طالبان کے حملے ، 5افسروں سمیت 46 افغان فوجی پاکستان بھاگ آئے

طالبان کے حملے ، 5افسروں سمیت 46 افغان فوجی پاکستان بھاگ آئے

افغانستان بین الاقوامی سرحد پر اپنی پوسٹوں کے تحفظ میں ناکام ، افغان کمانڈر کی درخواست پر اہلکاروں کوپناہ، محفوظ راستہ خوراک ، طبی سہولتیں فراہم کیں:پاک فوج ، فوجیوں کوہتھیاروں ‘آلات سمیت نواں پاس کے مقام پر افغان حکام کے حوالے کیا:آئی ایس پی آر،فوجیوں نے پناہ نہیں مانگی :افغان وزارت دفاع کی ڈھٹائی

لاہور،کابل(نیوز ڈیسک، مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان میں طالبان کے حملوں کے دوران 5افسروں سمیت 46 افغان فوجی پاکستان بھاگ آئے ،پاک فوج نے افغان آرمی کے کمانڈر کی درخواست پر افغان نیشنل آرمی اور بارڈر پولیس کے اہلکاروں کی محفوظ راستے کی فراہمی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انھیں باقاعدہ طور پر پناہ دے دی تھی جس کے بعد انھیں فوجی روایات کے مطابق خوراک، علاج معالجہ اور دیگرضروری سہولتیں فراہم کی گئیں۔بعد ازاں بھاگ کرپاکستان آنیوالے تمام افغان فوجیوں کو ان کے ہتھیاروں اور آلات سمیت نواں پاس کے مقام پر12بجکر35منٹ پر افغان حکام کے حوالے کیاگیا۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چترال کے ارندو سیکٹر کے پاس پاک افغان بارڈر پر تعینات افغان فوجی کمانڈر نے پناہ کیلئے پاک فوج کے ساتھ رابطہ کیا، جس میں افغان فوج اور بارڈر پولیس کے اہلکاروں کیلئے پناہ اور محفوظ راستے کی درخواست کی۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مذکورہ اٖفغان فوجی گزشتہ رات آرندو سیکٹرچترال پہنچے تھے ،افغان کمانڈرکی درخواست پر پاک فوج کی طرف سے افغان حکام سے رابطہ کیا گیا ، جس کے بعد افغان فوجیوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دے دی گئی اور فوجی روایات کے مطابق افغان اہلکاروں کو خوراک اور ضروری طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔افغان فوجی انٹرنیشنل بارڈر پر اپنی پوسٹوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہورہے تھے اوراپنی چوکی پر مزید کنٹرول جاری رکھنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔آئی ایس پی آر کے مطابق اس سے قبل یکم جولائی کو بھی 35 افغان فوجیوں نے پاک فوج سے پناہ طلب کی تھی، ان اہلکاروں کو بھی محفوظ پناہ فراہم کرنے کے بعد افغان حکام کے حوالے کردیا گیا تھا۔ دریں اثنا بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق چترال میں موجود سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ کنڑ میں افغان طالبان نے اپنا دباؤ بڑھایا ہے اور گزشتہ کئی دونوں سے سرحد پر واقع بریکوٹ اور کالام کی افغان چوکیوں کی سپلائی لائن کو کاٹا ہوا ہے ، ان چوکیوں پر موجود افغان اہلکاروں کو کئی روز سے راشن سمیت مختلف اشیا کی فراہمی رکی ہوئی تھی اور فوجیوں کو مشکلات کا سامنا تھا۔ذرائع کے مطابق افغان اہلکار عملاً گھیرے میں تھے ان کو کوئی بھی مدد نہیں مل رہی تھی جس کے بعد انھوں نے پاکستان سے مدد طلب کی، چترال کے علاقے گرم چشمہ، جو سرحدی علاقے ارندو کے قریب واقع ہے ، کے رہائشیوں کے مطابق سرحدی حدود پر انھیں کوئی غیر معمولی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں تاہم چترال کی سرحد سے منسلک علاقوں میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی بریکوٹ سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں افغان طالبان کے پہنچنے کی اطلاعات مل رہی تھیں۔افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان اجمل شنواری نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہا اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے فوجی جوانوں نے کسی دوسرے ملک میں پناہ لی ہے اور وہ بھی پاکستان میں، افغان اور بالخصوص افغان فوج میں پاکستان کے خلاف جتنی حساسیت ہے وہ سب کو پتا ہے ۔دوسری جانب پاکستان کی سرحد سے متصل افغان صوبے ننگرہار کے گورنر نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 39 ایسے جنگجوؤں کی لاشیں بین الاقوامی ادارہ ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے حوالے کی ہیں جن کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے ،گورنر ضیا اللہ امرخیل نے انٹرویو میں مزید کہا کہ بہت سارے ایسے زخمی پاکستانی جنگجوؤں کو بھی افغانستان کے مختلف علاقوں سے واپس بھیجا گیا ہے ۔بی بی سی نے آئی سی آر سی کے اہلکاروں سے اس بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ننگرہار کے گورنر کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔دریں اثنا ترجمان نادرا نے کہا سوشل میڈیا پر طالبان کی افغان باشندوں سے پاکستانی شناختی کارڈ کی برآمدگی بے بنیاد ہے ،یہ کارڈ دیگر برآمدشدہ دستاویزات سمیت لنڈی کوتل کے پولیس سٹیشن میں موجود ہیں اور اس وقت بھی پولیس سٹیشن لنڈی کوتل کے ریکارڈ کا حصہ ہے ، سوشل میڈیا میں افغان طالبان کی جانب سے سپین بولدک ، قندھار میں ان کارڈ کی برآمدگی ظاہر کی گئی ،جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔2007سے پہلے شناختی کارڈ کاغذی کارروائی پر مبنی روایتی نظام کے تحت بنائے جاتے تھے ۔پرانے نظام میں جعلی کاغذات کی بنیاد پر شناختی کارڈ حاصل کرنے میں 2007 تک کامیاب ہوئے ۔ 2007 کے بعد نادرا میں ڈیجیٹل بائیومیٹرک نظام متعارف کیا گیا۔جعلی کارڈز نادرا نے منسوخ کر دئیے اور ڈیٹابیس کو تمام غلطیوں سے پاک کر دیا گیا، سوشل میڈیا پر افغان کمانڈر کا شناختی کارڈ 2002 میں روایتی نظام کے تحت بنوایا گیا،جسے 2007میں متعارف کرائے گئے ڈیجیٹل بائیومیٹرک نظام کے تحت 2008 میں غیر فعال کر دیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں