ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران سے ایٹمی معاہدے پر پیش رفت

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی بحالی پر اتفاقِ رائے پیدا ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی اپریل کے بعد اس ہفتے ویانا میں ایرانی سفارتکاروں کے ساتھ مذاکرات کا چھٹا دور شروع کرنے والے ہیں۔ یہ ایک اچھی خبر ہے۔ یہ ایٹمی معاہدہ‘ جس کا پورا نام جائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن ہے‘ بعض اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے بدلے میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر کئی اہم اور کڑی شرائط لاگو کرتا ہے مگر اس معاہدے میں کچھ ایسی بنیادی شقیں بھی شامل ہیں جو ایک خاص مدت کے بعد منسوخ ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل کے کچھ ایسے اہم پہلو بھی ہیں جنہیں ایسے معاہدوں کی راہ ہموار کرنی ہے جن کی مد دسے اور خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا راستہ روکا جا سکے۔

ایک آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ایک فری زون قائم ہو جائے گا۔ جو بائیڈن کی حکومت بظاہر اس امر کو بخوبی سنجھتی ہے اور اسی بنا پر اس نے مستقبل میں ایک طویل اور ٹھوس معاہدہ کرنے کے ضمن میں اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس راہ میں بہت سی سنگین مشکلات حائل ہیں مگر ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے لیے فضا کافی سازگار دکھائی دیتی ہے۔ ایران کے روحانی لیڈر‘ جن کے ہاتھ میں ملک کا حقیقی اقتدار اور اختیار ہے‘ کا کہنا ہے کہ وہ اگست میں حسن روحانی کی جگہ نئے صدر کے انتخاب سے پہلے اس معاہدے کی بحالی کے خواہش مند ہیں۔ صدر حسن روحانی نے کئی حلقوں کی مخالفت کے باوجود 2015ء میں بارک اوباما حکومت اور کئی دیگر ممالک‘ جن میں چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی شامل ہیں‘ کے ساتھ یہ ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا اور ایران پر لگی معاشی پابندیاں بحال کر دی تھیں جس کے نتیجے میں  ایرانی شہریوں کو ادویات بشمول کووڈ ویکسین حاصل کرنے میں سخت مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جمعہ کے روز ایران میں صدارتی الیکشن ہو رہے ہیں اور عام تاثر یہی ہے کہ صدر حسن روحانی کے بعد ایرانی عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر منتخب ہو جائیں گے جو حسن روحانی کے مقابلے میں زیادہ سخت گیر نظریات کے حامل ہیں۔ اگر اس وقت امریکا اور ایران کے درمیان کوئی ایٹمی معاہدہ ہو جاتا ہے تو نئے صدر ابراہیم رئیسی کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر اس معاہدے کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں گے یا پھر یہ قضیہ ایک بار پھر دفن ہو جائے گا۔ 2015ء کے معاہدے کے تحت ایران اس بات پر رضامند ہو گیا تھا کہ وہ اپنے پاس جوہری مواد کی مقدار کو محدود کرے گا اور اس کی افزودگی کو صرف اس حد تک رکھے گا جسے ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال نہ کیا جا سکے مگر ایران کے ایٹمی ایندھن کی پیداوار پر لگنے والی یہ شرائط صرف 2030ء تک ہی لاگو رہیں گی جس کے بعد ایران انٹرنیشنل انسپکٹرز کی نگرانی میں ایٹمی مواد کو صنعتی پیمانے پر افزودہ کرنے میں آزاد ہوگا۔ اس امرکا امکان نہایت معدوم ہے کہ ایران کوئی ایسی دیر پا شرائط ماننے پر آمادہ ہو جائے جو صرف اسی پر ایک علاقائی طاقت ہونے کے ناتے عائد کی جائیں۔ ہدف تو یہ ہونا چاہئے کہ خلیج فارس کے اردگرد واقع تمام ممالک ایٹمی مواد کی عدم افزودگی کے ایک ہی معیار کی پاسداری پر متفق ہو جائیں تاکہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ایک مؤثر فری زون تشکیل دیا جا سکے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے والی تباہ کن ہتھیاروں کی دوڑ کی روک تھام کی جا سکے۔ شاید اختلافِ رائے رکھنے والے اس بات کو ناقابل عمل کہہ کر مسترد کر دیں کیونکہ اسرائیل کے پاس غیر علانیہ طور پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور وہ ان پر کوئی بات چیت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے مگر ایران اور اس کے عرب ہمسایے سعودی عرب کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کا ایک سلسلہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات بھی گزشتہ سال انٹرنیشنل حفاظتی پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے سویلین نیوکلیئر پلانٹ لگانے والا پہلا عرب ملک بن چکا ہے۔

 ایران فرانس میں قائم ایک یورینیم کنسورشیم کا بانی سرمایہ کار بھی ہے مگر ایران میں 1979ء میں انقلاب آنے کے بعد اسے کبھی جوہری ایندھن فراہم نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے ایک واضح مشکل یہ ہے کہ خطے کے ممالک میں پائی جانے والی مخاصمت ایک علاقائی بالادستی کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایران دمشق، یمن اور لبنان کی پراکسی تنظیموں کی حمایت کرتا ہے اور جب امریکا اور نیٹو فورسز افغانستان سے نکل جائیں گے تو افغانستان میں بھی اس کا اثر و رسوخ بڑھنے کا یقینی امکان ہے۔ ٹرمپ حکومت میں اس امکان کو ایٹمی پروگرام سے بھی بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ جب امریکا نے ایران کے ساتھ معاہدے سے انخلا کا اعلان کیا تھا تو اس نے جو درجن بھر شرائط ایران پر لاگو کی تھیں ان میں سے صرف چار شرائط کا تعلق ایٹمی ہتھیاروں سے تھا۔ ایک کے سوا باقی سب شرائط کا تعلق ایران کے پورے مشرقِ وسطیٰ میں موجود ملیشیاز کی حمایت کرنے سے تھا۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس آ جاتا ہے تو وہ ایران کے خطے میں کردار سمیت تمام امور پر بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس سال کے شروع میں ایرانی اور سعودی حکام بھی مذکرات کے کئی دور کر چکے ہیں جن کا مقصد خطے میں کشیدگی میں تخفیف کرنا ہے اور یہ حالیہ برسوں میں پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔ جس قسم کی عدم اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ خلیج فارس میں پُرامن جوہری تعاون کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے مگر ہمیں ا س امر کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کبھی ایران اور سعودی عرب کے مابین قریبی تعلق بھی رہا ہے حتیٰ کہ دونوں ممالک 2001ء میں ایک سکیورٹی پیکٹ پر بھی دستخط کر چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں کوئی بھی پالیسی خطرات سے مبریٰ نہیں ہو گی مگر جب تک ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے اور دنیا کے خطرناک ترین خطے میں ایٹمی ہتھیاروں سے پاک فری زون قائم کرنے کے چانس کی بات ہے تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ چانس لینے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement