منی بجٹ آئیگا نہ ہی ٹیلی فون کالز اورانٹرنیٹ پر کوئی ٹیکس لگایا جائیگا: شوکت ترین

تجارت

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیرخزانہ و محصولات شوکت ترین نے کہا ہے کہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں محصولات اور دیگرشعبوں کیلئے رکھے گئے اہداف حاصل کئے جائیں گے اور کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا، ٹیلی فون کالز اورانٹرنیٹ پرکوئی ٹیکس عائد نہیں کیاگیا، سعودی عرب سے موخر ادائیگی کی بنیاد پر تیل کی فراہمی کیلئے اتفاق رائے ہوچکا ہے۔

وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار، مشیر تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود، معاون خصوصی ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود، معاون خصوصی تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر، سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کے ہمراہ مشترکہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہاکہ حکومت کا یہ عزم ہے کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کیلئے ٹریکل ڈائون کے تصور کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، گزشتہ 74 برسوں میں عوام کو گھروں اور کاشتکاروں کو فصلوں کیلئے قرضے نہیں ملے ہیں، حکومت اس مدت میں کام کر رہی ہے اور بینکنگ کے شعبہ کو بروئے کار لایا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس مالی گنجائش محدود ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ کمرشل بینک یہ نہیں کر سکتے، اس کیلئے ہم حکمت عملی اپنا رہے ہیں، بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک نے چھوٹے قرضوں کے تجربات کئے ہیں، پاکستان میں این آئی آر ایس پی اور اخوت جیسے ادارے آئے ہیں، اخوت نے 250 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے ہیں جن کی واپسی کی شرح 98 فیصد کے قریب ہے۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کی آمدنی بڑھانے کیلئے حکومت نے جو حکمت عملی بنائی ہے اس میں احساس پروگرام کے ساتھ ساتھ 40 لاکھ گھرانوں کو سروے کی بنیاد پر منتخب کیا جائے گا، کاشتکاروں کو فصلوں کیلئے فی فصل ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے قرضے دیئے جائیں گے، شہری علاقوں میں کاروبار کیلئے پانچ پانچ لاکھ تک کے قرضے فراہم کریں گے جو تین سال کے عرصہ کیلئے ہوں گے اور اس پر سود نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر خاندانوں کو گھروں کیلئے شہری علاقوں میں 20 لاکھ روپے تک جبکہ دیہی علاقوں میں 6 سے لیکر 8 لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کئے جائیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ حکومت ہیلتھ انشورنس پر بھی کام کر رہی ہے، وزیراعظم نے خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ شروع کیا تھا جس کا دائرہ کار اب پورے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے، صحت کارڈ درحقیقت ہیلتھ انشورنس ہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ غربت مٹانے اور کم آمدنی والے گھرانوں کی آمدنی بڑھانے کی حکمت عملی کے تحت فی خاندان ایک رکن کو ہنر سکھایا جائے گا، ہنر سکھانے کا عمل علاقہ میں پائے جانے والے رجحان کے مطابق ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ ٹریکل ڈائون تب کامیاب ہوتا ہے جب پائیدار بڑھوتری کا عمل جاری رہے، ہمارا ہدف جامع اور پائیدار بڑھوتری ہے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی کا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے، زراعت اور صنعت کیلئے مراعات دی گئی ہیں، استحکام کے عمل کو ہم نے پائیدار بنانا اور بڑھوتری کا آگے لے جانا ہے، حکومت نے اقتصادی مشاورتی کونسل کے تحت 12 شعبوں کا انتخاب کیا ہے جس میں ساری توجہ پائیدار اور جامع بڑھوتری پر مرکوز کی گئی ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ڈالر کمائیں، اس مقصد کیلئے برآمدات میں اضافے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے، اس وقت جی ڈی پی کی شرح سے ہماری برآمدات 8 فیصد ہیں جو بہت کم ہیں، اسے ہم نے 8 سے 10 برسوں میں جی ڈی پی کے 20 فیصد کی سطح پر پہنچانا ہے، آج اگر جی ڈی پی کی شرح سے ہماری برآمدات 20 فیصد ہوتیں تو ہمارا برآمدی بل 60 ارب ڈالر ہوتا، برآمدات بڑھانے کیلئے سیونگ ریٹ کو بڑھانا پڑے گا، اس وقت سیونگ اور انویسٹمنٹ ریٹ 16 فیصد ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہاکہ بڑھوتری کے حصول میں ایک اور رکاوٹ مناسب ریونیو کی کمی ہوتی ہے، ریونیو کو بھی جی ڈی پی کے 20 فیصد کی سطح پر لانا ہوگا، مالی سال 2021کیلئے ریونیو کے اہداف حاصل ہوں گے، نئے مالی سال کیلئے 5.8 ٹریلین کا ہدف دیا گیا ہے، ریونیو بڑھانے کیلئے ٹیکس کی بنیاد میں اضافہ کیا جا رہا ہے جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے انہیں ٹیکس کے نیٹ میں لائیں گے، ریونیو میں اضافہ کیلئے ریٹیل سٹوروں میں پوائنٹ آف سیل مشینوں کی تنصیب کی جا رہی ہے جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں، ان پر ٹیکس نہیں بڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بعض سٹوروں کی سالانہ ٹرن آوور اربوں روپے میں ہے، ہمارا اندازہ ہے کہ بڑے ریٹیلر کا ٹرن آوور 1.5 ٹریلین روپے ہے، اس وقت ٹیئر ون میں 60 سے لیکر 80 ہزار تک ریٹیل سٹور ہیں جبکہ 10 ہزار کے قریب پی او ایس مشینیں لگی ہوئی ہیں، اس نظام کے دائرہ کار میں توسیع کی جا رہی ہے، تین ملین چھوٹے تاجروں کے پاس ہم نے پہنچنا ہے اور انہیں ٹیکس کے نیٹ میں لانا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پوائنٹ آف سیل مشینوں کے حوالہ سے ایک انعامی سکیم بھی متعارف کرائی گئی ہے، اس سکیم کے تحت ہر ماہ پی او ایس کے بار کوڈز کی بنیاد پر ماہانہ 25 کروڑ روپے کے انعامات دیئے جائیں گے، اس سکیم کے نتیجہ میں صارفین ریٹیلر سے خود اصلی رسید کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے علاوہ ٹریک اینڈ ٹریس نظام لایا جا رہا ہے، ابتدائی طور پر چار علاقوں میں اس نظام کو متعارف کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ محصولات کیلئے ہدف پرجوش ضرور ہے تاہم یہ حاصل کیا جائے گا کیونکہ حکومت نے جو حکمت عملی بنائی ہے اس کے تحت ہمیں مالی گنجائش میسر آجائے گی۔

انہوں نے کہاکہ زراعت کو فروغ دینا ہماری ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان ماضی میں غذائی اشیا برآمد کر رہا تھا، اب ہم گندم، دالیں، چینی اور گھی درآمد کر رہے ہیں، زراعت میں حکومت جاری اور ترقیاتی اخراجات میں کسانوں کو مراعات دے رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ برآمدات پر بھی توجہ دی جا رہی ہے، برآمدات میں ہماری توجہ صرف ٹیکسٹائل نہیں بلکہ دیگر شعبوں پر بھی ہے، خصوصی اقتصادی زونز میں ٹرن آوور ٹیکس سمیت کئی ٹیکوں کا خاتمہ کیا گیا ہے، آئی ٹی کا شعبہ بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، آئی ٹی کیلئے ٹیکسوں کومعقول بنایا گیا ہے، حکومت آئی ٹی کی برآمدات میں 100 فیصد اضافہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ برآمدات کے فروغ کی حکمت عملی کے تحت صنعتوں کیلئے خصوصی مراعات دی گئی ہیں، اس وقت سینکڑوں خام مال اشیا پر کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس نہیں ہے، اس سے مقامی صنعتیں مضبوبط ہوں گی اور ہماری مقامی پیداوار بڑھ جائے گی، زراعت کے بعد صنعتی شعبہ سب سے زیادہ ملازمتیں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے ہائوسنگ کے شعبہ پر حقیقی معنوں میں کام کیا، پہلے بینک اس شعبے کیلئے قرضے نہیں دے رہے تھے، وزیراعظم نے دلچسپی لی اور قوانین میں ترامیم کیں، مارک اپ کی شرح کو کم کیا گیا جس سے اس شعبہ میں نمایاں تیزی آئی ہے کیونکہ ہائوسنگ کے شعبہ سے 40 سے لیکر 42 صنعتیں وابستہ ہیں۔

ترین نے کہا کہ حکومت بجلی کے شعبے کو درست کرنے کیلئے اپنی کوششیں کر رہی ہے، بجٹ میں بجلی کے حوالہ سے سبسڈیز میں اضافہ کیا گیا ہے، اس شعبہ کو فعال بنایا جا رہا ہے، ڈسکوز میں بہتری لائی جا رہی ہے، لائن لائسز کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، اس وقت اس شعبہ کا سب سے بڑا مسئلہ استعدادی ادائیگیاں ہیں تاہم ان ادائیگیوں کو پورا کرنے کیلئے حکومت غریب لوگوں پر ٹیرف میں اضافہ نہیں کرے گی بلکہ اس کی بجائے ان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، وزیراعظم عمران خان اس حوالہ سے بہت واضح ہیں، حکومت اس شعبہ کو مالیاتی طور پر پائیدار بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ استعدادی ادائیگیوں کیلئے پانچ سے سات سال کا وقفہ ہونا چاہئے، فوری ادائیگیاں صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہیں جب ہم لوگوں پر ٹیکس بڑھائے ، اس کی بجائے ہم نے اپنی معیشت اور اپنی صنعت میں اتنی پیداواریت بڑھانی ہے تاکہ فاضل توانائی کو استعداد کے مطابق استعمال میں لایا جا سکے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ اس وقت پاور سیکٹر کو 370 ارب روپے انکریمنٹل مل رہے ہیں، پاور کے شعبہ کو اپنی کارکردگی میں بہتری لانی اور ریکوریز کو بھی بہتر بنانا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالیاتی شعبے کی بہتری ہمارا ہدف ہے، موجودہ بجٹ بڑھوتری پر مبنی ہے، ریونیو اکٹھا کرنے میں اختراعی طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ کیا جا رہا ہے، آٹو انڈسٹری میں سہولیات اور ترغیبات دی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موبائل فون پر تین منٹ کی کال، اور انٹرنیٹ پر فی جی بی پر پانچ روپے ایف ای ڈی کی تجویز کابینہ میں لے کر گئے تھے تاہم وزیراعظم اور کابینہ نے اس کی مخالفت کی تھی، اس لئے ان ٹیکسوں کا اطلاق نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ تنخواہوں اور پنشن کے نظام میں بہتری لائی جا رہی ہے، ڈاکٹر عشرت حسین اس حوالہ سے کام کر رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ جو ملازمین محنت کر رہے ہیں، انہیں ان کی محنت کے مطابق معاوضے ادا ہوں، ہم حکومتی یا سرکاری ملازمت کو پسند کی ملازمت بنانا چاہتے ہیں، پنشن نہ صرف سرکاری بلکہ نجی شعبے کیلئے ایک مسئلہ ہے، پاکستان میں ابھی تک پنشن کے حوالہ سے کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں، میں نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ اس نظام کو عملی اور قابل قبول بنانا ہے، تین سے چھ ماہ کے عرصہ میں بڑی اصلاحات لائی جائیں گی، رواں سال تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے واضح انداز میں کہا کہ بجٹ کے اہداف حاصل ہوں گے اور کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہاکہ غذائی افراط زر پر قابو پانے کیلئے پیداوار بڑھانا ہوں گی، برآمدات میں اضافہ اور زیادہ فصلیں اگانے کیلئے حکومت مراعات دے رہی ہے، انتظامی اقدامات کے تحت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں، مڈل مین کا خاتمہ اور کسانوں کو ہول سیل مارکیٹ تک رسائی کے مواقع بڑھانا ہماری ترجیح ہے، کموڈیٹی ویئر ہائوسز اور کولڈ سٹوریجز کے چین بھی بنائے جائیں گے، ملک میں پہلی مرتبہ اہم غذائی اشیا کے سٹریٹجک ریزرو بنائے جا رہے ہیں۔

ایف بی آڑ میں اصلاحات کے سوال پر انہوں نے کہاکہ اصلاحات کا عمل جاری ہے، ایف بی آر کے متعلقہ حکام نے دلفشانی سے کام کیا ہے، ہم ایف بی آر کو درست کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ اصلاحات کے عمل میں نجی شعبے کو بھی لایا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ پرسنل انکم ٹیکس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت کیلئے ضروری ہے کہ پہلے بلواسطہ ٹیکسوں کو بڑھایا جائے، کئی ممالک نے اسی طریقہ کار پر عمل کر کے اپنی محصولات کی بنیاد پر مضبوط کیا ہے۔

آئی ایم ایف سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پر کاربند ہے، ہم پروگرام سے نہیں نکلے ہیں، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بات چیت کے عمل جاری ہے، ستمبر تک چھٹا جائزہ مکمل کرنے کی کوشش کریں گے، آئی ایم ایف اور پاکستان اہداف یکساں تاہم طریقہ کار مختلف ہے، ہم ٹیرف بڑھانے کی بجائے استعداد کو استعمال کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، ہم ٹیکس نہیں بڑھائیں گے اور ٹریک پر رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کے ساتھ موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کے حوالہ وسے اتفاق رائے ہوا ہے، ایران پر پابندیاں ہٹانے کی صورت میں ہمیں توقع ہے کہ بین الاقوامی تیل کی قیمتیں کم ہو جائیں گی اور اس کے نتیجہ میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے اہداف حاصل ہو جائیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ احساس پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، حکومت نیچے سے اوپر کی طرف ترقی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اس حکمت عملی کے تحت سود سے پاک قرضے دیئے جائیں گے، وزیراعظم عمران خان رواں ماہ کامیاب پاکستان پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں، ابتدائی طور پر ہمارا ہدف 4 ملین خاندانوں کی آمدنی کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا، ہر خاندان کو اگر کوٹہ دیا جائے تو اس سے لوئر مڈل کلاس کو سہولیات دی جا سکیں گی۔

انہوں نے کہاکہ امید ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو جائیں گی، ٹریک اینڈ ٹریس نظام اس ہفتے کام شروع کرے گا، سگریٹ انڈسٹری پراگر ٹیکس بڑھانے کی ضرورت پڑی تو بڑھائیں گے، ایف بی آر سمگلنگ کے خاتمہ کیلئے جامع اقدامات کر رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ تعلیم اور صحت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں تاہم یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دونوں شعبے صوبائی امور ہیں، اس مرتبہ صوبوں کے پاس 700 ارب روپے جا رہے ہیں اور امید ہے کہ صوبے صحت اور تعلیم کے حوالہ سے بہتر منصوبہ بندی کریں گے، وزیراعظم عمران خان انسانی وسائل کی ترقی کیلئے محنت کر رہے ہیں کیونکہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی استعداد سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں