دماغ ٹھنڈا رکھیں،جسم توانا رہے گا…ماہرین کا مشورہ

دنیا فورم

تحریر : میزبان:مصطفی حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی،لے آئوٹ:توقیر عباس


شرکاء:سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ چیئرمین سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی۔ ڈاکٹر حیدر علی نقوی،چیئرمین شعبہ نفسیات ڈائو یونیورسٹی اسپتال ۔ڈاکٹر قلب حیدر، ماہر نفسیات سرکائوس جی اسپتال حیدرآباد گدوبندر۔ڈاکٹر عظمیٰ علی ،ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف کلینکل سائیکالوجی جامعہ کراچی۔ مریم حنیف غازی،چیئرپرسن شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی۔بینش ضیاء،منیجر چارٹر فارکمپیشن پاکستان ،روح برو۔ڈاکٹر ثنا ء سعدیہ،ایسوسی ایٹ پروفیسر کلینکل سائیکالوجسٹ سی بی ایم۔ ڈاکٹر محمد ادریس ،ماہر نفسیات سول اسپتال۔

  صحت کے شعبے میں بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے،بڑھایاجائے،سینیٹر کریم خواجہ،علاج کیساتھ تربیت سے قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے:  ڈاکٹر عظمیٰ علی

راتوں رات پٹرول مہنگا ہونے سے بھی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے:  ڈاکٹرحیدر علی نقوی،میڈیا ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی دے توکافی فرق پڑیگا:  ڈاکٹر قلب حیدر

 شکرسے جسمانی اور ذہنی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے:  مریم حنیف غازی،میاں بیوی ،بچوں اور دیگر لڑائیوں سے اہلخانہ ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں :  بینش ضیاء

معاشرے کا ذہنی مریض پر فوراً پاگل کا لیبل لگانا غلط ہے:  ڈاکٹر ثناء سعدیہ ،ذہنی مریض علاج کرانا چاہتے ہیں،یہ پیغام دنیا فورم کے ذریعے عام کریں:  ڈاکٹرادریس

 

موضوع: ’’جسمانی صحت کیلئے ذہنی صحت بھی ضروری …مگر کیسے؟ـ‘‘

 

 میرے استاد ،محسن اور سینئر صحافی مرحوم ولایت علی اصلاحی اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا کہ کراچی کی آدھی آبادی ذہنی مریض ہوجائے گی ،یہ 1995ء سے2000ء کی بات ہے ،میں اسے مذاق سمجھتا اور ہنس دیتا ۔لیکن آج جب چلتے پھرتے سڑکوں پر لوگوں کو لڑتے بھڑتے دیکھتا ہوں ،گھروں میں ہونے والے میاں بیوی کے اختلافات،بھائی بہن اور والدین سے ناراضی کی خبریں سنتا ہوں تو اصلاحی صاحب کی بات سچ ماننی پڑتی ہے اور پھر سینیٹر کریم احمد خواجہ نے دنیا فورم میں بتابھی دیا کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذہنی مریضوںکی تعداد40 فیصد تک پہنچ چکی ،چارٹر فار کمپیشن پاکستان ،روح برو کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں ’’جسمانی صحت کیلئے ذہنی صحت بھی ضروری‘‘کے موضوع پر دنیا فورم کا اہتمام کیاگیا۔

چارٹر فارکمپیشن کی منیجر بینش ضیاء نے بھرپورتعاون کیا۔فورم میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت نے صحت کے شعبے کیلئے بجٹ کم رکھاہوا ہے جبکہ بعض این جی اوز نہ ہوں تو مسائل بڑھ جائیں۔کورونا اور سیلاب نے دماغی صحت زیادہ خراب کردی ہے اور علاج جہاں فوری ڈاکٹروں سے رجوع ہے وہیں صبراور شکر کیساتھ قناعت ہے۔10اکتوبر کو دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے یہ فورم بھی اسی مناسبت سے رکھاگیا تھا۔شکریہ

مصطفی حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم دنیا اخبار کراچی)

برائے رابطہ:0092-3444473215 ,0092-3212699629

ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

 

جب ڈپریشن کی انتہا ہوتی ہے توخودکشیاں ہوتی ہیں۔تحقیق کے مطابق زیادہ ترخودکشیاں نچلے طبقے میں ہوتی ہیں،ہمیں خاص طورپر میڈیا کو اس طر ف توجہ اور آگہی دینے کی ضرورت ہے،چیئرمین سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی

انسان کوئی بھی کام اچھی نیت سے شروع کرے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔معروف جملہ ہے نیت صاف منزل آسان ،ہم اپنے طلباء کی اس جانب تربیت کرتے ہیں،چیئرپرسن شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی

سوشل میڈیا ذہنی دبائو میں اضافے کی بڑی وجہ بن گیا، معاشرتی ناہمواری،خواتین کے حقوق، تعلیم ،صحت ، معاش ،یہ مسائل حل ہوجائیں توجسمانی اور ذہنی صحت دونوں بہتر ہوسکتی ہیں چیئرمین شعبہ نفسیات ڈائویونیورسٹی اسپتال

 چارٹر فار کمپیشن پا کستان نے سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے ساتھ ملکر سول اسپتال میں مینٹل ہیلتھ کائونسلنگ ہیلپنگ کے نام سے ہیلپ لائن قائم کی ہے جہاں مفت ٹیلی کائونسلنگ کی جاتی ہے،منیجرسی سی پی ،روح برو

سست رہنا،طبیعت میں چڑ چڑاپن ،نیند پوری نہ ہونا بات بات پر لڑنا اور دیگر نفسیاتی مسائل سے ذہنی صحت خراب ہوتی چلی جاتی ہے،ایسے افراد فوری علاج کرائیں،ماہر نفسیات سرکائوس جی اسپتال حیدرآباد گدوبندر

 جسمانی بیماریاں نظر آتی ہیں، فوری توجہ مل جاتی ہے ، ذہنی مرض مریض کے اندر ہوتا ہے جس سے مریض او رگھر والے متاثر ہوتے ہیں ،ایسوسی ایٹ پروفیسر ،کلینکل سائیکالوجسٹ سی بی ایم

کراچی کے لوگ اتنے زیادہ مسائل کا سامنا کررہے ہوتے ہیں کہ ان میں مسائل کو برداشت کرنے کا مادہ دیگر سے زیادہ پیدا ہوجاتاہے ،وہ حالات کا سامنا کرتے ہوئے سارے کام کرتے ہیں،ڈائریکٹر آئی سی پی جامعہ کراچی

 آج ہم صحت مند زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں،گھروںمیںبچوں اور دیگر افراد کووقت نہیں دیتے،ہمیں گھروں میں رابطے اور طرز زندگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے،ماہر نفسیات سول اسپتال

دنیا:جسمانی صحت کا ذہنی صحت سے کیا تعلق ہے؟

 سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ : صحت کی سہولتوں کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ صحت کے شعبے میں بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا کی وجہ سے پاکستان میں 25 فیصد دماغی امراض میں اضافہ ہوا ۔کورونا سے 40فیصدلوگ متاثرہوئے اور ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا جس کے باعث خودکشیاں تک ہوئیں۔لوگ گوشت چھوڑ کر دالیں کھانے پر مجبور ہوگئے تھے ۔کئی گھرانے سڑکوں پر آگئے جس سے ذہنی دباؤ بہت بڑھا جس نے جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو متاثر کیا تھا ۔اب سیلاب سے دیہات ،گاؤں گوٹھوں میں زراعت تباہ ہوگئی ۔خاص طورپر گندم کی فصل بہت متاثر ہوئی ۔سیلاب سے انسانوں کے ساتھ جانوروں کی ہلاکتیں ، گھر اور بہت کچھ تباہ ہوگیا جس کے اثرات دھائیوں تک سامنے آسکتے ہیں اس صورت حال نے ذہنی صحت کو بہت متاثرکیاہے۔آئندہ 10 سال میں سرجن کم ہوجائیں گے ہمیں یہ کمی دورکرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا: کیا مہنگائی ،سماجی مسائل اور سوشل میڈیا بھی ذہنی صحت متاثرکررہی ہے؟

 ڈاکٹر حیدرنقوی :ذہنی صحت سے کئی چیزیں جڑی ہوتی ہیں اس کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں ۔ان مسائل کو حل کرنے کیلئے اداروں سمیت ہماری اپنی انفرادی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔نوجوان اور بچے عام طور پر 8سے 10 گھنٹے اسکرین کو استعمال کرتے ہیں جو ہماری سماجی اقدار اور کئی چیزوں کو متاثر کررہا ہے۔یہ مسائل دنیا بھرمیں بڑھ رہے ہیں۔پاکستان میں اس کے اثرات زیادہ اسلئے ہیں کہ ہم مسائل کو کنٹرول نہیںکرتے ۔ جنوبی ایشیا میں ہمارا کردار بہت اچھا نہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی میںہم بھارت سے مقابلہ نہیں کرسکتے وہ ہم سے بہت آگے ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں اپنے قدم جما رہا ہے،تعلیمی اداروں میں اساتذہ بھی آگہی اور تربیت دینے کا کام نہیں کررہے ،جس سے بچو ں میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ہمیں مسائل کو مقامی طورپر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔سوشل میڈیا بھی ذہنی دبائو میں اضافے کی بڑی وجہ بن گیا ہے جو نوجوانوں کو متاثر کررہا ہے یہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ بنتا جارہاہے۔ سماجی مسائل اور مہنگائی ذہنی صحت متاثر کرتے ہیں،اچانک راتوں رات پٹرول کی قیمتیں بڑھ جانا اور کئی گنامہنگا ہونا بھی ذہنی صحت کو متاثرکرتاہے،

کورونا کے بعد مسائل میں اضافہ ہوا۔آج بھی’’ One World Concept‘‘ موجود ہے ،جس کے اثرات ہم پر بھی پڑ رہے ہیں۔بلوچستان اور سوات کی سیلاب کی صورت حال دیکھ کر اندازہ ہوتاہے ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جس سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور لازمی ذہنی صحت متاثرہوتی ہے۔ ہرمسئلے پریہ نہ سوچیں کہ یہ صرف حکومت کا کام ہے ،حکومت اپنے حصے کا کام کررہی ہے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔میڈیا بھی اہم کردار اد ا کرسکتاہے۔ایسی صورت حال میں میڈیا عوام میں آگہی دے اور مختلف پروگرام دیکھائے تو کافی بہتر ی آسکتی ہے۔عام طور پر مقامی مسائل زیادہ ہوتے ہیں جو تھوڑی سے کوشش اور معاونت سے حل ہوسکتے ہیں۔معاشرتی ناہمواری،خواتین کے حقوق،بچوں کی تعلیم ،صحت کی دیکھ بھال،معاشی مواقعے یہ لوگوں کے حقیقی مسائل ہیں حل ہوجائیں توجسمانی اور ذہنی صحت دونوں بہتر ہوسکتی ہیں۔ان مسائل کاحل ہم نے خود تلا ش کر ناہے ۔ہمیں در اصل شکایت کرنے کی عادت ہوگئی ہے۔حکومت بڑے پیمانے پر کام کرتی ہے،ہمیںا س کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ہم لوگ منفی باتیں زیادہ کرتے ہیں کہتے ہیں کہ برائی جلد اور تیزی سے پھیلتی ہے ،ہمیں مثبت سوچ رکھتے ہوئے اچھی باتوں کو پھیلانا چاہیے۔اچھی چیزیں معاشرے پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں ہمیں اس طر ف بھی سوچنا چاہیے۔

دنیا:ذہنی مریض کیسے ہوتے ہیں ،ان کو کیا کہیں گے؟

 ماہر نفسیات ڈاکٹر قلب حیدر : سرکاؤس جی اسپتال 1865ء میں قائم ہواجہاں ملک بھر سے آئے مریضوں کا علاج کیاجاتا ہے۔ادارہ بنانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ایسے مریض جو دماغی طورپر صحیح نہیں ہیں اور انہیں شعور نہیںہوتا وہ کیا کررہے اور کیاکہہ رہے ہیں ان کیلئے ایسی جگہ ہو جہاں علاج کیساتھ تربیت بھی کی جاسکے ۔پہلے علاج کیلئے دوائیاں بھی نہیں آئی تھی ،1940یا 1960میں ان کی دوائیاں بننا شروع ہوئیں،اس سے پہلے مریضو ںکیلئے گھومنے والی کرسی ہوتی تھی ،انسولین لگادی جاتی تھی اور مریض کو کنٹرول کرنے کیلئے کمرے میں بند کردیتے تھے تاکہ کسی بھی شخص کو نقصان نہ پہنچا سکے ۔بعض مریض بڑے بڑے نقصا ن کے ساتھ مارنا بھی شروع کردیتے ہیں ان کو کمرے میں بند کرکے علاج اور تربیت کرتے ہیں۔سست رہنا بھی ذہنی صحت متاثر ہونے کی علامت سمجھا جاتاہے۔ایسے افراد کو بھی اپنا علاج اور احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔طبیعت میں چڑ چڑاپن ،نیند پوری نہ ہونا،بات بات پر لڑنا اور دیگر نفسیاتی مسائل سے ذہنی صحت خراب ہوتی چلی جاتی ہے ۔ان چیزوں کی آگہی ہونی چاہیے یا کسی ماہر نفسیات کو دکھا کر علاج کروایا جائے۔

کوئی شخص بہت زیادہ ہاتھ دھوتا ہے ،نہاتا ہے تو بس نہاتا ہی جاتا ہے یہ ذہنی بیماری ہے اور اس کا علاج ہے۔میڈیا پر اس حوالے سے آگہی دی جانی چاہیے۔سرکار ی اور پرائیویٹ اداروں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک مریض کہیںدور رہتا ہے اس کی کوشش ہو تی ہے شہر کے بڑے اور اچھے اسپتال میں دکھائے جس کیلئے کئی پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے بعض مرتبہ چھوٹا مسئلہ ہوتا ہے علاقے میں ماہر نفسیات سے رابطہ کرلے ہوسکتا اس کا مسئلہ وہیں حل ہوجائے اور اتنی پریشانی سے بچ جائے۔

دنیا: سیلاب کے بعد لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے کیا شہر میں بھی ایسی صورت حال ہے؟

 ڈاکٹر عظمیٰ علی : آئی سی پی کا شمار پاکستان کے بڑے اداروں میں ہوتا ہے جہاں کم چارجز پر مریضوں کا علاج اور اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔مریض کابروقت او ر صحیح علاج نہ ہوتو اضطراب اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے جو خودکشی تک چلا جاتا ہے۔ کورونامیں مریضوں کا آن لائن بھی علاج اور آگہی دی۔ذہنی دباؤ یا صحت ذہنی صحت متاثر ہونے کی مختلف وجوہات ہیں ان میں گھریلو تشدد، ذہنی دبائو، کورونامیں بچوں کا گھروں میں زیادہ رہنے سے بھی چڑ چڑا پن اور بد تمیزی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔پہلے ذہنی امراض میں 25فیصد بچے اور 75 فیصد بڑی عمر کے لوگ ہوتے تھے اب دونوں کا تناسب برابر ہوگیا ہے۔ یہ مسائل پہلے بھی تھے لیکن لوگوں میں آگہی نہیں تھی ڈاکٹروں سے رجوع نہیںکرتے تھے ،اب آگہی آرہی ہے اور علاج کرا رہے ہیں۔سوشل میڈیا اورموبائل کے زیادہ استعمال سے بچوں میں منفی رویئے بڑھ رہے ہیں۔منفی سوچ انسان کو اضطراب کی طرف لے جاتی ہے۔علاج کے ساتھ تربیت بھی ہوتی رہے توآہستہ آہستہ قوت مدافعیت بھی مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ انسان پریشانیوں کو برداشت کرتا رہتا ہے تو اس میں قدرتی طورپر ان مسائل کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور قوت پیدا ہوجاتی ہے،

کراچی کے لوگ اتنے مسائل کا سامنا کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں مسائل کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہوجاتاہے اور حالات کا سامناکرتے ہوئے سارے کام کررہے ہوتے ہیں ۔اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ذہنی دباؤ کے مسائل سے نمٹنے کی بھی آگہی دینی چاہیے ۔مہنگائی بڑھتی جائے گی ہم اس کو روک نہیں سکتے اس کے سدباب کیلئے اندرونی طورپر وسائل پیدا کرنے ہوں گے تب ہی پریشانیاں دور ہوں گی ۔جسمانی صحت بہتر بنانے کیلئے ذہن کا چست او ر صحت مند ہونا ضروری ہے۔کورونا اور اب سیلاب کی صورت حال میں فلاحی ادارے اور دیگر این جی اوز بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔قیمتیں کنٹرول کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے،اس کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ ہے ہم انتظار نہیں کرتے ، پرائیویٹ اسپتال میںجائیں تو انتظار کرلیتے ہیں لیکن سرکاری اسپتال میں انتظار نہیںکرتے اور شکایتوں کے انبار لگادیتے ہیں،ہمیں اپنے رویوں کو بھی بہترکرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا: کیامہنگائی کے اثرات پڑ رہے ہیں ،اب شکر صبر بھی نظر نہیں آتا کیا وجوہات ہیں؟

 مریم حنیف غازی :صبر اور شکر پر دنیا بھر میں ریسرچ ہورہی ہے۔ محمد علی جناح یونیورسٹی میں شعبہ سائیکالوجی کی ٹیچر نے صبر اورشکر پر ریسرچ کرتے ہوئے ایک چارٹ اور ایکٹیویٹی بھی بنائی ہیں جس میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے 200 طلباء سے بات کی جس میں طلباء کی صحت ، اخلاقیات ، بات کرنے کے انداز ،رویئے اور روزمرہ کی سرگرمیاں کے متعلق معلومات لیں اس کے بعد پورے سمسٹر تربیت کی ،تربیت میںسب سے زیادہ تربیت بھی صبر اور شکر کی گئی کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے اس پر شکر اور صبر کرتے ہوئے کوشش کرنی ہے ۔سمسٹر مکمل ہونے کے بعد جب دوبارہ ان بچوں سے بات ہوئی اور ان کا ٹیسٹ لیا گیا تو ہم حیران ہوگئے کہ تقریبا 74فیصد بچوں نے صبر اور شکر کو معمول بنایا۔انسان کوئی بھی کام اچھی نیت سے شروع کرے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔معروف جملہ ہے نیت صاف منزل آسان ،اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم کئی چیزیں پر منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ریسر چ میں یہ بات سامنے آئی کہ برداشت اور صبر پر سوچنااور عمل کرنا شروع کردیں تو معاشرے سے کئی ذہنی امراض ختم ہوسکتے ہیں ۔ شکر کا جذبہ پید ا کیاجائے تو بہت آسانی ہوگی۔ا س سے جسماجی اور ذہنی صحت پر اچھے اثرات نظرآئیںگے۔

دنیا: تعلیمی ادارے معاشرے کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کیوں نہیں کررہے ؟

مریم حنیف غازی:تعلیمی اداروں کا فرض ہے وہ صبر اور شکر کے بارے میں بچوں میں آگہی دیں اس سے بچوں کے رویئے بہتر ہوں گے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی ۔مختلف اسکول اور ادارے اپنے طور پر کوشش کررہے ہیں لیکن یہ بہت کم ہیں ہمیں ان کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے،نفسیات سے متعلق شعبے لوگوں میں آگہی اور تربیت پرکا م کریںتو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔انسان کی ذہنی صحت اچھی نہیں تو اس کی جسمانی صحت بھی اچھی نہیں ہوگی ۔ صبر او ر شکر کا اسلام کے ساتھ ہر مذہب میں ایک گہرا تعلق ہے،مغربی ممالک میں بھی ہر مذہب صبراور شکر کو اہمیت دیتے اور عمل کرتے ہیں ۔ہم نعمتوں کو گنتی کرنا اور شکر کرنا شروع کردیں تو ہماری چیزیں بہتر ہونا شروع ہوجائیں گی۔ تعلیمی اداروں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا: معاشرے کو بہتر بنانے میں این جی اوز کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟

 بینش ضیاء : چارٹرفارکمپیشن پاکستان این جی او کے طورپر 2012ء میں قائم ہوئی ،جس کا بنیادی مقصد تھا کہ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرتے ہوئے زندگی گزاریں ۔این جی او کے تحت مختلف پروگرام چل رہے ہیں ۔اسکو نیٹ ورک ،ذہنی صحت اور’’ممکن‘‘ کے نام سے ایک پروگرام چل رہا ہے جس میں خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کی طرف لارہے ہیں۔ گھریلو مسائل میں میاں بیوی ،بچوں اور دیگر لڑائیوں سے گھر والے ذہنی دباؤ میں مبتلارہتے ہیں جس سے ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے، شکر گزاری کے ساتھ معاف کرنے کو اپنا عمل بنالیں تو یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔انسان جب کسی کو معاف کرتا ہے تو اس پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنی ذہنی صحت پر احسان کررہاہوتا ہے،یہ اہم عنصر ہے اس کو سمجھنے او رعمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ آنے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے چیزوں کو منیج کریں اگر ایسا نہیں کر پا رہے تو ہمیں غور کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہے اس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، عوام میں آگہی کیلئے اس طرح کے فورم منعقد ہوتے رہنے چاہییں۔ ہمارا ادار ہ دیگر اداروں اور شخصیات کے ساتھ مل کر معاشرے میں بہتری کیلئے کام کررہا ہے۔ ذہنی صحت میں جذباتی ،نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں کا بڑا عمل دخل ہے،روزمرہ کے معمولات سے بھی ذہنی صحت کا معلوم کیا جاسکتا ہے۔

روزانہ کے کاموں میں زندگی بوجھ لگ رہی ہو یا صحیح کام نہیں ہو پارہا ہے تو مینٹل ہیلتھ پر کا م کرنے کی ضرورت ہے،رشتے داروں سے لاتعلقی رکھنا اور ہر وقت لڑتے رہنا بھی ذہنی صحت متاثر کرتی ہے۔ ایسا شخص جو ہر وقت لڑتا رہتا ہے وہ ذہنی مریض یا نفسیات مریض بن جاتاہے،ایسے شخص کو اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا تاکہ اس کی طرز زندگی بہتر ہوسکے،ڈپریشن کے شکار افراد کو تھرا پی اور کائونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔چارٹر فار کمپیشن پا کستان نے سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے ساتھ مل کر سول اسپتال میں مینٹل ہیلتھ کائونسلنگ ہیلپنگ کے نام سے ہیلپ لائن قائم کی ہے جس کے ذریعے ٹیلی کائونسلنگ کی جاتی ہے۔ مریض 021-99215720 پر رابطہ کر کے مفت سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ کائونسلنگ میں بیماریوں کے علاج کے ساتھ آگہی بھی دی جاتی ہے ۔ماہر نفسیات بچوں میں اسکولنگ کائونسلنگ ، کیریئر کائونسلنگ بھی کرتے ہیں ،نشے کا عادی شخص بھی آتاہے یا فون پر اطلاع دی جاتی ہے تو اس کی رہنمائی کرتے ہوئے متعلقہ شعبے میں بھیج دیتے ہیں۔

جن افراد کو قانونی مدد درکار ہوتی ہے ان کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ گھر والوں سے کہو مریض کو کائونسلنگ او ر علاج کی ضرورت ہے تو کہا جاتا ہے ہمارا مریض پاگل نہیں ہے جسے اسپتال میں داخل کردیں ہمیں اس طرف بھی توجہ دینے او ر لوگوں ہیں آگہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت ذہنی دباؤ اوربے چینی ، اضطراب (anxiety) کا علاج ہوسکے ۔ عوام میں آگہی دینے کی ضرورت ہے کہ تعاون کریں جب پانی سر سے گزر جاتاہے پھر افسوس کرتے ہیں اور علاج کراتے ہیں ۔ 

دنیا :عام طورپر ذہنی مریض کو مریض نہیں مانا جاتا اور ڈاکٹرز سے رجوع بھی نہیں کرتے کیا وجہ ہے؟

ڈاکٹر ثناء سعدیہ : یہ چھوٹا نہیں بلکہ بڑا مسئلہ ہے ۔جسمانی بیماریاں نظر آتی ہیں اس پر فوری توجہ دی جاتی ہے، ذہنی مریض عا م طور پر نظر نہیں آتے جبکہ مرض مریض کے اندر ہوتا ہے جس سے مریض او رگھر والے متاثر ہوتے ہیں۔ان قسم کی بیماریوں میں عام طور پر گھر والے اور معاشرہ ایک لیبل لگا دیتا ہے کہ یہ تو پاگل ہوگیا ہے ۔یا ذہنی مریض ہے اسے اسپتال یا کسی ادارے میں داخل کرادو،ایسا نہیں ہے جس طرح دیگر بیماریوں کا علاج ہوتا ہے اسی طرح اس کا علاج بھی ممکن ہے۔بد قسمتی ایسے افراد کو معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ان مسائل کو سمجھنے او رحل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے ماہر نفسیات اور ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ناکہ ادھر ادھر جاتے پھریں ، ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا : حکومت اس شعبے میں کیا اور کہاں کام کررہی ہے؟

سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ :2013 میں سندھ مینٹل ہیلتھ ایکٹ آیا تھا ۔اس کے بعد 2017 میں میٹل ہیلتھ اتھارٹی قائم ہوئی ،اس میں کچھ تبدیلی کرتے ہوئے کام شروع کیا۔ اس وقت صوبے میں 150ماہر نفسیات ہیں،ایکٹ میں ایک کمی تھی۔ 2019ء میں تحریری تجویزدی کہ ایکٹ میں سائیکالوجسٹ کو بھی شامل کریں اس پر اب تک عمل نہیں ہوا ۔اس وقت حکومت کی طرف سے کراچی میں سول ،جناح ،لیاری جنرل اسپتال ،عباسی شہید اسپتال میں سائیکاٹرکس موجود ہیں، بدقسمتی سے حیدر آباد میں حکومت کی طرف سے کوئی اسپتال موجود نہیں جہاں ذہنی مریضوں کا علا ج ہوسکے ۔ انگریز سر کاؤس جی نفسیاتی اسپتال بنا کر گیا تھا وہی چل رہا ہے ۔اسپتال میں عملہ بہت اچھا کام کررہا ہے ،کئی مرتبہ ہیلتھ سیکریٹری اور ڈی جی ہیلتھ کو لکھا کہ حیدر آباد میں سول اسپتال جامشورو اوربھٹائی اسپتال میں بھی نفسیات کا شعبہ قائم ہونا چاہیے اس وقت سرکاؤس جی اسپتال حیدرآباد سمیت پورے سندھ کا بوجھ برداشت کررہا ہے، ضلع لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج اور سکھر کے اسپتال میں شعبہ نفسیات کا وارڈ کھلا ہے۔نواب شاہ میں نہیں ہے کوشش کررہے ہیں وہاں بھی وارڈ کھل جائے۔میرپور خاص میں بھی وارڈ نہیں ہے۔مٹھی میں وارڈ کھولا ہے۔

خیرپور کے میڈیکل کالج میں بھی وارڈ قائم ہے۔ہمارے سائیکاٹریکس زیادہ تر شہرمیں ہوتے ہیں، گاؤں دیہات میں بہت کم جاتے ہیں،حکومت کو تجویز دی ہے کہ ہر ضلع میں کم از کم3سائیکاٹرک اور سائیکالوجسٹ ہوں،اور میڈیکل کالجوں میں بھی ہونے چاہییں۔سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی کوششوں سے قانون سازی کے ذریعے سرکاؤس جی اسپتال حیدرآباد کو دو اداروں سے ملا دیاگیا ہے۔جس میںلمس اور سندھ یونیورسٹی شامل ہے لیکن اب تک اس پر عمل نہیں ہورہا،وزیراعلیٰ سندھ کی مہربانی انہوں نے بورڈبنادیا ہے لیکن اس پر کام نہیں ہورہا۔ کوشش کررہے ہیں سرکاؤس جی اسپتال حیدر آباد کو جنوبی ایشیاء میں مینٹل ہیلتھ یونیورسٹی بنائیں ۔

دنیا: شعبہ نفسیات میں طلباء کی ایک تعداد پڑ رہی ہے لیکن ان کو مستقبل نظر نہیں آرہا ؟

سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ :دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری اور نجی اداروں میں سب سے پہلے سائیکالوجسٹ کا تقرر کیا جاتاہے،دنیا بھر میں اس کی اہمیت ہے لیکن ہمار ے یہاں کمی ہے۔ معاملات بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔دنیافورم کے توسط سے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ضلع تھرپارکرمیں خودکشیوں پرایک ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ وہاں مسلم اور غیر مسلم دونوں آباد ہیں ،پاکستان میںہندو آبادی 4.5 ملین (45 لاکھ ) ہے جس میں سے 10لاکھ خوشحال اور باقی شیڈول کاسٹ ہیں جن میں کوہلی ،میگھوار،بھیل ،رابڑی اور دیگر قوموں کے لوگ ہیں جو بہت غریب ہیں،اسی طرح کرسچن کمیونٹی کی تعداد 35لاکھ ہے جس میں 25فیصدکرسچن غریب او ر کم پڑھے لکھے ہیںجن میں خودکشیوں کی شرح زیادہ ہے، مسلمان کمیونٹی میں بھی اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔جب ڈپریشن کی انتہا ہوتی ہے تو معاملات خودکشیوں کی طرف جاتے ہیں،ریسرچ کے مطابق خودکشیاں زیادہ تر نچلے طبقے میں ہوتی ہیں،ہمیں خاص طورپر میڈیا کو اس طرح توجہ اور آگہی دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹرعظمیٰ علی :پاکستان میں ا س شعبے سے متعلق کونسل نہیں بنی لیکن شعبہ نفسیات سے متعلق کچھ ادارے ہیں جو ماہرنفسیات اور کلینکل سائیکالوجسٹ پیدا کررہے ہیں جو ڈگری تو دے رہے ہیںلیکن تربیت نہیں کرتے،اس شعبے میں تربیت بہت اہم ہوتی ہے جب بھی ماہرنفسیات تعینات کیے جائیں تو تربیت یافتہ ہوں۔

دنیا: سول اسپتال میں کیا سہولتیں فراہم کررہے ہیں؟

ڈاکٹر محمد ادریس : سول اسپتال میں ہیلپ لائن کے تحت پروگرام چلارہے ہیں ،جہاں کیریئر کائونسلنگ کیلئے لوگ آرہے ہیں اور رابطہ بھی کررہے ہیں،تمام سروسز مفت فراہم کرتے ہیں۔اسپتال میں روزانہ او پی ڈی میں 200 سے زائد مریض آتے ہیں ،بعض مریض ایمرجنسی سے بھی ریفر ہوکر آتے ہیں ،کراچی سمیت اندرون سندھ سے مریض آتے ہیں۔40 سے 50ڈاکٹروں اور اسٹاف کی ٹیم ہوتی ہے۔ٹیچرز بھی ہوتے ہیں جو لوگوں میں تعلیم کے حوالے آگہی بھی دیتے ہیں۔ڈاکٹر کے ساتھ ماہر نفسیات بھی موجود ہوتے ہیں جو مریضوں کی تربیت بھی کرتے ہیں۔آج موبائل کادور ہے لوگ کہیں سے بھی واٹس ایپ یا ایک کال کے ذریعے رابطہ کرکے آگہی لے سکتے ہیں ،مریضوںکا بہت کم چارجز میں علاج کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں آگہی آرہی ہے۔ذہنی مریض اپنا علاج کرانا چاہتے ہیں،اس پیغام کو آج دنیا فورم کے پلیٹ فارم سے آگے بڑھاناچاہیے ۔میڈیا کے دیگر ادارے بھی اس طرح کے پروگرام کریں ۔آج ہم صحت مند زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں، گھروں میں بچوں اور دیگر افراد کووقت نہیں دیتے، ہمیں گھروں میں رابطے اور طرز زندگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔