نیا بلدیاتی ترمیمی بل2021:شہر قائد میں نئی جنگ کا آغاز؟

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سید محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:اسامہ رضی، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی۔ارشد وہرہ، وائس چیئرمین پاک سرزمین پارٹی اورسابق ڈپٹی میئر کراچی۔نیر رضا ، سینئر رہنما متحدہ اورسابق چیئرمین ڈسٹرکٹ کورنگی۔نادر گبول ، صدر پاکستان پیپلزپارٹی یوتھ ونگ سندھ ۔طلبہ وطالبات اور اساتذہ کی کثیر تعداد

 شہری حکومت حق ہے خیرات نہیں مانگتے، سندھ حکومت نے شہری اداروں پر قبضہ کرلیا:    اسامہ رضی

آرڈیننس سے کے ایم سی ،کے ایم ڈی سی ،واٹر بورڈ،سندھ حکومت کے ماتحت ہوگئے:   ارشد وہرہ

 جب تک اختیارات عوامی نمائندوں کونہیں ملیں گے علاقوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے:  نیر رضا

ذہن کھول کر دیکھیں شہر میں ترقی نظر آئے گی،لیاری میں بہت کام ہورہا ہے:  نادر گبول

 

 موضوع: ’’ نیا بلدیاتی ترمیمی بل ۔۔فوائدو نقصانات ‘‘

 

 

کراچی میں بلدیاتی ترمیمی بل 2021ء نے نئی جنگ چھیڑ دی ہے،شہر قائد جو پہلے سے ہی ترسا ہوا اور محرومیوں سے دوچار تھا اب مزید مایوسی کا شکار ہورہا ہے۔شہری حکومت ہر شہر کا حق ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بلدیاتی حکومتوں کا قیام جمہوری حکومتوں نے کم ہی پسند کیا ہے،شہر قائد کیلئے پرویز مشرف کا دیاگیا بلدیاتی نظام نہایت بہتر ثابت ہوا اور شہر کو ترقی کرتے دیکھاگیا لیکن پھر 2013ء میں کچھ اختیارات سندھ حکومت کے پاس گئے اور اب 2021 ء میں بچے کچے اختیارات بھی لے لیے گئے۔سوال یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں بااختیار مقامی حکومت کیوں برداشت نہیں کرتیں؟خیر ہمارا موضوع نیابلدیاتی بل تھا اور ہم نے مختلف سیاسی جماعتوں کو بلاکر محمد علی جناح یونیورسٹی میں دنیا فورم سجایا جس کا مقصد نوجوانوں کے سامنے سنجیدہ گفتگو کے ذریعے اس مسئلے کا حل سمجھنے کی کوشش کرنا تھا،

دنیا فورم میں نوجوانوں کو بھی سوالات کا موقع فراہم کیاگیا۔ ہم عام میڈیا سے زرا مختلف ہوکر دنیا فورم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں صحت مندانہ بحث بھی ہو اور مقتدر حلقوں کو اچھی تجاویز بھی مل سکیں جبکہ عوام بھی اپنی رائے قائم کرنے میں آسانی محسوس کریں،امید ہے کہ اس دنیا فورم میں ہونے والی گفتگو کی رپورٹ بلدیاتی بل کے حوالے سے عوام کیلئے سود مند ہوگی۔آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

مصطفیٰ حبیب صدیقی (ایڈیٹر فورم )

برائے رابطہ:

 0092-3444473215

0092-3212699629 

ای میل : 

mustafa.habib@dunya.com.pk  

 

دنیا:بلدیاتی آرڈیننس کے بارے میں آئین کا کہتا ہے ؟

ارشد وہرہ (پاک سرزمین پارٹی) : دنیا فورم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے یونیورسٹی میں فورم کیا اس سے طلباء کو بھی آگہی ہوگی اور کیوں نہ ہو مستقبل میں ان بچوں نے ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔اس مسئلے کا براہ راست واسطہ عوا م سے ہے اس لیے سب کو آگہی ہونی چاہیے۔پاکستان کا آئین کے آرٹیکل 7اے ،32اور 140 اے کا تعلق مقامی اداروں سے ہے۔ملک حکمرانوں نہیں عوام کی فلاح بہبود کیلئے چلتے ہیں۔آئین بتاتاہے عوام کے بنیادی حقوق کا کس طرح خیال رکھتے ہوئے ملک چلانا ہے۔ آئین میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے مکمل تفصیل تھی جس میں تبدیلیاں کردی گئیں ۔آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ میں 56فیصد ریونیو صوبوں کو د یاجائے گایہ فنڈصوبائی فنانس کمیشن کے تحت تقسیم کیا جاتاہے۔آئین کہتا ہے صوبائی فنانس کمیشن یہ فنڈ تقسیم کرے جس کا فائدہ مقامی حکومت کو ہونا چاہیے جو نہیں ہورہا۔13سال سے ایوارڈ کی رقم آرہی ہے۔

سوال یہ ہے فنڈ جاکہاں رہا ہے؟جب سے این ایف سی بنا ہے اس کا فنڈ ابھی تک نہیں ملا۔2013ء میں بلدیاتی آرڈیننس میں تبدیلی کرتے ہوئے مختلف ادارے میئر کے اختیار سے لے لیے گئے جس کے بعدشہر کابراحال ہوگیا۔2001ء کے بلدیاتی آرڈینس میں سارے ادارے میئر کے ماتحت تھے۔لندن میں پولیس مقامی حکومت کے ماتحت آتی ہے جس کا نام بھی لند ن میٹروپولیٹن پولیس ہے۔نئے بلدیاتی آرڈیننس کے تحت کے ایم سی ،کے ایم ڈی سی ،واٹر بورڈ اورکئی اسپتال اور ادارے مقامی حکومت نہیں سندھ حکومت کے ماتحت آگئے ۔

جس طر ح تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم موجود ہے،خدشہ ہے کراچی میونسپل کارپوریشن ،کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ،کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے علا وہ کئی میڈیکل اور انسٹی ٹیوشنز میں بھی کوٹہ سسٹم کے تحت ملازمتیں دے دی جائیں گی، دنیا میں تعلیم دی جاتی ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں فروخت کی جاتی ہے۔

 اسامہ رضی( جماعت اسلامی ) :دنیا اخبار کا مشکور ہوں جنہوں نے ایسے ایشو پر فورم کیا جو آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ دے گا۔ براہ راست طلبا ء سے گفتگو بہت مفید ثابت ہوگی ۔ آئین ایسی دستاویز ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ملک اور ریاستوں کی بالا دستی قائم رہتی ہے ۔ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز نچلی سطح پر عوام کو اختیارات کی تقسیم ہے ۔کوئی بھی ملک آج کی جدید دنیا میں بھی آئینی اعتبار سے 3 سطحوں پر چلتاہے وفاقی ،صوبائی اور بڑے شہروں کی حکومتیں جسے بااختیار شہر ی حکومتیں کہتے ہیں۔وفاق کے پاس چند شعبے ہوتے ہیں۔پورے ملک کا مطالبہ تھا صوبوں کو خودمختاری دی جائے۔آئین کہتاہے اختیارات نچلی سطح پر عوام کو ملنے چاہییں ۔دنیا فورم کے توسط سے صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ اختیارات مقامی حکومت کو دیئے جائیں ۔اختیارات اپنی مرضی سے دینے کا نام نہیں یہ 3کروڑ عوام کا بنیادی حق ہے جو ان کو ملناچاہیے اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اسی سے شہروں کا نظام چلتاہے۔مسئلہ یہ ہے کراچی کیوں چیخ رہا ہے ؟

ماضی کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے شہر میں ایک مخصوص جاگیردار طبقہ حکمرانی کررہاہے۔سندھ بنیادی طور دوحصوں دیہی اور شہر ی میں تقسیم ہے ۔ ملک کے جمہور پر دیہی علاقے زیادہ ہیں جہاں جاگیرداروں کی آمریت قائم ہے وہاں عوام کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی نہیں ہے۔بدقسمتی سے ملک میں جمہوریت کے نام پر سول ڈکٹیٹر شپ قائم ہوجاتی ہے۔ سندھ حکومت اپنی مرضی سے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ایسا بلدیاتی نظام لانا چاہتی ہے جس کا مقصد شہری اداروں پر قبضہ کرنا ہے جس کے خلاف شہری اداروں پر قبضہ نامنظور،جاگیرداروں کی اجارہ داری نہ منظور کی تحریک بھی چلارہے ہیں۔ بد قسمتی سے ملک میں بااختیار شہری حکومتیں قائم نہیں کی گئیں،شہری حکومت کو سب سے زیادہ اختیارات مشرف کے دور میں دیئے گئے جسے سٹی گورنمنٹ کا نا م دیا گیا۔

اس حکومت میں نعمت اللہ خان سٹی ناظم منتخب ہوئے جو ایماندار تھے انہوں نے عوام کا ایک روپیہ اپنی جیب میں نہیں ڈالا اور کراچی میں غیر معمولی ترقیوں کا جال بچھا دیا ۔ یہ سارے اختیارات ایک ڈکٹیٹر نے نعمت اللہ خان کو دیئے ۔ا سکے بعد سول ڈکٹیٹر شپ آئی جو فوجی ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ خطرنا ک تھی جس نے شہری حکومت سے اختیارات چھین لیے۔

2013ء کا بلدیاتی ایکٹ ایم کیوا یم اور پیپلز پارٹی نے مشترکہ طورپر صوبائی اسمبلی میں منظورکیا جس کے بعد سندھ حکومت نے شہری حکومت کے سارے اختیارات چھین کر اپنے قبضے میں لے لئے جس سے ترقی کرتا شہر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔کراچی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا شہر ہے جو دنیا کے پانچ بڑے میگا سٹی میں شمار ہوتاہے،ساری دنیا میں میگاسٹی کا بہت بااختیار شہری نظام ہوتا ہے، پولیس سمیت تمام شہری ادارے ان کے ماتحت ہوتے ہیں جس سے عوام کو سہولتیں ملتی ہیں اور ملک ترقی کرتاہے ،حکمرانی صرف عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ 

نیر رضا ایم کیوایم :پیپلز پارٹی نے2013ء میں بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے شہری حکومت کے تمام اختیارات ختم کردیئے۔18ٹاؤن ختم کرکے 6ڈسٹرکٹ اورایک ڈسٹرکٹ کونسل بنادی ۔ جس سے عوام کے بنیادی مسائل حل نہ ہونے سے پریشانیاں ہوئیں۔بلدیاتی حکومت میں پانی ،سیوریج ،سڑکیں ،بجلی، اسکولز،اسپتال میں مسائل حل کرنے کے اختیارات بلدیاتی حکومت کے پاس ہوتے ہیں جو بد قسمتی سے ان کے پاس نہیں رہے۔لاہور میں ترقی کی وجہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی ہے ۔ عوام کے بنیادی حقوق مقامی حکومت کے تحت ہی حل ہوتے ہیں۔پیپلزپارٹی کی حکومت اختیارات عوامی نمائندوں کو نہیں دے رہی جس سے مسائل حل نہیں گھبیر ہورہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے 2013 میں ایک اور تبدیلی کی اور اسکولز اور کچھ اسپتال بھی سندھ حکومت نے اپنے اختیار میں لے لئے جو شہری حکومت کے پاس تھے۔اس وقت اختیارات چیف سیکریٹری ، چیف منسٹر، صوبائی منسٹر، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کے پاس ہیں جس دن یہ لوگ کراچی اور کراچی کی شہری حکومت کو دیں گے شہرمیں بنیادی مسائل حل اور کراچی ترقی کرے گا۔ ڈیڑھ سال سے پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کے پاس تو بہت اختیارا ت ہیں ،ان کی حکومت ہے،تمام اضلاع میں ان کے ایڈمنسٹریٹر لگے ہوئے ہیں،کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ایڈمنسٹریٹر بھی موجود ہے،کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر بھی ہیں ،ان کے پاس بہت بڑی ٹیم ہے سب اختیارات ہونے کے بعد کیا آ ج کراچی میں کچرا اٹھالیا گیا؟،

سیوریج کے مسا ئل حل ہوگئے؟،پانی گھروں میں آرہا ہے؟ ، گلیوں اور سڑکوں کے روڈ بن گئے ؟ ، اسکولز اور کالج اچھے ہوگئے؟۔2013 کے بلدیاتی ایکٹ کا پیپلز پارٹی نے جو حشر کیا و ہ سب کے سامنے ہے۔ صوبائی حکومت نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جب تک اختیارات عوامی نمائندوں کونہیں ملیں گے علاقوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت بلدیاتی نظام میں کسی کے پاس اختیارات نہیں ۔کے ایم سی ،کے ڈی اے ،ایس بی سی اے،ایم ڈی اے،واٹر بورڈ اورماسٹر پلان سندھ حکومت ان اداروں کے اختیارا ت میئر کو دیگی تب ہی مسائل حل ہوگے۔آئین کے تحت تما م ادارے اور مالی معاملات مقامی حکومت کے ماتحت ہیں ۔ا س کی تشریح صرف سپریم کورٹ کرسکتی ہے سندھ حکومت نہیں ۔

 نادر گبول پیپلز پارٹی یوتھ ونگ سندھ: جب سے پیدا ہوا یہی سنتا آرہا ہوں اختیارات نہیں ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے پہلی مرتبہ کوشش کی ہے لوکل باڈیز سسٹم کے ذریعے نچلی سطح سے مسائل حل کیئے جائیں ۔ہمیں کسی انفرادی یا میئر کو بااختیار نہیں بلکہ سسٹم کو بااختیار کرنا ہے،اس کو بااختیار کرنے کا سب سے پہلا طر یقہ ریونیو پیدا کرنے کا اختیار سسٹم کو د ینا ہوگا۔کسی بھی بڑے شہر میں میٹروپولیٹن پولیس میئر کے ماتحت ہوتی ہے بہت اچھی بات ہے ہم نے بلدیاتی نظام میں وہی تجاویز دی ہیں،سابقہ میئر وسیم اختر بھی کہتے ر ہے ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں ،کام کرنے کیلئے فنڈز نہیں ہیں حالانکہ ان کو بھی سالانہ 26ارب روپے دیئے جاتے تھے وہ کہاں جاتے رہے ۔ ان کا بھی حساب دیں؟۔

حکومت نے ہیلتھ اور ایجوکیشن کو اپنے ہاتھ میں اس لیے لیا کہ ان سیکٹر زکو بہت توجہ اور فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آگے جانا ہے ان چیزوں کو بہتر کرنے کیلئے فیصلے کیئے جارہے ہیں،بلدیاتی آرڈیننس میں تبدیلی حتمی نہیں ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں سے مل کر بات کرنے کا کہہ رہے ہیں۔بدقسمتی سے اپوزیشن کے منفی رویہ کی وجہ سے بات کرنے میں مشکلات ہورہی ہیں،ایم کیوایم نے کہا تھا میئر کا انتخاب شو آف ہینڈ ہونا چاہیے شروع میں عمل نہیں ہوا بعد میں ان کی بات مان لی ۔ہمارارویہ مثبت ہے اپوزیشن بھی مثبت رویہ اختیارکرے تاکہ لوکل گورنمنٹ سسٹم بااختیار ہوجائے اور شہر ترقی کرے ۔حکومت چاہتی ہے لوکل گورنمٹ سسٹم کو بااختیار بنا یا جائے۔مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر بنے ڈیڑھ سال نہیں 5,6ماہ ہوئے ہیں،اور یہ جاگیردار بھی نہیں، جاگیر دار ہونا کوئی بری بات نہیں ہے،سوچ پر رائے دی جاسکتی ہے۔

دنیا: سندھ حکومت کو میئر کے اختیارات لینے کی ضرورت کیوں ہوئی ، کیا وجوہات ہیں؟

نادر گبول :سندھ حکومت جن محکموں کی ذمہ داری اٹھارہی ہے جیسے ہیلتھ اور ایجوکیشن ہے ان محکموں میں فنڈز کی بہت زیادہ ضرور ت ہوتی ہے ،مقامی حکومت فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان محکموں میں وہ کام نہ کرسکی جس کی اشد ضرورت ہے ،حکومت سندھ چاہتی ہے ان کو فنڈز دیئے جائیں تاکہ یہ بہتر کارکردگی دکھائیں، پہلے این آئی سی وی ڈی صرف شہر میں تھا اب اس کا نیٹ ورک پورے سندھ میں پھیلا دیاہے، ایڈیٹر فورم نے کہا پیپلز پارٹی کئی دہائیوں سے حکومت میں ہے اگر چاہتی تو ایسے کئی اسپتال جدید سہولتوں کے ساتھ بنا سکتی تھی جو نہیں بنائے گئے ،نادر گبول نے کہا موقع ملتا رہے گا توبناتے رہیں گے،مقامی حکومت کو فنڈ فراہم کرنے کیلئے اداروں کو اپنے ماتحت لے رہے ہیں۔

ارشد وہرہ پی ایس پی :تحریک انصاف کی حکومت نے 15,20روز پہلے 31بلز منظور کیئے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ بھی کیا تھا،اتحادی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی، مقامی حکومت کے حوالے سے آرٹیکل 140 اے جو صرف چار لائن کا ہے،میرا سوال ہے اتحادی جماعت ایم کیوایم اس آرٹیکل پر بات کرتے ہوئے اس کوصحیح نہیں کراسکتی تھی ؟جب 31بلز آسکتے ہیں تو 32واں بھی منظور ہوسکتا تھا ،جہاں اتنا ہوا ایک بل اور منظور ہوجاتا تو یہ جھگڑا ہی ختم ہوجاتا،جو آتا ہے وہ آئین کی تشریح اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کرتاہے،کئی چیزیں ایسی ہیں جن کی وضاحت ہونی چاہیے تھی جو نہیں ہوئی،اس وقت آرڈیننس میں تبدیلیوں کے بعد یونین کونسل کے چیئرمین کو صرف چار پانچ لاکھ روپے تنخوا ہوں کی مد میں مل جاتے ہیں جس سے وہ اور اسٹاف کے ماہانہ اخراجات پورے کرتا ہے،140اے میں لوکل باڈیز آئین کے قیام کا بنیادی مقصد عوام کے بنیادی مسائل حل کرنا ہے۔ا س میں تبدیلی کرتے ہوئے میئر کو بااختیار بنادیتے۔

این ایف سی ایوارڈ صرف بلدیاتی نمائندوں کیلئے مخصوص کرادیتے۔جس میں صوبائی حکومت کی دخل اندازی ہی ختم کردیتے ،تو یہ جھگڑا ہی ختم ہوجاتا،وہ تمام چیزیں جس پر آج سوالیہ نشان آتاہے یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا،لیکن یہ سب کرنے کی نیت نہیں تھی کیونکہ سب اپنے فائدے کیلئے چل رہے ہیں یہ سب ملے ہوئے ہیں،تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوجاتی ،پیپلز پارٹی نے سپورٹ کیاہے،پی پی پی ،پی ڈی ایم اے کی تحریک سے باہر آگئی اور عمران خان کو سپورٹ کیا،انہوں نے کہا تمہیں پی ڈی ایم سے خطرہ تھا وہ ٹل گیااب ہمیں سندھ میں سپورٹ کرو۔پی پی والے کہتے ہیں مرکز میں ہم تنگ نہیں کررہے تم سندھ میں سپورٹ کرو۔ وزیراعظم عمران خان کیساتھ جو لوگ بھی ملے ہوئے ہیں وہ بھی اس جرم میں شامل ہیں۔جب 31بلز آد ھے گھنٹے میں منظور ہوسکتے ہیں تو مقامی حکومت کے حوالے سے آرٹیکل کی بات کیوں نہیں کی گئی؟۔

دنیا فورم کے دوران سیاسی جماعتوں کے نمائندوں میں بلدیاتی اختیارات کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی ،ایڈیٹر فورم نے پیپلزپارٹی کے رہنما نادر گبول سے سوا ل کیا آپ نیویارک میں کافی عرصہ رہے وہاں میئر کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں ان کے پاس فنڈز کہاں سے آتے ہی؟نادر گبول نے کہا کہ نیویارک میں 10سال رہا ہوں۔ میئر کے پاس بہت اختیارات ہیں ۔ پولیس سمیت ہر شعبہ ان کے ماتحت ہوتا ہے،ان کے پاس ریونیو جنریشن ہوتے ہیں جو پراپرٹی اور دیگر ٹیکسوں کی مدد میں جمع ہوتاہے،کوشش کررہے ہیں ہماری مقامی حکومت کو بھی بااختیار بنایا جائے ۔

ایم کیوایم کے رہنما نیر رضانے کہا میئر کے پاس کراچی میں ترقیاتی کاموں کو کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔کے ڈی اے ،ایم ڈی اے ،ایل ڈی اے ،کراچی بلڈنگ اتھارٹی جو اب ایس بی سی اے بن چکی ہے ،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ۔کراچی کا ماسٹر پلان اور بھی کئی ادارے میئر کے پاس نہیں ،جب میئر کواختیار ہی نہیں ہوگا تو وہ شہر میں کام کیسے کرائے گا۔کراچی کی زمین کا صرف 33فیصد حصہ میئرکے اختیار میں ہے باقی 67فیصد کنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر اداروں کے پاس ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر میئر کے پاس ہے کیا ؟ جس پر سوچا جائے۔یہ اختیارات پورے پاکستان میں مقامی حکومتوں کو دینے ہونگے تب ہی عوام کے بنیادی مسائل حل ہوں گے اور ملک ترقی کرے گا۔آئین کا آرٹیکل 140اے کہتا ہے تما م ایڈمنسٹریٹو ، مالی اور سیاسی اختیارات مقامی حکومت کو دیئے جائیں گے جو بدقسمتی سے نہیں دیئے جاتے ،ا سکے لئے اسمبلی میں قرار داد لانے کی ضرورت نہیں ،یہ اختیارات آئین میں موجود ہیں،ا س کی تشریح سپریم کورٹ کرے گی ۔2017میں ایم کیو ایم پاکستان نے پٹیشن فائل کی ہوئی ہے،ایڈیٹر فورم نے کہا 2013میں جب پی پی نے اختیارات لیے تھے ،

ایم کیو ایم پی پی کی اتحادی جماعت تھی اس وقت احتجاج کیوں نہیں کیا گیا۔نیر رضا نے کہا کہ ایک غلط فہمی موجود ہے جس کی وضاحت ہونی چاہیے،فورم میں موجود محمد علی جناح یونیورسٹی کے ہیڈآف اسکول اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن بابرسلیم نے کہا کہ اس وقت عشرت العباد گورنر سندھ بھی آپ کے تھے تو متحدہ نے بل پر دستخط کیوں کئے ،نیررضا نے کہا عشرت العباد ملک سے باہر تھے ،قائم مقام گورنر نے دستخط کئے تھے ۔ اس کے خلاف سندھ اسمبلی میں آواز بھی بلند کی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔جماعت اسلامی کے اسامہ رضی نے کہا سب کچھ منصوبہ بندی سے ہواتھا جس وقت بل دستخط کرنا تھا عشرت العبادملک سے باہر چلے گئے۔نیر رضا نے کہا کہ ایم کیوایم 2016ء میں جب حلف لے کر بلدیاتی حکومت میں آئی تو ہمارے پاس ایڈمنسٹریٹو اور مالیاتی اختیارات نہیں تھے جس کی وجہ 2013 میں پیپلز پارٹی کا بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کا بنایا ہوا قانون تھا جس میں شہری حکومت کے میئر ،چیئرمین اور کونسلر کو بے اختیار کردیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم اس وقت سے آواز اٹھارہی ہے کہ بلدیہ اور میئر کے پاس اختیارات نہیں ہیں اب تمام جماعتیں اسی بات پر شور مچارہی ہیں اس وقت 

ہماری بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ جماعت اسلامی نے اس وقت بینرز کیوں نہیں لگائے آج جب الیکشن قریب ہیں تو سیاست کی جارہی ہے۔ اسامہ رضی نے کہا کہ فورم میں یہ با ت خوش آئند ہے کہ سب جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ حکمرانی عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے کسی اور طبقے کے ہاتھ میں نہیں ۔ یہ بات تو آئین میں موجود ہے مسئلہ یہ ہے اس کو نافذ کیسے کیاجائے ۔اس کے لیے عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں کہ جب یہ اسمبلی میں جائیں گے ،قانون سازی کریں اور قانون کی وجہ سے اختیارات عوام کے ہاتھ میں آئیں گے۔ کراچی میں35سال سے سب نے ایم کیوا یم کو نمائندگی دی ۔کراچی جو ترقی کرتا اور روشنیوں کا شہرتھا جس کو دیکھنے کیلئے دنیا سے لوگ آتے تھے ،جب سے ایم کیوایم کے پاس حکومت آئی کراچی تباہ برباد ہوگیا انہوں نے کراچی کو کھنڈربنادیاہے اس سے پہلے شہر ترقی کررہاتھا۔

اسامہ رضی نے کہا ایم کیو ایم پر الزا م نہیں لگارہا صرف تاریخ بتارہا ہوں کہ کراچی ان ادوار میں ہی کھنڈر بنا ہے اس سے پہلے ترقی کرتا ہوا شہرتھا۔ان ادوار میں پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم دونوں کی مشترکہ حکومتیں رہیں کراچی میں تباہی کے ذمہ دار بھی یہی ہیں۔جماعت اسلامی کو کراچی میں خدمت کا موقع ملا ،نعمت اللہ خان نے جوکام کیا اس کو اپنے اور پرائے سب مانتے ہیں ان کے دور میں کراچی کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔ا س سے پہلے عبدالستار افغانی کے دور میں کراچی نے ترقی کی سب مانتے ہیں۔جماعت اسلامی ایک سال سے کراچی کے مسائل حل نہ ہونے پر بات اور احتجاج کررہی ہے،شہری حکومت کا قیام ہمارا حق ہے خیرات نہیں مانگتے۔

 

 سیاسی رہنمائوں سے طلبہ و طالبات و اساتذہ کے سوالات

دنیافورم میں شرکاء سے سوال و جوابات کے سیشن کے دوران محمد علی جناح یونیورسٹی کے ٹیچر نے پیپلزپارٹی کے رہنما نادر گبو ل سے سوال کیا کہ آپ اختیار نچلی سطح پر دینے کی بات تو کررہے ہیں ۔ 10سالوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن وہ ترقی نہیں ہوئی جو نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کما ل کے دور میں ہوئی ۔دوسرا سوال دیگر جماعتوں سے ہے جس کا بلدیاتی نظام پرموقف ایک ہے ،ان کا احتجاجی بینر صرف دیواروں پر نظر آتاہے یہ مل کر کام نہیں کرتے۔یہ سب سندھ حکومت کے خلاف مل کر بیٹھیں اور ایکشن لیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے ۔پیپلز پارٹی کے نادر گبو ل نے کہا کہ پہلا سوال جو پیپلز پارٹی سے متعلق ہے اس سے متفق نہیں ، ایسا نہیں 10 سالوں میں شہر میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے ،میں اور میرے پردادا بھی کراچی میں پیدا ہوئے جو 1955ء میں کراچی کے میئربھی رہ چکے ہیں ۔

اس عرصے میں ہماری حکومت نے بہت ترقیاتی کام کیئے ہیں۔شاہراہ فیصل پر توسیع کا کام ہماری حکومت نے کیا، انڈرپاسز بن رہے ہیں ،فنڈز نہ دینے پر کوئی الزام نہیں لگارہا،صرف تختی نہیں لگا رہے ۔لیاری کراچی کی ماں ہے جہاں بہت کام ہورہاہے،ذہن کھول کر چیزوں کو دیکھیں شہر میں ترقی ہوتی نظر آئے گی۔ذوالفقار علی بھٹونے عوام کی بات کی تھی ۔پیپلز پارٹی بھی عوام کی بات کررہی ہے۔یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلزپارٹی جاگیرداروں کی پارٹی ہے۔پیپلز پارٹی عوام کو اختیارات دے رہی ہے،واٹر بورڈ بھی واپس آسکتا ہے۔7ماہ سے کہہ رہے ہیں تمام جماعتیں ہمارے ساتھ بیٹھیں بات کرتے ہیں۔ اپوزیشن بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔ایم کیو ایم کے نیر رضا نے کہا کہ ایم کیوایم شہر کے کئی اضلاع میں احتجاج کررہی ہے ۔سندھ اسمبلی او ر وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے بھی احتجاج کریں گے۔اے پی سی میں کئی جماعتوں نے حصہ لیا ا س میں بھی مقامی حکومت کی اہمیت ختم کرنے کے خلاف قرار داد پیش کی گئی۔محمد علی جناح نیورسٹی کے بابر سلیم نے کہا اس فورم میں تحریک انصاف کو بھی آنا چاہیے تھا جو دعوت نامے کے باوجو د نہیں آئی ۔کراچی کے لوگوں نے ان کو ووٹ دیئے بڑی امیدیں تھی جوپوری نہیں ہو ئیں ان کے پاس عوام کودینے کے لئے جوابات نہیں ہیں یہ سامنا نہیں کرسکتے ۔

میرا سوال پیپلز پارٹی حکومت سے ہے یہ ساری جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر شہر کی ترقی کا روڈ میپ دے اورمل کرکام کرے ،عوام میں تاثرہے کہ اسمبلیوں میں سندھ حکومت کے لوگ عوام کے حقوق غضب کرنا چاہتے ہیں اس تاثر کو ختم کیا جائے تاکہ عوام کی بے چینی ختم ہوسکے۔پیپلز پارٹی عوام سے کہتی ہے ہم اختیارات دے دیں گے جس پر عوام اعتماد نہیں کرر ہے۔ماضی میں ہم نے بہت کچھ دیکھا ہے اس لیے اعتماد نہیں ہورہا۔نادر گبول نے کہا اختیارات دے رہے ہیں اب ایس ایچ او مقامی حکومت کو جواب دے ہوگا۔الیکشن کمیشن کی طرف سے تاریخ ملی تھی کہ 30 نومبر تک بلدیاتی بل کو لانا ہے ا س لیے نیا بل لانا پڑا لیکن ابھی ہم بیٹھنے کو تیار ہیں۔شعبہ سائیکالوجی کی طالبہ ندا نے پیپلزپارٹی کے نادر گبول سے سوال کیا کہ بھٹو نے عوام کے حقوق کی بات کی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کراچی میں عوام کو بنیادی حقوق بھی نہیں دے رہی اس میں تضاد کیوں ہے؟ اس سوال پر ہال میں موجود تما م لوگوں نے بات کی تائید کرتے ہوئے تالیاں بجائی جس سے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ نادر گبول نے کہا درمیانی طبقہ جتنا پیپلز پارٹی میں ہے شاید کسی اور پارٹی میں ہو۔

ایڈیٹرفور م نے سوال کیا کے بی سی اے کو ایس بی سی اے کیوں بنایا گیا اس کی کیا وجوہات تھی ۔نادر گبول نے کہا کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات کریں ہم تیار ہیں تبدیلی کرنے کیلئے،اسامہ رضی نے کہا جماعت اسلامی نے پورا پروپوزل صوبائی حکومت کو دیا انہوں نے کوئی اختیارات نہیں دیئے بلکہ جو تھے وہ بھی چھن لیے۔ایڈیٹر فورم نے سوال کیاکہ کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے تجربہ کار ماہرین کو شامل کیوں نہیں کیاجاتا؟۔ارشد وہرہ نے کہا پاکستان کا بجٹ 4ہزار ارب کا ہوتاہے جس سے پورا ملک چلتاہے،ا س میں سے 2ہزار 400 ارب روپے جو 50فیصد سے زیادہ بنتا ہے وہ کراچی شہر دیتا ہے۔ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں سے55فیصد لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں،شہر میں ساڑھے 500 کچی آبادیاں رجسٹرڈ ہیں۔یہ شہر جو ملک کو چلارہا ہے ،پاکستان کو کماکر دے رہا ہے،اس کا تصور صرف سڑکیں بنانا، کچراا ٹھانااور صرف کچھ انڈر پاسز بنانا نہیں اس کا تصور کچھ اور ہونا چاہیے۔سندھ حکومت کاٹیکس جو سندھ ریونیو بورڈجمع کرتاہے جو سالانہ 140 سے 150ارب روپے صرف کراچی سے جمع ہوتاہے۔اگر کراچی کا پیسہ صرف کراچی میں ہی لگادیا جائے تو کراچی کو کسی کی ضرورت نہیں۔ایک گرین لائن 25ارب میں بننی تھی جو اب 125ار ب کی ہوگئی ہے۔

کراچی اسی جیسی گرین لائن خود اپنے پیسوں سے بنا سکتاہے۔ہمیں اختیارات چاہییں ہم خود اپنے شہر کو بنا لیں گے۔شعبہ سائیکالوجی کی طالبہ کنیز فاطمہ نے سوال کیا کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے پر الزا م تراشی لگا کر جان چھڑا لیتے ہیں لیکن مل کر کام نہیں کرتے ہمیں مل کر اس ملک کیلئے کام کرنا چاہیے۔دنیا فورم میں طلباء نے سوال اٹھایا کہ دنیا اخبار نے تحریک انصاف کا نمائندہ کیوں نہیں بلایا جس پر انہیں یقین دلایاگیا کہ پی ٹی آئی کو بھی دعوت دی گئی تھی اور ان کی طرف سے کسی کی شرکت کا وعدہ بھی تھا تاہم کئی مرتبہ فون کرنے کے باوجود کوئی نہیں آیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔