ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

موت ہی اٹل حقیقت ہے …(1)

تحریر: امن سیٹھی

شمشان گھاٹ میں سیمنٹ سے بنے مقررہ چبوترے پر 36 لاشوں کو ترتیب سے رکھا ہوا تھا اور صبح دس بجے ان سب کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اس کے بعد باقی تمام لاشوں کو کیچڑ سے اَٹے پارکنگ لاٹ میں لے جایا گیا اور ان سب کو بھی اجتماعی آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ بدھ کے روز غازی پور کے مشرق میں واقع شمشان گھاٹ میں مرنے والوں کے تابوت لانے والی ایمبو لینسز کی تعداد دو گنا ہو گئی تھی۔ پارکنگ لاٹ میں لاشیں رکھنے کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی؛ چنانچہ حفاظتی لباس پہنے ہسپتال ملازمین ہی لاشیں اٹھا اٹھا کر لے جا رہے تھے اور ان جگہوں پر رکھ رہے تھے جہاں پہلے دن جلائی جانے والی لاشوں کے نشان تھے۔ پارکنگ لاٹ کا ہندو پیشوا رام کرن مشرا تھا جو ماسک پہنے بغیر بے خوفی سے لاشوں کے درمیان گھوم رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’اگر میں بیمار ہو کر مر گیا تو سیدھا سورگ میں جائوں گا‘‘ پھر ہندو مت کی مذہبی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بولا ’’صرف موت ہی اٹل حقیقت ہے‘‘۔

یہاں یہ بات مشہور ہے کہ بھارتی حکومت آپ کی یاد کو اچھے طریقے سے منائے گی۔ دو مہینے پہلے بھارت کی حکمران جماعت کہہ رہی تھی کہ ’’بھارت نے اپنے قابل، وژنری اور دانشمند وزیراعظم شری نریندر مودی کی قیادت میں کووڈ کو شکست دے دی ہے‘‘۔ جنوری میں ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت نے کورونا کی موثر طریقے سے روک تھام کرکے انسانیت کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے مگر آج کورونا کی دوسری مہلک لہر نے پورے بھارت کو تباہی سے دوچار کر رکھا ہے جہاں روزانہ لگ بھگ چار لاکھ نئے کورونا متاثرین سامنے آ رہے ہیں اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اکیس ہزار تین سو بھارتی شہری کووڈ کی نذر ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت کووڈ سے متاثر ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد کو گھٹا کر پیش کر رہی ہے تاکہ اس آفت کی شدت کو کم ہی دکھایا جائے۔

حکومت کے حامی وکیل تشر مہتا نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’اب پورے بھارت میں کسی شہری کو آکسیجن کی قلت کا سامنا نہیں ہے‘‘۔ جبکہ اب تک آکسیجن اور ہسپتالوں میں بیڈز کی قلت کی وجہ سے بڑی تعداد میں بھارتی شہری موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک سابق سفیر بھی تھے‘ جو ایک نجی کلینک کے باہر طبی امداد کے انتظار میں اپنی کار میں ہی دم توڑ گئے تھے۔ بھارت کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے اپنے حکام کو یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے جو شخص بھی سوشل میڈیا پرگیس کی قلت کا پروپیگنڈا کرے اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے۔ اطلاعات کے مطابق شمالی بھارت کے شہر امیٹھی کی پولیس نے ایک شہری پر فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ در ج کیا ہے جس نے اپنے بیمار دادا کے لیے ٹویٹر پر آکسیجن کے ایک سلنڈر کی اپیل کی تھی۔ بھارت نے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹا گرام سے کہا ہے کہ وہ ایسی تمام پوسٹس کو ریموو کر دیں جن میں کووڈ کو ہینڈل کرنے کی آڑ میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 

میرے تمام جاننے والوں میں سے ہر کسی نے اس وائرس کی وجہ سے اپنا کوئی پیارا کھویا ہے۔ کئی ایک تو ایسے بھی ہیں جو اپنی پور ی پوری فیملی سے محروم ہو گئے ہیں مگر جب آپ خود ایک لاک ڈائون کا شکار ہوں تو مرنے والے مردہ نہیں لگتے بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ نظروں سے دور ہو گئے ہیں۔

جب میرے والد نے مجھے بتایا کہ ان کے ایک چچا کووڈ کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں اور یہ کہ ان کی باقی فیملی بھی کووڈ کی وجہ سے بیمار ہے اور میرے والدکے ایک کزن اس وقت آئی سی یو میں ہیں تو میرا جسم ٹھنڈا پڑنا شروع ہو گیا۔ اس رات ڈنر پر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’شاید میں آج ڈرائیو کے لیے گھر سے باہر جائوں‘ مگرجب اگلی صبح اپنی کار میں بیٹھا اور بہت سے شمشان گھاٹوں کے قریب سے گزرا تو مجھے یوں لگا کہ شاید میں یہی کچھ محسوس کر نے کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔ غازی پور کا شمشان گھاٹ اتنا چھوٹا ہے اور وہاں اتنی لاشیں پڑی ہیں کہ تمام چتائوں کو ایک لمحے میں نذرِ آتش کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ تمام لاشوں کو دن کے اوقات میں الگ الگ چتا پر رکھا جاتا ہے مگر شام کے بعد ایک ہی دفعہ تما م چتائوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ جن جگہوں پر بجلی یا گیس کی مدد سے آگ لگائی جاتی ہے وہاں صبح سے را ت گئے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

پنڈت مشرا نے مجھے بتایا کہ گزشتہ دس روز سے شمشان گھاٹ کا عملہ روزانہ چالیس سے پچاس لاشوں کو ٹھکانے لگا رہا ہے جبکہ شمشان گھا ٹ میں دو ٹینس کورٹس سے زیادہ جگہ دستیاب نہیں ہے۔ آگ کی حدت نے ان آموں کے پتے بھی جھلسا دیے ہیں جن کا رخ چتائوں کی طرف تھا۔ شمشان گھاٹ ایسی جگہ ہے جہاں صرف مرد ہی موجود ہوتے ہیں۔ بہت سے ہندو یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ والدین کی چتا کو صرف بیٹا ہی آ گ لگا سکتا ہے۔ غازی پو رکے کئی نوجوانوں نے اپنا غم بھلا کر خود کو کئی گروپوں میں تقسیم کر لیا ہے اور بہت سے کام اور ذمہ داریاں اپنے سر پر لے لی ہیں۔ ایک گروپ قطار بنا لیتا ہے تاکہ اپنے پیاروں کی لاشیں رجسٹر کرنے میں ہاتھ بٹا سکے۔ ایک گروپ شیڈ کی طر ف بھاگتا ہے تاکہ لکڑیاں ختم ہونے سے پہلے پہلے چتا کو جلانے کے لیے اپنے حصے کی لکڑیاں لے سکے۔ تیسرا گروپ لا ش لے کر بھاگتا ہے تاکہ شمشان گھا ٹ میں آگ لگانے کے لیے پہلے سے جگہ ریزرو کرا سکیں۔ کووڈ کی اس لہر کے دوران ادویات، آکسیجن، وینٹی لیٹرز اور ہسپتال بیڈز کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے۔ جو حکومت کی ضروری سپلائیز کو بحال کرنے میں مکمل ناکامی ہے۔

بدھ کے دن ملویکہ پرکاش غازی پور کی ان چند خواتین میں سے ایک تھی جو ان سنگین حالات میں بھی اپنے باپ ڈاکٹر ڈت راج بھل چانڈرا کی لاش کو اپنے قدموں میں رکھ کر کھڑی تھی۔ اس کا باپ ایک پتھالوجسٹ تھا اور بھارت کے نیشنل بیورو آف پلانٹ جینیٹک ریسورسز میں کام کرتا تھا، وہ 65 سال کی عمر میں کووڈ کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔ اسے ایک وینٹی لیٹر کے ساتھ آئی سی یو میں جگہ چاہئے تھی مگر اسے ہسپتال میں صرف ایک بیڈ مل سکا جس کے ساتھ آکسیجن کا سلنڈر لگا ہوا تھا۔ اس کی آکسیجن کی شرح اوپر نہیں جا رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اگلی صبح سات بجے ان کی موت واقع ہو گئی۔ مس پرکاش کی والدہ دس سال پہلے انتقال کر چکی تھیں اور اس کی فیملی کے اکثر افراد کووڈ کا شکار ہو چکے تھے۔ ایک فیملی ممبر جو اس کے باپ کو ہسپتال تک لے کر گیا تھا وہ بھی اچانک بیماری کا شکار ہو گیا؛ چنانچہ اب وہ اپنے باپ کے پاس یہاں اکیلی تھی۔(جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement