ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکا : کورونا کیسز میں کمی اور امید کی نئی کرن…(2)

تحریر: جولی باسمین

 جب راکی مائونٹ میں واقع ونڈر لینڈ کیمپ بھی گزشتہ سال بند کر دیا گیا تھا تو معذوری کے شکار بچے اور بڑے بہت مایوس ہوئے تھے کیونکہ وہ وہاں آرٹس، ٹیلنٹ شوز، کرافٹس اور ڈسکو ڈانس کے لیے آتے تھے۔ اب اس کے سٹاف کی بڑی تعداد کو ویکسین لگ چکی ہے، تیزی سے لوگوں کے کورونا ٹیسٹ کرائے جا رہے ہیں اس لیے اب یہ کیمپ موسم سرما میں کھلنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ کیمپ کے ڈائریکٹر جل ویلکی کہتے ہیں ’’کیمپ کھلنے کے حوالے سے بڑا جوش و خروش پایا جاتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سال ٹی شرٹس پر پرنٹ کرایا جانے والا تھیم کچھ یوں ہوگا ’’ایک بار پھر اکٹھے‘‘۔

ایک طرف تو حالات اتنے پُرامید ہیں جبکہ کئی شہروں میں ابھی تک کورونا کے خوف کی وجہ سے ماسک پہننا ضروری ہے۔ وسکونسن کے شہر کینوشا میں اس ہفتے مقامی کامن کونسل نے ماسک لازمی پہننے کے خلاف ہونے والے ایک اقدام کو بری طرح مسترد کر دیا۔ کائونٹی کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ جلد ہی ویکسین لگانے والے بڑے سنٹرز بند کر دیے جائیں گے کیونکہ ان کی ڈیمانڈ روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ کائونٹی کے ایک رکن روکو لامیک چینیا‘ جو ماسک لازمی قرار دینے کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ معاملہ مقامی بزنس انتظامیہ پر چھوڑدینا چاہئے‘ کہتے ہیں ’’یہ بہت مشکل اور پیچیدہ فیصلہ ہے۔ اگر میں ماسک پہنے بغیر نیچے کسی گلی میں جا رہا ہوں تو مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ لوگ مجھے غلط نظروں سے دیکھیں۔ میرے خیال میں اس کمیونٹی میں ہم سب تمام معاملات میں ایک دوسرے سے اتفاق کرتے ہیں مگر اس سمت میں یہ ہمارا پہلا قدم ہو گا‘‘۔ نیویارک سٹی میں عالمی وبا شروع ہونے سے بھی پہلے سے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے مگر سی ڈی سی کی سفارشات کے باوجود منظر تبدیل ہو رہا ہے اب جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے جب وہ اکیلے یا اپنے دوستوں کے چھوٹے گروپ کے ساتھ آئوٹ ڈور میں جائیں گے تو انہیں ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ حال ہی میں ایک سنہری دھوپ میں لوگوں کا ایک بڑا گروپ سنٹرل پارک میں نکل آیا تھا اور بہت زیادہ لوگ ماسک کے بغیر راہداریوں میں سے گزر رہے تھے۔ پچھلے مہینے سے نیویارک شہر میں انفیکشن کے نئے کیسز میں دو تہائی کمی واقع ہو چکی ہے اور اب روزانہ بارہ سو کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اب شہروں میں کووڈ سے متاثرہ افراد کی ہسپتالوں میں داخلے کی تعداد بھی کم ہو کر صرف ایک سو تک رہ گئی ہے۔ نیو یارک میں رہنے والے چالیس فیصد بالغ افراد کو ویکسین لگا دی گئی ہے اور اب بڑے زور شور کے ساتھ پورا شہر کھولنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ 19مئی سے ریستوران، سٹورز، تھیٹرز اور میوزیم کھل جائیں گے اور انہیں پوری استعداد کے مطابق کام کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔ کورونا کی عالمی وبا شروع ہونے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔

وبائی امراض کے ماہر اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جان سوارٹز برگ کہتے ہیں کہ میں ویکسین لگانے کی موجودہ صورتحال سے جزوی طور پر مطمئن ہوں اور گرم موسم امریکی عوام کو آئوٹ ڈور کی طرف بلا رہا ہے؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کی تشویش ہے کہ کورونا کا مہلک وائرس اب بھارت اور لاطینی امریکا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا رہا ہے اور انہوں نے اس امر پر حیرانی کا اظہار بھی کیا کہ امریکا میں بھی شہروں کو کھولنے میں زیادہ جلدی اور عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جبکہ ابھی تک بھی ہر روز پچاس ہزار سے زائد کیس منظرعام پر آ رہے ہیں۔ ’’جس انداز سے یہ وائرس پھیل رہا ہے اس میں ایک بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔ ایک مقام پر یہ بڑی تیزی سے اوپر جاتا ہے مگر پورے ملک یا پوری دنیا میں اس کا پھیلنے کا یہ انداز نہیں ہے۔ اس کا یہ بے ہنگم پھیلائو میرے اندر ایک تشویش اور فکر مندی کا احساس پیدا کرتا ہے‘‘۔

سیاٹل اور کنگ کائونٹی کے ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر جیفری ڈچن کہتے ہیں ’’کووڈ کی اس عالمی وبا کے حتمی خاتمے کے لیے کوئی پلے بُک نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سب لوگ پابندیاں لگانے اور انہیں ہٹانے کے عمل سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا واحد حل ویکسین کے سوا کچھ اور نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے سب لوگوں پر زور دیا کہ وہ پہلی فرصت میں ویکسین ضرور لگائیں۔ وہ ریاستیں‘ جہاں ویکسین لگانے کا عمل سست پڑ رہا ہے‘ خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں آنے والے ہفتوں میں کووڈ کے پھیلنے کا شدید خدشہ پایا جاتا ہے۔ ٹیکساس‘ جہاں پہلے مرحلے کے دوران موسم گرما میں کووڈ سے بڑی تباہی دیکھنے میں آئی تھی‘ اب ویکسین لگوانے والوں کی اوسط میں پورے ملک کے قدم بقدم چلتا نظر آ رہا ہے اور یہاں کے 39 فیصد شہری کووڈ ویکسین کی کم از کم ایک خورا ک ضرور لے چکے ہیں۔ اسی طرح مسسپی اور لوزیانا کے عوام کی بھی ایک تہائی تعداد کو کوروناکی ویکسین کی کم از کم ایک خوراک ضرور لگ چکی ہے۔ اوہائیو کی کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی‘ جو وبائی امراض کی سٹڈی کے لیے معروف ہے‘ کے وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر ٹارا سمتھ کہتے ہیں ’’گزشتہ سال کے انہی دنوں میں معاملات کافی بہتر ہو گئے تھے جب جنوبی اور جنوب مغربی ریاستوں میں موسم کی حدت میں اضافہ ہوگیا تھا، لوگ گرمی کی وجہ سے اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بند ہونے پر مجبور ہو گئے تھے اور آپ نے دیکھا کہ کورونا کیسز سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں ویکسین لگانے کی رفتار کم ہے اور وہاں کووڈ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اب یہاں ماضی کے مقابلے میں حالات سنگین شکل اختیار کر یں گے‘‘۔

اگرچہ پچھلے سال بیماری کا ایک سیلاب آیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں امریکی شہری موت کے منہ میں چلے گئے؛ تاہم آنے والے دنوں میں صورت حال حوصلہ افزا ہو جائے گی۔ لاس اینجلس کائونٹی کی خبریں میڈ یاکی زینت بنیں کہ اتوار اور سوموار کو یہاں زیرو اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ یہ ایک مختصر سا سنگ میل تھا، ایک دن بعد منگل کے روز یہاں مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ رپورٹ ہوئی؛ تاہم یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہم لاس اینجلس جیسے سائز کی کائونٹی کی بات کر رہے ہیں جو امریکا کی سب سے بڑی کائونٹی ہے جہاں ایک کروڑ سے زائد امریکی رہائش پذیر ہیں۔ ابھی چند ہی مہینے پہلے یہاں کے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے تھے اور چاروں طرف مرنے والوں کے جنازے نظر آ رہے تھے۔ صرف لاس اینجلس کائونٹی میں ہر روز دو سو سے زائد افراد کووڈ کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے تھے۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement