ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

مودی حکومت کے غلط دعوے …(2)

تحریر: جیفری گیٹل مین

حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے مناسب انتظامات کے لیے مسلسل مشاورت اور رابطوں کا عمل جاری رکھا۔ فروری میں ریاستوں کو سخت نگرانی کرنے کی ہدایات کی گئیں۔ کوئی بھی لیڈر ہوتا اسے انہی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس ملک میں کروڑوں غریب افراد بہت قریب قریب رہتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی وبائی وائرس کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ بھارت کا صحت عامہ کا نظام انتہائی مخدوش ہے، پورے سال میں ایک سو ڈالر فی کس خرچ ہوتے ہیں جو عالمی بینک کے مطابق بہت سی ترقی پذیر اقوام سے کم ہیں اور یہ مسئلہ مودی کے آنے سے پہلے کا ہے۔ اتوار کو کورونا کے 3 لاکھ 92 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے، اس سے ایک دن پہلے یہی کیسز4 لاکھ 2 ہزار تھے اور 37سو اموات ہوئیں۔ اس سے ایک روز پہلے 35 سو افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ ثبوتوں کے مطابق‘ شرح اموا ت کو گھٹا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر ممبئی میں ویکسین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین لگانے کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے کووڈ کی پہلی لہر کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ ایک زیرک سیاست دان ہیں جو بہت نیچے سے اوپر آئے ہیں اور وہ بہت سی ڈرامائی چالیں چلتے ہیں۔ انہوں نے پہلے دن سے ہی ماسک پہننے اور احتیاطی فاصلہ رکھنے پر عمل شروع کر دیا تھا۔ مارچ 2020ء میں جب بھارت میں کووڈ کے صرف 6 ہزار کیسز منظر عام پر آئے تھے تو نریندر مودی نے صرف چار گھنٹے کے نوٹس پر بھارت میں دنیا کا سخت ترین لاک ڈائون نافذ کر دیا تھا۔ لوگوں کو کوئی گائیڈ لائنز نہیں دی گئی تھیں‘ اس لیے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں ہی مقیم رہے۔ 

نقائص کے باوجود ماہرین یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے انفیکشن کم پھیلا مگر یہ پابندیاں معاشی لحاظ سے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ کروڑوں افراد بیروزگار ہو گئے اور نریندر مودی کا بھارت کو ایک عالمی قوت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ وہ دوبارہ لاک ڈائون لگانے سے ڈر گئے۔ جب انہوں نے پابندیا ں نرم کیں تو انفیکشن کیسز پھر بڑھ گئے۔ ستمبر میں ان کی تعداد ایک لاکھ روزانہ تک جا پہنچی؛ تاہم صحت عامہ کا نظام انہیں سنبھال گیا۔ مگر 2021ء کے آغاز میں جب انفیکشن کیسز کم تھے اور معیشت بحالی کی طر ف رواں تھی تو مودی اور ان کی ٹیم نے یہ دعوے کرنا شروع کر دیے کہ معیشت اپنی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ اکثر بھارتیوں نے اپنے ماسک اتار پھینکے، وہ مارکیٹوں میں واپس آ گئے اور میل جول بڑھا دیا۔ پابندیاں ا س حد تک ہٹا دی گئیں کہ کووڈ سنٹرز تک کو بھی ختم کر دیا گیا۔

پارٹی لیڈر شپ نے فروری میں یہ اعلان کر دیا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی وژنری قیادت میں کورونا کو شکست فاش سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ مارچ میں بھارتی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھان نے دعویٰ کیا کہ بھارت سے کورونا وائر س کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ جنہوں نے اس بات سے اختلا ف کیا‘ انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ بھارت کی کووڈ ٹاسک فورس‘ جس میں بیس ہیلتھ پروفیشنلز بھی شامل تھے‘ مہینے میں کم از کم دو بار ضرور میٹنگ کرتی تھی مگر گیارہ جنوری اور پندرہ اپریل کے درمیان ٹاسک فورس کی ایک بھی میٹنگ منعقد نہ ہوئی۔ اکثریت کو یقین تھا کہ کووڈ کی وبا ختم ہو چکی ہے۔ کچھ سائنسدانوں کو حکام کے ان دعووں پر تشویش لاحق تھی کہ ایک ارب چالیس کروڑ افراد کا ملک ہرڈ امیونٹی کے لیول تک پہنچ گیا ہے‘ یا اس سطح تک جہاں آبادی کی اکثریت ویکسین یا انفیکشن کی وجہ سے امیون ہو چکی ہے، اس لیے اب وائرس اتنی آسانی سے نہیں پھیل سکتا۔ کووڈ ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر ونود پال نے جنوری میں کہا تھا کہ ہمارے زیادہ تر گنجان آباد اضلاع اور شہر اب کووڈ سے محفوظ ہو چکے ہیں۔ 

جوں جوں امن اور اطمینان بڑھتا گیا‘ ویکسین لگوانے کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑتا گیا۔ مودی حکومت نے شاباش لینے کے لیے انہیں ویکسین کی برآمد شروع کر دی۔ حکومت نے صرف دو ویکسین کی منظور ی دی جو دونوں بھارت کی بنی ہوئی تھیں تاکہ بھارت کے خود کفیل ہونے کے تاثرکو تقویت ملے۔ ابھی تک صرف دو فیصد سے بھی کم آبادی نے ویکسین کی دو خوراکیں لی ہیں۔ بی جے پی کے ترجمان راجیو چندر شیکھر کہتے ہیں کہ ملک میں ویکسین کی کوئی قلت نہیں ہے۔ جب ویکسین کی تسلی ہو گئی تو نریندر مودی نے انتخابی ریلیوں میں شرکت بڑھا دی، کئی ریاستوں میں الیکشن ہو رہے تھے تو انہوں نے مغربی بنگال پر پوری توجہ مرکوز کر دی جہاں ایک اپوزیشن پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہاں بھرپور الیکشن مہم چلائی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ کسی نے ماسک نہیں پہنا ہوا تھا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوتے تھے۔ اتوار کی رات تک سب ووٹوں کی گنتی ہو چکی تھی اور بی جے پی آل انڈیا ترنمول کانگرس سے بری طرح شکست کھا چکی تھی۔

اگرچہ ہیلتھ ماہرین نے خطرات سے پیشگی آگا ہ کر دیا تھا مگر نریندر مودی ان ریلیوں کی مدد سے الیکشن جیتنے پر تلے ہوئے تھے۔ اپریل کے وسط میں جب بھارت میں روزانہ دو لاکھ سے زائد کورونا کیسز سامنے آ رہے تھے تو نریندر مودی کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگ ہی لوگ دیکھ کر بہت خوش ہیں اور بس۔ اب مغربی بنگال کی لیبارٹریز سے ہونے والے ٹیسٹوں میں سے پچاس فیصد سے زائد رزلٹس مثبت آ رہے ہیںجس کا صاف مطلب ہے کہ آدھی آبادی انفیکشن سے متاثر ہو چکی ہے۔ جن دوسری ریاستوں میں الیکشن ہو رہے ہیں وہاں بھی کووڈ سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک حالیہ سماعت کے دوران ایک جج نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’’تمہارے افسروں پر قتل کے مقدمے چلنے چاہئیں‘‘۔ مودی کے اقتدارکو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس میں کمزور اپوزیشن کا بھی ہاتھ ہے اور مودی کی ہندو قوم پرستی کو جگانے کی صلاحیت کا بھی عمل دخل ہے۔ اب ان کا امیج تبدیل ہو چکا ہے وہ جو بیس بال کیپ پہنتے تھے‘ اتر چکی ہے اور ایک ہندو جوگیوں کی طرح انہوں نے داڑھی اور بال بڑھا لیے ہیں۔ کارنیگی فائونڈیشن کے سائوتھ ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ملن ویشناو کہتے ہیں کہ ’’وہ ایک انوکھی قسم کے سیاسی جانور ہیں۔ ان کے اندر ایک کشش ہے جو عام ووٹر کو بہت متاثر کرتی ہے حتیٰ کہ جو لوگ نریندر مودی کو پسند کرتے ہیں وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی جواز ضرور ڈھونڈ لیں گے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement