ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان صورتحال اور پاکستان کی مشکلات… (1)

تحریر: مجیب مشال

جن دنوں افغانستان میں امریکی جنگ اپنے عروج پر تھی پاکستان کے شہرہ آفاق خفیہ ادارے کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمیدگل 2014ء میںایک ٹی وی ٹاک شو میں شریک ہوئے جس کا عنوان تھا ’’جوک نائٹ‘‘۔ انہوں نے اس پروگرام میں ایک بڑی دلیرانہ پیش گوئی کی۔جنرل (ر) حمید گل‘ جنہوں نے سرد جنگ کے آخری دور میں پاکستان کے بے خوف انٹیلی جنس ادارے کی قیادت کی تھی‘ نے اعلان کیا کہ جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ کہا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست فاش سے دوچا رکیا تھا۔پھر جنرل(ر) حمید گل نے تھوڑ اتوقف کرتے ہوئے ایک پنچ لائن کہی۔انہوں نے تالیوں کی گونج میں کہا:پھر ایک اور جملہ بھی کہا جائے گا‘آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست فاش دے دی۔ 

جب صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے تمام امریکی فوجی اس سال وسط ستمبر تک واپس بلانے کے فیصلے کا اعلان کیا توجنرل (ر) حمید گل کی ایک عشرہ پرانی پیش گوئی بالآخر پوری ہوگئی۔ایک سپر پاور پاکستان کے اس پچھواڑے سے رخصت ہو رہی ہے جہاں پاکستان نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے 2001ء سے پہلے طالبان کی مدد سے دوستانہ حکومت قائم کر لی تھی۔ طالبان کسی بھی صورت میں افغانستان میں بر سر اقتدار آتے ہیں تو گھڑی کی سوئیاں ایک با رپھر سے اسی وقت پر مرکوز نظر آئیں گی جب پاکستان افغانستان کے چوکیدار کا کردار ادا کیا کرتا تھااور اس کا مقصد ہمیشہ اپنے ازلی دشمن بھارت کا افغانستان میں اثرو رسوخ ختم کرنا ہوتا تھا۔

افغانستان میں دو عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کو اپنے ہمسائے میں پاکستان کی جیو پولیٹیکل فتح قرار دیا جا سکتا ہے‘ مگر اس اَمر کا بھی اندیشہ ہے کہ اس سے پاکستان داخلی طو رپر بحران میں پھنس سکتا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان معاشی گرداب میں پھنسا ہو ا ہے ‘اندرونی بے چینی کی لہر جاری ہے ‘ اپنی طرز کی انتہاپسندی کو روکنے کے لیے پاکستان ایک جنگ لڑ رہا ہے۔اگر افغانستان ایک بارپھر سے کسی بحران کا شکا رہوتا ہے تو پاکستان بھی ا س کے مضمرات سے محفوظ نہیںرہ سکتا۔بالکل ویسے ہی جیسے 1990ء کے عشرے کے آخر میں سوویت یونین افغانستان چھوڑ کر چلا گیا تو لاکھوں افغان مہاجرین ا پنی جانیں بچانے کے لیے پاکستان کے شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اگر افغان طالبان ایک مرتبہ پھر مسند ِاقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں ‘خانہ جنگی کے ذریعے یا امن مذاکرات کے ذریعے‘ تو یہ خدشہ موجود ہے کہ اس سے پاکستان کے اندر موجود شدت پسندوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی کیونکہ افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی ہزاروں مدارس میں اس آئیڈیالوجی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ان گروہوں نے پاکستان کی ریاست اور یہاں کی حکومت کو بھی چیلنج کرنے سے گریز نہیں کیا ۔

پاکستان نے سرحد پار اپنی تمام تر تزویراتی پالیسی کے باوجود اس کے اثرات کو اپنے ہاں داخل نہیں ہونے دیا تھا مگر اپنے ہمسائے میں غیر ملکی افواج کی جارحیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے اندر بھی شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع مل گیا۔یہاں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سر عام فنڈ ریزنگ کی جاتی ہے۔ان نئے شدت پسند گروپوں نے پاکستان کے اندر سول سوسائٹی کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا‘یہاں دانشوروں کو موت کی نیندسلایا گیا‘پروفیشنلز پر حملے کیے گئے اور ان کے ساتھ بدسلوکی روا رکھی گئی۔پاکستان کے سرکاری اداروں میں بھی ان کے بہی خواہ موجود تھے۔لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے ہاں پروان چڑھنے والے شدت پسندی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے طاقت اور نرمی کا ملا جلا استعمال کیا ہے‘ مگر ا س شدت پسندی کے پھیلائو کا سد باب کرنے کے بارے میں پاکستان کی پالیسی ابہام کا شکار رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہی بات مجھے ڈراتی ہے ‘اسی با ت کاسوچ کرمجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اگر ایک مرتبہ پھر طالبان افغانستان میں اقتدار میں واپس آگئے تو پاکستان کی حکومت بلکہ کسی بھی حکومت کے لیے بڑی مشکلا ت پیدا ہوجائیں گی۔اس سے دیگرگروپوں کے بھی حوصلے بلند ہوںگے۔ 

اسلام آبا دمیں مقیم ایک دفاعی تجزیہ نگار اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان نے ماضی میں جہادی گروپوں کی حمایت کے سنگین نتائج سے کئی سبق سیکھے ہیں۔افغان جنگ کے خاتمے کے موقع پر پاکستان کو انتہائی محتاط انداز میں قدم اٹھانے کی ضرور ت ہے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ پاکستان خود ا س فتح کا دعویٰ نہیں کرے گا مگر بڑی مہارت سے افغان طالبان کہیں گے کہ یہ سب کامیابی پاکستان کی مرہون منت ہے۔ پاکستان ماضی کے واقعا ت کے کسی قسم کے ری پلے سے گھبراتا ہے اور اگر افغان مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکالے بغیر امریکہ نے یہاں سے جلدی میںنکلنے کی کوشش کی تو ا س کا نتیجہ خونریزی اور پرتشدد کارروائیوں کی صور ت میں نکلے گا ۔ 

واشنگٹن میں قائم سنٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل سٹڈیز کے سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی حکومت جو بائیڈن کے انخلا کے اس اعلان پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے مگر افغانستان میں حالات پربہتر کنٹرول حاصل کرنا ابھی تک محض دیوانے کاخواب ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں شدت آ گئی تو پاکستان کے لیے افغانستان کے عسکریت پسند گروپوں اور طالبان کو کنٹرول کرنا ناممکن نہیں توانتہائی مشکل ضرور ہوگا۔القاعدہ ‘داعش او رکئی دیگر گروپ پہلے ہی افغانستان میں بر سر پیکار ہیں۔پاکستان کے پاس ایسا کوئی پلان نہیں ہے کہ بھان متی کے ا س کنبے کو سنبھال سکے جن کے مقاصد اور مفادات ایک دوسرے سے مختلف اور متصادم ہیں اور ان کی قیادت بھی مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

پاکستان 14اگست1947ء کو جب معرض وجود میں آیا ہے اسی وقت سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔تقسیم ہند کے وقت برطانوی حکام نے ایسی سرحدی لکیریں کھینچ دیں جن کی بدولت پاکستان گوناگوں قسم کے سرحدی اور جغرافیائی تنازعات میں الجھ کررہ گیا ۔ان میں سب سے سنگین تنازع کشمیر کا ہے جبکہ افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن بھی ایک تنازع رہی ہے۔افغانستان آج بھی ان علاقوں پر اپنا دعویٰ جتانے سے گریز نہیں کرتا جنہیں دنیا پاکستان کا حصہ مانتی ہے اور یہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے ہیں۔(جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement