سینیٹ: حکومت ایک ووٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کرانے میں کامیاب

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سینیٹ اجلاس میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہوگیا۔ حکومت ایک ووٹ سے بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ ترمیمی بل کے حق میں 43 اور مخالفت میں 42 ووٹ آئے۔

 چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پیش کیا۔ چیئرمین سینیٹ نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں لہرا دیں۔

سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو شکست ہوگئی۔ اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی اور سکندر میندھرو ایوان سے غیر حاضر رہے۔ مسلم لیگ نون کے مشاہد حسین سید اور نزہت صادق نے بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پی کے میپ کے شفیق ترین، بی این پی مینگل کے ڈاکٹر قاسم اور نسیمہ احسان بھی غائب تھیں۔ آزاد سینیٹرز ہلال الرحمن اور ہدایت اللہ بھی ایوان میں نہ آئے۔

حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری اور خالدہ اطیب بھی غیر حاضر رہے۔ اے این پی کے عمر فاروق گنتی کے دوران ایوان سے باہر چلے گئے۔ دوسری جانب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا جبکہ سینیٹر دلاور خان گروپ نے بھی بل کی حمایت کی۔

نائب صدر پیپلز پارٹی و سینیٹر شیری رحمان نے اسٹیٹ بینک بل کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ سینیٹ اجلاس کے لئے آدھی رات کو جاری شدہ ایجنڈا حکومت کے چھپے مقاصد کو بیان کرتا ہے، حکومت آئی ایم ایف کو بتانا چاہتی ہے پارلیمنٹ نے اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پاس کیا ہے، حکومت قومی بحران کے وقت پاکستان کے خود مختار فیصلے کرنے کی صلاحیت کو بھی چھیننا چاہتی ہے، حکومت اسٹیٹ بینک کی  خودمختاری  متعلق بل کو بلڈوز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ بڑے منصوبوں میں خود مختار ضمانتیں دینے کی حکومتی صلاحیت کا کیا ہوگا ؟ یہ ہنگامی واجبات کے طور پر درج ہیں، لہذا آئی ایم ایف اب ان پر بھی کنٹرول کر سکتا ہے، اپوزیشن حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہے، آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھی ہے مرکزی بینک پاکستان کو کسی بھی بحران میں پیسے نہیں دے گا، یہ قومی ہنگامی حالتوں، یہاں تک کہ جنگ میں بھی مرکزی بینک سے پیسے لینے کی ہماری خود مختار صلاحیت کو متاثر کرے گا، مرکزی بینک سے قرضہ لینے ہر ملک میں بحران کو نمٹنے کے لئے آخری حل ہوتا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے مزید کہا کہ یہ قانون مکمل طور پر ناقابل قبول ہے، بل منظور ہونے کی صورت میں اسٹیٹ بینک پاکستان نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی زیر نگرانی کام کرے گا، وفاقی حکومت کو اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے کی لئے آئی ایم ایف کی منظوری چاہیے ہوگی، کیا یہ ہے نیا پاکستان جس میں ادارے گروی ہو رہے ہیں، کیا وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کو چاہئے کہ کمرشل بینکوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں پر ڈیفالٹ ہونے کے حوالے سے خبردار کرے ؟ ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ وزیر خزانہ خود ایسی تنبیہ کر رہے ہو، یہ کیا ہو رہا ہے؟ قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں