پاگل کون! معاشرہ یا وہ جو زیرعلاج ہیں؟

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سیدماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء: ڈاکٹرسید عامر دبیر، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اورڈائریکٹر کاؤ س جی جہانگیرانسٹیٹیوٹ آف ائیکاٹری(گدواسپتال) ۔ ڈاکٹر قلب حیدر ، ماہر نفسیات گدو اسپتال ۔ڈاکٹر احسان الہٰی،ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سیکیورٹی انچارج ۔مریم حنیف غازی چیئر پرسن شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی ۔شمائلہ امتیاز لیکچرار محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

  موبائل فون بچوں کوذہنی مریض اور شدت پسند بنارہا ہے:   ڈاکٹر عامر دبیر

والدین بچوں پر نظر رکھیں اوران کے لئے وقت نکالیں:  مریم حنیف غازی

کچھ مریض محض معاشرے کے بہتر رویے سے صحیح ہوسکتے ہیں :  ڈاکٹر قلب حیدر 

معاشرہ تسلیم کرے کہ ذہنی مرض بھی ایک بیماری ہے جو صحیح ہوسکتی ہے:  شمائلہ امتیاز

 

 موضوع: ’’ذہنی مریضوں کیلئے ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں ؟‘‘

 

جب سے گدو بندرمیں ذہنی مریضوں کے اسپتال ’’سرکائوس جی جہانگیر انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری‘ سے آیا ہوں بس ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ پاگل وہ ہیں یا ہم؟جب ان ذہنی مریضوں سے بات کی یاجالی کے اس طرف انہیں دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ وہ قہقہے مارہے ہوں کہ تم ہمیں پاگل سمجھتے ہو اصل میں تو تم پاگل ہو،پکڑے تو تم جائوگے،بخشے تو ہم جائیں گے،حساب تو تمہیں دینا ہوگا ،چھوٹ تو ہم جائیں گے،ان کے قہقہے معاشرتی رویوں کا مذاق اڑارہے تھے ،شکوہ کدہ تھے ،خود پر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کررہے تھے،معاشرے کی خودغرضی ،بے حسی ،لالچ اور حرص نے سلاخوں کے اس طرح رہنے والوں کو معتبر بنادیا ہے ۔بچپن سے سنتے آئے کہ یہ پاگل ہوگیا ہے اسے گدو بند ر بھیج دو۔بظاہر مذاق کا جملہ کتنوں کے دل جاتا ہے،کتنوں کو دکھ پہنچاجاتا ہے۔

بے حسی اور خودغرضی یہاں تک پہنچ چکی کہ سگی اولاد ماں کو پاگل خانے کے دروازے پر چھوڑ کر جارہی ہے جبکہ والدین ذہنی مریض بچوں کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔محمد علی جناح یونیورسٹی شعبہ نفسیات کے تعاون سے طلبہ وطالبات کی کثیر تعداد کیساتھ حیدرآباد گدوبندر میں سرکاؤس جی جہانگیرانسٹیٹیوٹ آف سا ئیکاٹری المعروف (گدو بندر پاگل خانہ) کا دورہ کرنے کا موقع ملا ،جہاں دنیا فورم میں نہایت دردناک حقیقتیں کھلیں۔کوشش یہی ہے کہ دنیا فورم کو معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنائوں یہ فورم بھی ایسی ہی ایک چھوٹی سے کوشش ہے۔قارئین کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

شکریہ(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:0092-3444473215واٹس ایپ 

اور کال0092-3212699629

ای میل:    mustafa.habib@dunya.com.pk

 

 مریض صحیح ہونے کے بعد گھر جاتاہے تو اہل خانہ اور معاشرے کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟

ڈاکٹرسید عامر دبیر :بدقسمتی سے معاشر ے اور گھر میں ذہنی مریض کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے و ہ قابل افسوس ہے۔اس کا رشتہ نہیں آتا کوئی ذمہ داری نہیں دی جاتی اس کی خود اعتمادی ختم کردیتے ہیں ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے یہ بھی معاشرے کاحصہ ہیں۔ میڈیا کو آگہی او ر مثبت پروگرام چلانے ہوں گے تب ہی بہتری آسکتی ہے۔ عا م طورپر گھروالے مریض کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اورواپس نہیں آتے ،بعض تو دروازے پر چھوڑ جاتے ہیں گزشتہ دنوں ہی ایک بیٹا ماں کو چھوڑ کر چلاگیاجبکہ بعض مرتبہ والدین بھی بچوں کوقبول نہیں کرتے۔ 70 فیصد مریض علاج اور تربیت سے صحیح ہوجاتے ہیں رابطہ کرنے پر گھر والے دوبارہ لے جانے کو تیار نہیں ہوتے۔وہ مریضوں کوکار آمد نہیں سمجھتے۔دیگر امراض کی طرح ذہنی مرض بھی بیماری ہے جو دوائیوں کے بعد تربیت اور حوصلہ افزائی سے دور ہوجاتی ہے۔

گدو اسپتال میں مکمل علاج کے ساتھ ۔ادویات ،کھانا پینا ، رہائش ہرچیز مفت فراہم کی جا تی ہیں۔جومریض دوائیاں نہیں لیتے یا شعور نہیں رکھتے انہیں ناشتہ ، دوپہر اور رات کے کھانے کے ساتھ دوا ملا کر دیتے ہیں تاکہ علاج ہوسکے۔ہم تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں ۔ کراچی سے ایک نوجوان مریض آیا۔ علاج کے بعد سمجھداری کے باتیں کرتا اور اچھے تاثرات دیتا تھا،اسپتال میں ماہر نفسیات نے بتایاکہ مریض بہتر ہے لیکن اس کے گھر والے رکھنے کو تیار نہیں ۔گھر والے مریض کی پہلے والی حرکت کی وجہ سے خوف زدہ تھے کہیں یہ دوبارہ ایسی حرکا ت نہ کرے ۔گھر میں والدہ او ر دو بہنیں تھیں بہت اچھا اور پڑھا لکھا خاندا ن تھا۔ان کا کہناتھا علاج سے پہلے اس نے گھرمیں اپنی ڈگری اور دیگر کاغذات کو آگ لگا دی تھی اور کافی سامان بھی جل گیا تھا اس لیے ہمیں ڈر لگتاہے کہ کہیں دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے اورہمیں مار نہ دے ۔

اس لیے خوفزدہ ہیں۔میں نے کہامیں کراچی دوگھنٹے تک ہوں اس کو رکھ لیں اگر کوئی غلط کام کرے تو واپس اسپتال لے جائوں گا یقین دہانی کرائی یہ نوجوان اب بہتر ہے کچھ نہیں کرے گا آپ اس کو سمجھیں اور وقت دیں یہ ایڈجسٹ ہوجائے گا ، دوگھنٹے بعد آیا تو اہل خانہ کا رویہ یکسر تبدیل تھا،ماں واری جارہی تھی ،بہنیں لاڈ اٹھارہی تھیں ،انہوں نے کہا کہ اتنی دیر میں ہم نے جان لیا کہ ہمارا بھائی اب باکل صحیح ہوگیا ہے۔اصل میں اعتماد کی ضرورت ہے ۔ اسپتال میں مریضوں کے مسائل بہت پیچیدہ ہوتے ہیں جسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں میری ٹیم کا اہم کردار ہے جو بڑی محنت سے مریضوں کا علاج اور دیکھ بھال کررہی ہے ۔ آئندہ سال جنوری سے Community Out Reach پروگرام کرینگے جس میں اسکول،کالج، دیگر تعلیمی ادارے اور اس کمیونٹی میں جہاں یہ مسائل زیادہ ہیں وہاں جائیں ورکشاپس کریں گے

جس میں والدین اور اساتذہ بھی شامل ہوں گے ان کو آگہی دیں گے ۔ آج یونیورسٹی اور کالجوں میں نوجوان نشے کی طرف زیادہ مائل ہورہے ہیں۔والدین اساتذہ بچوں کو نشے سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میڈیا کو معاشرے میں سماجی مسائل حل کرنے کیلئے سب سے پہلے بریکنگ کلچر سے باہر آنا ہوگا ۔ہم ریٹنگ کی وجہ سے اصلاحی پہلوئوں کو بھو ل جاتے ہیں، کم لوگ ہیں جو معاشرے میں اصلاح کیلئے کام کررہے ہیں۔دنیا فورم کی کاوشیں قابل تعریف ہیں جو معاشرے میں اصلاح کیلئے کام کررہاہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر قلب حیدر : طلباء میں سائیکالوجیکل اسسمنٹ ضروری ہے۔ معاشرے میں نفسیاتی مریضوں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہوتا ، گھروالوں کی تربیت کیلئے فیملی سیشن ہونے چاہئیں ہم بھی کراتے ہیں،مریضوں میںزیادہ تر درمیانہ اور نچلے درجے کا طبقہ آتا ہے۔کچھ مریض ایسے بھی آتے ہیں جنہیں دواؤں کی ضرورت نہیں ہوتی صرف گھر اور معاشرے کے رویوں سے بہتر ہوسکتے ہیں۔

مریم حنیف غازی : فورم کے ذریعے معاشرے میں نفسیاتی اور ذہنی مریضوں کے بار ے میں اچھا تاثرجائے گا۔بدقسمتی سے تعلیمی اداروں میں آئس نشہ تیزی سے پھیل رہاہے ا س کو کنٹرول کرنے کیلئے یونیورسٹی میں آگہی سیمینار اور ورکشاپس کراتے ہیں تاکہ ان برائیوں پرقابو پاسکیں ۔آج کا فورم اور محمد علی جناح یونیورسٹی کا یہاں آنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔اسپتال میں دورہ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ طلباء میں آگہی اور تربیت ہو۔ والدین سے درخواست ہے و ہ بچوں پر نظر رکھیں اور وقت نکالیں،ہم بچپن سے سنتے آئے کہ یہ بچہ صحیح نہیں چل رہا ،پاگل ہوگیا ہے اسے گدو بند رڈال دیں گے ،ایسے الفاظ اچھے انسان کو بھی نفسیاتی بنادیتے ہیں ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے ۔ اسپتال کے آؤٹ سائٹ پروگرام کی حوصلہ افزائی کروں گی اس سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔اسپتال میں دورہ کر نے کے بعد نفسیاتی مریضوں کے بارے میں خیالات تبدیل ہوئے ہیں جس سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ باہر جاکر اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں گے۔

ٹیچر شمائلہ امتیاز : دنیافور م کے توسط سے پیغا م دینا چاہوں گی ہمارے طلباء یہاں اسپتال آئیں دیکھیں خدمت کریں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔اسپتال میں دورے کے دوران مریضوں ، ڈاکٹر اور اسٹاف سے گفتگو کرنے کے بعدا ندازہ ہوا کہ معاشرے میں ہم لوگوں کا رویہ صحیح نہیں ہوتا،ہم ایسے مریضوں کو نہ جانے کیا کیابولتے رہتے ہیںحقیقت میں ہمیں آگہی کی ضرور ت ہے کہ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ کس طرح برتاؤ رکھنا ہے،بدقسمتی سے معاشرہ ان لوگوں کو سپورٹ اور تسلیم نہیں کرتا،ایسے مریض جب ٹھیک ہونے کے بعد گھروں کو واپس جاتے ہیں تو ان کوتسلیم نہیں کیا جاتا ۔ان کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں۔معاشرہ تسلیم کرے کہ ذہنی مرض بھی ایک بیماری ہے جو صحیح ہوسکتی ہے۔

کئی اسپتالوں میں ماہر نفسیات نہیں ہوتے جس سے لوگوں میں آگہی نہیں ہوتی ۔ اسپتالوں میں ماہر نفسیات ہوں او ر مریضوں کے ساتھ گھر والوں کی بھی کائونسلنگ کریں تو بہتری آسکتی ہے۔ہم تربیت سے زیادہ دواؤں کواہمیت دیتے ہیں یونیورسٹی اور دیگر اداروں سے ہر سال نفسیات میں طلباء فارغ ہوتے ہیں لیکن حکومتی اور نجی سطح پر اسامیاں دستیاب نہیں ہوتیں ،حالانکہ اسپتالوں میں اشد ضرورت ہے ۔حکومت کو اسطرف توجہ دینی چاہیے۔

 

دنیا فورم کی ٹیم ،اساتذہ اورطلبہ و طالبات کا اسپتال کا دورہ 

 دنیافورم کی ٹیم نے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹندنٹ احسان الہٰی ،محمد علی جناح یونیورسٹی شعبہ سائیکالوجی کی چیئرپرسن مریم حینف غازی ،ماہر نفسیات ڈاکٹر قلب حیدر اساتذہ اور طلباء کے ساتھ اسپتال کے وارڈز،اوپی ڈیز،میڈیکل اسٹور اور دیگر شعبوں کے دورے کے ساتھ خصوصی وارڈ بھی دیکھے، جہاں خطرناک نفسیاتی مریض موجود تھے ،ان میں کئی ایسے بھی مریض تھے جو قتل بھی کرچکے تھے ۔ایڈیٹر فورم نے سلاخوں میں موجود کئی نفسیاتی مریضوں سے گفتگو کی ۔ایک بزرگ نے کہا بالکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہے گھر جانا چاہتا ہوں لیکن یہ لوگ جانے نہیں دیتے مجھے یہاں سے نکال دیں میں آپ کو بہت دعائیں دوں گا۔ایک مریض نے کہا میں بالکل صحیح ہوں ،گھر والوں کا نمبر بتاتاہوں ان سے بات کرکے مجھے یہاں سے نکال دیںآپ کی بہت مہربانی ہوگی ،ایک مریض نے گانا گاتے ہوئے کہا میں بہت اچھا گاتا ہوں مجھے یہاں سے نکال دو ۔ٹیم نے سروے کے دوران دیکھا جس سے بہت حیرت ہوئی کہ مریضوں کو اچھا کھانا ، معیاری کمپنی کے دودھ کے ڈبے اور دودھ پتی چائے دی جارہی تھی ۔اسپتال صاف ستھرا تھا ۔وارڈ بھی صاف اور مریضوں کو اچھے کھانے دیئے جارہے تھے۔

ایک ہال دیکھا جس میں مریضوں کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے کپڑے،پینٹنگ،مٹی کے برتن اور بہت سی چیزیں رکھی ہوئی تھی جو مریضوں نے ہاتھوں سے بنائی تھی۔ایڈیٹرفورم نے او پی ڈی میں موجود ڈاکٹر قاضی ہمایوں سے سوال کیا کہ مریضوں میں کون سے امراض زیادہ ہوتے ہیں کیاطلباء ذہنی دباؤ کی وجہ سے آئس کا نشہ زیادہ کررہے ہیں ؟۔ڈاکٹر ہمایوں نے بتایاکہ طالب علموں کے کیسز بھی آرہے ہیں جو زیادہ تر آئس کا نشہ کرتے ہیں،یہ نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے طلباء اس کو آسانی سے استعمال کرلیتے ہیں۔آج کل یونیورسٹیوںاور کالجوں میں آئس کا نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے جو سنگین مسئلہ ہے ،عام طورپر لوگ ذہنی دباؤکی وجہ سے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔خاندانی مسائل بھی معاشرے میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں اس سے بھی لوگ نفسیاتی مریض ہوجاتے ہیں،اسپتال میں ماہر نفسیات کی بہت کمی ہے اورملازمت کے بھی بہت مواقع ہیں لیکن حکومت اہمیت نہیں دیتی۔ اوپی ڈی میں موجود ڈاکٹر سمیرا نے بتایا کہ مریض بہت کچھ کہنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے ہم تسلی سے اس کی باتیں سنتے ہیں ،

اس سے معلومات لینے کے بعد ان کا علاج اور تربیت کرتے ہیں ان کے ساتھ اہل خانہ کی بھی تربیت کرتے ہیں تاکہ مریض کا صحیح اور بروقت علاج ہوسکے،سروے کے دوران اسپتال کا کنٹرول رو م بھی دیکھا جس میں پورے اسپتال کو مانیٹرکرنے کیلئے سی سی ٹی وی کیمرے سے ریکارڈنگ ہور ہی تھی ۔رجسٹریشن آفس جو صاف ستھرا اور اچھا بنا ہوا تھا ،ماہر نفسیات ڈاکٹر قلب حیدر نے بتایا کہ رجسٹریشن کیلئے مریضوں کے ڈیٹا کو کمپیوٹرائز کیاجارہا ہے،جس میں مریض کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اس کے بعد فائل بنا کر نمبر الاٹ کردیا جاتا ہے جس کی مدد سے مریض کا معلوم کیاجاسکتاہے کہ مریض اس وقت اسپتال میں کہاں ہے۔نمبر کی مدد سے پرانا ریکارڈ بھی نکالاجاسکتاہے۔آپریشن تھیٹر میں چھوٹے آپریشن کرنے کی سہولت موجود ہے،اس موقع پر میڈیکل اسٹور سے دوا لینے والی خاتون سروری نے بتایا کہ جوان بیٹے کی دوا لے کر جاتی ہوں ، گونگا ہے،12 سال سے بیمار ہے پہلے صحیح تھا،اپنی مرضی سے دوا کھاتا ہے کبھی منع کردیتا ہے بار با رکہو تو مارتاہے،مریم غازی نے کہا عام طور پر نفسیاتی مریضوں کو دواؤں سے زیادہ کائونسلنگ اور تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض اوقات ڈپریشن کا مریض صرف کائونسلنگ سے دوائی کے بغیر بھی ٹھیک ہوجاتاہے۔ کیا یہاں مریضو ں کی ٹیسٹنگ بھی ہوتی ہے؟ ماہر نفسیات ڈاکٹر قلب حیدر نے کہا ٹیسٹنگ لمپس اور سندھ یونیورسٹی سے کرالیتے ہیں لیکن کائونسلنگ اور سی وی تھراپی کے ماہر نفسیات نہیں ہیں ۔

انٹرن شپ کیلئے یونیورسٹیوں سے طلبا ء آتے ہیں ہمارے پاس ہاسٹل کی سہولت نہیں لیکن باہر مل جاتی ہے۔ا نچار ج ویمن سیل ڈاکٹر صباشاہ نے کہا کہ خواتین وارڈمیں 50بستر ہیں ،18خواتین وارڈ میں داخل ہیں۔او پی ڈی ،ایمرجنسی او رعدالت کے ذریعے بھی خواتین آتی ہیں،وارڈ میں آئسو لیشن کمر ے ہیں جب مریض بہتر ہوجاتے ہیں انہیں وارڈ میں منتقل کردیتے ہیں۔کپڑے ،دوائیاں ،کھانے جوبھی مریضوں کو درکار ہوتی ہیں مہیا کرتے ہیں۔ایڈیٹر فورم نے سوال کیا کہ خواتین کی کیا شکاتیں ہوتی ہیں جس سے ذہنی امراض کا شکار ہوتی ہیں۔ڈاکٹر صبا شاہ نے کہا کہ زیادہ تر خواتین ذہنی دباؤکی وجہ سے آتی ہیں،جس کی بنیادی وجہ معاشرے میں ناانصافیاں ہیں، بعض خواتین والدین کے انتقال کے بعد خیال نہ رکھنے کی وجہ سے بھی ذہنی دباؤمیں آجاتی ہیں ۔بعض خواتین گھریلو جھگڑوں سے بھی مسائل کا شکا رہوجاتی ہیں۔ خواتین ان امراض سے بچنے کیلئے خود کو مصروف رکھیں۔ہماری ہیلپ لائن پر فون کرکے رہنمائی لے سکتی ہیں ۔مردو ں میں نشے کے امراض زیادہ ہوتے ہیں خواتین میں نہیں ہوتے ۔زیادہ تر خواتین سلائی کڑھائی اور گھریلو کام میں دلچسپی رکھتی ہیں انہیں ان کاموںمیں مصروف رکھتے ہیں،بعض خواتین کا گھرجانے کے بعد بھی دواؤں سے علاج چلتارہتاہے جو دور رہتی ہیں آنا آسان نہیں ہوتا انہیں کوریئیر سے دوائیں بھجوا دیتے ہیں۔ 30سال سے کم عمر کی بچیوں میں ذہنی دباؤ کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔کچھ مریض 35 سال سے بھی ہیں ،ایک دو مریض 85سال کی بھی ہیں زیادہ مسائل بھی انہی خواتین میں آتے ہیں ،ان کی تشہر نہیں کرتے عدالت میں فہرست بھیج دیتے ہیں گھروالے عدالت سے رابطہ کرنے کے بعد اسپتال سے لے جاتے ہیں۔

دنیا:ملک میں ماہر نفسیات کی تعداد کیاہے؟

ڈاکٹر قلب حیدر:ملک میں ماہر نفسیات کی اسامی ہی نہیں ہے ۔اچھے ماہر نفسیات ملک سے باہر چلے جاتے ہیں،حکومت اسپتال میں ملازمت کے مواقع پیدا کرے۔اس وقت انڈسٹریل سائیکالوجسٹ کی بہت ضرورت ہے۔فیلڈمیںاس چیز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے جو چلتی ہے ۔سندھ یونیورسٹی سے سالانہ 200 ماہر نفسیات پاس ہوتے ہیں،اسی طرح دیگر اداروں سے بھی فارغ ہوتے ہیں یہ سب کہاں جا ئیں گے؟۔ حکومت کی طرف سے بجٹ کے علاوہ کو ئی فنڈنگ نہیں ہوتی ،مخیر حضرات بہت تعاون کرتے ہیں ان کی بدولت اسپتال میں ترقیاتی کام اور شعبوں کا اضافہ ہورہا ہے۔

ڈاکٹر احسان الہٰی:ایمرجنسی کے مریضوں کو پہلے یہیں رکھا جاتاہے،وہاں عوام کو جانے نہیں دیتے۔اسپتال کی سیکیورٹی کی ذمہ داری بھی ہے ۔

  طلبہ وطالبات کے سوالات 

شرکاء سے سوال و جوابات کا سیشن میں طالبہ انیلا نے سوال کیا کہ اسپتال میں ماہر نفسیات کا کمرہ نظرآیا لیکن ماہر نفسیات نہیں تھے کیا ان کی کمی ہے ؟ مستقبل میں ان کے حوالے سے اسپتال کی کیا منصوبہ بندی ہے؟۔ڈاکٹر قلب حیدر نے بتایا کہ کافی عرصے سے ماہر نفسیات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اسپتالوں میں ان کی تعیناتی سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی جو حکومت سندھ ہی کرسکتی ہے۔اسپتال میں ماہر نفسیات نہیں لیکن ہمیں اشد ضرورت ہے۔40سے 45ماہر نفسیات ہوں گے تب اسپتال کی ضرورت پوری ہوگی۔اسپتال میں کام کرنے کیلئے اسپتال کے ڈائریکٹر کو درخواست دیں کہ خدمت کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں تو کام کرسکتے ہیں ۔

مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کو بھی خط لکھا جاسکتا ہے اس کی اجازت سے بھی کام کرسکتے ہیں ممکن ان کی طر ف سے کچھ وظیفہ بھی مل جائے۔سندھ حکومت کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کو بھی درخواست دی جاسکتی ہے۔طالبہ سنجیلنارائے نے سوال کیا کہ کلاسوں میں پڑھا یاتو جاتا ہے لیکن ہمیں تجربہ نہیں ملتا، اسپتال میں کیا کام کرسکتے ہیں ؟۔ڈاکٹر قلب حیدر نے جواب دیا کہ او پی ڈی میں مریضوں کو دیکھیں وہ کیا کہہ رہے ہیں کیا کرتے ہیں ان سے گفتگو کا موقع ملے گا۔ڈاکٹر کیا مشورہ دیتے اور کیسے علاج کرتے ہیں اسپتال میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے آپ کو فیلڈ میں فائدہ ہوگا۔طالبہ اطیقہ نے سوال کیا گونگے بہرے مریضوں کی تشخیص اور علاج کیسے کرتے ہیں؟۔ڈاکٹر قلب حیدر نے کہا کہ کچھ طریقے اپناتے ہوئے بیماری کا اندازہ لگا تے ہیں ،ایسے بھی مریض آتے ہیں جن کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا اور وہ بول اور سن بھی نہیں سکتے ان کے رویوں اور مشاہدوں سے علاج کرتے ہیں۔مریض بعض مرتبہ چلاتا ہے ۔کپڑے پھاڑتا ہے،حملہ بھی کرتاہے ،بعض مریض خاموش رہتے ہیںان کی حرکات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ مریض نفسیاتی ہے یا ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ایسی مریضو ں میں دوسر ے مریضوں کی نسبت وقت زیادہ لگتاہے۔

ایک طالبہ نے کہا جن مریضوں کے والدین یا سرپرست اسپتال کے دروازے پر چھوڑ جاتے ہیں ان کا علاج کیسے کرتے ہیں؟۔میدیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹرعامر دبیر نے کہا ایسے کیسز میں نادرا،پولیس اور دیگر اداروںکو شامل کرکے مریض کا علاج کرتے ہیں۔طالبہ نوال نے کہا کہ کچھ کیسز ایسے بھی دیکھے ہیں جس میںگھر والے مریض کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ۔ڈاکٹر قلب حیدر نے کہا ا س کے لیے فیملی سیشن کرتے ہیں ،بدقسمتی سے معاشرے میں مریض کو فوری طورپر پاگل ہے ،کیسی حرکتیں کررہا ہے یہ تو نفسیاتی ہوگیا ہے اور نہ جانے کیا کیا لیبل لگا دیتے ہیں ایسا نہ کریں اس سے مریض بہتر ہونے کے بجائے اور خراب ہوجاتاہے۔طالب علم عامر نے کہا کہ ہماری سوسائٹی میں ماہر نفسیات کی بہت کمی ہے، گھر میں ایسا مریض ہوتو سمجھ نہیں آتاکیا بیماری ہے۔کن علامات سے معلوم کیاجائے کہ یہ نفسیاتی یا ذہنی دباؤ کا مریض ہے؟اسپتال سے جانے کے بعد کیا کریں؟۔ڈاکٹر قلب حیدر نے کہا ایسے مریض کو سمجھنے اور تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔اس کو بھی دیگر بیماریوں کی طرح دیکھیں،مر یض صحیح ہوجائے اس کی دوائیاں بند کردیں۔ہمارے پاس ایسے مریض بھی تھے جو دواؤں کے بعد ٹھیک ہوگئے۔جو مریض اسپتال سے جانے کے بعد دوا نہیں لیتا تنگ کرتا ہے ہمارے پاس ایک ٹیم ہے جو گھر جاکر اس کو دیکھتی ہے گھر دو ر ہے تو فون پر رہنمائی کرتے ہیں۔ایک طالبہ نے کہا کہ اسپتال کے ماحول سے آپ لوگ متاثر نہیں ہوتے خود کو نارمل رکھنے کیلئے کیا کرتے ہیں؟۔

ڈاکٹر قلب حیدرنے کہا نارمل رکھنے کیلئے فیملی کیساتھ ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں ،چھٹیاں لیکر سیروتفریح کیلئے بھی چلے جاتے ہیں،اسپتال میں سرگرمیوں میں خود کو مصروف رکھتے ہیں بہت اچھا وقت پاس ہوتا ہے۔کام کیساتھ انسانی خدمت بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں،اللہ کا شکر اداکرتے ہیں اس نے ہمیں انسانوں کی خدمت والے کام سونپے۔سید عامر دبیر نے کہا کہ آج موبائل جس سے دنیا ہتھیلی پر آگئی ہے اس نے نوجوانوں خاص طورپر بچوں میں مسائل پیدا کردیئے ہیں اس سے بچے شدت پسندہورہے ہیں، بچوں میں لڑائی جھگڑا ورغصہ عام ہورہاہے جس سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ہمیں ان چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ان مسائل کو حل کرنے کیلئے اسکول ،کالج اور دیگر تعلیمی اداروں میں آگہی سیشن کرائے جائیں۔جب تک ہم سب اپنا اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے معاشرے میں بہتری نہیں آئے گی۔مریم غازی نے کہا طلباء زیادہ موبائل استعمال کرنے کی وجہ سے ذہنی بیماری کا شکار نہیں ہوتے لیکن لڑائی جھگڑا ،چڑ چڑا پن اتنا عام ہوتا جارہا ہے

جیسے ذہنی مریض ہوں،اس طر ف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہم طلباء کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں تاکہ یہ موبائل کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔طالبہ قندیل نے کہا والدین گھروں میں بچوں کو کہتے ہیں اسے موبائل دے دیں مصروف ہوجائے گا جبکہ بچوں میں آج موبائل سے خود اعتمادی بھی آرہی ہے ،تربیت کس کی ہونی چاہیے بچوں کی یا والدین کی ؟۔سید عامر دبیر نے کہا تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،دونوں ذمہ دار ہیں ،دونوں کی تربیت ہونی چاہیے۔

ذہنی مریضوں کی گفتگو

میں صحیح ہوں ،میری زمینیں ہیں،گھر والے پاگل کہہ کر یہاں جمع کراگئے۔

میں شاعری کرتا ہوں ، تمہیں سنائوں ۔۔۔ گانا بھی آتا ہے ، سنو گے۔

گھر والے بہت یاد آتے ہیں،مجھے گھر لے چلو،،گھر جانا ہے،میں پاگل نہیں ہوں۔

میری دو بیٹیاں ہیں،شوہر تشدد کرتا تھا ،سسرال والوں نے پاگل کہہ دیا۔

میں پاگل نہیں ہوں،بس دورہ پڑتا ہے،مجھے گھر لے چلو نا ۔مجھے گھر جانا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔