ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

مودی حکومت کے غلط دعوے…(1)

تحریر: جیفری گیٹل مین

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کووڈ پر بنائی ہوئی ٹاسک فورس نے کئی مہینوں تک ایک بھی میٹنگ نہیں بلائی۔ ان کے وزیر صحت نے مارچ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت میں کووڈ اپنے آخری دموں پر ہے۔ اس سے چند ہفتے قبل نریندر مودی عالمی رہنمائوں کے سامنے یہ دعوے کر رہے تھے کہ ان کی قوم کووڈ کے خلاف فتح یاب ہو چکی ہے۔ جنوری میں اپنے عقب میں ترنگا لہراتے ہوئے مودی نے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں کہا تھا ’’بھارت نے کورونا وائرس کی موثر روک تھام کر کے دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے‘‘۔ اب کورونا کی دوسری لہر نے بھارت کو دنیا کا کووڈ سے متاثرہ دوسرا بدترین ملک بنا دیا ہے۔ روزانہ چار لاکھ سے زائد افراد کووڈ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ویکسین مل نہیں رہی، ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، آکسیجن بھی ختم ہو رہی ہے، شمشان گھاٹوں میں روزانہ ہزاروں لاشوں کو جلایا جا رہا ہے جس سے راکھ اور دھویں کے نہ ختم ہونے والے مرغولے آسمانوں کو چھو رہے ہیں؛ چنانچہ اکثر بھارتی شہروں کے اوپر آسمان سیاہ نظر آتا ہے۔

بھارت کے کووڈ کے خلا ف فتح کے دعووں کے بالکل برعکس اب کئی عشروں کے بعد لگنے والی ایمرجنسی نے ایک ایسے قومی احتساب پر مجبورکر دیا ہے جو سارے کا سارا نریندر مودی کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ دنیا بھر کے ماہرین بھارت کے حق میں رطب اللسان تھے کہ کس طرح ایک ملک کووڈ کی تباہ کاری سے بچ گیا اور اس کی وجہ اس کی جوانوں پر مشتمل آبادی اور اس کی اچھی صحت کو قرار دیا گیا۔ مودی حکومت نے ایسی باتوں کی کھل کر حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔ 

آج بھی مودی کے حامی کہتے ہیں کہ بھارت ایک عالمی وبا کا شکار ہو گیا ہے اور اس کی دوسری لہر کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے مگر صحت کے آزاد ماہرین اور سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس تباہی کی ساری ذمہ داری مودی کی ضرورت سے زیادہ پُراعتمادی اور بالادست طرزِ قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ ناقدین اس بات پر مصر ہیں کہ ان کی حکومت اس بات پر تلی ہوئی تھی کہ دنیا کو ایسا تاثر دیا جائے کہ بھارت اب کورونا کی تباہی سے باہر نکل آیا ہے اور تمام تر خطرات کے باوجود اب ہر طرح کے بزنس کے لیے کھل گیا ہے۔ ایک مرحلے پر تو حکام نے سائنسدانوں کی وارننگز کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ بھارت کے عوام کو ابھی تک سنگین خطرہ ہے اور حکومتی دعووں کے برخلاف ہرڈ امیونٹی کی سطح ابھی تک نہیں آئی تھی۔ ملک بھر میں پھیلی پریشانی اور افسردگی نے نریندر مودی کے بارے میں یہ تاثر بالکل اڑا کر رکھ دیا کہ وہ ایک ناقابل تسخیر سیاستدان ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر تمام سیاستدانوں کو شکست فاش دے کر اور اپنی شخصی سحرانگیزی کی مدد سے قائم کیا تھا جس کی بدولت کئی عشروں تک کوئی دوسرا سیاستدان ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اپوزیشن لیڈر مسلسل ان پر حملہ آور ہیں اور اقتدار پر ان کی مسلسل دسترس کی وجہ سے انہیں آن لائن تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اب جبکہ پارلیمانی الیکشن تین سال کی دوری پر رہ گئے ہیں اور ان کی حکومت میں پھوٹ پڑنے کے بھی کوئی امکانات نظرنہیں آ رہے‘ اس لیے مودی کا اقتدار ابھی تک تو محفوظ لگتا تھا۔ ان کی حکومت پوری کوشش کر رہی تھی کہ مریضوں کے لیے تمام تر مطلوبہ سہولتیں فراہم کی جائیں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں کو کم ازکم ویکسین ضرور لگ جائے۔ پھر بھی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کی دھونس بازی کا مفہوم یہی نکلتاہے کہ ملک بھر میں پھیلنے والی بیماری اور اموات کا ذمہ دار انہیں ہی ٹھہرایا جائے گا۔

دہلی میں قائم سنٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک ریسرچ سکالر عاصم علی کہتے ہیں ’’کووڈ سے ہونے والے زیادہ تر جانی اور مالی نقصان کی بھاری ذمہ داری وزیراعظم نریندر مودی کے حکومت کرنے کے سٹائل پر عائد ہوتی ہے۔ مود ی اپنی کابینہ کے وزیروں کا انتخاب کرتے وقت ان کی اپنے شعبے میں مہارت کے بجائے ان کی اپنے ساتھ وفاداری کو مدنظر رکھتے ہیں۔ نیز اس معاملے میں شفافیت قائم کرنے کے بجائے سیکریسی اور اپنا امیج بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح کے گورننس کے فریم ورک میں جب نریندر مودی کسی غلطی اور کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کووڈ کو ہینڈل کرتے وقت کیا تھا‘ تو اس کے تباہ کن نتائج بھی نکل سکتے ہیں‘‘۔ حالیہ مہینوں کے دوران کئی ایسے مراحل آئے جب سرکاری حکام نے ایسے ایسے غلط فیصلے کیے جن کے نتائج اور اثرات بار بار بھارت کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اگرچہ بھارت کو ویکسین کا پاور ہائوس سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ دنیا کو تحفظ دینے کے لیے بھاری مقدار میں ویکسین بناتا ہے مگر اس نے خود اپنے عوام کی جانوں کے تحفظ کے لیے ویکسین کے خاطر خواہ انتظامات کرنے میں کوتاہی سے کام لیا بلکہ اس کے بالکل برعکس جب بھارت میں ویکسین کے ریٹس نسبتاً کم تھے تو نئی دہلی کی حکومت نے عالمی سطح پر اپنا امیج بنانے کے لیے ویکسین کی 60 ملین سے زائد خوراکیں دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کر دیں۔

جب بھارت میں کووڈ متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو نریندر مودی نے بڑے بڑے بھارتی گروپس کو اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کیا تاکہ وہ ان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہندو قوم پرستی کی پالیسی کو فروغ دینے میں ان کی مدد کریں۔ ان کی حکومت نے ہندوئوں کے مشہور کنبھ میلے کے انعقاد کی اجازت دے دی جہاں ہر سال کروڑوں ہندو مذہبی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ انہوں نے ریاستی الیکشن میں اپنی انتخابی مہم اس طرح چلائی کہ ان کی سیاسی ریلیوں میں ان کے ہزاروں‘ لاکھوں حامی شرکت کرتے تھے۔ ان ریلیوں میں نریندر مودی ماسک پہنتے تھے اور نہ ہی ان کے سیاسی حامی۔ چونکہ نریندر مودی ہر وقت پیشہ ور ماہرین کے بجائے اپنے سیاسی اتحادیوں کے درمیان گھرے رہتے ہیںاس لیے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سرکاری حکام ان کی موجودگی میں کسی قسم کی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے یا ان کے اس دعوے کو جھٹلاتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کووڈ ختم ہو چکا ہے۔ الٹا نریندر مودی اور ان کے اتحادیوں نے ناقدین کی زبانیں بند کرانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ انہوں نے فیس بک، انسٹا گرام اور ٹویٹر سے کہا ہے کہ وہ ان کے دعووں کے خلاف جانے والی تمام پوسٹس کو سکرین سے ہٹا دیں اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے آکسیجن گیس کا مطالبہ کرنے والے عام شہریوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت نے جو بی جے پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے معروف ہے‘ اور ان کی حکومت نے بعض چبھتے ہو ئے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement