ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

فرانس میں تخصیصی سلوک اور مسلمان فوجی… (1)

تحریر: نارمٹسو اونیشی

جنوبی لبنان میں واقع ایک فرانسیسی فوجی کیمپ کی مسجد میں وردی میں ملبوس 6 فوجیوں نے اس وقت اپنے سر جھکا لیے جب ان کے امام نے قرآنی آیات سے مزین سفید دیوار کے سامنے نماز کی امامت شروع کی۔ حال ہی میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد 6 فرانسیسی فوجی‘ جن میں پانچ مرد اور ایک خاتون شامل تھی‘ ملٹری کیمپ میں اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گئے جہاں انہوں نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے مسیحی ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھی اپنا روزہ افطار کرتے تھے۔ ان کے اپنے وطن فرانس میں‘ جہاں اسلام کو بطور مذہب معاشرتی طور پر کافی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ پوری قوم منقسم ہے اور ان فوجیوں کے بقول‘ یہاں اپنے مذہب پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ 31 سالہ سیکنڈ ماسٹر انوار‘ جو آج سے 10 سال پہلے فوج میں شامل ہوا تھا اور فرانسیسی فوج کے قوانین کے مطابق اپنے نام کے پہلے حصے سے ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ ماضی کے دو عشروں کے دوران جب مسلمان اپنی قوم میں ایک عظیم تر کردار ادا کرنے کے خواہاں تھے تو فرانسیسی حکام نے ملکی سیکولر ازم کی روشنی میں اپنی طرف سے سرتوڑ کوشش جاری رکھی کہ سماجی زندگی میں اسلام کی ترویج کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالی جائیں۔ 2004ء میں ایک قانون پاس کیا گیا جس کے تحت سرکاری سکولوں میں عبایا کو مذہبی شعار کے طور پر پہننا ممنوع قرار دے دیا گیا اور آنے والے برسوں میں فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور عوام کے طرزِ سلوک کے حوالے سے انتہائی تکلیف دہ بحث شروع ہو گئی۔ یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس ہی میں آباد ہیں۔

فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی طرف سے ایک نئے قانون کی توقع کی جا رہی ہے جس کے بعد ملک میں موجود مساجد پر نہ صرف حکومتی کنٹرول زیادہ سخت ہو جائے گا بلکہ نئی مساجد کا قیام بھی مشکل تر ہو جائے گا؛ تاہم فرانس کے ہی ایک اہم ادارے میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ ہے فرانسیسی فوج۔ فرانس کی مسلح فواج میں سیکولر ازم کی لبرل تشریحات کی روشنی میں دیگر مذاہب کی طرح اسلام کے بارے میں بھی نرم اور معتدل جذبات پائے جاتے ہیں۔ 2005ء میں فرانسیسی فوج میں مسلمانوں کے امام کو بھی ایک پادری جیسا مقام اور احترام دیا گیا تھا، پورے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں واقع فوجی کیمپوں میں مساجد قائم کی گئی تھیں جن میں جنوبی لبنان کا دیر کیفا فوجی کیمپ بھی تھا جہاں اقوام متحدہ کے امن مشن پروگرام کے تحت مدد کے لیے فرانس کے 700 فوجی تعینات ہیں۔ مسلمان فوجیوں کے لیے حلا ل کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمان فوجیوں کو چھٹی کی سہولت میسر ہے۔ کام کا شیڈول اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ فوج میں شامل مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع مل سکے۔ فوج فرانس کا ایک ایسا قومی ادارہ ہے جہاں مسلمان فوجی دیگر مذہبی عقائد کے حامل اپنے عسکری ساتھیوں کے ساتھ بڑی کامیابی سے رچ بس گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ فرانس میں بھی اسی ماڈل پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے اس کا موازنہ امریکی فوج کے ساتھ کیا ہے جو باقی ماندہ امریکی سوسائٹی سے آگے نکل گئی ہے جہاں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

ایک ایسا ملک‘ جہاں حکومتی اداروں میں اپنے مذہبی خیالات کا اظہار ممنوع قرار دیا گیا ہو‘ جہاں اسلام کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کو سوسائٹی اور قوم کے اتحاد کے لیے ایک خطرہ سمجھا جاتا ہو‘ خاص طور پر اس وقت جب 2015 ء میں یہاں مذہب کے نام پر متعدد بار حملے ہوئے ہوں‘ ایسے میں کسی فوجی کیمپ میں اسلام کے غیر متنازع مقام اور مرتبے کا اندازہ لگانا خاصا مشکل کام ہے۔ 22 سالہ کارپورل لیلیا جس نے عبایا پہن کر اپنی جمعہ کی نماز ادا کی تھی‘ نے مجھے بتایا ’’جب میں نے اپنے والدکو یہ بتایا کہ ہمارے فوجی کیمپ میں ایک مسلمان عالم بھی ہے تو انہیں میری بات کا یقین نہ آیا۔ انہوں نے مجھ سے تین مرتبہ پوچھا کہ کیا میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں؟ ان کا خیال تھا کہ وہ عالم یقینا کوئی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ پادری ہوگا‘‘۔

29 سالہ سارجنٹ اظہر نے بتایا کہ میں مسلمان ہونے کے ناتے امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہوئے جوان ہوا ہوں۔ جب میں فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے ایک ریستوران میں کام کرتا تھا تو مجھے اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ فوج میں رہتے ہوئے میرے لیے اپنے مذہب پر عمل کرنا آسان ہو گیا ہے اور کوئی میری وفاداری پر شک بھی نہیں کرتا۔ چونکہ فوج میں ہر طرح کے لوگ ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اس لیے باقی معاشرے کے مقابلے میں ہم ایک دوسرے کو زیادہ بہتر انداز میں جانتے اور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’فوج میں ہر مذہب، ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ ہوتے ہیں‘ اس لیے سب کو کھلے ذہن اور سوچ کے ساتھ اکٹھے رہنے کا موقع مل جاتا ہے مگر سویلین زندگی میں ایسا دیکھنے میں نہیں آتا‘‘۔

اس میں سب سے بنیادی کردار سیکولر ازم کا ہے جس میں چرچ اور ریاست دونوں جدا جدا ہوتے ہیں اور عرصے سے یہ فرانس کے سیاسی نظام کی روایت رہی ہے۔ 1905ء کے ایک قانون کے تحت ہر مذہب کے پیروکاروں کو مساوی حقوق کی ضمانت حاصل ہے مگر جوں جوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام رومن کیتھولک کے بعد فرانس کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے‘ اس لیے سیکولر ازم اس بات کی ضمانت بن کر سامنے آیا کہ عوامی زندگی میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہوگا حتیٰ کہ پورے فرانس میں کسی فرد کے مذہبی عقائد کو موضوعِ بحث بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

سیکولر ازم کے بارے میں ایک معروف مورخ فلپ پورٹیر کہتے ہیں کہ فرانس میں یہ وتیرہ رہا ہے کہ مذہب کو تمام سماجی عوامل کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے‘ خاص طور پر اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکولر ازم کی تعلیمات اور تشریحات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس فوج میں ہر فوجی جوان کے مذہبی عقائد کو اپنے ادارے کی روایات اور چلن کے مطابق ڈیل کیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’تنوع کو قبول کیا جاتا ہے کیونکہ تنوع ہی ہمارے اتحاد اور یگانگت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ دیگر فرانسیسی اداروں کے برعکس فرنچ آرمی میں یہ شعور پروان چڑھایا گیا ہے کہ اگر آپ فرد کے مذہبی عقائد اور نظریات کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرتے تو معاشرے میں یگانگت اور رواداری کو فروغ دینا ممکن نہیں ہو گا‘‘۔ فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سوسائٹی کے دیگر شعبوں کے برعکس ہم نے فوج میں سیکولر ازم کو سیاسی رنگ دینے سے احتراز کیا ہے۔ (جاری) 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement