افغانستان کی صورتحال پر سعودی عرب نے او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں طلب کر لیا

پاکستان

ریاض: (دنیا نیوز) سعودی عرب نے او آئی سی کے سربراہ کی حیثیت سے افغانستان کی بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر بحث کیلئے 17 دسمبر کو پاکستان میں خصوصی اجلاس طلب کر لیا ہے۔

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ افغانستان کی صورت حال پر سعودی عرب کی جانب سے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس طلب کیا گیا ہے، پاکستان ا فغان معاملے پر ہنگامی اجلاس کی حمایت کرتاہے، او آئی سی اجلاس کی 17دسمبرکو پاکستان میں میزبانی کی پیشکش کرتے ہیں۔

اس پیشکش کے بعد سعودی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب نے او آئی سی کے رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں اور افغانستان کی مدد میں دلچسپی رکھنے والے ممالک سے اپیل کی کہ وہ اجلاس میں موثر انداز میں شرکت کریں۔ اجلاس افغانستان کے امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرنے، افغانستان کی خودمختاری ،اتحاد و سالمیت کی اہمیت کو منوانے، اس کے اندرونی امورمیں بیرونی مداخلت سے نمٹنے، ہر طرح کی دہشتگردی سے جنگ کرنے اور افغانستان کے علاقوں کو دہشتگرد تنظیموں کی پناہ گاہ یا سرگرمیوں کےلیے استعمال نہ کرنے کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

مملکت کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق موسم سرما کی آمد پر افغان عوام خطرناک انسانی بحران سے دوچار ہو رہے ہیں۔ لاکھوں افغانیوں کو جن میں بوڑھے ، خواتین اور بچے شامل ہیں ہنگامی بنیادوں پر خوراک ، دوا اور رہائش کے سلسلے میں مدد کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ افغان ریاست معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشی حالات بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ آنے والے ایام میں یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ انسانی بحران کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے گی بلکہ اس سے افغانستان میں عدم استحکام مزید بڑھے گا اور علاقائی و بین الاقوامی امن و استحکام کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔

بیان کے مطابق سعودی عرب ان بنیادوں اور پاکستان کی طرف سے افغانستان کی مدد کےلیے کانفرنس کی میزبانی کی پیش کش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چا ہتا ہے کہ 17 دسمبر 2021 کو افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کا طریقہ کار متعین کرنے، اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں نیز بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور عالمی برادری کے ساتھ یکجہتی پیدا کر کے افغان کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ افغان عوام کے انسانی بحران کی شدت کو حتیٰ الامکان کم کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ امریکا کی 20سالہی جنگ کے خاتمے کے بعد طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔

طالبان کی نئی حکومت کو اب ملک کی خستہ حال معیشت کو بحال کرنے کا مشکل کام درپیش ہے جو کہ بین الاقوامی امداد کی منتظر ہے کیونکہ امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومتوں کے دور میں قومی بجٹ کا 75 فیصد بین الاقوامی امداد پر منحصر تھا۔

افغانستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کا بینکنگ کا شعبہ تباہ ہو گیا ہے۔

امریکا کی جانب سے ان کے بینکوں میں موجود افغانستان کے تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد اور ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے افغانستان کی فنڈنگ ​​تک رسائی روکے جانے کے بعد یہ بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں ایک بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے اور ملک کی 3کروڑ 80لاکھ آبادی میں سے نصف سے زائد کو موسم سرما میں قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے لیے 5 ارب روپے کی انسانی امداد کی منظوری دی تھی جبکہ اس کے علاوہ ہندوستانی خوراک کی امداد کو پاکستان کے راستے منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں