مقبوضہ کشمیر میں دس سال بعد انتخابات، عوام کا ملا جلا ردعمل

سری نگر: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر میں دس سالوں میں پہلی بار مقامی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں جس پر عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کی پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور دہلی کے ساتھ کشمیر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

دس سالوں میں پہلی بار کشمیر میں مقامی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں جس پر عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، کچھ لوگ انتخابات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں تو کچھ ووٹ ڈال رہے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انجینئر رشید جو کہ بھارت کی جانب سے بنائے گئے دہشت گردی کی فنڈنگ کیس میں ملزم اور پانچ سال قید کاٹ رہا ہے، اب ضمانت پر رہا ہے اور بھرپور انتخابی مہم چلا رہا ہے۔

رشید کا سیاسی ایجنڈا ترقیاتی مسائل، گورننس کے ایشوز اور مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ مرکوز کرنا ہے، کشمیر میں ملازمتوں کی کمی اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں جیسے مسائل تو ہیں ہی لیکن کشمیری شناخت اور خودمختاری کی بحالی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دس سال قبل ہونے والے انتخابات تشدد اور بائیکاٹ سے متاثر ہوئے تھے جس کے بعد امن و امان کی صورتحال بدستور نازک ہے، 1990 کی دہائی سے ہندوستانی حکمرانی کے خلاف مسلح شورش نے ہزاروں جانیں لی ہیں جن میں عام شہری اور سکیورٹی فورسز کے جوان بھی جانیں گنوا چکے ہیں۔

میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کے الزامات کا سامنا ہے اورحالیہ برسوں میں اس میں شدت آئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ عام انتخابات میں ووٹنگ کو ان مسائل کے خلاف مزاحمت کی شکل کے طور پر دیکھا جارہا ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک "نئے کشمیر" کو فروغ دیتے ہیں، لیکن مقامی لوگ پرانے کشمیر کو ترجیح دیتے ہوئے بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔

میڈیا رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات کے باوجود وفاق کے زیر انتظام اس خطے میں حقیقی طاقت مرکزی حکومت کے پاس رہے گی جس سے بہت سے لوگ حقیقی تبدیلی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں