ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

دو ویکسین کے امتزاج سے علاج

تحریر: رخسانے خامسی

جب کووڈ پھیلا تو یہ واضح نہیں تھا کہ کیا ریسرچرز اس کی سنگل ڈوز ویکسین بنا پائیں گے مگر حیران کن طور پر اب مختلف قسم کی ویکسینز کی مدد سے امیونٹی کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک تو ویکسین کی سپلائی یقینی نہیں ہوتی اور اوپر سے ایک ویکسین کے استعمال سے خون میں کلاٹ بننے کے رسک کے بعد اب دنیا کے مختلف ممالک میں پبلک ہیلتھ کے حکام نے کووڈ کی مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانے کے حوالے سے نئی گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں، مثال کے طور پر کینیڈا کی نیشنل ایڈوائزری کمیٹی برائے امیونائزیشن نے اپنی گائیڈ لائنز کو اَپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن لوگوں نے پہلی ڈوز آسٹرازینکا کی لگوائی ہے وہ دوسری ڈوز بھی اسی کی یا اس کے بجائے فائزر کی یا ماڈرنا کی بھی لگوا سکتے ہیں۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ فائزر اور ماڈرنا کو پہلی اور دوسری ڈوز کے طور پر بھی لگوایا جا سکتا ہے۔ فرانس سے فن لینڈ اور چین سے بحرین تک‘ تمام ممالک نے دو مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانے کے بارے میں گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں۔ سنٹرز فار ڈیزیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے بھی عبوری گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہنگامی صورتِ حال میں اگر ایک ویکسین کی دونوں ڈوز دستیاب نہ ہوں تو دوسری ڈوز کسی مختلف ویکسین کی بھی لگائی جا سکتی ہے۔ یہ گائیڈ لائنز پریشان کن بھی ہو سکتی ہیں خاص طور پر جب پہلی گائیڈ لائنز میں دونوں ڈوز ایک ہی ویکسین کی لگوانے کیلئے کہا گیا ہو۔ 

 کیا دو مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانا محفوظ رہے گا، نیز یہ کہ کیا دو مختلف ویکسین لگانا زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے؟ حال ہی میں 26 لوگوں پر ایک نئی سٹڈی کی گئی ہے جنہوں نے پہلی ڈوز آسٹرازینکا کی لگوائی تھی اور دوسری ڈوز فائزر کی لگوائی تھی۔ ان لوگوں کے خون کے ٹیسٹ کیے گئے تو پتا چلا کہ ان لوگوں کا امیون سسٹم بھی اتنا ہی طاقتور تھا جتنا ان لوگوں کا تھا جنہوں نے دونوں ڈوز فائزر کی لگوائی تھیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے حال ہی میں کلینکل ٹرائلز شروع کیے ہیں جن میں کووڈ کی مختلف ویکسینز کے امتزاج کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔ برطانیہ میں آسٹرازینکا اور فائزر کے امتزاج کا ٹرائل پہلے ہی ہو رہا ہے اور ریسرچرز نے اس کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں ابتدائی ڈیٹا جاری بھی کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے دوسری ڈوز پہلی سے مختلف لگوائی تھی‘ ان میں بخار، سردی لگنے، تھکاوٹ اور سر درد کی شکایا ت ملی ہیں۔ جن لوگوں نے ایک ہی ویکسین کی دونوں ڈوز لگوائی ہیں ان میں کوئی سائڈ ایفیکٹ نہیں ملا۔  کیا اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دو مختلف ویکسینز سے امیون سسٹم زیادہ متحرک ہو جاتا ہے اور زیادہ تحفظ ملتا ہے‘ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اسی مہینے مزید نتائج آنے کی توقع ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ سائنسدانوں نے ویکسین کی ڈوز کے بارے میں غیر روایتی انداز میں تحقیق کی اور نہ ہی اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیق بعض وائرسز کے خلاف ہماری بہترین امید بھی بن سکتی ہے۔

گزشتہ دو عشروں کے دوران جب ویکسین کے بارے میں نئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آئی ہے ایک ہی وائرس کے خلاف مختلف ویکسین کے استعمال کا آئیڈیا تقویت پکڑ رہا ہے۔ سائنسدانوں نے اسے ہیٹرو لوگس پرائم بوسٹر کا نام دیا ہے اور اسے ایبولا، تپ دق اور کینسر کے خلاف ویکسین کی تیاری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس اپروچ کی روشنی میں ماضی میں چوہوں پر ہونے والے تجربات کو کورونا کے دیگر وائرسوں پر بھی ٹیسٹ کیا گیا۔مارچ 2021ء میں چین نے چوہوں پر ایک سٹڈی شائع کی جس میں کووڈ کی چار مختلف ویکسینز کا ٹرائل کیا گیا جن میں سے ایک RNA سے بنائی گئی تھی اور ایک وائرل ویکٹر ویکسین تھی جس میں آسٹرازینکا اور جانسن اینڈ جانسن کی کورونا ویکسین کی طرح کووڈ کے خلاف امیون سسٹم کو تقویت دینے کیلئے ایک غیر متحرک کولڈ وائرس کو استعمال کیا گیا تھا۔ مکس اینڈ میچ کی اپروچ کیوں؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب ہم کسی وائرس کے مختلف حصوں کے خلاف امیون سسٹم کو متحرک کرنے کیلئے دو مختلف قسم کی ویکسینز کو یکے بعد دیگرے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا جسم اس قدر ٹرینڈ ہو جاتا ہے کہ وہ حملہ آور وائرس کے مختلف حصوں کی شناخت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف زیادہ موثر انداز میں جسم کا دفاع کرتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ دو مختلف قسم کی ویکسین کے استعمال سے ہمارے امیون سسٹم کے مختلف عناصر متحرک ہو جاتے ہیں مثلاً وائرل ویکٹر ویکسین ہمارے امیون سسٹم کے اس حصے کو متحرک کرتی ہے جو ایک ایسا لشکر تخلیق کرنے میں مدد دیتا ہے جسے ’’کلرٹی سیل‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ حملہ آور وائرس کے خلاف ہمارے جسم کا دفاع کرتا ہے۔ دوسری ویکسینز وائرس کے خلاف تیزی سے اینٹی باڈیز بناتی ہیں۔ دونوں امیون سسٹم وائرس کے خلاف اپنا اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہیں جس کی بنا پر سائنسدان کہتے ہیں کہ اکیلے امیون سسٹم کے ردعمل کے بجائے دونوں کا امتزاج زیادہ بہتر اور مستند نتائج دے سکتا ہے۔

ویکسین ریسرچرز کئی عشروں سے اسی اپروچ پر اپنی تحقیق کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ امر بخوبی واضح ہے کہ کووڈ ویکسینز اپنے طور پر ہی وائرس کے خلاف کافی مؤثر ہیں اس لیے انہیں کسی دوسری ویکسین کے ساتھ ملا کر لگانے کی ضرور ت نہیں پڑتی؛ تاہم سائنسدانوں کو اس بات کا مشاہدہ جاری رکھنا چاہئے کہ مکس اینڈ میچ کے جو ٹرائلز جاری ہیں ان کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اور کیا اس اپروچ سے بہتر تحفظ کے بارے میں کوئی سگنل ملتے ہیں۔ اس ریسرچ سے دوسرے وائرسوں کے خلاف ویکسین بنانے میں بھی پیشرفت ہوسکتی ہے۔ اس وقت ویکسین بنانے کی کثیر جہتی ٹیکنالوجیز سامنے آ چکی ہیں۔ جیسے جب لوگ مل کر کام کرتے ہیں تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں اسی طرح مختلف ویکسینز کو ملا کر لگانے سے بھی زیادہ مؤثر نتائج مل سکتے ہیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement