چین کے ایک میل لمبے خلائی جہاز پر امریکا خدشات میں مبتلا

ٹیکنالوجی

بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین کے تقریباً ایک میل لمبے خلائی جہازپر امریکا خدشات میں مبتلا ہوگیا۔


چند روز قبل ”نیشنل نیچرل سائنس فاونڈیشن آف چائنا“ (NNSFC) کے ایک اعلان میں چینی سائنسدانوں کو دیگر بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایک ”بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن“ پر تحقیق کے لیے مدعو کیا گیا تھا جس پر مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا تشویش کا شکار ہوگئے۔

چین کا یہ خلائی جہاز یا خلائی اسٹیشن ممکنہ طور پر تقریباً ایک میل لمبا ہوگا جہاں خلا نورد طویل مدت تک قیام کرسکیں گے، اس حوالے سے ابتدائی تحقیق کے لیے ڈیڑھ کروڑ یوآن کی منظوری دی جاچکی جو پاکستانی تقریبا ایک ارب روپے بنتے ہیں۔

اس حوالے سے پہلی خبر چین سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ”ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ“ کی ویب سائٹ پر 24 اگست 2021 کے روز شائع ہوئی۔اسی خبر کو بنیاد بناتے ہوئے لائیو سائنس، دی نیکسٹ ویب، انٹرسٹنگ انجینئرنگ اور یونیورس ٹوڈے پر بھی مضامین شائع ہوئے جن میں چین کے خلائی منصوبوں پر اعتراضات کے علاوہ بطورِ خاص ایک بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن کے تصور پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ان تمام مضامین میں کہا گیا ہے کہ 16 ممالک کے مشترکہ ”عالمی خلائی اسٹیشن“ (آئی ایس ایس) پر اب تک 150 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں جبکہ اس کا سالانہ بجٹ تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔آئی ایس ایس کی لمبائی 361 فٹ ہوگی جبکہ چین کا مجوزہ خلائی اسٹیشن/ خلائی جہاز اس کے مقابلے میں بھی تقریباً 15 گنا طویل ہوگا، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ چینی خلائی اسٹیشن/ خلائی جہاز کی لاگت بھی آئی ایس ایس کی نسبت 15 سے20 گنا زیادہ ہوگی۔

ویب سائٹ ”لائیو سائنس“ نے اس بارے میں ناسا کے سابق چیف ٹیکنالوجسٹ اور کورنیل یونیورسٹی میں ایئرو اسپیس انجینئرنگ کے پروفیسر، میسن پیک کی رائے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ منصوبہ بے حد مشکل ضرور ہے لیکن اسے ناممکن نہیں کہا جاسکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہوگا، پہلا اس کی جسامت اور دوسرا اس کی لاگت۔

دوسری جانب چین کے خلائی تحقیقی ادارے ایسے راکٹوں پر کام کررہے ہیں جو موجودہ طاقتور ترین خلائی راکٹوں سے بھی کئی گنا طاقتور ہوں گے اور ایک پرواز میں سیکڑوں ٹن وزنی سامان خلاءتک پہنچا سکیں گے۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں