ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان امریکا کی مجبوری ہے …(1)

تحریر: رابرٹ کیٹس

آنے والے چند ہفتوں میں امریکی آرمی کے آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل جائیں گے اور اس طرح بیس سال قبل‘ اکتوبر 2001ء میں شروع ہونے والی وہ طویل جنگ آخرکار اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی جس میں امریکا کے 2300 بہترین فوجی مارے گئے اور 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس جنگ کے براہِ راست نتیجے میں 71 ہزار سے زائد افغان اور پاکستانی سویلین بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہمیں اس جنگ کی بھاری مالی اور جانی قیمت چکانا پڑی ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ خونریزی کا یہ دردناک باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے، مگر ہم افغانستان کو اس کے اپنے حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ نہ صرف اپنے فوجیوں اور افغان حواریوں کی بے توقیری ہو گی بلکہ سب سے اہم بات یہ کہ ایسا کرنا امریکا کے قومی مفاد میں بھی نہیں ہو گا۔

شاید اب ہمیں یاد کرنے میں کچھ مشکل پیش آئے مگر امریکا کو 2001ء میں طالبان کو افغانستان سے نکالنے میں صرف دو مہینے کا وقت لگا تھا اور یہ بھی امریکی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ ہم نے القاعدہ کو ایک انتہائی مختصر فوجی مہم کے دوران کچل کر رکھ دیا تھا۔ دوسری جانب اگر سفارتی محاذ پر دیکھا جائے تو دسمبر 2001ء میں بون معاہدے کی رو سے تمام افغان فریقوں اور عالمی قوتوں کے درمیان اس بات پر مکمل اتفاقِ رائے ہو گیا تھا کہ کابل میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جس میں تمام افغان قومیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کوبھی بھرپور نمائندگی حاصل ہو۔ یہ حکومت ہر طرح کی کرپشن سے پاک ہو اور افغان سرزمین پر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تمام مسلح گروہوں کو اپنے کنٹرول میں رکھے۔ اتنے بڑے اہداف کے ساتھ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کے بیج بو دیے گئے۔

اگر ہم اس سارے قضیے کو صراحت سے سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں افغانستان میں امریکا کی مداخلت کے ابتدائی برسوں کو اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جارج ڈبلیو بش کی حکومت کا افغانستان میں فوجی مداخلت کا فیصلہ ہر لحاظ سے حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے قومی سلامتی کے مشیر سٹیو ہیڈلے نے بعد میں ہونے والی ایک ملاقات میں مجھے بتایا تھا کہ صدر بش کی حکومت کا ایک پختہ تاثربن گیا تھا کہ 1989ء میں جب سوویت یونین نے ہزیمت اٹھانے کے بعد افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے بعد وہاں طاقت کا ایسا خلا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا جس نے بعد میں ایک خانہ جنگی کے سے حالات پیدا کر دیے تھے۔ اس خانہ جنگی نے آگے چل کر طالبان کو افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر نے کا موقع فراہم کر دیا۔

 جب نائن الیون حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تو بش حکومت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھی کہ اگر ہم نے طالبان حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد افغانستان کو ایک بار اس کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تو ایک بار پھر وہاں طاقت کا خلا پیدا ہو جائے گا اور انتہا پسندوں کو دوبارہ مراجعت کا موقع ملنا یقینی امر ہو گا؛ تاہم فرق یہ تھا کہ 1990ء کی دہائی کے برعکس 2001ء کے آخر میں تمام افغان فریقوں اور عالمی برادری کے درمیان اس با ت پر اتفاقِ رائے پایا جاتا تھا کہ افغانستان میں آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ یہ امر کافی حوصلہ افزا تھا کہ 2002 سے 2005ء کے عرصے میں افغانستان میں حالات کافی بہتر رہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سکول کھلے تھے، خواتین کاروبار اور سیاسی عمل میں بھرپور اندازمیں حصہ لے رہی تھیں جبکہ بڑی تیزی سے ایک آزاد اور اوپن میڈیا بھی پروان چڑھ چکا تھا۔ پورے ملک میں تشدد کی فضا میں خاصی کمی دیکھی جا رہی تھی اور حالات اس حد تک بہتری کی طرف مائل تھے کہ خون ریزی سے بچنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر جانے والے افغان مہاجرین کی اکثریت اپنے وطن واپس آ گئی تھی۔

حیران کن طور پر امریکی حکومت اس امر کا ادراک نہ کر سکی کہ طالبان‘ جن کی حکومت کو 2001ء میں ختم کر دیا گیا تھا‘ ایک بار پھر پاک افغان سرحد پر قبائلی علاقے میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور انہوں نے عسکری طور پر خود کو ایک بار پھر مضبوط اور منظم کر لیا تھا۔ انہوں نے دوبارہ جنوب مشرقی افغانستان میں بلا رکاوٹ چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دی تھیں اور ان کے ساتھ جھڑپوں میں امریکی اور افغان فورسز کو شدید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 2005ء اور 2006ء کے دوران ایک بار پھر افغانستان میں جاری تشدد میں شدت پیدا ہوگئی۔ صورتِ حال اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب فاٹا کے قبائلی عمائدین کی 2006ء کے موسم خزاں میں ایک ڈیل کے نتیجے میں طالبان کو ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا۔حتیٰ کہ جب امریکی، اتحادی اور افغان فورسز نے سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی‘ جس کے تحت 2007 سے 2010ء کے عرصے میں بھاری تعداد میں فوج بھی تعینات کی گئی تھی تو کرپشن، نااہلی، کابل میں حکام کی باہمی چپقلش، صوبوں اور اضلاع میں ہونے والی لڑائیوں نے عام افغان شہری کو امورِ سلطنت سے بالکل ہی لاتعلق یا حکومت مخالف کر دیا تھا۔ امداد ی پروگرام کے تحت ملنے والے ڈالروں، تعمیراتی کنٹریکٹس کے ساتھ منشیات کی تجارت نے ملک میں کرپشن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن اور بدعنوانی کی لعنت افغان معاشرے میں اس حد تک سرایت کر گئی کہ افغان سکیورٹی فورسز بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر ترقی حاصل کرنے کے لیے منہ مانگے پیسے مانگے جانے لگے۔ اعلیٰ افسران فوجیوں کی تنخواہیں تک چوری کرنا شروع ہو گئے۔ فوج کا جدید اسلحہ چوری ہو کر کھلے عام بلیک مارکیٹس میں فروخت ہونے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان فوجیوں کی اکثریت اپنے مادرِ وطن کے دفاع اور تحفظ کے لیے طالبان کے خلاف بڑی بہادری سے لڑی مگر ایسے بھی افغان فوجی تھے جن کے لیے اس لڑائی میں کوئی کشش یا رغبت نہیں تھی۔

جب 2009ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کا اعلان کیا، میرے خیال میں جس کا اصل مقصد افغانستان سے مرحلہ وار انخلا کی راہ ہموار کرنا تھا تو انہوں نے فوجی کمانڈرز کو بتایا تھا کہ اگر (ایک لاکھ امریکی فوج کی مدد سے) پانچ سال بعد بھی افغانستان میں ہم افغان فوج کے ذریعے اتنے عسکری مقاصد بھی حاصل نہ کر سکے کہ وہ طالبان کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کر سکیں تو ہم کبھی بھی وہاں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ (جاری) 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement