ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان امریکا کی مجبوری ہے …(2)

تحریر: رابرٹ گیٹس

امریکی افواج کو افغانستان میں جو بھی ملٹری مشن دیا گیا‘ انہوں نے اسے پورا کیا، فوجی، سیلرز، ایئرمین اور میرینرز‘ سب نے اپنے فرائض بہادری، حوصلے اور مہارت سے سرانجام دیے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور کیا کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ انہوں نے طالبان کو حکومت سے نکال باہر کیا اور آخرکار اسامہ بن لادن کو بھی قتل کر دیا۔ ممکن ہے کہ طالبان پھر زور پکڑ رہے ہوں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ 2001ء کے بعد امریکا پر کوئی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا۔ 2004ء کے بعد افغان عوام نے ناقص ہی سہی مگر مسلسل انتخابات منعقد کرائے ہیں۔ افغان شہری طالبان سے جنگ کرنے کے لیے فوج اور پولیس میں اپنی رجسٹریشن کر وا رہے ہیں (گو کہ زیادہ تر لوگ یہ کام اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے کر رہے ہیں) افغان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو پبلک لائف میں شرکت کی اجازت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا نے افغانستان میں کئی تزویراتی غلطیاں کی ہیں۔ ہم نے ایک قدیم کلچر کو تبدیل کرنے اور تاریخی طور پر ایک بکھرے ہوئے ملک کو ایک قوم میں ڈھالنے کے چیلنج کو بہت آسان سمجھا۔ ہم نے افغانستان سے باہر طالبان کے ٹھکانوں کے بارے میں بھی درست اندازے نہ لگائے۔ ہم نے اپنے لیول کے مطابق افغان فوج تیار کی اور اس کے لیے جدید ترین لاجسٹک اور آلات پر انحصار کیا اور افغان فوج ان سب کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ صدر اوباما، صدر ٹرمپ اور صدر جو بائیڈن‘ سب لوگ امریکی فوجیوں کو واپس لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی جو اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے تھے مگر ان صدور کو اس فیصلے کے دیرپا نتائج کو بھی پیش نظر رکھنا تھا۔ خطے کے جیو سٹریٹیجک حقائق کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ اگرچہ ہماری افواج یہاں سے واپس جا رہی ہیں مگر ہم افغانستان کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ ہی نیٹو افواج ایسا کر سکتی ہیں جو خطے سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہی ہیں۔

درایں اثنا طالبان فورسز دیہی علاقوں پر حملے کر رہی ہیں اور بڑے شہروں کے اردگرد بھی پُرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ فورسز 2500 سے 3500 امریکی فوجیوں کی موجودگی میں بھی مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔ اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ جب امریکی افواج مکمل طور پر افغانستان سے واپس چلی جائیں گی تو یہاں کی صورتحال کس قدر سنگین ہو جائے گی۔ اگر چہ امریکا، کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ کیا طالبان جزوی فتح یا کسی مخلوط حکومت میں شرکت پر رضامند ہو جائیں گے؟ وہ کابل حکومت پر اپنا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور ان کے ابھی تک القاعدہ کے ساتھ بھی روابط قائم ہیں۔ اگر ایک مرتبہ وہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ چین کے ساتھ بھی رابطہ کر سکتے ہیں اور اپنی حکومت تسلیم کیے جانے کے بدلے وہ چین کو اپنے معدنی وسائل تک رسائی کی پیشکش کر سکتے ہیں اور اس طرح افغانستان چین کو اس بات کی جازت بھی دے سکتا ہے کہ وہ ایران تک ایک اور بیلٹ اینڈ روڈ لنک قائم کر لے۔ یہاں ایک اور دلچسپ پہلو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ کئی تجزیہ کار یہ استدلال دیتے ہیں کہ اگر طالبان ایک مرتبہ پھر سے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ اپنی پالیسیوں اور نظریات میں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں گے تاکہ عالمی برادری ان کی حکومت کو افغان عوام کی جائز نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کر لے اور اسے معاشی ترقی میں مالی مدد فراہم کرے لیکن ہم یہ کیسے فرض کر لیں کہ وہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو اپنے ہاں محفوظ ٹھکانے نہیں قائم کرنے دیں گے جن کا سب سے بڑا ہدف امریکا کو نقصان پہنچانا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے ہی افغانستان میں ان کی حکومت ختم کی تھی اور وہ گزشتہ 20 سال سے اسی کے خلاف جنگ میں بھی مصروف ہیں۔

اگر ہم طالبان کی فتح کے نتائج کو پیش نظر رکھیں اور اس امر کے باجود کہ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح یہ طویل اور نہ ختم ہونے والی جنگ اپنے انجام کو پہنچے‘ ہمیں افغان حکومت اور عوام کو بھاری مقدار میں مالیاتی اور کثیر جہتی سکیورٹی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔ اگر عسکری نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں افغان حکومت کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی جاری رکھنی چاہئے تاکہ وہ افغان ایئر فورس اور افغان سکیورٹی فورسز کے لاجسٹک اور آپریشنل عناصر سے منسلک کنٹریکٹرز کو اپنے ساتھ شامل رکھیں اور اس تعاون کے بدلے میں ہمیں انہیں مالی مدد فراہم کرنی چاہئے۔ دور دراز علاقوں میں قائم امریکی اڈوں سے فضائی حملوں کے نتیجے میں طالبان کی زمینی پیش قدمی میں کمی آ سکتی ہے البتہ اسے مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ صرف زمینی فورسز ہی ان کی پیش قدمی کا قلع قمع کر سکتی ہیں۔

سیاسی حکمت عملی کے طور پر ہمیں طالبان کے خطرے سے بچنے کے لیے اس امر پر اصرار کرنا چاہئے کہ افغانستان میں تمام پارٹیوں اور گروہوں کی شمولیت سے ایک ایسی مضبوط قومی حکومت تشکیل دی جائے جس میں طالبان شامل نہ ہوں۔ معاشی طور پر دیکھا جائے تو ہم ایک انٹرنیشنل افغان ڈویلپمنٹ فنڈ بھی قائم کر سکتے ہیں جو وہاں اصلاحات یا کسی ایسے معاہدۂ امن سے مشروط ہو جس میں خواتین کے حقوق اور دہشت گرد عناصر سے مکمل لاتعلقی کی یقین دہانی شامل ہو۔

اگر امریکی مفادات کے تناظر میں بات کی جائے تو افغانستان کی صورتِ حال کے نتائج ہمارے لیے اب بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جب 1989ء میں سوویت یونین افغانستان سے نکلا تھا تو ہم نے بھی افغانوں سے منہ موڑ لیا تھا اور ان کی خبر تک نہ لی۔ موجودہ حالات میں ہمیں اپنی وہی پرانی غلطی نہیں دہرانی چاہئے۔ ہمیں اپنی فوجیوں کی عدم موجودگی میں بھی ان کی ہر طرح کی سپورٹ جاری رکھنا ہو گی۔ اگر ایک مرتبہ پھر شدت پسند عناصر افغانستان میں اپنے پنجے جمانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے اثرات صرف افغان عوام تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement