے معلوم کرلیں کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں۔اگر محلے میں آپ کے آس پڑوس میں کوئی ناجائز عمارت بن رہی ہے تو ہمیں شکایت کریں۔ اب آپ کے پاس وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے نہایت خفیہ طریقے سے ہمیں بتاسکتے ہیں۔آپ پر نام بھی نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ یاد رکھیں کہ ہم کسی بھی عمارت میں تعمیر کی اجازت دیتے ہیں تو اس کی مکمل تفصیل ایس بی سی اے کی ویب سائٹ پر ہوتی ہے ۔ وہاں چیک کیاکریں۔

طالب علم: یورپ اور آسٹریا میں افقی تعمیرات کیوں ہوتی ہیں عمودی کیوں نہیں ہوتیں؟

فلیمر احمتی :(اسکرین پر نقشے کی مدد سے سمجھاتے ہوئے )آسٹریا میں بلڈنگ کوڈز کے مطابق عمارتوں کے درمیان زمینی فاصلہ،عمارتوں کی اونچائی اور عمارتوں کے شہتیر (Purlins)کے زاویوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ تمام مکینوں کو ہوا اور قدرتی روشنی بہترین طریقے سے مل سکے۔یورپ اور آسٹریا میں آبادی کا تناسب کم اور رقبہ زیادہ ہے اس لئے افقی تعمیرات کوئی مسئلہ نہیں۔

دنیا :یورپ میں افقی عمارتیں بنتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں عمودی کیوں بنتی ہیں؟

سینئر ڈائریکٹر ایس بی سی اے فرحان قیصر :ہماراادارہ 1975 میں وجود میں آیا۔ادارہ 2 حصوں کے ڈی اے اور ایک کے ایم سی میں تقسیم ہوگیا۔ہم پر بہت سارے الزامات لگے،جبکہ ہمارے پاس34فیصد ہی شہر کا حصہ تھا۔64فیصد نہیں تھا۔اس شہر نے ہر کسی کی مہمان نوازی کی لیکن افسوس کے اس شہر کو کسی نے اپنانہیں سمجھا۔تعمیراتی صنعت سے70 دیگر صنعتیں بھی منسلک ہوتی ہیں۔مزدور،پلمبر،کارپینٹر سیمنٹ وغیرہ۔یورپ یا آسٹریا سے ہمارا مقابلہ نہ کیاجائے،وہاں کی آبادی ہماری آبادی میں فرق ہے۔وہاں افقی عمارتیں بن سکتی اور ضرورتیں پوری کرسکتی ہیں،ہمیں اونچی عمارتوں کی ضرورت ہے ۔ آباد(ایسوی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ) کا ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے ۔آباد کئی پراجیکٹس پر کام کررہا ہے جس کا مقصد شہر کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ معیاری تعمیر بھی فراہم کرنا ہے۔

جب معیار کی با ت کی جاتی ہے تو کچھ کام رہائشیوں کا بھی ہوتا ہے،آپ مرسڈیز گاڑی لے لیں اور اسی میں کھائیں پیئں ،گندگی کریں اور خیال نہ رکھیں تو اس کا کیا حال ہوگا۔ہر عمارت دیکھ بھال چاہتی ہے۔اب مختلف ادارے سوسائٹیز اور پراجیکٹس کی دیکھ بھال کیلئے کام کرتے ہیں۔ ایس بی سی اے کی ویب سائٹس پر بہت معلومات ہیں۔اگر کوئی آپ کے برابر میں کئی منزلہ عمارت بنارہا ہے تو آپ اس کی شکایت کرسکتے ہیں اور اب تو بہت سے ذرائع ہیں۔ایس بی سی اے میں تعلیم یافتہ آرکی ٹیکٹس اور انجینئر ز کام کرتے ہیں۔

 تعارف :فلیمر احمتی

فلیمر احمتیFlamur Ahmet آرکیٹکچر اور بلڈنگ ڈیزائن میں 25سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ویانا کے ملینیم ٹاور میں گستاو پیچل جیسے عالمی معیار کے معماروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ دنیا کی معروف اور بڑی عمارتوں کے تعمیراتی منصوبوں اور ڈیزائن میں حصہ لیا۔مثال کے طور پر ٹورنٹو میں ایڈیلیڈ ہوٹل، 70 منزلہ عمارت، عدالتیں، ہسپتال، اسکول، عوامی عمارتیں وغیرہ میں کام کیا۔ فلیمر احمتی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں رہائشی مکانات کے لیے توانائی سے بھرپور عمارت کے ڈیزائن بنارہے ہیں۔

فلامور نے پرشتینا یونیورسٹی، فیکلٹی آف سول انجینئرنگ اینڈ آرکیٹیکچر میں فن تعمیر کی تعلیم حاصل کی اور ویانا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں بلڈنگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا ہے ۔ انہیں پیشہ ورانہ تعمیراتی کامیابیوں پر بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔