اگلا برطانوی وزیراعظم ،بھارتی یا پاکستانی نژادبھی ہوسکتا
لندن(مانیٹرنگ سیل)برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے سٹاف کی جانب سے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی کرنے کے انکشاف کے بعد عوامی رد عمل کے باعث حکمران کنزرویٹو پارٹی کے بعض ارکان انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اگر یہ ارکان بورس جانسن کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پارٹی میں نئے وزیر اعظم کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ذرائع کاکہناہے کہ اگلا برطانوی وزیراعظم بھارتی یا پاکستانی نژادبھی ہوسکتاہے ۔اس سلسلے میں جو نام سرفہرست ہیں ان میں محکمہ خزانہ کے چیف رشی سونک ہیں۔ 41 سالہ رشی اس وقت پارٹی میں ابھرتے ہوئے رہنما کے طور پر دیکھے جا رہی ہیں اور جانسن کے جانے کے بعد انہیں وزیر اعظم کے عہدے کیلئے موزوں خیال کیا جا رہا ہے ۔رشی سونک اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہیں۔
عوامی رائے کے پولز کے مطابق سونک کنزرویٹو پارٹی کے دوسرے وزرا کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی مہنگی تعلیم اور اعلیٰ نوکری کی وجہ سے وہ عام آدمی کے مسائل سے دور ہیں۔اگر وہ وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہوں گے جو سفید فام نہیں ہوں گے ۔وہ بھارتی والدین کی اولاد ہیں جو مشرقی افریقہ سے برطانیہ ہجرت کر کے آئے تھے ۔سیکرٹری خارجہ لز ٹروس کا نام بھی سرفہرست رہنماؤں میں آتا ہے ۔ 46 سالہ لز ٹروس نے ستمبر میں خارجہ امور کا قلم دان سنبھالا تھا۔
وہ اس سے پہلے وزیر تجارت کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔برطانیہ کے سیکرٹری صحت ساجد جاوید بھی وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل ہیں۔وہ گزشتہ برس جون سے ملک میں جاری کورونا وبا سے نمٹ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ خزانہ کے امور کے انچارج رہے لیکن بورس جانسن سے اختلاف کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔بورس جانسن نے انہیں دوبارہ اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ ساجد جاوید کے والدین پاکستانی ہیں اور وہ اپنے آپ کو عام آدمی کے طور پر متعارف کراتے ہیں،وہ عام تعلیم یافتہ ہیں، جو سرکاری سکول سے پڑھے ہیں۔وزیراعظم کی دوڑ میں مائیکل گوو اور کابینہ کے وزیر جیرمی ہنٹ کا بھی نام لیا جا رہا ہے ۔