پڑوسی ممالک کو دیکھ کر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرینگے: وزیراعظم

پاکستان

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اکیلے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کرے گا، باضابطہ تسلیم کرنے سے متعلق پڑوسی ممالک کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرینگے۔

بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جامع حکومت تشکیل نہ دی گئی تو وہاں خانہ جنگی ہوگی۔ افغانستان کو دہشتگردوں کی جائے پناہ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے جو پاکستان کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ طالبان کو مزید وقت دینا چاہیے، ان سے متعلق کچھ کہنا بہت جلدی ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے سے متعلق پڑوسی ممالک کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا، پاکستان اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ تمام پڑوسی ممالک بیٹھیں گے، دیکھتے ہیں اس حوالے سے کیا پیشرفت ہے، پھر انہیں تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ ہوگا جو ایک مجموعی فیصلہ ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے طالبان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جامع حکومت تشکیل دیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان کے خانہ جنگی کی طرف جانے کا خدشہ ہوسکتا ہے، طالبان تمام گروپوں کو شامل نہیں کرتے تو جلد یا بدیر وہاں خانہ جنگی ہوگی جس کا مطلب عدم استحکام اور شورش ہوگا جب کہ افغانستان دہشتگردوں کے لیے ایک آئیڈیل مقام ہے جو پریشان کن ہے۔

انہوں نے افغانستان میں خواتین کو حقوق ملنے کی بھی توقع ظاہر کی اور کہا کہ افغانستان کی خواتین مضبوط ہیں، دنیا انہیں وقت دے وہ خود اپنے حقوق لے لیں گی یہ حقوق لینے میں انہیں ایک دو یا تین سال لگ سکتے ہیں، طالبان کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو قومی دھارے میں مرحلہ وار شامل کریں گے۔ افغانستان میں لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنا غیر اسلامی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سے بھارت جیسے تعلقات چاہتے ہیں: وزیراعظم عمران خان

دوسری طرف  پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں جو کہا یہ خوش آئند ہے۔

بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پراتفاق رائے کے بعد ہی افغان حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے، افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان کے اندر بھی اتفاق رائے ہونا چاہئے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے پی پی چیئر مین کا کہنا تھا کہ افغانستان کے موضوع پر پاکستانی پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہوا، پاکستان کے اندر سے اس حوالے سے کوئی مشترکہ رائے نہیں آئی، ملک میں بیشتر مسائل کی وجہ سے ابھی ہم اس معاملےپر پارلیمانی سیشن نہیں بلاسکے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کے افغانستان پر اثر انداز ہونے کے معاملے کو اکثربڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے۔ پاکستان کو شراکت داری پر مبنی افغان حکومت کے قیام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، افغانستان میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کیلئے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی پارٹنرز کیساتھ ملکر پاکستان کو کام کرنا ہو گا کہ افغانستان کو خطے میں دہشتگردی کیلئے استعمال نہ کیا جائے، افغان شہریوں کی طرح پاکستانی بھی کئی دہائیوں کی جنگ سے تنگ آچکے ہیں، ہم سب بہترین کی توقع کر رہے ہیں، بہترین کی توقع کرتے ہوئے ہمیں بدترین صورتحال کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق عمران خان کا بیان خوش آئند ہے: بلاول

اس سے قبل امریکی میڈیا سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد امریکی صدر جوزف بائیڈن سے ٹیلیفون پر رابطہ نہیں ہوا وہ بہت مصروف ہوں گے لیکن امریکا کے ساتھ رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے۔ پاکستان امریکا سے ایسے تعلقات چاہتا ہے جیسے بھارت کیساتھ ہے۔ ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے۔ پاکستان کے چین کیساتھ تعلقات امریکا کیساتھ تعلقات پر منحصر نہیں ہیں۔

امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ خطے کا امن افغانستان کے عوام سے منسلک ہے، افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے۔ افغان عوام نے 20 سال میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہشمند ہے۔ افغانستان میں افراتفری اور پناہ گزینوں کے مسائل کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدم استحکام کے نتیجے میں افغانستان سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے گا۔ افغانستان کو غیر ملکی فوج کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کیا ہونے والا ہے کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا، افغانستان کی خواتین بہت بہادر اور مضبوط ہیں، وقت دیا جائے وہ اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔ وہاں کی خواتین کو باہر سے کوئی حقوق نہیں دلوا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو حقوق مل جائیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ طالبان عالمی سطح پر خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔خطے کا امن افغان عوام سے جڑا ہے، 20 سال میں وہاں پر عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ دنیا طالبان کو انسانی حقوق کے معاملے پر وقت دے لیکن امداد کے بغیر انتشار کا اندیشہ ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ افغان طالبان پورے افغانستان پر مکمل قبضہ نہیں کر پائیں گے۔ اگر وہ عسکری طریقے سے کنٹرول حاصل کریں گے تو سول وار ہونے کا خدشہ ہے، جس سے ہم خوفزدہ تھے کیونکہ پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان برداشت کیا، دنیا کو ایک جائز حکومت بنانے اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے وقت دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیا تو مسائل بڑھیں گے: وزیراعظم

افغانستان سے انخلاء پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد امریکی صدر جوزف بائیڈن سے ٹیلیفون پر رابطہ نہیں ہوا حالانکہ پاکستان امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ بہت مصروف ہوں گے لیکن امریکا کے ساتھ رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے اسے کثیر جہتی تعلقات کی ضرورت ہے۔ پاکستان امریکا سے ایسے تعلقات چاہتا ہے جیسے بھارت سے ہے۔ ایسا تعلق نہیں ہونا چاہیے جس میں وہ ہمیں ان کیلئے لڑائی کرنے کے پیسے دیں، ہم نارمل تعلق چاہتے ہیں۔

چین سے تعلقات کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات امریکا کے ساتھ تعلقات پر منحصر نہیں ہیں۔ یہ پاکستان تھا جس نے 1970ء کی دہائی میں چین اور امریکا کے درمیان برف پگھلانے میں کردار ادا کیا۔

ان کاکہنا تھا کہ امریکا نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا جس کو مسترد کرتاہوں۔ پاکستان سے باربار محفوظ ٹھکانوں کی بات کی جاتی ہے۔ افغانستان سےداعش ،ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گرد پاکستان پر حملہ کرتے ہیں۔ امریکا سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے۔ پاکستان نے امریکا کیساتھ 20 سال تک ملکر جنگ لڑی، ہم کرائے کے بندوق کی طرح تھے امریکا افغان جنگ جیتا چاہتا تھا۔ وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ بار بار امریکی حکام کو خبردار کیا تھا کہ امریکا عسکری طور پر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 11/9 حملے کے بعد دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے، سابق وزیراعظم بینظیربھٹوایک دہشت گرد حملے میں جاں بحق ہوئیں، ایک موقع پر وہاں 50 عسکریت پسند گروہ پاکستان پر حملہ کر رہے تھے، امریکا نے پاکستان میں 480 ڈرون اٹیک کیے۔ کیا کوئی اتحادی ملک پر حملہ کرتا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو150ارب ڈالرکا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھاکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام ہی سب کے ساتھ رابطے رکھنا ہوتا ہے، امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے بھی طالبان کے ساتھ رابطے میں رہی، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ افغان طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرے ؟

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی جاہل ہیں اور انہیں پتہ کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، حقانی افغانستان میں موجود ایک قبیلہ ہے، حقانی رہنماؤ ں میں سے ایک رہنما پاکستان میں افغان مہاجر کیمپ میں پیدا ہوا، کیا آپ کے پاس اس وقت افغانستان کی حکومت کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟

میزبان کی طرف سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں تھا،اس سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کسی اور کی جنگ لڑنے کے لیے ہم اپنے ملک کو تباہ نہیں کر سکتے۔ افغان طالبان ہمارے ملک پر حملہ نہیں کر رہے تھے۔ اگر اس وقت میں حکومت میں ہوتا تو امریکی انتظامیہ کوبتاتاکہ افغان طالبان کیخلاف ہم اپنی فوج استعمال نہیں کریں گے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور میرے ملک کے لوگ میری ذمہ داری ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں