ٹریفک حادثات:نوجوان ہی نہیں بڑے بھی متاثر،حل قانون کی عملداری

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :ماجد حسین لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء: احمد نواز ،ڈی آئی جی ٹریفک کراچی۔پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین وائس چانسلر سرسید یونیورسٹی ۔ڈاکٹر سیمی جمالی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال ۔پروفیسر ڈاکٹر میرشبرعلی ڈین سول انجینئرنگ سرسید یونیورسٹی ۔پروفیسر ڈاکٹر عدنان قادر ،چیئرمین شعبہ اربن اینڈ انفرااسٹرکچر این ای ڈی یونیورسٹی۔ڈاکٹر افضل احمد ،شریک چیئرمین اینڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اربن اینڈ انفرااسٹرکچر این ای ڈی۔ سراج خلجی مشیر برائے چانسلر سرسید یونیورسٹی ۔

ٹریفک سارجنٹ دھوپ میں کھڑا ہوتا، اس کے کہنے پر کوئی نہیں رکتا،احمد نواز،ٹریفک حادثات میں موٹر سائیکل سوارزیادہ متاثر ہوتے ہیں :  پروفیسر ولی الدین

 موٹرسائیکل چلاتے وقت موبائل کا استعمال حادثات کا باعث ،ڈاکٹر سیمی جمالی، ڈیٹا کے مطابق ڈھائی دن میں ایک موٹر سائیکل سوارکا حادثہ ہورہا ہے:   ڈاکٹرمیرشبرعلی

بہتر ٹرانسپورٹ کےنظام سے موٹر سائیکل کی سواری کم ہوسکتی ،ڈاکٹر عدنان قادر،ٹرک اور بسیں 5فیصد لیکن ان سے حادثات میں 55فیصد اموات ہوئیں :  ڈاکٹر افضل احمد

 

 

موضوع: ’’ٹریفک حادثات کے اکثر شکار نوجوان موٹر سائیکل سوارکیوں؟‘‘

 

 

 

کراچی !عروس البلاد کی عرفیت سے مشہور شہر،بندرگاہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے شہریوں کی آمدورفت کا مرکز سمجھاجاتا ہے تاہم یہ شہر خود اسقدر مسائل کا شکار ہے کہ ان کے حل کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔مسائل کا ذکر کیاجائے تو شاید فہرست اتنی طویل ہوجائے کہ سنبھالنا مشکل ہو تاہم حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے باصلاحیت اور مخلص لوگ بھی میسر ہیں جو شہر کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔شہر قائد میں ٹریفک نظام بھی بڑا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ کئی مسائل کا مجموعہ ہے ہم نے ان میں سے ایک نوجوان موٹرسائیکل سواروں کے حادثات کو موضوع بحث بنایا اور کراچی ٹریفک پولیس کے ڈی آئی جی احمدنواز سے دنیا فورم کی خواہش کا اظہار کیا۔اس مسئلے پر سرسید یونیورسٹی کے میر شبر علی نے توجہ دلائی تھی۔این ای ڈی اور سرسید یونیورسٹی نے ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز کیساتھ ایم اویو بھی دستخط کئے تاکہ کراچی میں ٹریفک کے مسائل حل کرنے کیلئے اپنے انجینئرز کی خدمات پیش کرسکیں۔

سرسید یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ہونے والے دنیا فورم میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز نے ان اقدامات کا ذکر کیا جو شہر میں اٹھائے جارہے ہیں ساتھ ہی ان کا شکوہ تھا کہ ٹریفک پولیس اہلکار جوشدید گرم وسرد موسم میں 8،8گھنٹے سڑک پر کھڑا ٹریفک کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے شہری اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔انہوں نے تعلیمی اداروں کی کوشش کو سراہا کہ وہ شہریوں اور نوجوانوں کی تربیت کیلئے کردار اداکررہے ہیں ۔دنیا فورم کی بھی یہی کوشش ہے کہ میڈیا کے ذریعے جہاں مسائل کی نشاندہی کی جائے وہیں تنقید برائے تنقید سے ہٹ کر تنقید برائے اصلاح پر کام کیاجائے اور ایسے افراد جو ملک وقوم کی بہتری میں کردار اداکررہے ہیں ان کو عوام کے سامنے بطور مثال پیش کیاجائے۔دنیافورم میں ٹریفک کے حوالے سے این ای ڈی اور سرسید یونیورسٹی کی تحقیق بھی پیش کی گئی،عموماً ہمارا میڈیا مغربی میڈیا کی تحقیق کوپیش کرتا ہے تاہم خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے مسائل پر باقاعدہ تحقیق ہورہی ہیں اور انہیں حل کرنے پر بھی زورہے۔امیدہے کہ ہمارے فورم سے شہرمیں ٹریفک کے مسائل کے حل میں مددملے گی۔آپ کی رائے کا انتظار رہیگا۔

شکریہ مصطفیٰ حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم ،روزنامہ دنیا کراچی) 

برائے رابطہ :   03444473215 ،03212699629

ای میل:  mustafa.habib@dunya.com.pk

  حکومتی اداروں کا تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر شہری مسائل حل کرنے کاکام وقت کی ضرورت ہے،ڈی آئی جی ٹریفک احمد نوازکے ساتھ  ایم اویو کرلیا، ٹریفک پولیس کیساتھ کام کریں گے،وی سی سرسید یونیورسٹی

حادثات میں نوجوانوں کیساتھ بڑے اور بچے بھی شکارہوتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل حادثات میں نوجوان زیادہ ہوتے ہیں اس کی مختلف وجوہات ہیں،قانون کا سختی سے نفاذ ہی حل ہے،ڈی آئی جی ٹریفک کراچی

سرسید یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ موٹر سائیکل پر آنے والا کوئی بھی طالب علم بغیر ہیلمٹ یونیورسٹی میں داخل نہیں ہوسکتا۔یہ پیغام دیگر یونیورسٹیوں میں بھی پہنچا رہے ہیں ، مشیر برائے چانسلر 

 اسپتال میں شدیدزخمی نوجوان آیا ، درزی تھا اور بوڑھے والدین کا اکلوتا بیٹا ،گھر کا واحد کفیل ،گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل سے نیچے گرا  اوردماغ باہر آگیا ،اس نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا،سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال

 2015ء سے2022ء تک کے ڈیٹا کے مطابق  1453اموات میں 73 فیصد کی وجہ موٹر سائیکل حادثات ہیں،زیادہ اموات ٹرکوں اور بسوں کیساتھ تصادم سے ہوئیں، شریک چیئرمین ، اربن اینڈ انفرااسٹرکچر این ای ڈی یونیورسٹی

 سرسیدیونیورسٹی کے16پراجیکٹس ٹریفک حادثات کنٹرول اور قوانین پر عمل کرنے پر ہیں۔ شعبہ کمپیوٹر سائنس اسمارٹ سرویلینس سسٹم بنا رہاہے جبکہ آبجیکٹ ڈی ٹیکشن اینڈ فوگ پربھی کام جاری ہے،ڈین سول انجینئرنگ 

 لاہور کا ٹرانسپورٹ نظام کراچی سے بہتر ہے  زمانہ قدیم سے کراچی میں منی بسیں چل رہی ہیں،جس کے پاس موٹر سائیکل نہیں یا چلانے سے ڈرتا ہے وہ بس میں سفر کریگا،چیئرمین شعبہ اربن اینڈ انفرااسٹرکچر این ای ڈی یونیورسٹی

دنیا: سرسید یونیورسٹی شہر میں ٹریفک حادثات کو کنٹرول کرنے میں کیا کردار ادا کررہی ہے ؟

ڈاکٹر ولی الدین ،وی سی سرسیدیونیورسٹی : دنیا فورم اور ڈی آئی جی ٹریفک کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اہم موضوع کا انتخاب کیا۔شہر میں ٹریفک حادثات میں سب سے زیادہ موٹر سائیکل سوار متاثر ہوتے ہیں جو اہم مسئلہ ہے۔ان ہی مسائل کو حل کرنے کیلئے سرسید یونیورسٹی اور ڈی آئی جی ٹریفک احمد نوازکے ساتھ کام جاری ہے اور ایم اویو بھی سائن ہوا ہے جس میں ان مقامات کی نشان دہی کی جائی گی جہاں سرسید یونیورسٹی ٹریفک پولیس کے شعبہ کے ساتھ مل کر کا م کرسکے۔سرسید یونیورسٹی نے پیشکش کی ہے اسی کام کو آگے بڑھاتے ہوئے مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ کنسورشیم کیا جائے اور سب مل کر کام کریں۔ملکی یونیورسٹیاں مسائل کو حل کرنے اور پالیسیاں بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ہم گھر سے جیسے ہی باہر نکلیں سڑکوں پرٹریفک جام اوردیگر مسائل سے پریشانی شروع ہوجاتی ہے اور بلڈ پریشر بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ان ہی مسائل کو حل کرنے کیلئے ڈی آئی جی ٹریفک کیساتھ ہماری یونیورسٹی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کام کرے گی اور پالیسی بنائے گی تاکہ عوا م کے مسائل حل ہوں ۔ٹریفک پولیس کے ساتھ کئی پروجیکٹس شروع کرنے پر کا م ہورہاہے۔

حکومتی اداروں کا تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر شہری مسائل حل کرنے کاکام وقت کی ضرورت ہے اس سے مسائل حل ہوں گے اور عوام میں آگہی ہوگی۔سرسید یونیورسٹی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے جس کے زیادہ تر پروگرام آئی ٹی سے متعلق ہیں ۔یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت سے کام آسانی سے ہوسکتے ہیں۔اس طرح کے فورم معاشرے میں بہتری کیلئے اچھا کردار اداکرتے ہیں،آج کے فورم کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس پلیٹ فارم سے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں اور کرنا بھی چاہیے۔

دنیا: ٹریفک حادثات میں زیادہ ترنوجوان شکار ہوتے ہیں کیا وجوہات ہیں؟

ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز : یہ بات صحیح ہے کہ ٹریفک حادثات میں نوجوان زیادہ متاثرہوتے ہیں۔مجموعی طور پر بات کی جائے تو یہ بات واضح نہیں کہ نوجوان ہی زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات بزرگ اور بچے بھی ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔موٹر سائیکل کے حادثات میں نوجوان متاثرہوتے ہیں،موٹر سائیکل پرسواری میں بے احتیاطیاں حادثات کا سبب بن سکتی ہیں۔یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں اس طرح کے فورم اورپروگرام کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچوں میں حادثات سے بچنے کی آگہی ہو۔دنیافورم کے ذریعے ملک اور دنیا بھر میں پیغام جائے کہ قانون کا نفاذ، آگہی سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ سرسید اور این ای ڈی یونیورسٹی کے ساتھ سماجی کام کررہے ہیں او ر یہ کام زبانی نہیں بلکہ تحریری معاہدوں پر مشتمل ہوگاتاکہ میرے جانے کے بعد بھی یہ کام جاری رہیں۔ٹریفک سارجنٹ سارا دن دھوپ میں کھڑا ڈیوٹی دے رہا ہوتا لیکن اس کے کہنے پر کوئی نہیں رکتا۔ہمیں طلباء کو اس حوالے سے آگہی دینے اور تربیت کرنی ہے۔طلباء ہمارے ساتھ کام کریں ۔

وہ سڑک پر کھڑے سارجنٹ کے ساتھ مل کر کام کریں ۔سارجنٹ الگ کھڑا ہو اور طالب علم سارجنٹ کی جگہ کھڑے ہو کرٹریفک کو کنٹرول کرے،جس دن طالب علم کھڑے ہوکر ٹریفک کنٹرول کرے گااور کام دیکھے گا، یقین سے کہہ سکتاہوں زندگی بھر اس ٹریفک سارجنٹ کی عزت کریگا۔بدقسمتی سے پاکستان کا پبلک سیکٹر وہ کام نہیں کررہا جو کرنا چاہیے ۔عام طورپرائیویٹ سیکٹر ترقی کرتا ہے اور پبلک سیکٹراس کے فائدے حاصل کررہا ہوتاہے۔ پبلک سیکٹر میں ہونے والی ترقی کا بھی بیٹرہ غرق ہورہا ہے ۔ہم چیزوں کو برقرار نہیں رکھتے ، المیہ ہے پبلک سیکٹر سے تعاون کیلئے جائیں کئی مراحل کا سامناہوتاہے جس سے ہمارے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ہمارا روزانہ ان 

چیزوں کودیکھتے ہوئے حوصلہ ٹوٹتا ہے لیکن پھر امید ملتی ہے کہتے ہیں ’’شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا ، اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے‘‘۔ہم روز یہ بات کریں یہ نہیں ہوسکتا ،یہ تعاون نہیں کرتا،یہ چیزیں ٹھیک نہیں،سڑکیں خراب ہیں،ٹریفک سگنل نہیں ،کوئی قانون نہیں ، یہ سب چیزیں اپنی جگہ لیکن کچھ چیزوں پر غور کیااور سوچا یونیورسٹیوں سے تعاون مل سکتاہے۔یونیورسٹی میں بچے تعلیم کے بعد عملی زندگی میں جارہے ہوتے ہیں ان کوتربیت اورآگہی دی جائے تو معاشرے میں بہتراور اچھے انداز میں کام ہوسکتے ہیں۔

دنیا: کراچی میں ٹریفک نظام کو بہتر کرنے کیلئے کیا اقدامات کیئے جارہے ہیں ؟

ڈی آئی جی ٹریفک احمدنواز :اسکولوں کے ساتھ بھی کام کررہے ہیں ،کچھ بڑے اسکول کی انتظامیہ سے بات کی کہ آپ بچوں کے والدین سے کہیں کہ بچوں کو لینے کیلئے گاڑی کھڑی کرکے جگہ نہ روکیں اس سے ٹریفک جام ہوجاتاہے ،اپنی گاڑی کہیں ایسی جگہ پارک کریں جہاں ٹریفک جا م نہ ہواور چھٹی سے 15منٹ پہلے آجائیں اور بچوں کو لے جائیں ۔ایک اور تجویز دی کہ روزانہ چھٹی سے پہلے 10بچوں کو باہر نکالیں ان کو رنگین ٹریفک ٹکٹس بنا کر دیں وہ بچے باہر جائیں اور گاڑیوں میں موجود لوگوں کو دیکھیں جنہوں نے گاڑی میں سیٹ بیلٹ نہیں باندھا اور دیگر احتیاطیں جو گاڑی میں کی جاتی ہیں وہ نہیں اپنا ئیں تو یہ بچے ان کو آگہی دیں یقین سے کہہ سکتا ہوں گاڑی میں موجود ڈرائیور یا والد اس بچے کی بات کو غور سے سنے گا اورعمل بھی کرے گا۔ اس سے عملی فائدے ہونگے۔بارہا کہتا ہوں ہمیں ٹریفک قوانین گھر سے سیکھنے ہیں ۔ ہم ٹریفک قوانین پرعمل نہیں کریں گے تو ہمارے بچے جو ہمیں دیکھ رہے ہیں کل وہ بھی یہی کریں گے۔ ان بچوں کے لاشعور میں یہ ہوگا کہ ٹریفک قوانین کو توڑنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ ہم یہ سب بچوں کے سامنے کرتے ہیں۔ہمیں آنے والی نئی نسل کیلئے ماڈ ل بننا ہے۔ا س کے نتائج دیر صحیح لیکن ضرور آئیں گے۔ عادتیں ایک دو سال میں تبدیل نہیں ہوتیں وقت لگتا ہے ۔

چین نے کام کا ماحول پیدا کیا جبکہ پہلے سب سے زیادہ نشہ کرتے پیتے اور وقت برباد کرتے تھے ۔چین کی حکومت نے اس روایت یا عادت کو تبدیل کرنے میں کردار اداکیا۔ہم ہرچیز حکومت سے کیوں مانگتے ہیں ، حکومت سڑک بنادیتی ہے اس کو تباہ ہم ہی لوگ کرتے ہیں۔حکومت قانون بنا سکتی ہے عمل ہم نے خود کرنا ہے ہم جب تک اپنے رویوں پرغور نہیں کریں گے معاشرہ بہتر نہیں ہوسکتا ۔قانون پر عمل کرنا ہمار افرض ہے۔ شاہراہ فیصل پر ٹریفک اہلکار لائوڈاسپیکر پر زور سے کہہ رہے ہوتے ہیں موٹر بائک والے دائیں پرچلائیں لیکن نوجوان اوورٹیک اور قانون کی خلاف ورزی کر تے ہوئے جارہے ہوتے ہیں عمل نہیں کرتے ۔چھوٹے بچے یہ حرکت کریں تو سمجھ آتی ہے ،50سال سے زائد عمر والے بھی سڑک کے درمیان میں موٹرسائیکل پر چوڑا ہوکر سفر کررہے ہوتے ہیں جیسے سڑک پر اس کی ملکیت ہے ۔ایسانہیں کراچی میں بہت زیادہ سڑک حادثات ہوتے ہوں ؟ پاکستان میں سالانہ 6ہزارافراد ٹریفک حادثات میں انتقال کرجاتے ہیں یہ رپورٹ ہونے والے ہیں،جو شمار نہیں ہوتے شاید ان کی تعداد 8سے 10ہزار ہو جائے۔اس تناسب سے دیکھیںتو کراچی میں روڈ حادثات کا تناسب 300 سے 350 بنتا ہے اور روزانہ روڈ حادثات میں اموات کا تناسب 1.2 ہے۔حادثات کی وجوہات میں 60فیصد بغیر ہیلمٹ،95فیصد وہ موٹر سائیکل سوار تھے جن کی گاڑی میں پیچھے دیکھنے کا آئینہ نہیں تھا۔لین تبدیل کرنے میں ہمیں پیچھے کا آئینہ حادثے سے بچاتاہے۔بائیک خریدتے ہیں تو ہمیں تھیلی میں دو شیشے دیئے جاتے ہیںکہ ان کو گاڑی میں لگا لینا۔ہم اسے واپس کردیتے ہیں کہ مجھے ضرورت نہیں ۔یہ فیشن ہے۔ہمیں آئینے والی بائیک اچھی نہیں لگتی ۔اس پر عمل کرنے کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے۔

کمپنی کو پابند کیا جائے کہ پچھے کا آئینہ گاڑی کے فارمیٹ میں شامل ہو۔ہنڈاکمپنی سے بات ہوئی ان کی ٹیم کو لاہور سے مدعو کیا۔ان سے کہا آپ موٹر سائیکل کے مارکیٹ لیڈر ہیں،آپ بائیک کے ہینڈل کی بناوٹ اس طرح بنائیں کہ پیچھے کا آئینہ لگانے نہ پڑے بلکہ فکسڈ ہو۔اور بائیک کی قیمت میں ہیلمٹ کو شامل کیوں نہیں کرتے ؟۔گاڑی کے ساتھ ہیلمٹ مفت دیں۔انہوں نے کہا اس پر غور کرتے ہیں ۔کوئی تو اچھے کام کا آغاز کرے، حکومت ان کو پابندکرے تو عمل ہوسکتا ہے ،بد قسمتی سے پاکستان میں ہیلمٹ کا ڈیزائن معیاری نہیں ۔پاکستان کا کوالٹی کنٹرول میں ہیلمٹ کا فیوچر شامل نہیں۔ہماری یونیورسٹیوں نے ہی حل دینے ہیں اور بہت کچھ بنا سکتے ہیں ۔بدقسمتی سے شہر میں جب بھی ہیلمٹ مہم چلتی ہے اس میں ہیلمٹ مینوفیکچر یا سپلائر شامل ہوتاہے۔ کہ ہیلمٹ کا کنٹینر منگوالیاہے ہمارے ساتھ ہیلمٹ فروخت کرادیں۔میں نے ایسی مہم نہیں چلائی ۔ہمیں ٹریفک حادثات میں ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ہوگا جس سے حادثات میں اضافہ ہورہا ہے ،ہمیں کوششیں جاری رکھنی ہیں ،اللہ نے چاہا تو ہمارے ملک میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔

دنیا:حادثات میں اموات کی شرح اوروجوہات کیا ہیں؟

ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز : حادثات میں نوجوانوں کیساتھ بڑے اور بچے بھی شکارہوتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل حادثات میں نوجوان زیادہ ہوتے ہیںاس کی مختلف وجوہات ہیں،شہر اتنا بڑا ہے کہ سائیکل پر سفر نہیں کرسکتے ۔ٹریفک جام کی وجہ سے لوگ گاڑی کے بجائے موٹر سائیکل کو ترجیح د یتے ہیں۔ معاشی صورتحال بھی لوگوں کوموٹر سائیکل پر سفر پر مجبور کردیتی ہے کیونکہ ان کیلئے گاڑی یا ٹیکسی وغیرہ لینا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات دیکھاگیا ہے کہ موٹر سائیکل 10,11سال کا بچہ چلاتا ہے جبکہ اس کی ماں بھی ساتھ بیٹھی ہوتی ہے۔ملک میں بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلائی جارہی ہیں۔ڈرائیونگ لائسنس کیلئے ڈرائیونگ اسکول سے تربیت لازمی ہونی چاہیے۔موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے والے زیادہ تر بچے 17سے 20سا ل کے ہوتے ہیں اس عمرمیں بچوں میں خوف نہیں ہوتا،والدین اس جانب توجہ دیں۔ ہمارے ہاں بائیک کا لائسنس 18سال کی عمر میں مل جاتا ہے جبکہ گاڑی کا21سال کی عمر میں دیاجاتا ہے، میرا خیال ہے کہ بائیک کیلئے بھی لائسنس 21سال کی عمر میں ہی جاری ہونا چاہیے کیونکہ اس عمر میں بچوں میں کچھ سنجیدگی آچکی ہوتی ہے۔اس طرح کے فورمز اور تعلیمی ادارے معاشرے کی تربیت کرسکتے ہیں تاہم ترغیب کے ساتھ قانون کا بزور نفاذ بھی ضروری ہے۔لوگ ٹریفک کانسٹیبل کو اہمیت نہیں دیتے جبکہ وہ سخت گرمی اور سردی میں ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔

دنیا: ٹریفک حادثا ت کاشکار نوجوانوں کی حالت کیسی ہوتی ہے ؟

ڈاکٹر سیمی جمالی: زندگی کے 33سال اسپتال کی ایمرجنسی میں گزارے۔کئی سانحات اور بچوں کو اذیت اور نازک صورت حال میں دیکھا۔

بچے موٹر سائیکل چلاتے وقت موبائل فون کا استعمال بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے کئی واقعات ہوچکے ۔موبائل زندگی کا حصہ بن رہا ہے اس کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے ۔نوجوان بچے زیادہ وقت موبائل پر گزارتے ہیں اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ، ورنہ نقصانات سے نہیں بچ سکتے ۔ہیلمٹ کا استعمال نہیں کر نے سے خطرناک حادثات ہوتے ہیں ۔ ایک مرتبہ اسپتال میں نوجوان آیا جو شدید زخمی تھا ، درزی کا کام کرتا تھا کسی کے کپڑے دینے جا رہا تھا ،گاڑی نے ٹکر ماری جس سے نیچے گرا ، دماغ پر شدید چوٹیں آئیں ،بچے کا دماغ باہر آگیا ، علاج کرتے رہے لیکن تھوڑی دیر بعد انتقال ہوگیا،اس نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا۔ وہ نہایت غریب اور بزرگ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ،گھر کاگزر بسر اسی کے روزگار سے ہوتا تھا ۔اس ایک گھنٹے نے والدین پر قیامت برپا کردی ۔ہمیں ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے ۔غلط رستوں کو چھوڑ دیں،ٹرک ڈرائیور رات دیر تک گاڑیاںچلاتے ہیں اور ڈرائیونگ کے دوران نشہ آور ادویات بھی استعمال کرتے ہیں ،نشہ کرتے ہوئے گاڑیاں چلانا بہت خطرناک ہے۔دنیا فورم کے توسط سے درخواست کروںگی جو بچے بھی نشہ کرتے ہیں وہ چھوڑ دیں یہ شوق نہیں بربادی کا رستہ ہے ،خدارا نشے کو اپنی زندگی سے دور کردیں اس نے کئی گھروں کو برباد اور اجاڑ دیا ہے۔

اللہ ہم سب کو اس لعنت سے محفوظ رکھے۔نوجوانی میں گاڑی چلانے کابہت شوق ہوتا ہے لیکن بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔بچے خود اپنی جان کی حفاظت کریں۔زندگی ایک مرتبہ ملتی ہے اس کی قدر کریں۔کراچی کی سڑکوں کی صورت حال خاص طورپربارشوں کے بعدجوہو ا وہ سب کے سامنے ہے۔ شاہراہ فیصل پر اتنے گڑھے ہوگئے کہ آپ تصور نہیں کرسکتے ، شہر کی اہم شاہراہ کا یہ حال ہے تو دیگر سڑکوں کا کیا حال ہوگا۔

دنیا: ٹریفک حادثات میں نوجوان کے متاثر ہونے کا تناسب اوروجوہات کیا ہیں؟

ڈاکٹر عدنان قادر:بے شمار لوگ حادثات کا شکار ہوئے ،کتنے لوگ ایسے تھے جو ون ویلنگ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے ۔ حکومت بہتر ٹرانسپورٹ کانظام دے تو موٹر سائیکل کی سواری کم ہوسکتی ہے۔بدقسمتی سے حکومت سنجیدہ نہیں ہوتی ۔کراچی ماس ٹرانسپورٹ نظام کے بارے میں سنجیدگی سے عمل نہیں ہورہا ۔اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی منصوبہ مکمل نہیں ہورہا جبکہ لاگت کئی گنا بڑھ چکی ۔لاہور کا ٹرانسپورٹ نظام کراچی کے نظام سے بہت بہتر ہے۔زمانہ قدیم سے کراچی میں منی بسیں چل رہی ہیں،جس کے پاس موٹر سائیکل نہیں یا چلانے سے ڈرتا ہے وہ بس میں سفرکرے گا اگر جگہ نہ ہوتو پھر بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہے جس سے کئی مرتبہ حادثات ہوچکے ۔اگر کسی کو صدر جانا پڑے تو وہ موٹر سائیکل کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ ٹریفک کا ہجوم بے انتہا ہے۔ہیلمٹ کا معیار بھی اچھا نہیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔امریکا میں ہیلمٹ پہننے کا تناسب 71 فیصد ہے،امریکا میں بھی 29 فیصد لوگ ہیلمٹ نہیں پہنتے ،ہمارے ہیلمٹ معیاری نہیں ۔

کیاپاکستان میں ہمارے انجینئرز نے ایسے ہیلمٹ بنائے ہیں کہ دو گھنٹے سے زیادہ پہن کر سفر کرسکیں؟،بالکل ایسے نہیں ،شہر میں مسائل بہت ہیں،موٹرسائیکل ایک حقیقت ہے اس کو سفر سے نکال نہیں سکتے ،ا س سواری کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

 دنیا: این ای ڈی ٹریفک حادثات پر تحقیق کررہی ہے آپ کا ڈیٹا کیا کہتا ہے؟

 ڈاکٹر افضل احمد : ڈی آئی جی ٹریفک کی کوششوں سے این ای ڈی یونیورسٹی ٹریفک حادثات پر تحقیق کررہی ہے اور ڈیٹا جمع کیاجارہا ہے۔تحقیق میں رپورٹ ہونے اور رپورٹ نہ ہونے والا ڈیٹا بھی شامل کیا جارہا ہے۔این ای ڈی کی ٹیم ڈیٹا کو ڈیجیٹلائز کررہی ہے ،ڈیٹا صر ف نمبر شیئر کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ ا س کے ذریعے روک تھام کی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔ بعض مقام ایسے ہوتے جہاں انجینئرنگ فالٹ کی وجہ سے حادثات ہوتے ہیں ان کی نشان دہی کرتے ہوئے حل نکالا جاسکتا ہے،ان مقاما ت کو بلیک اسپاٹ کہتے ہیں ،شہر میں ان کی بھی نشان دہی کی جارہی ہے،کراچی کی سڑکوں پر یو ٹرن کی آگہی کے بارے میں بھی ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ 

2015ء سے2022ء تک کے جمع کئے گئے ڈیٹا کے مطابق ٹریفک حادثات سے 1453اموات ہوئیں ، 532 زخمی ہوئے ،سالانہ تناسب نکالا جائے تو 207 اموات ہوتی ہیں،یہ ڈیٹا ایف آئی آرسے حاصل کیا گیا۔ ان میں73فیصد اموات کی وجہ موٹر سائیکل حادثات ہیںان میں مرنے والوں کی عمریں 19 سے 36سال کے درمیان ہیں جو 50فیصد بنتی ہیں۔زیادہ ترا موات ٹرکوں اور بسوں کی وجہ سے ہوئیں۔ٹرک اور بسیں 5فیصد ہیں لیکن ان سے حادثات سے 55فیصد اموات ہوئیں ۔ہر سال اگست میںٹریفک حادثات زیادہ ہوتے ہیں۔ڈی آئی جی صاحب کے ساتھ مل کر موبائل ایپلی کیشن بنائیں گے، حادثے کی صورت میں موقع پر ہی ڈیٹا اور مقام کو شامل کریں گے جس سے ڈیٹا بیس بنتا جائے گا۔

 دنیا : ٹریفک حادثات کنٹرول کرنے کیلئے ڈی آئی جی ٹریفک کے ساتھ ایم او یو سائن کیئے ہیں وہ کیا ہیں ؟

پروفیسرڈاکٹر میر شبرعلی: ڈاکٹر افضل بہت اچھا ڈیٹا جمع کررہے ہیں۔مجھے اپنے شاگر د پر فخر ہے ۔ڈیٹا کے مطابق ڈھائی دن میں ایک موٹر سائیکل سوارکا حادثہ ہورہا ہے۔ یہاں بہت مثبت کام ہورہے ہیں لیکن ہمارامیڈیا اس کی تشہیر نہیں کرتا ۔میڈیا عوام کی تربیت کا کام بھی کرے تو اچھا ہوگا،ہم امریکا کی بہت مثالیں دیتے ہیں لیکن اپنے لوگوںکی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔دنیا فورم اچھا کام کررہاہے جس سے ہماری حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔بد قسمتی سے کراچی میں جو کام ہونے چا ہئیں وہ نہیں ہورہے۔ سرسید یونیورسٹی نے کچھ روز قبل ڈی آئی جی ٹریفک کے ساتھ مل کر ایم او یو سائن کیا ہے ۔ڈی آئی جی احمد نواز بہت تعاون کررہے ہیں حکومتی سرپرستی ہوتی رہے تو بہت کام ہوسکتاہے۔ سرسید یونیورسٹی میں فائنل ایئر میں تقریبا250 پروجیکٹس ہوئے ہیں ان میں ایک ایک پروجیکٹ کو وائس چانسلر او رہماری فیکلٹی نے طلباء کے پاس جاکر پروجیکٹ پر بات کی ،ان پروجیکٹ میں سے 16 پروجیکٹ ایسے ہیں جو ٹریفک حادثا ت کو کنٹرول اور قوانین کو فالو کرنے پر ہیں۔ایک پروجیکٹ میں کمپیوٹر سائنس کا شعبہ اسمارٹ سرویلینس سسٹم بنا کر دے رہاہے ،دوسرا پروجیکٹ آبجیکٹ ڈی ٹیکشن اینڈ فوگ ہے جس پر کام ہورہا ہے، کراچی میں جنوری اور فروری میں دھند کی صورت حال نظر آتی ہے یہ پروجیکٹ اس پر کام کرے گا۔اس کام میں بہت گنجائش ہے،بعض کام ایسے ہیں جن پر آج بھی کام ہوسکتاہے۔دنیا فورم سے درخواست کروں گا جب ہمارے پروجیکٹ مکمل ہوجائیں تو ان پروجیکٹ کی آگہی اور طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے بھی فورم کا ا نعقاد کیا جائے۔ 

دنیا :نوجوانوں کی تربیت میں تعلیمی ادارے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹرسراج خلجی : زندگی کے چیلنجز ہر جگہ ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔سرسید یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ موٹر سائیکل پر آنے والا کوئی بھی طالب علم بغیر ہیلمٹ کے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہوسکتا۔یہ پیغام دیگر یونیورسٹیوں میں بھی پہنچا رہے ہیں ۔انہوں نے عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ سرسید یونیورسٹی نے سماجی خدمات کے حوالے سے سلسلہ شروع کیا جس میں طلباء باہر دوست احباب اور دیگر لوگوں کوجو تعلیم حاصل نہیں کرسکیں ان کی سماجی خدمت کریں اور ان پروگرام کے حوالے سے آگہی دیں گے ۔فورم کے توسط سے ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ خدارا موٹر سائیکل پر سفر کے دوران موبائل کا استعمال نہ کریں ا س کی وجہ سے بھی حادثات ہوجاتے ہیں،موبائل کاصحیح استعمال کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔