ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران جوہری معاہدہ: دبائو ناکام ہو گیا

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے اصولوں‘ جسے اس کے حامی ایران کے جوہری معاہدے کے نام سے موسوم کرتے ہیں‘ کی طرف واپسی کے لیے اب ایران اور امریکا کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ 2015ء میں کچھ عالمی طاقتوں نے اس مقصد کے تحت ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ اگر ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے بعض تشویشناک پہلوئوں کو ترک کر دے اور عالمی اداروں سے اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرانے پر آمادگی ظاہر کر دے تو اس پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی کر دی جائے گی۔ یہ جوہری معاہدہ امن معاہدہ ہرگز نہیں تھا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے کا مقصد ایٹمی امور کو پُرامن طریقے سے حل کرنا تھا۔ 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ایران کے خلاف زیادہ سخت پابندیاں عائدکی جائیں تو ایران بے بس ہو کر وہ تمام شرائط قبول کرنے پرمجبور ہو جائے گا جو امریکا کے مفادات کے حق میں ہیں مگر صدر ٹرمپ کا یہ حربہ بری طرح ناکام ہو گیا۔ اگرچہ نئی پابندیوں نے ایران کو مفلوج کر کے رکھ دیا مگر اس کے بعد ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر بھی نئے سرے سے کام شروع کر دیا جسے اس نے جوہری معاہدے کے بعد ترک کر دیا تھا۔ چین نے امریکا اور کئی یورپی ممالک کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر امریکا کے ایران کے ساتھ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کے اعلان سے وہ ممالک تشویش میں مبتلا ہو گئے اور وہ ایران کے ساتھ اپنا بزنس جاری رکھنے کے لیے بہرصورت آمادہ تھے۔ شاید اسی وجہ سے امریکی صدر جو بائیڈن کے ایران پر معاونِ خصوصی رابرٹ مالے نے اپنا پچھلا ہفتہ ویانا میں گزارا تاکہ ایران کے ساتھ معاہدے میں امریکا کی شمولیت کے حوالے سے بیک ڈور مذاکرات میں حصہ لیا جا سکے۔

 صدر ٹرمپ نے ایران پر زیادہ سے زیاد دبائو ڈالنے کے لیے معاشی پابندیاں عائدکی تھیں تاکہ ایران کو عالمی معیشت سے نکال باہر کیا جائے مگر امریکا کی حالیہ کوشش نے اسے ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔ بلاشبہ اس معاہدے کے پرانے مخالفین کبھی نہیں چاہیں گے کہ امریکا ایک بار پھر اسی معاہدے کو بحال کرنے یا اس میں شمولیت کے لیے ایران کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل میں شریک ہو۔ ان مذاکرات کے بڑے ناقدین سمجھتے ہیں کہ ایران کے خلاف معاشی پابندیا ں اٹھا کر ہم اس ساری پیشرفت کو ملیا میٹ کر دیں گے جو تین سال پہلے اس معاہدے سے نکل کر حاصل ہوئی ہے۔ اس مرحلے پر ایران کے خلاف ایک سخت گیر موقف اپنانا دانشمندانہ فیصلہ نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر امریکا ایران کے ساتھ ہونے والے پہلے ایٹمی معاہدے کا احترام اور پاسداری کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو ایران کیسے اس بات پر اعتماد کرے گا کہ ہم اس کے ساتھ ہونے والے دوسرے معاہدے کی بھی پاسداری کریں گے؟ یہ ایک ناخوشگوار سچائی ہے کہ ایران پر بھرپور دبائو ڈالنا ایک پائیدار فیصلہ ثابت نہیں ہوا کیونکہ امریکا اس حربے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔ امریکا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کے رویے میں کوئی تبدیلی یا بہتری نہیں لا سکا بلکہ سب کچھ توقع کے برعکس ہوا۔ امریکا کو اس بات کی سزا دینے کے لیے کہ وہ ایک ایٹمی معاہدے کے ذریعے ہونے والی سودے بازی کی پاسداری کرنے میں ناکام ہوا ہے‘ ایران نے بھی اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس معاہدے کی محض اس لیے کئی خلاف ورزیا ں کی ہیں تاکہ امریکا کو بخوبی یہ احساس دلایا جا سکے کہ اگر ایران کے ساتھ یہ ایٹمی معاہدہ نہ ہوتا تو دنیا پرکیا اثرات مرتب ہو سکتے تھے؟ سابقہ معاہدے کی شرائط کے مطابق ایران کو 3.67 فیصد تک یورینیم کی افزودگی کی اجازت تھی اور یہ وہ معیار تھا جس میں یورینیم کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا مگر امریکا کے اس معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے۔ اس ایٹمی معاہدے کی رو سے ایران صرف 202.8 کلوگرام یورینیم تیار کرنے تک محدود تھا۔ اب ماہرین کا تخمینہ ہے کہ ایران نے تین ٹن یورینیم افزودہ کر کے ذخیرہ کر لیا ہے۔ پہلے معاہدے کی رو سے عالمی انسپکٹرز کو اجازت تھی کہ وہ مختصر نوٹس دے کر ایران کی ایٹمی تنصیبات کے ایک ایک انچ کا معائنہ کر سکتے تھے۔ مگر اب ایران نے حکم جاری کر دیا ہے کہ عالمی انسپکٹرز ایسی کسی رسائی کے حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ اگر پہلا معاہدہ بحال نہیں ہوتا تو مئی تک عالمی انسپکٹرز ایران کی ایٹمی تنصیبات کے اندر ہونے والی کسی بھی کارروائی تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رہیں گے۔ صورتحال ایک سطح پر منجمد نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر صورتحال ابھی کچھ عرصے تک عدم استحکام کا شکار رہے گی۔

 معاشی پابندیاں لگانے کا حقیقی مقصد تو یہی تھا کہ ایران پر اس قدر شارٹ ٹرم دبائو بڑھایا جائے کہ وہ خود ہی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اگر یہ پابندیاں لامحدود مدت تک برقرار رہتی ہیں تو ا س بات کا خدشہ پیدا ہو جائے گا کہ ایران‘ جو آٹھ کروڑ نفوس پر مشتمل ایک جدید ملک ہے‘ کی ساری معیشت بلیک مارکیٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہو جائے گی۔ یہ صورتحال زیادہ دیرتک جاری نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ ان پابندیوں کی سب سے کڑی سزا ایرانی عوام بھگت رہے ہیں۔ ایرانی حکومت تو ان پابندیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے مگر اصل تکلیف ایک عام ایرانی شہری اٹھاتا ہے۔ ہمیں عراق سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب عراقی صدر صدام حسین کو اقتدار سے نکالنے کے لیے عراق پر معاشی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا تو غیر معیاری خوراک اور ادویا ت کی قلت کی وجہ سے پانچ لاکھ عراقی بچے موت کی وادی میں چلے گئے۔ اسی طرح آج ایرانی شہری بھی انسولین اور دیگر ادویات نہ ملنے کی وجہ سے مرنے پر مجبور ہیں اور ایرانی حکومت ان کی موت کی ذمہ داری امریکا پر ڈالتی ہے۔ اگر پُرامن طریقے سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے تو ایک علاقائی اتحاد خطے میں ایران کے کردار کو مناسب طریقے سے ڈیل کر سکتا ہے۔ ایران پر دبائو موجود رہے گا۔ اگر جو بائیڈن صدر ٹرمپ کی لگائی ہوئی پابندیاں اٹھا بھی لیتے ہیں تو بھی ایران پر کافی پابندیاں برقرار رہیں گی۔جو بائیڈن کی فارن پالیسی ٹیم اس وعدے کے ساتھ آئی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو دیرپا اور پائیدار بنائے گی۔ اس کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement