ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت میں کورونا کی تباہ کاریاں…(2)

تحریر: جیفری گیٹل مین

اپریل کے وسط تک بھارتی ریاست بھوپال میں تیرہ دنوں میں کووڈ کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 41 تھی۔ نیویارک ٹائمز نے شہر کے ان شمشان گھاٹوں کا سروے کیا ہے جہاں سخت پروٹوکول میں لاشوں کو جلایا جا رہا تھا‘ جس سے یہ انکشاف ہوا کہ اس مدت میں ایک ہزار سے زائد لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ بھوپال میں مقیم ایک کارڈیالوجسٹ ڈاکٹرگوتم کہتے ہیں ’’بہت سی اموات کو ریکارڈ ہی نہیں کیا جا رہا اور ان میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ حکام ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ عوام کے اندر خوف اور گبھراہٹ نہ پیدا ہو۔ کچھ ایسے ہی مناظر لکھنو اور مرزا پور میں دیکھنے میں آئے جہاں حکومت کے مطابق اسی مدت یعنی وسط اپریل تک کووڈ سے بالترتیب 73 اور 121 افراد کی موت واقع ہونے کی اطلاعات ہیں۔ گجرات کے ایک معروف اخبار سندیش نے مرنے والوں کا ایک تفصیلی ریکارڈ مرتب کیا ہے۔ اخبار نے اپنے رپورٹرز کو پوری ریاست کے قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں بھیجا تو انکشاف ہوا کہ مرنے والوںکی روزانہ تعداد 610 سے زیادہ ہوتی ہے جو حکومت کی طرف سے بتائی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت کے سب سے بڑے اخبار دی ہندو نے ان غلط اعداد و شمار کی نشاندہی کرتے ہوئے خبر لگائی ’’گجرات میں کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ بھارت کی آبادی میں مغربی ممالک کے مقابلے میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کے خیال میں شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں فی ملین آبادی کے لحاظ سے شرح اموات کم رہی مگر اب اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح اموات پر ہونے والی ایک سٹڈی کے مطابق امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد کو گھٹا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر بھارت ایک بہت بڑا اور غریب ملک ہے۔ اس کی آبادی 28 ریاستوں اور کئی وفاقی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر ریاست کا اموات کی گنتی کا طریقہ کار مختلف ہے۔ ماہرین کے مطابق عام حالات میں بھی مرنے والوں میں سے صرف بیس فیصد کی موت کی میڈیکل تحقیقات کی جاتی ہیںاور ایک بڑی تعداد موت کی وجہ جانے اور ڈیتھ سرٹیفکیشن کے بغیر ہی مر رہی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر موت کا ریکارڈ رکھنا ضروری ہے خواہ کووڈ کے مریض میں پہلے سے کینسر کی تشخیص ہی کیوں نہ ہو چکی ہو مگر بھارت میں بہت سے مقامات اور شہروں میں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ اپریل کے وسط میں روپ ٹھاکر میں کووڈ کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ 16اپریل کو اسے شیلبی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جو اس کے آبائی شہر احمد آباد کا ایک نجی ہسپتال ہے مگر اس کا آکسیجن لیول یک دم گر گیا اور اگلے ہی دن اڑتالیس سالہ روپ ٹھاکر کا انتقال ہو گیا۔ ہسپتال نے اس کی موت کی وجہ اچانک حرکت قلب بند ہونا لکھی جس پر اس کے اہل خانہ مشتعل ہو گئے۔ اس کے چھوٹے بھائی ڈپن ٹھاکر نے کہا کہ ’’یہ تو جیون بھر کے لیے بڑا صدمہ ہے۔ ایک نجی ہسپتال کس طرح موت کی اصل وجہ چھپانے میں حکومت کا آلہ کار بن سکتا ہے۔ یہ ایک منظم جرم ہے۔ یہ ایک غیر قانونی اقدام ہے‘‘۔ جب شیلبی ہسپتال کے حکام سے اپنی رائے دینے کے لیے کہا گیا تو وہ خاموش رہے۔ جب روپ ٹھاکر کا کیس بھارتی میڈیا کے ذریعے پورے بھارت میں پھیل گیا تو ہسپتال نے ایک دوسرا ڈیتھ سر ٹیفکیٹ جاری کر دیا جس میں کووڈ کو بھی اس کی موت کی ’’ممکنہ وجوہات‘‘ میں شامل کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی آف مشی گن کی ڈاکٹر مکر جی کہتی ہیں کہ کئی خاندان دانستہ موت کی حقیقی وجہ بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے پیاروں کی لاش کو کووڈ کے سخت حکومتی پروٹوکول کے بغیر ہی جلانا چاہتے ہیں اس لیے وہ اپنے فیملی ممبرز کی کورونا وائرس سے ہونے والی موت کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ کئی لوگ اسے اپنا قصور سمجھتے ہیں اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں ۔ اس کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جن ریاستوں میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے‘ شاید وہاں حکومت سیاسی دبائو سے بچنے کیلئے مرنے والوں کی تعداد گھٹا کر بتا رہی ہے۔ ڈاکٹر مکر جی نے 2019ء کے اس سیکنڈل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جب مودی حکومت نے سیاسی دبائو سے بچنے کیلئے بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی شرح کو کم کرکے بتانے کی کوشش کی تھی۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ جب کووڈ سے مرنے والوں کے اعداد و شمار کا معاملہ ہو تو وفاقی حکومت کی طرف سے ریاستی حکومتوں پر شدید دبائو ہوتا ہے کہ وہ اپنی پروگریس کو بڑھا چڑھا کر بتائیں۔ جب بہت سے حکومتی عہدیداروں کو یہ میسج بھیجے گئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کریں تو ان سب نے خاموش رہنے کو ترجیح دی مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کووڈ سے مرنے والوں سے متعلق اعدادو شمارکے ساتھ دوسرے کئی مقامات پر بھی کھلواڑ کیا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال وسطی بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ ہے جہاں اپوزیشن جماعت کانگرس کی حکومت ہے۔ چھتیس گڑھ کے ڈرگ ڈسٹرکٹ‘ جہاں ایک سٹیل پلانٹ بھی نصب ہے‘ کے حکام نے بتایا ہے کہ ان کے ہاں 15 سے 21 اپریل کے درمیانی ہفتے کے دوران کووڈ کی وجہ سے 150 اموات واقع ہوئی ہیں جس کی اطلاع میسجز کے ذریعے لوکل میڈیا کو دی گئی اور نیویارک ٹائمز نے بھی یہ رپورٹس دیکھی ہیں۔ حکومت نے مرنے والوں کی جو رپورٹس بھیجی ہیں ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ منشیات کا استعمال بتایا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ کے وزیر صحت ٹی ایس سنگھ دیونے اس با ت کی سختی سے تردید کی ہے کہ حکومت نے دانستہ کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد گھٹا کر بتائی ہے۔ انہوں نے کہا ہے ’’ہم نے ہر ممکن حد تک شفافیت برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، نیز ہم کسی بھی وقت اپنے اعداد وشمار کی درستی کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘۔ ہندومت میں آخری رسومات کے طور پر میت کو شمشان گھاٹ میں جلایا جاتا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق‘ لاش کو جلانے کا مقصد روح کو جسم کی قید سے رہا کرنا ہوتا ہے۔ شمشان گھاٹوں میں کام کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ لاشیں جلا جلا کر تھک چکے ہیں اور انہیں نہیں یاد کہ کبھی اتنے کم عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں گئے ہوں۔ احمد آباد کے شمشان گھاٹوں سے اتنا دھواں اٹھ رہا تھا کہ وہاں ڈیوٹی پر موجود کلرک سریش اپنے دفتر کے چھوٹے سے دروازے کو سختی سے بند کر کے اندر بیٹھا تھا۔ جب اس سے فون پر رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ میں نے تمام ڈیتھ سرٹیفکیٹس پر موت کی وجہ ’’بیماری‘‘ لکھا ہے۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement