پاکستان :خلائی ٹیکنالوجی میں بھی کامیاب،تحقیق جاری
شرکاء:(بذریعہ وڈیولنک) ڈاکٹر نجم عباس نقوی ،چیئرمین سینٹرل پراجیکٹ ڈائریکٹر نیشنل سینٹر فار جی آئی ایس اینڈ اسپیس ایپلی کیشن اسلام آباد ڈاکٹر محمد شفیق، ایسوسی ایٹ پروفیسر نیشنل سینٹر آف ایکسی لینس ان جیالوجی پشاور یونیورسٹی ڈاکٹربختیار خان کاسی ،ڈین فیکلٹی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی بلوچستان یونیورسٹی آف آئی ٹی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز کوئٹہ ڈاکٹر عدنان ،ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ایری گیشن اورڈرینج زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹرسمیع اللہ ، نیشنل سینٹر آف جی آئی ایس اینڈ اسپیش ایپلی کیشن اسلام آباد دنیا فورم کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی ،وائس چانسلر این ای ڈی
خلائی ٹیکنالوجی صرف خلائی جہاز یا راکٹ بھیجنا نہیں،ڈیٹا پر کام کیاجائے: ڈاکٹرسروش حشمت، زراعت میں اسپیس سائنس کی ایپلی کیشن سے فصلوں کو مانیٹرکرسکتے ہیں : ڈاکٹر نجم عباس نقوی
پاکستان سپارکو نے چین کی مدد سے سیٹ لائٹ لانچ کیا ہے،ڈاکٹر محمد شفیق،سیلاب سے نقصانات کے ازالے میں برسوں لگ سکتے ہیں: ڈاکٹر عدنان
کمپیوٹر اور آئی ٹی کے طلباء جی آئی ایس پر اچھا کام کرسکتے ہیں،ڈاکٹر بختیار کاسی: ٹیکنالوجی کی مدد سے سیلابی صورتحال سے محفوظ رہنے پر تحقیق کررہے ہیں: ڈاکٹر سمیع اللہ
موضوع:’’پاکستان میں خلائی ٹیکنالوجی اور اس کی افادیت‘‘
پاکستان اپنے سیاسی اور سماجی مسائل کے باوجود ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی سے پیچھے نہیں،آئی ٹی ہو یا دیگر شعبہ جات پاکستانیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے،گزشتہ دنوں خیال آیا کہ خلائی ٹیکنالوجی میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے،ہمارے نوجوانوں کا معلوم ہونا چاہیے کہ اس جدید دنیا میں ان کیلئے اور کیا مواقع ہیں بس یہی خیال تھا کہ این ای ڈی کے وی سی ڈاکٹر سروش حشمت لودھی صاحب سے ذکرکیا اور انہوں نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد اسلام آباد میں ڈاکٹر نجم عباس نقوی صاحب سے رابطہ کیا جو نیشنل سینٹر فار جی آئی ایس اینڈ اسپیس ایپلی کیشن کے چیئرمین اورسینٹرل پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔انتہائی شکر گزار ہوں کہ ڈاکٹر نجم صاحب نے میرے موضوع کو پسند کیا اور وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے ہر ممکن تعاون کیا جس کے بعد ان ہی کی مدد سے پشاور،فیصل آباد اور بلوچستان یونیورسٹیوں کے ماہرین کیساتھ این ای ڈی میں دنیا فورم کیاگیا۔گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہو ا کہ یہ موضوع تو بہت ہی وسیع ہے،پاکستان چین کیساتھ سیٹلائٹ پر کام کررہا ہے،
خلائی ٹیکنالوجی کا تصور محض چاند تک پہنچنے تک کا ہے لیکن درحقیقت ماہرین کی گفتگو سن کر ایسا لگا کہ اب اس دنیا کی بقاء کا بہت زیادہ دارومدار خلائی ٹیکنالوجی پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس دگرگوں حالت کے باوجود اس میں بھرپور کام کررہا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ قدرتی آفتوں کے بارے میں پہلے سے آگاہی اور تباہی کا اندازہ بھی اسی ٹیکنالوجی سے لگاکر نئے قصبے بسائے جاسکتے ہیں بس کچھ کمی ہے تو وہ فنڈز کی ہے جو یقیناً منصوبہ بندی سے دور کی جاسکتی ہے۔امید ہے کہ ہمارے نوجوانوں کیلئے یہ دنیا فورم بہت کارآمد ہوگا ۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
(شکریہ:مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی) برائے رابطہ:
0092-3444473215،0092-3212699629
ای میل: mustafa.habib@dunya.com.pk
خلائی ٹیکنالوجی میں کام کی بہت گنجائش ہے ۔این ای ڈی میں باقاعدہ ڈگری پروگرام نہیں لیکن فائنل ایئر کے طلباء شعبے سے متعلق کئی کورسز کررہے ہیں۔جامعہ کراچی میں بھی جی آئی ایس پر کام ہورہاہے،وی سی این ای ڈی
ایپلی کیشن سے سیلاب او ردیگر آفات کا بھی معلوم ہو سکتا ہے ، لیکن پاکستان میںجو سیلاب آیا وہ اتنا بڑا تھا اس کو کنٹرول کرنے کیلئے وسائل اورتیاری نہیں تھی،ایسوسی ایٹ پروفیسر جیالوجی پشاور یونیورسٹی
زراعت ، ماحولیات ، موسمیات ، کان کنی ، شہری منصوبہ بندی ، روڈ ٹریفک مینجمنٹ ،اور سول ایوی ایشن سمیت دیگر کئی شعبوں میں ، بیدو سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم بھرپور استعمال کیا جا سکے گا،چیئرمین این سی جی ایس اے
اسپیس سائنس کی اپیلی کیشن اور نقشوں سے سیلاب سے تباہی کا معلوم کرسکتے اور نئے قصبے بسانے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے وسائل استعمال نہ کرنے سے انسانی جانوں کا بہت نقصان ہوا،ایسوسی ایٹ پروفیسر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد
قیام پاکستان کے وقت 33فیصدآبادی تھی اب دوسو گنا بڑھ چکی اور جنگلات کم ہیں توماحول بہتر کیسے ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے آباد ی کے ساتھ جنگلا ت میں بھی اضافہ کرنا ہو گا نیشنل سینٹرآف جی آئی ایس اینڈ اسپیش ایپلی کیشن اسلام آباد
نجی ٹیکسی کمپنیوں کی ایپس،گوگل، او ردیگر سرچ انجن جی آئی ایس کی مدد سے ڈیٹا حاصل کرتے اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سارا ڈیٹا جی آئی ایس سے حاصل ہورہا ہے،ڈین بلوچستان یونیورسٹی
دنیا :موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی اور جاسوسی کے نیٹ ورک میں ہماری خلائی ٹیکنالوجی کیا کام کررہی ہے؟جبکہ پاکستان میں خلائی ٹیکنالوجی پر کس قدر کام ہورہا ہے؟
وی سی ڈاکٹر سروش حشمت لودھی : اسپیس ٹیکنالوجی میں حکومت پاکستان فعال کردار اد ا کررہی ہے۔سپارکو کا قیام اہم کارنامہ ہے جو طویل مدت سے خلائی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے۔کچھ عر صہ پہلے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کا ادارہ بھی قائم کیا گیا جو بہت فعال ہے جہاں طلباء کو خلائی ٹیکنالوجی میں تعلیم اور دیگر مواقع میسر آرہے ہیں۔خلائی ٹیکنالوجی سے مرادصرف خلائی جہاز یا راکٹ بھیجنا نہیں ۔آج کے دور میں سب سے بڑی ایپلی کیشن سیٹلائٹ تصاویر کی ہے جس کے ذریعے مختلف کام اور ریسرچ ہوتی ہے۔
آج جدید دنیا ڈیٹاپرکام کررہی ہے وہی کامیاب بھی ہیں کیونکہ ڈیٹاکی بنیاد پر ہی معلومات اور اطلاعات کا حصول ممکن ہے۔ بے تحاشہ ادارے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے چیزوں کو لے کر چل رہے ہیں۔ موسمیاتی اورماحولیاتی تبدیلی اور دیگر شعبو ں کے ڈیٹاسے بہت فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔کچھ عرصے پہلے ایک پروجیکٹ میں شامل تھا جس میں عمارتوں میں زلزلوں سے محفوظ اوردیگر چیزوں پرکام ہورہا تھا اس کام کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا پاکستان میں خلائی ٹیکنالوجی کی کس قد راہمیت ہے۔مصطفیٰ حبیب صدیقی کی اچھی سوچ ہے جو اہم موضوعات پر منفرد دنیافورم کرتے ہیں۔
دنیا:پاکستان خلائی ٹیکنالوجی میں کیا کام کررہاہے ، ہم آج کہاں کھڑے ہیں ؟
ڈاکٹر نجم عباس نقوی : دنیا فورم کا شکریہ ادا کرتاہوں جس نے آج اہم موضوع کاانتخاب کیا۔خلائی ٹیکنالوجی اتنا وسیع موضوع ہے جس پرجتنی بات کی جائے کم ہے۔دنیا بہت تیزی سے بدل اورترقی کررہی ہے ہم نے خلائی ٹیکنالوجی پر کام نہیں کیا توبہت پیچھے رہ جائیں گے ۔پہلے لوگوںکا خیا ل تھا کہ خلائی ٹیکنالوجی صرف ستاروں اور سیاروں کے علم کے بارے میںہوتی ہے لیکن اب یہ ٹیکنالوجی بہت جدید ہوگئی ہے ۔ 2020 میں حکومت پاکستان نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی مدد سے این سی جی ایس اے کا ادارہ بنایا ، ادارے کو پروان چڑھانے میں 50 سے زائد یونیورسٹیوں نے کردار ادا کیا۔ ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے۔ادارے میں 7 لیبارٹریاں ہیں ان میں ایک پاکستان کی واحد اسپیس لیبارٹری ہے جو ریسرچ میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور اس میں اسمال سیٹ لائٹ (کیوب سیٹس) بھی بنائے
گئے ہیں ۔2013 میں انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی پاکستان نے پہلا کیوب سیٹ لائٹ لانچ کیا ،ا س کومزید بڑھاتے ہوئے تھری کیوب سیٹس لائٹس بنار ہے ہیں جس کی فنڈنگ حکومت اور ایچ ای سی کررہی ہے ۔اسی طرح ایک لیب میں ’’گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘‘ (GNSS) پر کام ہورہا ہے ۔اس وقت دنیا کی تمام اپیلی کیشن جی این ایس ایس کی مدد سے کام کررہی ہیں ۔2014ء میں انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے پہلا ماسٹر پروگرام ان گلوبل سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم لانچ کیا۔ عالمی نیٹ ورکنگ کے آخری سیٹ لائٹ کی کامیاب لانچنگ نے پاکستان کے سیٹ لائٹ نیوی گیشن ماہرین کی بھر پور توجہ حاصل کی ہے۔
بیدو گلوبل سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم کے تمام سیاروں کی ترتیب مکمل ہونے سے چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے مابین سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم کے شعبے میں مزید تعاون کو فروغ ملے گا۔اس وقت پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی چین کی شنگھائی ٹرانسپورٹ یونیورسٹی کے ساتھ’’دی بیلٹ اینڈ روڈ‘‘کے فریم ورک کے تحت بیدو سگنل وصول کرنے کا نظام تیارکر رہا ہے۔ بیدو نیوی گیشن سسٹم کو پاکستان میں استعمال کیے جانے کے انتہائی وسیع امکانات موجود ہیں۔ زراعت ، ماحولیات ، موسمیات ، کان کنی ، شہری منصوبہ بندی ، روڈ ٹریفک مینجمنٹ ،اور سول ایوی ایشن سمیت دیگر کئی شعبوں میں ، بیدو سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم بھرپور استعمال کیا جا سکے گا۔چین کے تیار کردہ عالمی سیٹ لائٹ نیوی گیشن سسٹم کے مکمل ہونے کے بعد ، یہ عالمی صارفین کو موسمیات ، نیوی گیشن اور اوقات کار کی چار وں موسموں کی خدمات فراہم کرے گا۔ پاکستان نا صرف بیدو کی خدمات حاصل کر سکتا ہے بلکہ بیدو کی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کر سکتا ہے اورا س کے ساتھ متعلقہ سافٹ وئیر اور ہارڈ ویئر کے آر اینڈ ڈی پیداوار اور استعمال کو بھی فروغ دے گا ، جس سے پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع اور معاشی ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ نیشنل سینٹر آف جی آئی ایس اینڈ اسپیس ایپلی کیشنز، پاکستان کی 7 مختلف یونیورسٹیوں میں7 جدید ترین ریسرچ لیبس کے ذریعے پاکستان میں خلائی ایپلی کیشنز کے ذریعے پائیدار مستقبل کیلئے ملک کے تکنیکی محاذ کو مضبوط کر رہا ہے۔
دنیا میں تمام ایپلی کیشن جی آئی ایس کی مدد سے کام کررہی ہیں۔پاکستان کے اسکولز ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں خلائی ٹیکنالوجی کے بارے میں آگہی دینا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو جدید اپیلی کیشن کے بارے میں معلومات ہوں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنا اور ملک کا نام روشن کریں۔ ہماری یونیورسٹی ،کالجز او راسکولوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی تعلیم نہیں ہے ۔ پشاوریونیورسٹی میں ڈاکٹر محمد شفیق جن کا تعلق جیالوجی سے ہے وہ گزشتہ 2 سال سے اسپیس ٹیکنالوجی سے متعلق کئی شعبوںمیں بہت اچھا کام کررہے ہیں۔جی آئی ایس کی مدد سے سیٹ لائٹ تصاویر سے بہت کام کیاجاسکتا ہے ،ان کا کام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سراہا جاتاہے۔ڈاکٹر شفیق ایپلی کیشن بنارہے ہیں جس سے اسپیس کا ڈیٹا استعمال کیا جا سکے گا جو جی آئی ایس کے ساتھ لنک کیاجائیگا ۔خاص طور پر ہمارے شمالی علاقہ جات کے مسائل جن میں زلزلہ ،سیلاب،گلیشئرز ،معدنیات شامل ہیں،ان پر کام کررہے ہیں ۔ایک لیب میں جنگلات پر کام ہورہاہے جس میں جنگل میں اگنے والے پودوں پر تحقیق جاری ہے۔ایک لیب میں ماحولیات ،موسمیاتی تبدیلی ،ایروسول ،ریموٹ سینسنگ پر بہت کام ہورہا ہے ان سب کا تعلق اسپیس سائنس کی ایپلی کیشن سے ہے۔اسی لیب نے حال ہی میں ایک ڈیجیٹل میپ ’’پاکستان کلائی میٹ‘‘ شائع کیاہے،جس میں پورے پاکستان کی اہم لائن فیچرز کو ڈ یجیٹیلائز کردیا گیاہے۔ میپ تمام لوگوں کو دستیاب ہوگا۔ایک لیب فیصل آباد میںہے جو زراعت ،فصلوں اور پانی پر کام کررہی ہے جس پر ڈاکٹر عدنان کام کررہے ہیں ۔ زراعت کے شعبے میں اسپیس سائنس کی ایپلی کیشن کے ذریعے فصلوں کو مانیٹرکرسکتے ہیں ۔پانی کا بہاؤ اور سمت کا معلوم کرسکتے ہیں۔دنیا بھر میں کہیں بھی انفارمیشن کے حصول کی بنیاد ڈیٹا کو سمجھا جاتا ہے۔کچھ عرصے سے دنیا کے ساتھ پاکستان میں کورونا کی صورت حال رہی،اب ڈینگی نظر آرہا ہے، شعبہ طب میں بھی کئی مسائل جیو فینسنگ اور جی آئی ایس کی مدد سے حل کیے جاسکتے ہیں۔کس علاقے میں کون سی بیماری ہے اور کس وجہ سے ہے وہ بھی معلوم کیاجاسکتا ہے۔ہم اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر 17کورسز پر کام کررہے ہیں۔
دنیا: حالیہ بارشوں سے بہت تباہی ہوئی ،کیا جی آئی ایس کے ذریعے پیشگی ڈیٹا حاصل کیا جاسکتاہے؟
ڈاکٹر محمد شفیق: بالکل ممکن ہے،موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے ،اس کی آگہی اور بادلوں کی حرکات سے جی آئی ایس کے ذریعے ڈیٹا اور معلومات حاصل کی جاسکتی ہے ۔میڈیا پر بارش کی پیشنگوئی اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے دی جاتی ہے۔بارش کی پیشنگوئی بھی بادلوں کی حرکت سے معلوم کرتے ہیں۔پاکستان 2010 ء سے جی آئی ایس اپیلی کیشن پر کام کررہا ہے۔جی آئی ایس کی مدد سے موسمیاتی تبدیلی پر بھی کام ہورہاہے۔ایپلی کیشن کی مدد سے سیلاب او ردیگر آفات کا بھی معلوم ہوسکتاہے،لیکن پاکستان میںجو سیلاب آیا وہ اتنا بڑا تھا اس کو کنٹرول کرنے کیلئے وسائل اورتیاری نہیں تھی ۔دنیا بھر میں اس طرح کے سیلاب او ر آفات آتی ہیںلیکن ان کے اثرات اس قدر خطرناک نہیں ہوتے جوپاکستان میں ہوئے ہیں۔جی آئی ایس ایپلی کیشن بہت وسیع ہے جس میں مختلف سمتوں میںکام ہو رہاہے۔اس وقت ڈیٹا دستیاب ہونے کا ایشو نہیں۔
کام کریںتو ڈیٹابہت مل جاتا ہے۔ ناسا اور سیٹ لائٹ سے ڈیٹا مل جاتاہے لیکن ہمارے پاس اپنا ڈیٹا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا سیٹ لائٹ بنانا اور ڈیٹا جمع کرناہے،ہمیں اپنی ضروریات کے مطابق اپنے آلات تیار کرنے ہونگے۔ پیشنگوئی ہوتی ہے جو میڈیاکے ذریعے بتائی بھی جاتی ہے،پیشگی ڈیٹامعلوم ہوجاتا ہے،سیٹ لائٹ اور گوگل ہمارے اہم سورسز ہیں،بڑی آفات سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس ڈیٹا نہیں ہوتا،،اگر تیاری ہوتی تواتنا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوتا۔
دنیا:سیلاب او ربارشوں سے بہت نقصان ہوا، صورت حال بہتر ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟
پروفیسر ڈاکٹر عدنان : جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ میں سیلاب اور بارش کی صورت حال کے بارے میں نقشہ اور معلومات جمع کی ہیں۔ڈیٹا کی مدد سے فصلوںکا نقصان اور کتنا علاقہ متاثرہوا ہے معلوم کیاہے۔سیلاب کی پیشگی اطلاعات دستیاب ہوتی ہیں، پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) کی طرف سے بھی انتباہ جاری کی گیا تھا،ماضی میں سیلاب اور بارشوں سے اتنی تباہی نہیں پھیلی جس قدر اب ہوئی ہے۔ انسانی جانیں اب محفوظ ہیں لیکن فصلوں ،زمینوں ،مکانات اور جانوروں کے نقصانات کے ازالے میں برسوں لگ سکتے ہیں ۔اسپیس سائنس کی اپیلی کیشن سے معلومات لے سکتے ہیں اور نقشوں کی مدد سے معلوم کرسکتے ہیں کس علاقے میں کتنی تباہی آئی ہے اور نئے قصبے کیسے بسائے جاسکتے ہیں۔بدقسمتی سے وسائل کا استعمال نہ کرنے سے انسانی جانوں کا بہت نقصان ہواہے۔تجاوزات کی وجہ سے ہمار ا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیاہے، ان چیزوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا:بلوچستان میں طلباء اور نوجوانوں کا خلائی ٹیکنالوجی کے بارے میں کیا رحجان ہے؟
ڈاکٹر بختیارخان کاسی : اس وقت جی آئی ایس کے حوالے سے نوجوانوں میں بہت آگہی آگئی ہے،کیونکہ یہ ایپلی کیشن اسمارٹ موبائل اور گوگل میں استعمال ہوتی ہے۔ بلوچستان میں طلباء کیلئے جی آئی ایس یا اسپیس ٹیکنالوجی کیلئے ڈگری پروگرام نہیں،میرا پس منظر بھی کمپیوٹر سائنس سے ہے،جب سے اسپیس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کی لیبارٹری میںکام شروع اور ریسرچ کی تو اندازہ ہورہا ہے جو طلباء کمپیوٹر اور آئی ٹی میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ جی آئی ایس پر اچھا کام کرسکتے ہیں۔لیبارٹری میں زیادہ وہی طلباء ہوتے ہیں جو کمپیوٹر یا آئی ٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ نجی ٹیکسی کمپنیوں کی ایپس،گوگل، او ردیگر سرچ انجن جی آئی ایس کی مدد سے ڈیٹا حاصل کرتے ہیںاور معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس میںکام کی بہت گنجائش ہے۔
اس وقت انڈیپنڈنٹ ریسرچ گروپ، جی آئی ایس کی مدد سے گلوبل ڈیٹا حاصل کرکے ریسرچ اور دیگر کام کرتے ہیں،حالیہ بارشوں اور سیلاب کی صورت حال میں سارا ڈیٹا جی آئی ایس کی مدد سے حاصل ہورہاہے۔
دنیا: پاکستان میں جنگلات کی کیا صورت حال ہے ،حکومت اس شعبے کی مدد سے جنگلات پر کام کررہی ہے؟
ڈاکٹرسمیع اللہ : ریموٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔اسی پر کام کررہاہوں۔پاکستان میں جنگلات بہت کم ہیں ،تین سے چار فیصد ہوں گے،قیام پاکستان کے وقت 33فیصدآبادی تھی اب دوسو گنا بڑھ چکی ہے اور جنگلات کم ہیں توماحول بہتر کیسے ہوگا۔موسمیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ہمیںآباد ی کے ساتھ جنگلا ت میںبھی اضافہ کرنا ہوگا۔ جی آئی ایس کے ذریعے جنگلات کی معلومات نہیں ہیں جس کی وجہ سے سیلابی صورتحال کی منصوبہ بندی نہیں کرسکے۔جنگلات پر کام کرنے کیلئے وسائل کی کمی ہے۔ہم ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی کئی چیزوں کو بہتر کرسکتے ہیں۔سیلاب کی صورت پر ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید کام کررہے ہیں اور تحقیق بھی کررہے ہیں کیا وجوہات تھی اور مستقبل میں کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں اورایک ماہ قبل الرٹ جاری کرسکتے ہیں تاکہ حکومت اس کے نقصانات سے محفوظ رہنے کی اقدامات کرے۔
دنیا:ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جارہی ہے کیا کراچی میں اس پر کام ہوسکتاہے ؟
ڈاکٹر سروش حشمت لودھی:خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں بے تحاشہ کام کی گنجائش ہے ۔این ای ڈی میں باقاعدہ ڈگری پروگرام نہیں لیکن فائنل ایئرکے طالب علم اس شعبے سے متعلق کئی کورسز کررہے ہیں۔کراچی یونیورسٹی میں جیالوجی کے شعبے میں جی آئی ایس پر کام بھی ہورہاہے۔ ہمیں جی آئی ایس کے ساتھ کئی ایپلی کیشنز میں ترقی کرنی چاہیے۔میں 2008ء سے 2013ء تک ایک پروجیکٹ میں شامل رہا ۔ بنیادی طورپر پروجیکٹ کا مقصد زلزلوں کے متعلق ریسرچ تھی ۔ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس میں زلزلے کی لہر مختلف سمتوں میںحرکت کررہی ہیں، پروجیکٹ پر پاکستان کی 3 یونیورسٹیاں ،کراچی سے این ای ڈی ،پشاور یونیورسٹی میں نیشنل سینٹر فار ایکسی لینسی جیالوجی اور بلوچستان یونیورسٹی کام کررہی تھی ۔ پروجیکٹ میں مختلف لوکیشنز میں جی پی ایس اسٹال کیئے جس سے ڈیٹا آتاتھا ۔اس کو پراسز کرکے دیکھتے تھے کہ محتاط اندازے کے مطابق کس مقام پر کتنا زلزلہ آسکتا ہے، پروجیکٹ پر پشاور یونیورسٹی میں بہت کام ہوا ، اس کو مزید بڑھایا گیا،
اس شعبے میں کام تو بہت ہوا ہے لیکن وسائل اور سہولتیں نہ ہونے سے لوگوں کی وہ تعداد سامنے نہیں آئی جو آنی چاہیے تھی ۔گزشتہ 20سال میں خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والے طلباء کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ہمیں اس کا م کومزید شعبوں تک بڑھانا چاہیے ۔جی آئی ایس صرف ایک جز ہے اس شعبے میںکام کے وسیع مواقع ہیں ان پر بھی کام کرناچاہیے۔ پروگرام کو بڑھانے کیلئے ہمیں گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ پروگرام شروع کرنے چاہیے۔اس وقت ہمار ا ملک بہت مشکلات سے گزر رہا ہے،خاص طورپر سندھ میں جو حالات ہیں وہ کبھی دیکھے نہ سنے ، بہت خراب صورت حال ہے،سندھ میں صرف کراچی اور تھرپار کر ضلع محفوظ ہے، سوشل میڈیا پرناسا نے سیٹ لائٹ سے تصاویر شیئر کی ہیں جس میں سندھ اور جنوبی پنجاب کاعلاقہ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب پانی میںڈوب گیا ہو۔سیلاب کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت مستقبل میں سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرے۔خوشی کی بات ہے پاکستان میں ایسے اداراے اور ماہر افراد موجودہیں جو ا س ٹیکنالوجی میں اچھا کام کررہے ہیں۔
دنیا: حکومت پاکستان اسپیس ٹیکنالوجی کو بڑھانے میںکیا کردار ادا کررہی ہے؟
ڈاکٹر نجم عباس: ہمارے ساتھ مسئلہ ہے ہم چیزوں کو الگ الگ کرکے رکھ دیتے ہیں،کوئی بھی چیز الگ نہیں ، چیزیں اجتماعی طور پر ترقی کرتی ہیں،ایک ادارہ،فورم یا کچھ ایسے افراد ہونے چاہییں جو ایمانداری سے منصوبہ بندی کرسکیں۔
ڈاکٹر شفیق : اس شعبے میں بہت کا م کررہے ہیں لیکن ابھی تک اس سطح پر نہیں آئے جہاں دنیا پہنچ چکی ہے، ایک وجہ ہمارے پاس وسائل او ر آلات نہ ہونا بھی ہے جس سے چیزوں کو پہنچنے میں وقت لگتا ہے، ڈیٹا دستیاب نہ ہونا بھی اہم مسئلہ ہے،دیگر ممالک میں بڑے بڑے سیٹ لائٹ ہوتے ہیں،ہمارے پاس یہ سہولت نہیں جس کی وجہ سے ہمیں گلوبل سیٹ لائٹ ڈیٹا پر انحصار کرنا پڑتاہے۔حالیہ سیلابی صورت حال میں ہم ان کے ڈیٹا کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ڈیٹاآئے گا تو اس کو استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بندی کریںگے،ایک مقام پر سیلابی صورت حال میں بارش کی وجہ سے سیٹ لائٹ کام نہیں کررہا تھا اور ڈیٹا نہیں تھاجس سے صحیح صورت حال کا معلوم نہیں ہوسکا،ان چیزوں کو بہتر کرنے کیلئے اپنے آلات خود بنانے اورآلات بڑھانے ہوںگے۔
دنیا : ہم چیزوں کو بہتر کیوں نہیں کرپا رہے؟ شعبے میں ملازمت کے مواقع ہیں؟
ڈاکٹر شفیق: ہمارے پاس اتنا فنڈ نہیں ،سیٹ لائٹ بنانے اور لانچنگ کرنے کیلئے ایک بہت بڑی رقم درکار ہوتی ہے۔بننے کے بعد اس کا ریونیو اس سے زیادہ آتاہے لیکن اس کو بنانے میں بہت پیسہ چاہیے۔پاکستان سپارکو نے حال ہی میں چین کی مدد سے سیٹ لائٹ لانچ کیا ہے۔مزید سیٹ لائٹ پر کام جاری ہے۔ آئندہ2سال میں بہتری نظر آئے گی۔پاکستان کو اللہ نے معدنیات سے مالا مال کیا ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں وہ کہاں کہاںہیں،ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نقشوں کی مدد سے معدنیات کا معلوم کرسکتے ہیں،لیکن اس کو معلوم کرنے کیلئے ڈیٹادستیاب نہیں ۔ا س شعبے میں ملازمت کے بہت مواقع ہیں،جن طلباء کو کام آتا ہے وہ خود مواقع پیدا کرسکتے ہیں،طلباء کو خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے کوسیکھنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ،
آ پ کے پاس لیپ ٹاپ،انٹرنیٹ ہے تو بہت اچھی طرح سیکھ سکتے ہیں۔ان چیزوں کو سیکھنے کیلئے گوگل اور سیٹ لائٹ پر ڈیٹا آسانی سے اور مفت میںمل جاتاہے ،صرف آپ کی دلچسپی ہونی چاہیے ان سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔کچھ ملٹی پل سوفٹ ویئرز جو انٹرنیٹ پر آسانی سے ڈاؤن لوڈ ہوجاتے ہیں ان کو استعمال کریں۔آپ کوکام کرنے کیلئے ڈیٹا اور سوفٹ ویئر دونوں مفت میں مل جاتے ہیں۔ طلباء میں دلچسپی ہے تو وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
دنیا فورم سوال وجواب کا سیشن
دنیا فورم میں سوال و جوابات کے سیشن کے دوران زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے طالب علم سیف اللہ خان نے کہا کہ پاکستان ماحولیات پر بہت کام کررہا ہے ، کئی پروجیکٹ میں سیلاب کے حوالے سے ہاؤس ہولڈ کا بھی ڈیٹاہے،کسی بھی علاقے میں سیلاب آتاہے تو وہاں کتنے گھر ،زمینیں ،جانور او ر زرعی زمینیں ہیں ان کا ڈیٹاموجود ہے لیکن وہ ڈیٹا نہیں شیئر کیاجاتا۔ہم اس ڈیٹا پرکا م کریں تو پیشگی اطلاعات سے بڑے نقصانات سے بچ سکتے ہیں اور بھی کئی ادارے ہیں جو ڈیٹا شیئر نہیں کرتے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس طرف بھی سوچنا چاہیے ہمار ا ڈیٹااستعمال کیوں نہیں ہورہا اور استعمال کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہیے۔ڈاکٹر عدنا ن نے کہا کہ سپارکو کا ادارہ اس حوالے سے ڈیٹا اور سیٹ لائٹ تصاویر فراہم کررہا ہے،چیئرمین این سی جی ایس اے ڈاکٹرنجم عباس نے کہاکہ پاکستانی ڈیٹا کیلئے نیشنل اسپیس ایجنسی سے درخواست کی جاسکتی ہے ،ان کی پاکستان ریموٹ سائنسز کی ویب سائٹ بھی ہے جس کے ذریعے بھی ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے،میری اطلاعات کے مطابق درخواست دینے پر ڈیٹا مل جاتاہے ۔طلباء کو ریسرچ کیلئے بہت کم قیمت پر لیکن اداروں کوقیمت ادا کرنے پر ملتا ہے لیکن ڈیٹا مل جاتاہے۔
کچھ سیٹ لائٹ ڈیٹا مختلف ادارے یاویب سائٹ مفت میں بھی دیتے ہیں۔ڈیٹا حاصل کرنے میں مسائل نہیں ہیں۔پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے طالب علم محمد شہاب نے کہا کہ ڈرون ٹیکنالوجی کے علاوہ دیگر چیزوں پرکام کررہا ہوں ،میری تجویز ہے کہ ہمیں دستیاب ڈیٹا کو استعمال کرنا چاہیے۔ دستیاب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے کام کو بڑھاتے رہنا چاہیے ۔ہر کام کیلئے ہائی ریزولوشن ڈیٹا درکا ر نہیں ہوتا ،بعض مرتبہ مقامی ڈیٹاسے بھی بہت کام ہوجاتاہے ۔کام کی جستجو اور لگن انسان کو بہت کچھ سکھا تی ہے اور بہت کچھ کرسکتاہے۔ڈاکٹر نجم عباس نے کہا کہ طالب علم نے بہت اچھی بات کہی، ہمارے پاس بہت ڈیٹا موجود ہے اسی کو کافی عرصے تک استعمال کرتے رہیں تب بھی کام مکمل نہیں ہوتا،ہمیں اپنے ذرائع پربھی انحصار کرنا چاہیے،اب سیلاب کے بعد دوبارہ تعمیر کا مرحلہ شروع ہوگا ،اس مرحلے میں جی آئی ایس اور اسپیس ڈیٹاکو استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی تب ہی بہتر کام کرسکیں گے۔