افغان پائلٹ کا فرار
تحریر: ڈیوڈ زکینو
میجرنعیم اسدی کی فیملی رات بھر کی بے سکون نیند کے بعد صبح بیدار ہوئی‘انہوں نے جلدی سے نئے کپڑے پہنے اور اپنی قیمتی اشیا دو سوٹ کیسز اور بیک پیکس میں رکھیں ۔اسدی کی فیملی اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے والی تھی‘ ایک ایسا فیصلہ جو انہیں ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں اور اپنے ملک سے جدا کرنے والا تھا۔جب اسدی اور اس کی بیوی رحیمہ نے اس مہینے کے شروع میں اپنا سامان باندھا تو انہیں خوف تھاکہ بہت سی ان دیکھی رکاوٹیں ان کی نئی منزل کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ افغان فضائیہ کا ہیلی کاپٹر پائلٹ میجر اسدی اپنی بیوی اور پانچ سالہ بیٹی زینب کے ہمراہ پچھلے سات ماہ سے روپوش تھا۔طالبان نے اسے مارنے کی دھمکیاں دی تھیں اور ا س کی تصویر اس ہدایت کے ساتھ سوشل میڈیا پر لگا رکھی تھی کہ یہ جہاں ملے اسے قتل کردو۔سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ا س کاتعلق ہزارہ قبیلے سے تھاجن پر طالبان اور داعش کے لو گ متعدد مرتبہ حملے کر چکے ہیں۔ نسلی اقلیت سے تعلق پر میجر اسدی کو ایئر فورس میں بھی امتیاز ی سلوک کا سامنا تھا۔طرفہ تماشا یہ کہ اس کے کمانڈرز بھی اس کی غیر حاضری پر اس سے شدید برہم تھے۔اسے باربار ڈیوٹی پر رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا مگر ا س نے تعمیل کرنے سے انکا رکر دیا۔اسدی نے بتایا کہ مجھے خدشہ تھا کہ وہ مجھے کبھی جانے کی اجاز ت نہیں دیں گے کیونکہ ا س طر ح تو ہر پائلٹ امریکہ جانا چاہے گا۔
32سالہ میجر اسدی جو ایک کسان کا بیٹا ہے افغان ملٹری آفیسرز اکیڈمی کا گریجویٹ ہے ۔اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے سب سے زیادہ طالبان جنگجو مارے ہیں اور اب وہ ہمیشہ کے لیے اپنا آبائی ملک چھوڑنا چاہتا تھا۔اس کے ہاتھ میں تین پاسپورٹ تھے ۔ہر پاسپورٹ کے ایک صفحے پر ابراہام لنکن کی تصویر والی مہر لگی تھی جو اسے امریکہ جانے کااجازت نامہ تھا۔ اس پر لکھا تھا کہ حامل ہذا کو یو ایس سی آئی ایس نے ایک سال کے پیرول کی اجازت دی ہے۔ ایک امریکی وکیل نے فیملی کو انسانی بنیاد پر پیرول لینے میں مدد کی تھی ‘اب وہ ایک سال کے لیے امریکہ جا سکتے تھے‘مگر امریکی فوج نے اس کی ایک ایسی ہی درخواست منسوخ کر دی تھی جسے اکتوبر میں منظو رکیا گیا تھا۔پینٹا گان کے ترجمان میجر رابرٹ لوڈ وک نے بتایاکہ پائلٹ کی درخواست کے بارے میںپتہ چلا کہ اس کی وزارت دفاع نے پوری طرح جانچ پڑتال نہیں کی تھی؛ چنانچہ ڈپارٹمنٹ کی سفار ش واپس لے لی گئی۔ اس طرح وزارت دفاع کو بھی میجر اسدی کے فرار میں سہولت کار سمجھا جاتا کیونکہ اس نے اپنی پیرول کی درخواست کے بارے میں اپنی چین آف کمانڈ کو اطلاع نہیں دی تھی۔ افغان ائیر فورس کے ترجمان نے کہا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس نے اپنی مادرِ وطن کی خدمت سے فرار کی کوشش کی ہے۔اب دوسرے لو گ بھی یہی کچھ کریں گے۔
امریکی فوج کے انخلا کے بعد اب زمینی فوج کی مدد کی ذمہ داری افغان فضائیہ پر ہوگی اس لیے اسدی کے فرار نے یہ سوال اٹھا دیا کہ اگر ایک اہم فائٹر پائلٹ کو اپنی پوسٹ سے جانے کی اجاز ت دی گئی تو باقی پائلٹ اور فوجی کیا سوچیں گے؟بہت سے پائلٹس اور فوجیوں کو طالبان نے دھمکیاں دی ہیں‘ وہ بھی اپنی فیملیز کو امریکہ بھیجنے کے خواب دیکھیں گے۔میجر اسدی نے تسلیم کیا کہ اس کے ا س عمل سے فورسز کا مورال گرے گا مگر ان کا کہنا تھا کہ میں نے یہ سب کچھ اپنی اور اپنی فیملی کے تحفظ کے لیے کیا ہے ۔میں نے ا س لیے ڈیوٹی کے لیے رپورٹ نہیں کیا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ مجھے ڈیوٹی سے بھاگنے کے جرم میں حراست میں لے لیا جائے گا۔اس نے مزید بتایا کہ میں پچھلے سال لازمی سروس کے دس سال پورے کر چکا ہوں اور ان میں سے آٹھ سال بطور پائلٹ تین ہزار گھنٹوں کی فلائٹس کے علاوہ کئی حملوں کے مشنز میں شرکت کر چکا ہوں۔میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے جن لوگوں کے لیے سروس کی ہے وہ ان کے لیے ایک ہیرو تھے۔
ایئر فورس کیپٹن رابرٹ یوسٹ نے ا س کی درخواست پر لکھا کہ میجر اسد ی نے کئی مرتبہ انسانی جانوں کو بچایا تھا۔شمالی کیرولائنا میںمقیم انسانی حقوق کی ایک وکیل مس کمبرلے موٹلے کہتی ہیں کہ جب اکتوبرمیں ان کی درخواست منسوخ ہو گئی تھی تو ان کی فیملی کے پاسپورٹ امریکی فوج کے حوالے کر دیے گئے۔خوف زدہ میجر اسدی نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جس نے امریکی فوج کے بگرام ایئر بیس پر ا ن کی فیملی کے قیام کا انتظام کیاتھا۔دسمبر میں امریکی کمانڈرز نے فیملی کو ایئر بیس چھوڑنے کا حکم دے دیا تو مس موٹلے نے کمانڈرز کو آمادہ کیا کہ وہ اسدی کی فیملی کے پاسپورٹ واپس کر دیں۔پھر اس کی فیملی کابل میں ایک محفوظ ٹھکانے پر شفٹ ہوگئی۔میجر اسدی نے بتایا کہ ہم ہر وقت یہی دعائیں مانگتے تھے کہ کسی طرح بچ کر امریکہ پہنچ جائیں۔
یکم جون کو اسدی اور ا س کے اہل خانہ ایک جیپ میں کابل ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے ۔ایک ایئر لائن کے حکام نے ان کے کاغذات قبول کرلیے جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک دن پہلے ان کا جو کوروناٹیسٹ ہوا تھا وہ منفی آیا ہے۔پھر شیشے کے ایک بوتھ میں بیٹھے امیگریشن افسر نے تینوں کے پاسپور ٹس پر لگی مہروں کو ایک محدب عدسے کی مدد سے چیک کیا اور پھر انہیں جانے دیا۔
مس موٹلے نے بتایاکہ میں نے گزشتہ مہینے پینٹا گان کی توثیق کے بغیر میجر اسدی کے لیے انسانی بنیاد پر دوبارہ پیرول کی منظوری حاصل کی اور اسدی کی فیملی کے ہمراہ پہلے کابل سے دبئی او رپھر ا س فیملی کی نئی زندگی کی خاطر وہاں سے نیو یارک تک گئی۔میجر اسدی کے گمنام سپانسر نے اسدی فیملی کی نیو جرسی میں رہائش اور سفری اخراجات کا بند وبست کیا تھا۔ مس موٹلے نے بتایا کہ جب یہ فیملی امریکہ پہنچ جائے گی تو وہ وہاں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔جہا زمیں سوا رہو کر میجر اسدی نے غزنی میں مقیم اپنے والدکو فون کیا او ربتایا کہ وہ امریکہ جا رہا ہے ۔ پیرول کی درخواست سے منسلک ایک خط کی کاپی کے مطابق پچھلے سال طالبان نے ا س کے والدکو پہلے خط لکھااور پھر فون کیا کہ اپنے بیٹے کو ہمارے حوالے کر دو یا پھر موت کے لیے تیار ہو جائو۔جب ا س کے والدکو پتہ چلا کہ وہ بحفاظت یہاں سے نکل گیا ہے تو وہ بے اختیار رونے لگا۔
دوجون کی سہ پہر ایمریٹس ایئر لائنز کی فلائٹ نیویارک ایئر پورٹ پر اتری تو اسدی فیملی کو کسی وکیل کے بغیر ہی ایک امیگریشن افسر کے سامنے پیش کر دیا گیا جس نے 45منٹ بعد انہیں انٹری کی اجازت دے دی۔نعیم اسدی کی فیملی نے امریکی سرزمین پر قدم رکھا تو وہ بڑے محتاط مگر پرعزم نظر آرہے تھے۔ میجر اسدی کا کہنا تھا کہ میں واقعی زیادہ تھکا ہوا نہیں ہوں کیونکہ اب ہم بالکل ہی نئے انداز سے زندگی کا خوبصورت آغاز کرنے والے ہیں۔ انتہائی نفاست سے لکھے خط میں میجر اسدی نے امریکہ اور افغانستان میں رہنے والے ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس کی مدد کی تھی۔اس نے لکھا کہ تمہارا عزم ایک چنگھاڑتے ہوئے سمندر اور بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے اور تمہاری محبت اور شفقت آسمان کی بلندیوں سے ارفع اور زمین سے زیادہ وسیع تر ہے ۔
(بشکریہ : نیویارک ٹائمز، انتخاب : دنیا ریسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)