ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ٹرمپ اور ٹرمپ ازم: بائیڈن حکومت کے لیے بڑا چیلنج

تحریر: راس ڈودیٹ

گزشتہ موسم خزاں اور سرما میں امریکی صدر نے ایک غیر مؤثر مگر سنگین نتائج کی حامل حکمت عملی کے ذریعے بھرپور کوشش کی کہ ریپبلکن ارکان کی مدد سے اس الیکشن کے نتائج کو الٹ دیا جائے جس میں وہ واضح شکست کھا چکے تھے۔ انہیں ابھی تک یہ یقین ہے کہ معلق ریاستوں کے آڈٹ کے نتیجے میں اس سال موسم گرما میں وہ پھر سے وائٹ ہائوس میں براجمان ہو جائیں گے۔ بہت سے ایسے حاشیہ بردار‘ جنہوں نے پہلے بھی ان کے اس گمان کی حوصلہ افزائی کی تھی‘ آج بھی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک مائیکل فلن‘ قومی سلامتی کے سابق مشیر نے حال ہی میں تجویز دی ہے کہ امریکا میں بھی میانمار جیسی فوجی بغاوت کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں ہے۔ اس کا سب سے توانا ثبوت یہ ہے کہ کیا انہیں ایسا سوچنا چاہئے کہ 2024ء میں ریپبلکن پارٹی ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار نامزد کر دے گی۔ اس وقت ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ 6 جنوری جیسی صورتِ حال یا اس سے بھی زیادہ خطرناک حربے کی مدد سے ٹرمپ کے سیاسی خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے کس طرح روکا جائے؟

بہت سے مرکز پسند، لبرلز اور ٹرمپ مخالف قدامت پسند وں کا خیال یہ ہے کہ ہم مسلسل ایک ایسی ہنگامی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں‘ جو دو میں سے ایک طریقے سے ہی ختم ہو سکتی ہے؛ یا تو ڈیموکریٹک کانگرس ایسی دوررس انتخابی اصلاحات منظور کرا لے جو فیصلہ کن انداز میں موجودہ ریپبلکن پارٹی کو کمزور کر دیں یا پھر ٹرمپ اور ان کے حامی کہیں زیادہ موثر اور تباہ کن طریقے سے 2024ء کے الیکشن چرانے کی کوشش کریں گے۔ اس تھیوری کے تحت لز چینی جیسے ٹرمپ مخالف ریپبلکن ارکان مسلسل یہی بات کرتے رہیں گے کہ ٹرمپ جمہوریت کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ 

جو بائیڈن حکومت کو چاہئے کہ وہ دو جماعتی تصورِ جمہوریت سے ہٹ کر اپنی پوری توانائی سے ریپبلکن ارکان کی طرف سے ایوان میں بے مقصد تقاریر کرنے میں ضائع کرنے کی کوشش ناکام کر دے اور اپنی توانائی ووٹ کے حق کا بل پاس کرانے کے لیے استعمال کرے۔ جو مینچن اور کرسٹین سینیما کو روزانہ یاد دہانی کرائی جائے کہ بحران پیدا ہونے کی صورت میں ساری ذمہ داری ان پر عائد ہو گی؛ تاہم اس وقت یہ تھیوری سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ہے کیونکہ نہ صرف مینچن اور سینیما بلکہ انہیں بطور ڈھال استعمال کرنے والے دوسرے ڈیمو کریٹک سینیٹرز بھی آخری حد تک جانے کے حق میں نہیں ہیں مگر یہ احتیاط پسند ڈیموکریٹس اور بائیڈن حکومت میں ان کے بہی خواہ اس امر کی تردید کریں گے کہ وہ رفتہ رفتہ ایک سنگین بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ نارمل سیاست نے ہی 2020ء الیکشن میں ٹرمپ کو شکست دی تھی اور یہ دوبارہ بھی ایسے ہی نتائج دے سکتا ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ریپبلکن پارٹی 2024ء کے الیکشن میں ایسے حربے نہ استعمال کرے تو آپ کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ 2022ء میں ایوان اور سینیٹ کے اجلاس طلب کریں اور آپ کو یوں کرنا چاہئے گویا آپ کی پارٹی دو جماعتی جمہوریت کے تصور پر کھلا یقین رکھتی ہے۔ اپنی ساری توجہ معیشت پر دیں اور رکاوٹ پیدا کرنے والے شدت پسندوں کی مخالفت کریں۔ اگر آپ اپنی ساری توانائی طویل تقریریں کرنے والوں پر ضائع کر دیں گے تو الٹا آپ اپنے ہی اعتدال پسند سینیٹرز کو ووٹنگ کے حق کے قانون کے لیے زیادہ ایکسپوز کریں گے جس کا ڈیموکریٹک ٹرن آئوٹ پر بھی زیادہ اثر نہیں پڑے گا اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ الیکشن کے بعد آپ کو وہ اختیارات بھی مل جائیں جن پر گزشتہ موسم خزاں میں ٹرمپ نے بہت زور دیا تھا۔ 

ریپبلکن پارٹی اس مقبول بل کو پاس کروانے کے بجائے محض تقریروں میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کرے گی تو بہتر ہو گا کہ آپ اپنے معاشی ایجنڈا کو پاس کرانے کے لیے مصالحت پسندی سے کام لیں اور جو بائیڈن کا اعتدال پسندی کا امیج بحال کرنے کی کوشش کریں۔ اگر لگے کہ ایمرجنسی تھیوری مایوسی کا باعث بن رہی ہے تو تزویراتی اندازِ فکر کا استعمال کرتے ہوئے اسی طرح کی اعتدال پسندی کی تھیوری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ مستقبل میں امریکی عوام کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کو کس قسم کے قانون کی مدد سے روکا جا سکتا ہے۔ (ان اصلاحات کا آغاز پیچیدہ الیکٹورل کائونٹ ایکٹ 1987ء سے کیا جا سکتا ہے) اگر یہ لگے کہ اعتدال پسندی کی تھیوری زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتی تو اس سے عدم دلچسپی کامظاہرہ کرنے والے ان ریپبلکن ارکان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا جو ڈونلڈ ٹرمپ کو غیر موثر کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور انہوں نے خود کو قائل کر لیا ہے کہ ٹرمپ کو 2020ء والے گھنائونے کھیل کو ری پلے کرنے سے روکنے کا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کی کھل کر مخالفت نہ کی جائے۔ یہ طریقہ بھی بزدلی میں شمار ہو گا جس نے ریپبلکن قیادت میں سے لزچینی کو آگے آنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم کچھ دیر کیلئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں‘ یہ تقسیم اور لبرلزم کا خوف ریپبلکن ارکان کو مسابقت پسندی پر مجبور کرے گا۔ 

اس صورت میں جیسے کہ گزشتہ ماہ اینڈریو پراکوپ نے نشاندہی کی اگر ریپبلکن پارٹی کی داخلی سیاست کے پیش نظر اینٹی ٹرمپ ازم پر ریفرنڈم کرایا گیا تو اس سے ان کی پاورکو بھرپور کوریج ملے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس وقت ایک بدترین صورت حال میں پھنسے ہوئے ان کے وفادار پرائمری الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر ان کی تباہ کن فیصلے کروانے کی استعداد میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ دوسری جانب اگر ذمہ دار قسم کے ریپبلکن عہدیدار ڈونلڈ ٹرمپ کو نظر انداز کر دیں تو وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ انہیں منظر سے ہٹا دیں۔ بفرض محال اگر وہ دوسری مرتبہ بھی صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ عہدیدار اسی طرح کا کردار نبھانے کے لیے پارٹی کے اندر موجو دہوں گے جیسا کہ انہوں نے 2020ء کے بعد کی صورت حال میں نبھایا تھا جب کسی اہم ریپبلکن گورنر یا وزیر خارجہ نے ٹرمپ کے الیکشن کے نتائج کو الٹنے کے مطالبے کی حمایت نہیں کی تھی۔  میں آپ کو یہی بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان تینوں اپروچ میں سے کون سی ٹرمپ کو روکنے میں زیادہ بہتری سے کامیاب ہو سکتی ہے اور کون سی بری طرح ناکام ہو گی۔ حقیقت یہی ہے کہ ٹرمپ کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہا پسندی، اعتدال پسندی اور دانستہ گریز کی تینوں اپروچز معقول نظر آتی ہیں۔ اس بات کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ حیرانیوں کے اس عہد میں اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ آج اور 2024ء کے درمیانی عرصے میں کچھ ایسے واقعات رونما ہو جائیں جو ان تینوں اپروچز کو غیر موثر اور غیر اہم بنا دیں۔ 

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ )

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement