افغان صدارتی محل پر راکٹ حملے ، نماز عید کی ادائیگی کے دوران دھماکوں کی گونج اشرف غنی محفوظ ، داعش نے ذمہ داری قبول کرلی ، مالی کے صدر پر بھی مسجد میں حملہ ، بال بال بچے

افغان صدارتی محل پر راکٹ حملے ، نماز عید کی ادائیگی کے دوران دھماکوں کی گونج اشرف غنی محفوظ ،  داعش نے ذمہ داری قبول کرلی ، مالی کے صدر پر بھی مسجد میں حملہ ، بال بال بچے

صبح 8بجے 3راکٹ داغے گئے نماز عید میں حامد کرزئی ، عبداللہ عبداللہ شریک تھے ، راکٹ محل کے باہر گرین زون میں گرے ، جانی نقصان نہیں ہوا ،وزارت داخلہ ، پاکستانی اپنے ملک پر طالبان کی حکومت نہیں چاہتے مگر ہم پر مسلط کے خواہشمند :اشرف غنی،افغان طالبان جنگ سے اکتا چکے ،سیاسی سمجھوتے پر تیار ہیں:روس

کابل(دنیا مانیٹرنگ،نیوز ایجنسیاں)کابل میں افغان صدارتی محل پر نماز عید کی ادائیگی کے دوران راکٹ حملے کئے گئے تاہم صدر اشرف غنی محفوظ رہے ، نماز کے دوران دھماکوں کی گونج سے کچھ نمازی سہم گئے ۔ داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ دوسری طرف افریقی ملک مالی کے صدر پر بھی مسجد میں حملہ کیا گیا تاہم وہ بال بال بچ گئے ۔منگل کے روز افغان صدارتی محل پرصبح آٹھ بجے کے لگ بھگ اس وقت 3راکٹ فائر کئے گئے جب افغان صدر اشرف غنی ،سابق صدر حامد کرزئی، اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور دیگر رہنما نماز عید ادا کرر ہے تھے ۔ بتایا گیا ہے راکٹ صدارتی محل کے قریب گرین زون میں باغِ علی اور چمن حضوری کے علاقے میں گر کر دھماکوں سے پھٹ گئے ۔ افغان ذرائع کے مطابق راکٹ حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، ایوان صدر سمیت تمام اہم عمارتیں محفوظ رہیں۔گرین زون میں صدارتی محل کے علاوہ امریکی مشن سمیت متعدد سفارت خانے بھی ہیں۔ افغان ٹی وی چینلز کی فوٹیج کے مطابق یہ راکٹ حملہ اس وقت ہوا جب صدر اشرف غنی دیگر اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ محل کے ایک سبزہ زار میں نمازعیدالاضحیٰ ادا کر رہے تھے ۔راکٹ گرنے کے بعد دھماکوں کی آواز سنائی دی لیکن نماز جاری رہی تاہم ایک دو نمازی دھماکوں کی گونج سے خوفزدہ ہوئے ،راکٹ حملوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔نماز کے بعد صدر اشرف غنی نے خطاب بھی کیا جو مقامی میڈیا پر نشر کیا گیا۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس ستانکزئی نے کہا یہ راکٹ محل کے باہر گرین زون میں تین مختلف مقامات پر گرے ہیں اور فی الحال کسی بھی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے ۔ ہماری ٹیم اس حملے کی تحقیقات کر رہی ہے ۔دوسری جانب شدت پسند گروپ داعش نے راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔اے ایف پی کے مطابق ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں گروپ کا کہنا ہے کہ خلافت کے سپاہیوں نے صدارتی محل اور کابل میں گرین زون کو سات راکٹوں سے نشانہ بنایا۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ افغانستان کے صدارتی محل کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔صدارتی محل پر آخری راکٹ حملہ گزشتہ برس دسمبر میں ہوا تھا۔ حملوں سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، علاقے کو سکیورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے کر سکیورٹی مزید سخت کردی۔ راکٹ حملوں کے چند منٹ بعد صدر اشرف غنی نے عیدالاضحی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا عید کے روز راکٹ حملوں سے واضح ہو گیا ہے کہ طالبان امن کی نیت نہیں رکھتے تاہم طالبان کے برعکس افغان حکومت امن اور صلح کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اشرف غنی نے کہا پاکستان کا کوئی سیاست دان اپنے ملک میں طالبان کی حکومت کا خواہاں نہیں ہے لیکن وہ ہمارے لیے طالبان کی حکومت چاہتے ہیں۔انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا پاکستان کا تمام میڈیا طالبان کی حمایت کرتا ہے ۔تقریر میں افغان صدر کا کہنا تھاانہوں نے اہتمام حجت کے لیے وفد دوحہ بھیجا تھا لیکن طالبان امن کی نیت نہیں رکھتے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دنیا کو طالبان کے 5000 قیدی رہا کرتے وقت واضح کر دیا تھا کہ وہ دھوکا و فریب دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا اگلے تین سے چھ ماہ میں صورت حال بدل جائے گی، ملک میں ملیشیا بنانے اور آمریت کی کوئی جگہ نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے ایک نیا منصوبہ تیار کر لیا جس پر کئی ہفتوں تک کام کرنے کے بعد ترجیحات طے کر لی گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا یہ جنگ صرف نظام کے تحفظ کی نہیں بلکہ یہ ہم سب کی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کی جنگ ہے ۔ اشرف غنی کے مطابق اس لڑائی میں افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز کو جامع اور قومی مدد کی ضرورت ہے ۔دریں اثنا روس کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی قیادت افغانستان کی موجودہ صورتحال کے سیاسی حل کی ضرورت کو سمجھتی ہے اور سیاسی سمجھوتے کے لئے تیار ہے ۔روسی خبر رساں ادارے تاس اور اے ایف پی کے مطابق روسی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور روسی وزارت خارجہ کے ایشیا ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ضمیر کابلو کا منگل کو کہنا تھا کہ 20 سالوں سے جاری جنگ سے طالبان لیڈرشپ اکتا چکی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ موجودہ ڈیڈلاک کا سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔ میں نے یہ ان کے نہ صرف قول میں بلکہ ان کے ارادوں میں بھی دیکھا جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے کہ وہ (طالبان)سیاسی سمجھوتے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ ان کے نقطہ نظر میں سیاسی سمجھوتے کو معقول طریقے سے ان کے سامنے پیش کیا جائے ۔تاس کے مطابق والدائی ڈسکشن کلب کے ایک آن لائن ڈسکشن کے دورن ضمیر کابلو کا کہنا تھا دوسری جانب طالبان پرانے والے نہیں بلکہ ان میں نوجوان جنگجوؤں کی پوری نسل شامل ہوگئی ہے جن کے عزائم بڑے ہیں اور وہ بڑی حد تک ایک پرامن اور آزاد افغانستان جس پر کسی کا قبضہ نہ ہو میں نہیں رہے ہیں۔روسی صدر کے نمائندہ خصوصی کے مطابق طالبان بڑے واضح ہیں کہ وہ بیرونی حملہ آوروں سے اپنے مادر وطن کی آزادی اور اسلام کی اقدار کے لیے لڑ رہے ہیں۔ طالبان کا یہ نوجوان اور پر جوش طبقہ جس کی قیادت فیلڈ کمانڈر کر رہے ہیں، بہت زیادہ شدت پسندانہ ذہنیت کا ہے ۔خیال رہے ضمیر کابلو کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان نامکمل مذاکرات کا ایک اور دور ہوا تاکہ رکاوٹوں کے شکار امن عمل کو تیز کیا جاسکے ۔ماسکو افغانستان کی صورتحال کو بہت باریک بینی سے مانیٹر کر رہا ہے ۔ سویت افواج نے 1979 میں افغانستان پر قبضہ کیا تھا اور 10 سالہ جنگ کے دوران روس کے 14 ہزار فوج مارے گئے تھے ۔دوسری طرف افریقی ملک مالی کے عبوری صدر اسیمی گویتا پر حملے کی کوشش ناکام بنا دی گئی، دونوں حملہ آور گرفتار کر لئے گئے ۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عبوری صدر کو دارالحکومت بماکو کی جامع مسجد میں عیدالاضحی کی نماز کے موقع پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، 2مسلح افراد جن میں ایک کے ہاتھ میں چاقو تھا، نے عبوری صد رپر حملہ کر دیا تاہم سکیورٹی عملے نے حملہ ناکام بناتے ہوئے دونوں کو گرفتار کر لیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں