ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

فرانس میں تخصیصی سلوک اور مسلمان فوجی …(2)

تحریر: نارمٹسو اونیشی

لبنان کے دیرکیف فوجی کیمپ ا کے امام جین جیکس کہتے ہیں کہ ’’درست اپروچ تو یہ ہے کہ سیکولرزم کو ایک نظریے کے بجائے ایک اصول کے طور پر لیا جائے۔ جب یہ نظریہ بن جاتا ہے تو ناگزیر طور پرمعاشرے میں عدم مساوات کا باعث بنتا ہے‘‘۔ اسی فوجی اڈے کے مسیحی پادری کارمین کہتے ہیں کہ ہماری فوج اس بات کا ثبوت ہے کہ سیکولرازم اس وقت تک بہت اچھاکام کرتا ہے جب تک اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ ’’ہم آج کل فرانس میں سیکولرزم کا اتنا ذکر کیوں کرتے ہیں؟اس سے اکثر مسائل پیدا ہوتے ہیں‘‘۔

2019ء میں فرانسیسی وزارتِ دفاع کی ملٹری میں سیکولر ازم کے بارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا تھا کہ مذہبی آزادی فوج کی سماجی شناخت یا کارکردگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔ معاشرے میں جس طرح سیکولرازم کی تشریح کی جاتی ہے اس کے برعکس یہ رپورٹ ایک ایسے پُرامن سیکولر ازم کو فروغ دیتی ہے جو ہر وقت خود کو ملک کے معاشرتی حقائق کے رنگ میں ڈھالنے میں مصروف رہتا ہے۔ وزارتِ دفاع میں ایک مشیر برائے عسکری اخلاقیات ایرک جرمین کہتے ہیں کہ ’’فوج سیکولرازم کے جس لبرل ماڈل پر یقین رکھتی ہے وہ انٹیلی جنس اور فائن ٹیوننگ کا سیکولرازم ہے‘‘۔ فوج میں مسلمانوں کی شمولیت دراصل فرانس کی اسلامی دنیا کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ پیرس میں قائم نیشنل کنزرویٹری آف آرٹس اینڈ کرافٹس کے مسلم اینڈ فرنچ ملٹری کے ایک ماہر ایلی مین سیٹول کہتے ہیں کہ فرانسیسی نوآبادیات سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوان 1840ء سے فرانسیسی فوج میں بطور فوجی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ صدی کے شروع میں ایسے بہت سے اقدامات کیے گئے جن سے مسلمانوں کی مذہبی ضروریات پوری ہوسکتی ہوں مثلاً فوج میں تین سال کیلئے ایک مسلمان امام کا تقرر ہوتا ہے تاکہ مسلمان فوجی باجماعت نماز ادا کر سکیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس کی نوآبادیات میں جنم لینے والی آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے اسلام کے بارے میں ایک بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں تمام کوششیں معطل ہو کررہ گئیں۔

اس مسئلے کو 199کی دہائی میں نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا کیونکہ 1996ء میں لازمی فوجی خدمات کا اعلان کر دیا گیا تھا اور جب ورکنگ کلاس کے علاقوں سے فوج میں بھاری تعداد میں بھرتیاں شروع ہوگئیں تو فرنچ نوآبادیوں سے آئے مسلمان تارکین وطن کے بچوں کی کافی تعداد فرانسیسی فوج میں نظر آنے لگی اور اب فرانس کی فوج میں ان کی تعداد 15سے 20 فیصد تک جا پہنچی ہے جو فرانس میں مسلمانوں کی کل آبادی کے تناسب سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ ایلی مین سیٹول کہتے ہیں ’’مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیرمنصفانہ سلوک نے مسلمان فوجیوں میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ انہیں سیاسی اور مذہبی طور پر امتیاز ی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں کوئی متبادل کھانا نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تلخی اورعلیحدگی کے جذبات پید ا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ کئی مرتبہ لڑائی تک کے مواقع بھی پیدا ہوگئے‘‘۔

1880ء سے کیتھولک،پروٹسٹنٹ اور یہودی علما فرنچ فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں مگر ایک صد ی بعد تک بھی فوج میں کوئی مسلمان امام نہیں تھا جو فرنٹ لائن مسلمان فوجیوں کی امامت کر سکے، اس کے لیے انہیں کیتھولک پادری سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ ڈیفنس منسٹری نے 1990ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ اگر فوج میں شامل مسلمان فوجیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک نہ کیا گیا تو ایک داخلی تقسیم پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ جن خدشات کو مسٹر سیٹول نے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا نام دیا ہے ان کے باوجود 2005ء میں فرنچ فوج میں مسلمان اماموں کی بھرتی شروع ہو گئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب فرانسیسی سماج اس کے بالکل برعکس سمت میں سفر شروع کر چکا تھا۔ مسلمان طالبات کے لیے سکول میں پردہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس سے باقی مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مسلمانوں کا معاشرے میں ضم ہونے کا عمل شروع ہو گیا۔ 2019ء میں کل 36 امام فوج میں فرائض سرانجام دے رہے تھے جو تمام مذہبی علما کا 17 فیصد بنتے ہیں۔ فوج میں 125کیتھولک پادری، 34 پروٹسٹنٹ پادری اور 14 یہودی ربی ہیں۔ جمعہ کی نماز میں شامل ہونے والے تمام فوجی جن کی عمریں 20اور 40سال کے درمیان ہوتی ہیں تارکین وطن کے بچے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے والدین یا دادا، دادی کی زبانوں سے نماز کے بارے میں سنتے سنتے جوان ہوئے ہیں جو مساجد کی باقاعدہ تعمیر سے پہلے عارضی عبادت گاہوں میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ کئی فوجیوں کی مائیں یا دیگر خواتین رشتے دارپردہ کرنے کی وجہ سے آج بھی شک کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔

41سالہ سارجنٹ محمد آج سے بیس سال پہلے یعنی پہلے امام کی بھرتی سے بھی دو سال پہلے فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ امام کی بھرتی کے بعد ان کے لیے فوج میں اپنی مذہبی عبادات کی ادائیگی میں کس قدر آسانی پیدا ہو گئی تھی۔ شروع میں مسلمان فوجیوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے بڑے بڑے کمرے دے دیے جاتے تھے مگر اب وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھتے ہیں۔ سارجنٹ محمد نے بتایا کہ فوج میں اسے رمضان کے آخر پر عید الفطر منانے کے لیے باتنخواہ چھٹی مل جاتی ہے۔ محمد نے بتایا کہ ان کے والد نے 35سال تک فوج میں خدمات انجام دی ہیں اور ہرسال عید کے موقع پر اُن کی 8گھنٹے کی تنخواہ کٹ جاتی تھی۔ ان کے والد چالیس سال پہلے الجزائر سے فرانس آئے تھے اور وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے بچے اس طرح فوج میں رہ کر اپنی نماز پڑھ سکیں گے۔ ’’گزشتہ چالیس سال میں فوج میں حیران کن تبدیلیاں آئی ہیں ‘‘ سارجنٹ محمد کاکہنا ہے کہ سب سے زیادہ تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ فوج میں مسلمانوں کے انضمام کی وجہ سے اسلام کے بارے میںعزت اور احترام کے جذبات پروان چڑھے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک فوجی کا اصل جذبہ اور کمائی ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کی خدمات اور قربانیوں کا اعترا ف کیا جائے۔ اور جب آپ ہمارے مذہب کو احترام اور قبولیت دیتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ہمارے فیول ٹینک کو بھر دیتے ہیں۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ )

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement