ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پیش گوئیاں

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

امریکا میں ہر چار سال کے بعد الیکشن ہوتے ہیں اور نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسیاں گلوبل ٹرینڈز کے نام سے اپنا ایک زبردست تجزیہ پیش کرتی ہیں کہ اگلے دو عشروں کے بعد ہماری دنیا کس مقام پرکھڑی ہو گی، مثال کے طور پر 2008ء میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپور ٹ میں یہ وارننگ جاری کی گئی تھی کہ مشرقی ایشیا سے ایک زبردست عالمی وبا شروع ہو گی اور بڑی تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے اسی ماہ گلوبل ٹرینڈز 2040ء کے عنوان سے اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ عالمی وبا دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی واحد اورسب سے مہلک آفت بن کر سامنے آئی ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے سنگین نوعیت کے معاشی، طبی، سیاسی اور سکیورٹی مضمرات دیکھنے کو ملے ہیں اور ان کی بازگشت اگلے کئی سال تک سنائی دیتی رہے گی۔ یہ محض مسابقتی لذت نفسی نہیں ہے بلکہ یہ اس کہانی کے تاریک پہلوئوں کا ابتدائیہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے لیے کیا کچھ منتظر ہے۔144 صفحات کی یہ رپورٹ ہماری دنیا کا تصوراتی تجزیہ ہے جس کا عنوان ہے ’’ایک بہت زیادہ مسابقتی دنیا‘‘ اور ا س میں تبدیل ہوتی ہوئی ماحولیات، بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی، بیماریاں، مالیاتی بحران اور ایسی ٹیکنالوجیز کا ذکر ہے جو دنیا کو متحد کرنے سے زیادہ تقسیم اور انتشار کا شکار کر رہی ہیں۔ ہمارے معاشروں میں کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیںاور ہمیں ایسے صدمات سے دوچار کر رہی ہیں جو تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان سے نمٹنے والے اداروں اور انہیں درپیش چیلنجز کے درمیان تفاوت اتنا بڑھتا جا رہا ہے کہ ریاستوں کے مابین سیاست زیادہ نازک اور متنازع ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ، آئیڈیالوجی یا گورننس سسٹم اس کی مزاحمت نہیں کر سکتا اور نہ اس کا جواب دینے کی استعداد رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اب جلد ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جو امریکا اور مغربی دنیا کی زیر سرپرستی قائم عالمی نظام کو چین کی طرف سے چیلنج کا سامنا کرنے پر مجبور ہے اور اس کے نتیجے میں کشیدگی میں سنگین اضافے کا رسک بھی موجود ہے۔ واشنگٹن کے جن ماہرین نے ان رپورٹس کا مطالعہ کیا ہے ان سب کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اس سے زیادہ مایوس کن اور گمبھیر حالات پہلے کبھی نظر نہیں آئے۔ ماضی میں ہمیں آنے والے دنوں میں جیسی بھی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ اب وہ سب بہتری کی طرف رواں دکھائی دیتی ہیں، مثلاً اس سال کی سٹوری کا موضوع ہے کہ 2040ء کیسا سال ہو سکتا ہے اور یہ ایک مختلف ہی کہانی بتا رہی ہے۔ ایسی کہانیاں ہیں جن میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ہمارا عالمی نظام ایک بے سمت، تخریبی اور انتہائی نازک بنیادوں پر استوار ہے۔ ’’جمہوری ممالک کی نشاۃِ ثانیہ ‘‘والے باب میں ایک ایسا خوشگوار منظردکھایا گیا ہے جس میں امریکا اور ا س کے دیگر اتحادی ممالک ابھرتے ہوئے جمہوری ممالک کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں اور یہاں رہنے والا ہر فرد خوشی سے نہال ہے؛ تاہم ہمیں کسی قسم کی مایوسی اور حیرانی کا شکار ہونے کی قطعی ضرورت نہیںہے۔ 

گلوبل ٹرینڈز نے جن جن عوامل کی نشاندہی کی ہے ان میں سے اکثر ہمیں ان خطرات کی یاد دہانی کراتے ہیں جن کے بارے میں ہم پہلے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ہمیں جو جو بھی وارننگز دی گئی ہیں ہم انہیں پہلے بھی سن چکے ہیں۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی کہ ہماری یہ دنیا کورونا وائرس کے لیے اچھی طرح تیار نہیں تھی اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں سنگین نوعیت کی کوتاہیوں اور لغزشوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہم کئی سال سے اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ آرکٹیک اور دیگر مقامات پر برف کے گلیشیرز خطرناک حد تک تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے سمندروں میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے؛ چنانچہ پوری دنیا کو اس ضمن میں سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ہم اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے جہاں ہمیں عظیم فوائد سے لطف اندوز ہونے کاموقع میسر آیا ہے وہیں ان کی وجہ سے چاروں طرف جھوٹ، سازشوں اور عدم اعتماد کی بھرمار بھی نظر آتی ہے۔ ان کی وجہ سے ہمارے معاشروں میں سنگین انتشار پھیل گیا ہے اور ہمارا سیاسی منظر نامہ مہلک حد تک زہر آلود ہو چکا ہے۔ ہم گزشتہ چار سال کے دوران اس حقیقت سے بڑی اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں کہ طبقاتی تقسیم اور ذاتی مفادات پر مبنی حکومت کیسی ہوتی ہے۔گلوبل ٹرینڈز میں ان مسائل کا کوئی حل تجویز نہیں کیا گیا۔ قانون کے مطابق ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔ حقیقی سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا ہم یعنی حکومت، عالمی ادارے اور ہمارے معاشرے اس جانب توجہ دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ 

میتھیو برو ز سی آئی اے اور نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی گلوبل ٹرینڈز کی ماضی کی کئی رپورٹس بھی مرتب کر چکے ہیں اور ان میں وہ رپورٹ بھی شامل ہے جس میں ایک عالمی وبا کے پھیلنے سے متعلق دنیاکو وارننگ دی گئی تھی۔ ان کی رائے ہے کہ مستقبل کو سنجیدگی سے دیکھنے کا بیانیہ اپنانے کا اعلان ایگزیکٹو برانچ کی طرف سے آنا چاہئے۔ صدر کلنٹن کی حکومت میں ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیون فرتھ نے ایک عشرہ پہلے ان عوامل سے نبرد آزما ہونے کے طریقے تجویز کیے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسا میکانزم وضع کرے جس کی مد دسے آج کی دنیاکو درپیش آنے والے مسائل کی مقدار اور پیچیدگیوں کے بار ے میں پہلے سے آگاہی ہو سکے اور اس حوالے سے ہمارا ردعمل زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ صدر جو بائیڈن کی حکومت نے کئی محاذوں پر بڑا اچھا آغاز کیا ہے خاص طور پر ماحولیات اور انفراسٹرکچر کے میدانوں میں۔ جو بائیڈن ایک ایسے لیڈر ہیں جن کی اس بات پر نظر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاست، سماج اور دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ صدر بائیڈن کو اس امر کا بھی بخوبی ادراک ہو گا کہ ہماری غیر مستحکم اور پیچیدہ دنیا کو ایسے پائیدار میکانزم کی ضرورت ہے جو ہمیں تاریک افق کے اس پار چھپے مسائل سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری میں رہنمائی کر سکے۔ انٹیلی جنس رپورٹس تو حاضر ہیں‘ اب اس سمت میں پیش رفت کا انتظار ہے۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement