اے آئی کے استعمال سے انسانی ذہن پر انحصار بتدریج کم ہونے لگا
کراچی: (ویب ڈیسک) مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال نے زندگی کو کافی حد تک سہل کر دیا ہے لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے انسان کی یادداشت اور سوچ میں کسی حد تک کمی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔
اے آئی کے استعمال سے انسانی ذہن پر انحصار بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں پہلے کی طرح ضروری معلومات کو زبانی یاد رکھنے اور مختلف سماجی مسائل حل کرنے کیلئے ذہنی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
اس سلسلے میں معروف ایجوکیشنلسٹ ڈاکٹر مریم چغتائی نے اے آئی کے استعمال سے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات اور اس کے فوائد سے ناظرین کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے آئی کو میں خطرناک نہیں سمجھتی کیوں کہ انسانی معاشرے میں اس طرح کے انقلاب وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے زمانے میں نقشے کاغذ پر نہیں ہوا کرتے تھے لوگوں کو رستے یاد رہتے تھے پھر جب کاغذ ایجاد ہوا تو لوگوں کو آسانی میسر ہوئی۔
اسی طرح جب ٹریکٹر ایجاد ہوا تو کسی کسان نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہم کو سست اور لاغر کر دے گا، لیکن جہاں تک جدید ٹیکنالوجی کی بات ہے اگر کسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے آپ محنت کرنا چھوڑ دیں اور سوچیں کہ سارے کام یہی کرے گی تو واقعی یہ مستقبل میں آپ کی ملازمتیں ختم کر دے گی۔
اور اگر اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کیا جائے اور اپنی مصنوعات میں جدت لائی جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی، مثال کے طور پر کیلکولیٹر استعمال کرنے کے دوران اگر آپ اپنے ذہن کا بھی استعمال نہیں کرتے تو آنے والے وقت میں آپ اکاؤنٹنٹ کی ملازمت بھی نہیں کرسکیں گے۔
ڈاکٹر مریم کا کہنا تھا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نطام میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو لانا ہوگا صرف رٹے رٹائے جملوں یا سبق سے بچے امتحان پاس تو کر لیں گے لیکن ان کے اندر بہتر قابلیت کا فقدان رہے گا۔
اساتذہ کو بھی پابند کیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کو اے آئی کے استعمال سے اجتناب کی ترغیب دیں ورنہ بچے سست اور کاہل ہوجائیں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں تعلیمی نظام کو اس طرح ڈھالنا ہوگا کہ اے آئی کو صرف ایک معاون کے طور پر استعمال کیا جائے لیکن اس پر مکمل انحصار لوگوں کی صلاحیتوں کو متاثر کرسکتا ہے۔