ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکا کی امیگریشن عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

صدر جو بائیڈن نے اس وعدے کے ساتھ منصبِ اقتدار سنبھالا تھا کہ وہ امریکا کے امیگریشن نظام میں امریکی اور انسانی اقدار کو بحال کریں گے۔ اگر وہ اپنے ان مقاصد میں کامیابی کے خواہاں ہیں تو اس کے حصول کے لیے انہیں سب سے پہلے میکسیکو کی سرحد پر اپنے پیشرو صدر ٹرمپ کی شروع کردہ دیوار کی تعمیر کو رکوانا ہو گا۔ وہ سب سے بڑی رکاوٹ جو امریکا کے امیگریشن سسٹم کو فنکشنل ہونے دیتی ہے نہ انسانی اقدار کے قالب میں ڈھلنے دیتی ہے اور امریکی عوام کی اکثریت کی نظروں سے اوجھل بھی ہے‘ وہ رکاوٹ ہمارا شکستہ حال اور بھاری بوجھ تلے دبا ہوا امیگریشن کورٹ سسٹم ہے۔

روزانہ سینکڑوں امیگریشن ججوں کو ہزاروں کیسز کھنگالنا پڑتے ہیں تاکہ ان سابقہ مقدمات کا وہ بیک لاگ ختم کر سکیں جو 2016ء سے اب تک دو گنا ہو چکا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ان تارکین وطن کی طرف سے سیاسی پناہ لینے کے لیے عجیب و غریب دعوے کیے گئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ آبائی ممالک میں ان کی زندگی کو خطرہ ہے۔ زیادہ ترمقدمات ایک لمبی قانونی جنگ میں الجھ جاتے ہیں اور انہیں فیصل ہونے تک سالہا سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ کئی مقدمات کی تو پہلی سماعت کو بھی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ کئی لوگ مہینوں تک حراستی مراکز میں بند رہتے ہیں حالانکہ وہ امریکا کے لیے کسی قسم کا خطرہ بھی نہیں ہوتے۔ایک امیگریشن جج نے 2018ء میں کہا تھا ’’اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ہمارا سسٹم بری طرح ناکام ہو رہا ہے‘‘۔ جب تک سسٹم ناکام ہے اس وقت تک بڑے پیمانے پر امیگریشن اصلاحات کے مقاصد کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔ یہ اصلاحات صدر جو بائیڈن نے پیش کی ہوں یا کسی اور نے‘ ان عدالتوں کے ساتھ درپیش مسائل کوئی نئے نہیں ہیں مگر سابق صدر ٹرمپ کے دور میں یہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر گئے تھے جب انہوں نے 2017ء میں وائٹ ہائوس میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہیں 5 لاکھ 40 ہزار امیگریشن کیسز کا بیک لاگ ورثے میں ملا تھا جو بذاتِ خود ایک بڑا بحران تھا۔ ان کی حکومت اتنی بڑی تعداد میں کمی لانے کے لیے کئی طرح کے ذرائع استعمال کر سکتی تھی مگر جب وہ اس سال جنوری میں وائٹ ہائوس سے رخصت ہوئے تو امیگریشن کے زیر التوا کیسز کی تعداد بڑھ کر 13 لاکھ ہو چکی تھی۔

امیگریشن کیسز کی تعداد میں اس قدر اضافے کی ایک بڑی وجہ تو ٹرمپ حکومت کی طرف سے امیگریشن قوانین کا جابرانہ نفاذ بھی ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور بہت سے افراد کو حراستی مراکز میں بند رہنا پڑا۔ ٹرمپ حکومت نے طرفہ تماشا یہ کیا کہ ہزاروں ایسے کیسز کی سماعت شروع کر ا دی جو ترجیح میں بہت پیچھے تھے اور صدر بارک اوباما نے انہیں شیلفوں میں دبا رکھا تھا۔ آخر میں صدر ٹرمپ نے امیگریشن عدالتوں کے فنڈز ہی روک دیے اور ججوں کے اپنے دائرۂ اختیار پر اتنی قدغنیں لگا دیں کہ ان کے لیے فرائض کی ادائیگی مشکل تر بنا دی گئی۔ جس آسانی سے صدر ٹرمپ نے امیگریشن کورٹس پر اپنی مرضی اور منشا مسلط کی تھی اس سے پتا چلا کہ اس سسٹم میں مرکزی ساختیاتی یا سٹرکچرل نقائص موجود ہیں۔ سچ پوچھیں تو امریکا میں عدالتوںکا جو تصور رائج ہے‘ اس کی رو سے تو انہیں عدالتیں کہا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں تو ایک غیر جانبدار منصف ہوتا ہے جو ایک غیر جانبدارانہ انصاف دینے کے لیے قانون کے تما م تقاضے پورے کرتا ہے۔ اسی طرح امیگریشن ججوں کو بھی حقیقی جج نہیں کہا جا سکتا۔ آپ انہیں ایک اٹارنی کہہ سکتے ہیں جنہیں حکومت نے امیگریشن کیسز کے ریویو کے لئے مقررکر رکھا ہے جو وزارتِ انصاف کے ماتحت اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ امریکا کی قانون کا نفاذ کرنے والی اعلیٰ ترین ایجنسی ایک ایسا عدالتی نظام چلا رہی ہے جس میں وہ ایک متاثرہ فریق کے طور پر پیش ہوتی ہے۔ مفادات کے ٹکرائو کا اس سے بدترین تصور ممکن ہی نہیں ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امیگریشن کورٹس اور ان کے ججز اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اس شخصیت کے مرہونِ منت ہیں جو اس وقت اوول آفس میں بر اجمان ہے۔ انہیں کتنے فنڈز ملنے ہیں‘ کس مقدمے پر اپنی توجہ فوکس کرنی ہے یہ سب کچھ سیاسی مفادات کے تناظر میں ہوتا ہے۔ اس کا حل بڑا واضح ہے۔ کانگرس کو چاہئے کہ فوری طور پر امیگریشن کورٹس کو وزارتِ انصاف کی بالا دستی کے چنگل سے باہر نکال لائے اور انہیں آزادانہ حیثیت میں اسی طرح اپنے فرائض انجام دینے دے جس طرح دیگر انتظامی جج دیوالیہ پن، انکم ٹیکسز اور سینئر فوجیوں کے مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں۔ امیگریشن ججوں کو بھی اسی انداز میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کے بعد امیگریشن جج سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوں گے جو کیسز کے حجم کو ختم کرانے میں مدد کرے گا۔

فیڈرل بار ایسوی ایشنز سمیت اصلاحات کے سب بڑے حمایتیوں نے کئی سال سے امیگریشن کورٹس کو الگ رکھنے کا فیصلہ دے رکھا ہے مگر اس میں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ٹرمپ حکومت نے تو یہ بات پوری طرح ثابت کر دی کہ امیگریشن کورٹس کو آزادی ملنی چاہئے۔ اسی اثنا میں کچھ قلیل مدتی اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں جو امیگریشن کورٹس میں غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔ اولین ضرورت تو یہ ہے کہ ان عدالتوں میں سٹاف کی کمی کو فوری طور پر پورا کیا جائے اور انہیں اتنے خطیر فنڈز دیے جائیں تاکہ کیسز کا بیک لاگ ختم کیا جا سکے۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ کار یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مزید ججوں اور سٹاف ممبرزکی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ وہ بھی اس سسٹم کو سہارا دے سکیں۔ ایک اور اہم بندوبست یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے مرحلے پر بڑی تعداد میں کیسز کی سماعت روک دی جائے۔ وزارتِ انصاف کے پا س یہ اختیار ہے کہ وہ سات لاکھ سے زائد ایسے کیسز کو عدالتی کیلنڈر سے فوری طور پر ہٹا سکتی ہے جن میں امیگریشن کی معمولی نوعیت کی خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں۔ 

ایک اور پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ سخت گیر امیگریشن مخالف کلچر کو کیسے ختم کیا جائے ۔ اس سلسلے میں اگر کوئی امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو وہ یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرح جارحانہ حربے استعمال کئے جائیں۔ اگر امیگریشن امور کے حوالے سے ٹرمپ حکومت کی بے حسی کو نظرا نداز کر دیا جائے‘ تبھی امیگریشن کورٹس میں جمع مقدمات کو نمٹانے کی کوششوں کو تیز تر کیا جا سکتا ہے۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement