انتقال کے 10 سال بعد بھی دلوں میں زندہ، شہنشاہ قوالی مقبول احمد صابری

تفریح

لاہور: (روزنامہ دنیا) دنیا بھر میں قوالی اوردیگر صوفیانہ کلام کی گائیکی کے ذریعے شہرت کمانے والے صابری برادران کسی تعارف کے محتاج نہیں ،غلام فرید صابری کے چھوٹے بھائی شنہشا ہ ِقوالی اور موسیقار مقبول احمد صابری کی گذشتہ روز 10 ویں برسی منائی گئی ۔غلام فریدصابری اور مقبول احمد صابری کا قوالی گائیکی کا انداز منفرد اور شاندار تھا جس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق صابری برادران نے اپنی پہلی لائیو پرفارمنس اپنے آبائی شہر کلیانہ میں ہی پیش کی تھی ، یہ ایک عرس کی تقریب تھی جس میں بڑی تعداد میں ہندوستان اور پاکستان کے لوگ شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد غلام فرید صابری کے انتقال تک صابری برادران کا قوالی کی دنیا میں کوئی ہم پلہ نہیں رہا تھا اور انہوں نے سبھی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

ساتویں اور آٹھویں دہائی میں غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی قوالیوں کے بے شمار کیسٹ، ریکارڈز اور البم ریلیز ہوئے اور ان کی ریکارڈ سیل بھی ہوتی تھی۔ صابری برادران نے نہ صرف پاکستان میں فن قوالی کا الگ اندازسے مظاہرہ کیا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے۔

غلام فرید صابری کی آواز بہت بلند تھی اور اونچے سرکے بہترین گائیک تھے جبکہ مقبول صابری کی آواز شیریں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دونوں بھائی اپنے مخصوص سْر اور تال ملاکر گاتے تھے تو سامعین پر کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا مقبول صابری کی آواز غزل گائیکی کیلئے بھی بہت مناسب تھی اور وہ ایک بہترین غزل گائیک بن سکتے تھے ۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی غلام فرید کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ان کے ساتھ قوالی کے فن کو آگے بڑھاتے رہے۔

غلام فرید اور مقبول صابری دونوں بھائیوں نے کئی فلموں میں بھی قوالیاں پیش کی تھیں۔ فلم  سلطان ہند‘ میں   آفتاب رسالت مدینے میں ہے...‘‘ قوالی گاتے ہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ میں انہیں دکھایا گیا تھا۔ صابری برادران کی بے حد مقبول قوالیوں میں   بھر دو جھولی میری یا محمدؐ، ‘‘  تاجدار حرم،‘‘   سرِلامکاں سے طلب ہوئی‘‘، ،  خواجہ کی دیوانی‘‘،   جتنا دیا سرکار نے مجھ کو،‘‘   میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا‘‘،   تو مولا ہے تیرے کرم ہیں نرالے‘‘،   میرے مولا مجھے اجمیر جانے کی تمنا ہے‘‘،   فرقت کی ہزاروں راتوں سے‘‘،    دمادم مست قلندر‘‘، اور  یا   صاحب الجمال‘‘ چند ایسی قوالیاں ہیں جو صابری برادران کے اپنے مخصوص طرز پر گانے کی وجہ سے عالمی پیمانے پر مقبول ہوئیں۔

صابری برادران جس قدر پاکستان میں مقبول تھے، اس سے کہیں زیادہ ہندوستان اور دنیا بھر کے اْن ممالک میں بھی مقبول تھے جہاں اردو سنی اور سمجھی جاتی ہے،اِن دونوں کو قوالی گائیکی کے اعتراف میں متعددایوارڈز بھی ملے۔ وہ جب اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے تو سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ قوالی کی حقیقی روایات کو برقرار رکھنے والے صابری برادران کی گائیکی میں جو ندرت اور انوکھاپن تھا وہ اب شاید ہی کہیں اور سننے کو ملے۔یہی سبب ہے کہ جب کبھی قوالی کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں مقبول صابری اور غلام فرید صابری کا نام سر ِفہرست ہوگا۔ منفرد اور مختلف انداز کے قوال مقبول احمد صابری 21 ستمبر2011ء کو اپنے مداحوں کو اداس چھوڑ کر اور قوالی کی محفلوں کو ویران کر کے خالق حقیقی سے جاملے۔

مقبول صابری کی پیدائش 12اکتوبر 1941 کو پنجاب کے ضلع روہتک کے موضع کلیانہ میں استاد عنایت حسین صابری کے گھر میں ہوئی۔ وہ اپنے بڑے بھائی غلام فرید صابری سے گیارہ برس چھوٹے تھے۔ اِس خاندان کا تعلق روحانی سلسلہ صابری سے تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1947 میں ہی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ مقبول صابری نے موسیقی اور گائیکی کی تعلیم ابتدا میں اپنے والد اور بعد میں استاد فتح دین استاد رمضان خاں اور استاد لطافت حسین خاں رامپوری سے حاصل کی۔ دونوں بھائیوں نے اپنے والد کے تعاون سے ایک پارٹی بنائی اور صابری برادران کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس وقت مقبول صابری کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں