برطانیہ کی ترقی کا اہم راز،مضبوط بلدیاتی نظام،پاکستان میں بھی عمل ہوسکتا ہے

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء: گوہر الماس ، لیڈز سٹی کونسلر لیبر پارٹی برطانیہ ۔ مشتاق لاشاری ،سابق ڈپٹی میئر دی رائل بورواورکمانڈر آف برٹش ایمپائر۔ ڈاکٹر افضل خان ایم پی،کمانڈرآف برٹش ایمپائر ۔ قیصر عباس لیبر کونسلر سائوتھ اسٹیفرڈ (بذریعہ وڈیو لنک) شریک ہوئے ۔کراچی سے ڈاکٹر سعدیہ جاوید رکن صوبائی اسمبلی پاکستان پیپلزپارٹی ۔ ڈاکٹر اسامہ رضی ، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ۔ اسسٹنٹ پروفیسر حنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر محمد معیز خان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ ۔ طلبہ وطالبات کی کثیر تعداد

 پاکستان میں برطانیہ کی طرح مضبوط نظام بنایا جائے تو ترقی ہوگی:  گوہر الماس،پاکستان میں مقامی حکومت کو اختیارات دینے تک ترقی نہیں ہوسکتی:   قیصر عباس 

برطانیہ میں حکومتی نمائندے عوامی مفاد کیلئے کام کرتے ہیں:   مشتاق لاشاری، جب تک ووٹر قابل اورایماندار کو ووٹ نہیں دے گاحالات بہتر نہیں ہونگے:  ڈاکٹر افضل خان

برطانیہ میں سیاسی جماعتیں مضبوط ،پاکستان میں بلدیاتی نظام آمر نے بنایا:  ڈاکٹر سعدیہ،صرف کراچی نہیں پورے سندھ کو بااختیار بنانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں:  ڈاکٹر اسامہ رضی

جاگیردارانہ نظام کیخلاف پہلا قانون ایوب خان نے پیش کیا:  ڈاکٹر معیز خان،بلدیاتی نظام زیادہ تر ڈکٹیٹرز کے پاس رہا پھر بھی اچھے کام ہوئے ہیں :   ڈاکٹر حناخان

 

 موضوع: ’’بلدیاتی نظام!برطانیہ میں کامیاب ،پاکستان میں ناکام کیوں؟‘‘

 پاکستان میں برطانیہ کی طرز کا نظام لاکر جمہوریت مضبوط کی جاسکتی ہے،برطانیہ میں بلدیاتی ادارے خودمختار اور بااختیا ر ہیں،مرکز اور مقامی سطح پر مخالف جماعتیں ہونے کے باوجود عوام کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ،ہم نے برطانیہ میں پاکستانی کونسلرز اور لارڈز میئر سے کراچی کی مقامی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو مدعو کیا،جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کی انچارج ڈاکٹر حناخان کی بھرپور تعاون سے ریاض الاسلام سینٹر میں دنیا فورم رکھاگیا،طلبہ وطالبات کی بھی بڑی تعداد موجود تھے،پورے دنیا فورم کا حاصل یہی رہا کہ برطانوی معاشرے مضبوط نظام ،قانون کی پاسداری اور آئین پر عمل کی وجہ سے ترقی کررہا ہے،مقامی حکومت کو بھرپور وسائل اور اختیارات دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کے مسائل ان کی دہلیزپر حل ہوجاتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ نظام نہیں لاسکتے؟اس دنیا فورم کام مقصد یہی تھا کہ برطانوی نظام حکومت سے ہمارے سیاسی جماعتیں اور حکومت فائدہ اٹھائیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ دنیا فورم بھی پسند آئیگا گا،آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:  0092-3444473215

واٹس ایپ اور فون:    0092-3212699629

ای میل:   mustafa.habib@dunya.com.pk

 

 دنیا: برطانیہ میں بلدیاتی اداروں کیلئے ریونیو کیسے جمع کرتے ہیں،فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟

 کونسلر گوہر الماس :لیڈز سٹی میں بہت ریونیو جمع ہوتا ہے پورے برطانیہ میں تقسیم نہ کریں صرف شہر میں لگایا جائے تو برونائی دارالسلام سے بھی زیادہ امیر شہر ہو ۔اسی طرح لندن کا ریونیو صرف لندن پر لگے تو لندن میں دبئی سے زیادہ ترقی نظر آئے گی لیکن دوسرے شہروں اور کونسلز کے ساتھ دیگر ممالک کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ انگلینڈ بھی اسکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈاور ویلز کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور ان کی مددکرتاہے۔میری کونسل لیبر ہے جبکہ مرکز میں ٹوری ہے پھر بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔کیونکہ نظام مضبوط ہے۔ ہم مرکز میں اپوزیشن میں لیکن شہر میں مقامی حکومت ہماری ہے ۔ مرکز سیاسی طورپر بھی ہمیں نقصان نہیں پہنچاتا جس کی وجہ قانون کی پاسداری ہے ۔ہمیں مقامی حکومت میں پریشانی نہیں ہوتی ۔پاکستان میں بھی ایسا قانون اور نظام بنایا جائے اور عمل کیا جائے تو پاکستان بہت جلد ترقی کرے گا۔

دنیا: ہمارا بلدیاتی نظام کامیاب نہیں چل رہا،برطانیہ میں سڑکوں کی مرمت اور صفائی ستھرائی کے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں؟

کونسلر قیصرعباس :سب سے پہلے دنیافور م کا مشکو رہوں جنہوں نے موجود ہ حالات کے پیش نظر اچھے موضو ع کا انتخاب کیا او ر ہمیں طلباء سے براہ راست مسائل پر بات کا موقع دیا۔امید ہے فورم سے مسائل کو سمجھنے او ر حل کرنیکا موقع ملے گا۔پاکستان اور برطانیہ دونوں ممالک میں جمہوریت ہے لیکن پاکستان کا برطانیہ سے مواز نا ممکن نہ ہو گا کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات بہت مختلف ہیں۔ برطانیہ میں مقامی نمائندوں کو بااختیار اور نظام اتنا مضبوط بنایا گیا ہے کہ کو ئی اس نظام کیخلاف کوئی نہیں جا سکتا ۔اس نظام سے باہر نکلنا آسان نہیں۔ میری پارٹی کونسل اور مرکز دونوں طرف اپوزیشن میں ہے اس کے باوجود بطور کونسلر جو بھی کام کراتے ہیں اس میں مداخلت نہیں کی جاتی ۔ 2018 کے انتخابات میں پہلا پاکستانی مسلمان کونسلر منتخب ہوا ،کونسل کی منظوری سے شہر میں کئی ترقیاتی کام کرائے کبھی رکاوٹ نہیں ہوئی۔سیاسی اثرورسوخ یہاں بھی ہوتا ہے لیکن منصوبے جاری رہتے ہیں۔ پاکستان میں جب تک مقامی حکومت کو اختیارات نہیں دیئے جائیں گے کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوگا۔ اداروں کو مضبوط اور بااختیار کیاجائے تب ہی نظام چلے گا۔ہم سب کو نظام کا حصہ بننا چاہیے۔

سابق ڈپٹی میئر مشتاق لاشاری : برطانیہ میں مرکزی حکومت کی گرانٹ طے ہے۔مقامی حکومت میں کونسلز اپنی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف ٹیکسز کی مد میں فنڈ جمع کرتے ہیں جس کی مرکز کی طرف سے اجازت ہوتی ہے۔یہاں مقامی حکومت کے اختیارات میں داخل اندازی نہیں کی جاتی ۔ برطانیہ میں فنڈکی تقسیم منصفانہ ہوتی ہے۔برطانیہ میں مقامی حکومتی نمائندے لوگوں کے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں۔اختلاف اور احتجاج جمہوریت کا حسن ہے۔احتجاج اور الزامات کے باوجود مقامی حکومت کو عوامی مفاد کیلئے کام کرنا چاہیے۔

دنیا: برطانیہ میں بھی مرکز اورشہر میں پارٹیاں میں مختلف ہوتی ہیں پھر بھی نظام بہتر انداز میں چل رہا ہے ،پاکستان میں ایساکیوں نہیں؟

 ڈاکٹر سعدیہ جاوید( پی پی ایم پی اے): برطانیہ میں سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں،پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہ سسٹم ڈکٹیٹر کے ہاتھ میں رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے سیاسی جماعتوں کو آگے نہیں آنے نہیں دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے مقامی حکومت کو ہاتھ میں لیا۔پہلے سارے اختیارات جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پاس تھے اب سارے الزامات پیپلز پارٹی پر لگائے جارہے ہیں ۔برطانیہ میں مقامی حکومت ایک نظام کے تحت چل رہی ہے ہم آج تک ایک نظام نہیں لاسکے،ہر سیاسی جماعت کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہوتاہے جس کو وہ پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے ۔حکومت سندھ بلدیاتی آرڈیننس کے ذریعے کوشش کررہی ہے ایسا نظام لایاجائے جس میں مقامی نمائندوں کو بااختیار بنایا جائے،آج تک کسی سیاسی جماعت نے لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کو بااختیار نہیں بنایا۔

دنیا: پیپلزپارٹی اسمبلی سے بل تو پاس کرالیتی ہے مسائل حل کرنے کیلئے ڈائیلاگ کیوں نہیں کرتی ؟

ڈاکٹر سعدیہ جاوید:پیپلز پارٹی نے اسمبلی میں بلدیاتی آرڈیننس2021 پاس کیا ،اعتراضات آنے پر اس کو تبدیل بھی کیا ہے،پیپلزپارٹی ڈائیلاگ پر یقین رکھتی ہے پارٹی کی بھی ذمہ داری ہے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ڈائیلاگ کرے۔ جب تک قومی سطح پر ڈائیلاگ نہیں ہوں گے کوئی سیاسی جماعت کچھ نہیں کرسکتی،گزشتہ دور میں ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر بار بار کہتے رہے کہ میرے پاس اختیار ات اور ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز نہیں ہیں ،میں بے بس ہوں کچھ نہیں کرسکتا تو انہوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا ؟۔ مصطفی کمال نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جتنا فنڈ آصف زرداری کے دور میں ملا اتنا مشرف کے دور میں نہیں ملا۔نعمت اللہ خان کے دورمیں بہت اچھے اور ترقیاتی کام ہوئے لیکن ان کے دور میں ہی کمرشلائزیشن ہونے کی وجہ سے آج کراچی کئی مسائل کا شکار ہورہا ہے۔پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اپوزیشن ساتھ بیٹھے ہم بات کرنے کو تیار ہیں،لسانی بنیادوں پر صوبے کو تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر اسامہ رضی :کراچی پاکستان کا سب سے بڑ ا شہر ہے یہاں کوئی لسانیت نہیں ہے،ہر زبان کے بولنے والے رہتے ہیں۔ہم کراچی کے ساتھ دیگر شہروں کے بلدیاتی نظام کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں،لاڑکانہ ،نواب شاہ اور حیدرآباد کی بلدیہ کوبھی بااختیار بنایا جائے۔74سال پہلے کراچی میں ایک ہی یونیورسٹی تھی آج بھی ایک ہی یونیورسٹی ہے،اس کاذمہ دار کون ہے؟ جو تعلیمی شعبے پہلے کراچی کے پاس تھے ان کو واپس کیوں لیا جارہاہے؟ شعبہ صحت میں عباسی شہید اسپتال مقامی حکومت سے واپس کیوں لیا جا رہا ہے؟، کراچی کے اداروں پر قبضہ کیا جائے گا تو احتجاج کراچی کے شہریوں کا حق ہے اور یہ حق آئین نے دیا ہے اس سے ہمیں کوئی رو ک نہیں سکتا۔جب تک کراچی کو حق نہیں ملتا جماعت اسلامی سڑکوں پر دھرنے اور مظاہرے کرتی رہے گی۔کراچی سے مراد ہر وہ شخص جو کراچی میں رہتا ہے ہم ا ن کیلئے آواز اٹھارہے ہیں۔ہماری سول بروکریسی نے آصف زرداری کو صوبہ سندھ ٹھیکے پر دے دیا ہے کہ جو لوٹ مارکرنی ہے کرو ہم نے منہ اس طرف کیاہوا ہے،دنیا بھرمیں سارے شعبے بلدیات کے ماتحت ہوتے ہیں ہمارا مطالبہ ہے پاکستان میں بھی سارے شعبے بلدیات کو ملنے چاہیں۔جماعت اسلامی تشدد کی سیاست نہیں کررہی پرامن احتجاج کررہی ہے ،ہمار ی پرامن آواز نہیں سنی گئی تو مطلب ہے سندھ حکومت پرتشدد واقعات کو ابھارنا چاہتی ہے۔

دنیا:جماعت اسلامی لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے خلاف احتجاج کررہی ہے ،برطانیہ میں موجود پاکستانی ماہرین کے مشوروں سے ایسا نظام نہیں بن سکتاہے جس سے دھرنے او ر احتجاج کے بجائے مسائل حل ہوں؟

ڈاکٹر اسامہ رضی : پاکستان بننے کے بعد انگریزوں کے جانے کے بعد حکمرانی عوام تک منتقل نہیں ہوئی ان ہی لوگوں کے پاس رہی جو انگریزوں کے وفادار تھے ،بعد میں ایک آئین بنا جو متفقہ طور پر منظور ہوا جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ وفاق اورصوبائی حکومت کیاہے اور مقامی حکومت کیسی ہونی چاہیے،اس میں موجود ہے کہ وفاق کس طرح اپنے اختیارات صوبے کو دے گااور یہ اختیارات عطیہ نہیں ان کا حق ہے ،اسی طرح صوبے مقامی حکومت کواختیارات دیں گے ۔آئین کے تحت اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیئے جا ئیں یہ مقامی نمائندوں کا حق ہے۔انگلینڈ میں مقامی حکومت اس لیے کامیاب ہے کہ انہوں نے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا تھااور جاگیرداروں کی اجارہ داری ختم کردی ۔یہاں ایک جاگیردار لاکھوں ایکڑ زمین کا مالک ہے ،چند جاگیردارجو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں صوبے کے مالک و مختاربنے بیٹھے ہیں۔پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر شپ ، سول ڈکٹیٹر شپ یا جاگیردارانہ نظام ہوتاہے۔اس وقت ملک میں جاگیردارانہ نظام چل رہاہے،بدقسمتی سے سندھ میں منصفانہ تقسیم نہیں کراچی کو ساری سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں جو ادارے بلدیات کے پاس ہیں وہ ترقی کررہے ہیں،سند ھ کے تما م شہروں خاص طورپر کراچی کو آئین کے تحت مالی ،سیاسی اورانتظامی اختیارات ملنے چاہییں ۔

ڈاکٹر افضل خان :اس وقت دنیا سمٹ چکی ہے،برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی ملک کیلئے درد رکھتے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں اپنے تجربوں سے ملک میں بہتری آئے ۔ہم سپورٹ کرنے کیلئے تیار ہیں، پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہورہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ایک بات کہوں گا جب تک ووٹر ز اپنا ووٹ قابل اورایماندار کو نہیں دے گاحالات بہتر نہیں ہوں گے،ووٹ امانت ہے اور امانت حق دار کو دی جاتی ہے،عوام بار بار ووٹ غلط آدمی کو دیں گے اور شکایات کریں کہ حکومت ٹھیک نہیں ،صحیح کام نہیں کررہی،ا س میں قصور کس کا ہے؟،نمائندوں کو کون منتخب کررہا ہے؟۔

دنیافورم میں اس وقت ماحول پرجوش اوردلچسپ ہوگیا جب ایڈیٹر فورم نے برطانیہ میں موجو د کمانڈر آف برٹش ایمپائر مشتاق لاشاری اورڈاکٹر افضل خان سے سوال کیا کہ پاکستان میں انتخابات کے دوران امیدوار ووٹر اور سپورٹر کو بریانی اور نہ جانے کیا کیا کھلاتے ہیں کیا برطانیہ میں بھی ایسا ہوتاہے اور انتخابات میں کتنے اخراجات کی اجازت ہوتی ہے؟۔ ڈاکٹر افضل اور مشتاق لاشاری نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یہاں بریانی پر ووٹ نہیں ملتا ۔اگر کھلائی تو عدالت کا منہ دیکھنا پڑتاہے۔ یہاں قانون ہے بریانی یا کھانا کھلایا تو نااہل ہوجائیں گے۔مشتا ق لاشاری نے کہا یہاں ایم پی اے اور کونسلر حد سے زیادہ اخراجات نہیں کرسکتے ۔اختیارات کی تقسیم میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتا۔ پاکستان میں پرویز الٰہی نے اسکاٹ لینڈ کی طرز پر پنجاب میں 1122 سروس شروع کی جو بہت کامیاب ہے اور ڈبل ون اور ڈبل ٹو کا نظام اسکاٹ لینڈ سے سیکھا ہے جو پنجاب میں اچھا چل رہاہے۔

ملک کی بہتر ی کیلئے ضروری ہے جہاں نظام اچھا چل رہا ہے ان سے سیکھا جائے ۔میری پاکستانی ایم پی اے ،ایم این ایز اور کونسلر سے درخواست ہے وہ یہاں آکر شاپنگ کے بجائے ملک کیلئے کچھ سیکھیں۔ دنیا فورم کے توسط سے کہنا چاہوں گا حکومت سندھ اوردنیا فورم دوبار ہ مدعو کرے۔ میں اور قیصر عباس دونوں کراچی آکر تما م امیدوار جو الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان کو برطانیہ میں کامیابی سے چلنے والے بلدیاتی نظام کے متعلق تفصیل سے بتاسکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلباء کو بھی پیشکش کرتے ہیں بلائیں ہم آنے کو تیار ہیں۔ایڈیٹرفورم نے سوال کیاکہ پاکستان برطانیہ میں پاکستانی ماہرین سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ؟ کیا تبادلہ پروگرام ہوسکتے ہیں؟۔ڈاکٹر سعدیہ جاوید نے کہا کہ پارلیمنٹ ،جمہوریت او ر مقامی حکومت کیلئے تبادلہ پروگرام ہونے چاہییں،دنیا میں جہاں بھی مقامی حکومت کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے ہمیں اسے اپنانا چا ہیے۔ برطانیہ میں موجود پاکستانیوں کے تجربے سے فائدہ بھی اٹھائیں گے ہر طرح سے تعاون پر تیار ہیں ۔ ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہاکہ کراچی کے فنڈسے لاہور،پشاور او رملتان میں ترقیاتی کام ہورہے بیشک ہوں یہ بھی ملک کا حصہ ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمارا فنڈ ہمارے اوپر ہی خرچ نہ ہوجو شہر سب سے زیادہ ریونیو دے رہا ہو اور وہاں ترقیاتی کام نہ ہوں ۔

عوام بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہوں یہ نا انصافی اور زیادتی ہے ،کراچی دنیا کے5 بڑے شہروں میں ایسا شہر ہے جسے میگا سٹی کہا جاتاہے، کراچی پاکستان کا 67فیصد ریونیو پیدا کرتاہے ، پورا ملک 58فیصد اور صرف کراچی 42فیصد ٹیکس دیتا ہے،اس کے باوجود سہولتوں سے محروم ہے ۔سندھ حکومت کا 98 فیصد ریونیو کراچی دیتاہے، کراچی پورے ملک کو چلانے والا شہر ہے ،سندھ حکومت کی بددیانتی دیکھو بتایا جاتاہے لاڑکانہ میں 90ارب روپے ترقیاتی کاموں میں خرچ ہوئے ،لاڑکانہ جاکر دیکھو تو معلوم ہوتاہے وہاں نو روپے بھی نظر نہیں آتے ،پیپلزپارٹی کی حکومت کراچی ہی نہیں پورے صوبے کو بااختیار شہری حکومت دے۔اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معیز خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئین میں ہے کہ انتخابات کے دوران پیسہ استعمال کیا گیا تو امیدوار نااہل قراردیا جائے گا، ملک میں قانون ہے بدقسمتی سے عمل نہیں ہوتا۔

 دنیا: برطانیہ اور پاکستان کے بلدیاتی نظام میں کیا فرق ہے؟کون سے ادار ے ہیں مقامی حکومت کے اختیار میں ہیں؟

 ڈاکٹر افضل خان:برطانیہ میں مقامی حکومت کا نظام مضبوط اور پائیدار ہے ۔مرکزی حکومت کو Decentralized کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جس میں تمام فیصلے عوامی مفاد میں کئے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں لوکل گورنمنٹ میں کچھ کونسلز ملکی سطح اور کچھ مقامی سطح پر کام کرتی ہیں۔اسی طرح کچھ ٹاؤن کونسلز بھی ہوتی ہیں جس میں فنڈنگ او ر اختیارات مرکزی حکومت کی طرف سے آتے ہیں۔ٹریفک منصوبہ بندی ،عمارتوں کی منصوبہ بندی اور قوانین مقامی حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں،معاشی  اور کمیونٹی کے مسائل بھی دیکھے جاتے ہیں،صحت کا شعبہ مقامی اور مرکزی دونوں سطح پرہوتے ہیں۔

اسی طرح پولیس کا بھی کچھ حصہ مقامی اور کچھ مرکزی سطح پر ہوتاہے۔تما م کام مل کر کیے جاتے ہیں،سارے کام علاقوں کی مناسبت سے کیئے جاتے ہیں،پولیس ، صحت اور کئی ادارے مرکز اور مقامی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔پاکستان ہمارے تجربے سے فائدہ اٹھائے۔یہاں عوام ووٹ کا درست استعمال کرتے ہیں ۔پاکستانی عوام بھی ووٹ کا درست استعمال کریں۔ ووٹ ایماندار اورصحیح لوگوں کو نہیں دیتے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔مقامی علاقوں میں تین کونسلز ہوتی ہیں جنہیں ووٹرزکہا جاتا ہے،انتخابات چار مراحل میں ہوتے ہیں جو چار سال تک ہوتے رہتے ہیں ۔

ڈاکٹر معیز خان :دنیا فور م بہت اچھا ہورہاہے جہاں بحث ہورہی ہے تقریر نہیں، سب لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا جارہا ہے، حقیقت ہے کراچی ملک کا سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے ا سکے باوجود اس کا پیسہ اس پر نہیں لگ رہا،ایک شہر کا پیسہ دوسرے شہرپر لگانے کا مقصد Capicity building کو بڑھانا ہوتاہے جس سے ملک ترقی کرتاہے اور ضروری نہیں یہ پیسہ مستقل دیا جائے مستحکم ہونے پر روکا جاسکتاہے۔جاگیردارانہ نظام کے خلاف سب سے پہلا قانون ایوب خان نے پیش کیا۔میری پی ایچ ڈی کراچی پر ہے، 2016 میں ریسرچ کی تھی اس وقت کراچی کا رقبہ 3236 اسکوائر کلو میٹر تھا جو اب بڑھ کر 3700 اسکوائرکلو میٹر ہوگیاہے۔کراچی کا رقبہ پوری دنیا کے ممالک میں بڑے شہروں میں چوتھے نمبر پر آتاہے ،بھارت کا شہر ممبئی کا رقبہ 400سے500اسکوائر کلو میٹر ہے۔ لندن کا 150سے 200اسکوائر کلو میٹر ہے، دنیا میں کراچی جتنے کئی ممالک موجود ہیں۔کراچی میں 13ادارے کام کررہے ہیں ان میں زیادہ ترا دارے وفاق کے ماتحت ہیں جو کراچی کے اختیار میں نہیں۔

ڈاکٹر قیصر عباس:مقامی حکومت کو چلانے کیلئے مضبوط اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جس سے نظام بہتر انداز میں چلتا ہے۔سسٹم کوئی بھی برا نہیں ہوتا اختیارات اور سیاسی پاورہونا ضروری ہوتاہے، پاکستان میں حکمران جماعت کہتی ہے ہمیں کام نہیں کرنا دیا جاتا ،اپوزیشن مخالفت کرتی ہے،میرا ان سے سوال ہے جب حکمران یاسیاسی جماعتیں ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کرتی ہیں توآپ کو کوئی روکتا ہے؟ اس وقت کام نکالنے کے سارے راستے نکال لیتے ہیں ،سیاسی جماعتیں اور حکمران کام میں سنجیدہ او ر مخلص ہوں تو کئی راستے نکل سکتے ہیں ہم کرپشن اور بد دیانتی کرکے عوام اور طلباء کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔برطانیہ میں بیانات نہیں عملی کام ہوتاہے۔ان اداروں کے خلاف احتجاج ہونا چاہیے جو کام صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہے ہیں،مقامی حکومت کو مضبوط بنانے کیلئے اداروں کو سسٹم میں لائیں اور فنڈنگ کریں تو کام ہوں گی ۔

طلبہ وطالبات کے سوالات

دنیا فورم میں طلبہ و طالبات نے برطانیہ میں موجود شرکاء سے بذریعہ آن لائن اور فورم میں موجود سیاسی اور حکمران پارٹی سے سوالات کیئے۔شعبہ تاریخ کے طالب علم نعمان نے کہامیرا سوال پیپلز پارٹی کی سعدیہ جاوید سے ہے ،آپ کی پارٹی اٹھارویں ترمیم لائی جس نے پیپلز پارٹی کی حکومت کوبہت بااختیار بنایا اس میں ایک شق بھی ہے کہ تما م صوبے بلدیاتی حکومتوں کو معاشی ،انتظامی اور سیاسی آزادی دیں گی ،ترمیم سے صوبوں کو تو اختیارات مل گئے ہیںلیکن بلدیاتی حکومت کو اداروں کا اختیا ر نہیں ہے ۔پیپلز پارٹی کا یہ دہرا معیار کیوں ہے؟۔ڈاکٹر سعدیہ جاوید نے کہا کہ سندھ حکومت واحد صوبہ ہے جس میں بلدیاتی حکومت نے اپنا دور مکمل کیا،ایم کیوایم کے وسیم اختر نے بہت شور مچایا اور ناراض رہے لیکن ہم نے معطل نہیں کیاان کو پورا عرصہ دیا گیا۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کراچی میں بہت کام کرارہے ہیں تنقید سے ہٹ کر بھی چیزوںکو دیکھنا چاہیے۔

شعبہ قانون کے طالب علم ساجد نے سوال کیا کہ پاکستان میں شفاف احتساب کاعمل کیسے ہوگا؟۔کمانڈرآف برٹش ایمپائر مشتاق لاشاری نے کہاکہ جمہوریت میںجمہوری رویوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم پی اے ،ایم این اے اور کونسلر کو اپنی ذمہ داریوں او ر حقوق کا معلوم ہونا چاہییے اور عوام کے بہتر مفاد میںفیصلے کرے ۔ایڈیٹر فورم نے سوال کیاکہ کیا برطانیہ میں مقامی لوگوں کو ملازمت اور تعلیم کے مواقع زیادہ ہیں یا وہاں بھی کوٹہ سسٹم ہے؟۔مشتاق لاشاری نے کہا کہ یہاں صرف میرٹ پر داخلے ہوتے ہیں۔بعض اوقات اسی سسٹم کے تحت مقامی حکومت بھی ملازمت دلواسکتے ہیں جس میں مرکزی حکومت مداخلت نہیں کرتی ۔ابھی حال ہی میں ایک نئی وزارت بنائی گئی ہے جس کا کام ہے وہ لندن سے باہر دیگر شہروں کے لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرے۔ڈاکٹر قیصر عباس نے کہا لندن میں باہر کے لوگوں کو ملازمت کے بہت مواقع ہوتے ہیں جس کی واضح مثال ہم لو گ لندن میں موجود ہیں۔ یہاں پر خدمت اور روزگار کامعیار ہے،

یہاں باتوں سے کام نہیں چلتا کچھ کرکے دکھانا ہوتاہے۔کام والے افراد کی ہرجگہ قدر ہوتی ہے۔طالب علم شہریار خان نے کہا میرا برطانیہ میں موجود شرکاء سے سوال ہے وہاں مقامی حکومت اور پالیسیوں میں طلباء کوکیا اختیار ہے؟ اور دوسراسوال پیپلزپارٹی کی سعدیہ جاوید سے کہ طلباء یونین پر پابندی ہٹانے کا معاملہ کیوں رکا ہواہے؟۔قیصر عباس نے کہا کہ برطانیہ میں مقامی اور بڑی میٹنگز میں بھی طالب علم کی ایک نشست ہوتی ہے فورم میں شرکت کا مقصد بھی یہی تھا یہاں طلباء سے براہ راست مسائل پر بات ہوگی ۔برطانیہ کی کونسلز میں نوجوان میئر زہیںجس کا مقصد نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اورآگے لانا ہے۔ پاکستان میں بھی عمل ہونا چاہیے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو روکنے کیلئے ہمیں کھڑے ہونا پڑیگا اور ہماری آواز سنی جائےگی تب آپ سسٹم کا حصہ بن سکتے ہیں۔مشتاق لاشاری نے کہادنیا فورم کے توسط سے مطالبہ کرتا ہوں پاکستا ن میں طلباء یونین فوری طورپر بحال ہونی چاہیے۔طلباء اور ٹریڈ یونین جمہوریت کیلئے اہم ہوتی ہیں۔برطانیہ میں طلباء یونین ہیں۔

اس وقت پاکستان میں ٹریڈ یونین صرف ایک فیصد ہے۔ جہاں طلباء اور ٹریڈ یونین نہ ہو وہ ملک کیسے آگے جاسکتاہے؟۔ڈاکٹر سعدیہ جاوید نے کہا سندھ حکومت کا موقف ہے کہ طلباء یونین بحال ہونی چاہے ،پیپلز پارٹی نے اسمبلی سے بل منظور کیا ہے جس پر میں نے دستخط بھی کیئے ہیں۔

آخر میں شعبہ تاریخ کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر حنا خان نے کہا کہ دنیا فورم نے اہم موضوع کا انتخاب کیا جس سے عوام خاص طورپر طلباء میں آگہی پیدا ہوگی ۔بلدیاتی نظام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ نظام زیادہ تر ڈکٹیٹرز کے پاس رہا ہے لیکن اس کی مختلف وجوہات ہیں،ان لوگوں نے بہت اچھے کام بھی کیے ہیں ،دنیا فورم میں تما م شرکاء خاص طورپر برطانیہ سے بذریعہ آن لائن شرکت کرنے والے شرکا ء کا شکریہ اداکرتی ہوں جنہوں نے ایک دوسرے کی بات سنی اور تحمل سے سنا گیا یہی جمہوریت کاحسن ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔