بھارت میں آکسیجن کی قلت سے انسانی ہلاکتیں… (1)
تحریر: جیفری گیٹل مین
’’رات پونے دس بجے دہلی کے جے پورگولڈن ہسپتال کے آئی سی یو کے الارم بجنے لگے تھے۔ وینٹی لیٹر پر دو درجن سے زائد مریض سانس نہیں لے سکتے تھے۔ کچھ کے بازو اور ٹانگیں اکڑ گئے تھے۔ کئی مدد کے لیے حال دہائی کر رہے تھے۔ ان کی آوازیں گلے میں ہی دب گئی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہو۔ مکینک نقص کی تلاش میں مینٹی ننس روم کی طرف بھاگ رہے تھے۔ نرسوں کے ہاتھوں میں پلاسٹک پمپ تھے تاکہ ہاتھ سے مریضوں کے پھیپھڑوں میں آکسیجن پمپ کریں مگر بات نہیں بن رہی تھی۔ یہ دہلی کا ایک معروف ہسپتال ہے اور یہاں آکسیجن کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ اگلے سات گھنٹے میں کورونا کے 21 مریض جاں بحق ہو چکے تھے‘‘۔ نرسوں کی انچارج شائستہ نگار کا کہنا ہے ’’کوئی بھی وہ رات بھلا نہیں سکتا۔ یہ ایک مکمل بریک ڈائون تھا‘‘۔ کووڈ کی دوسری لہر کے دوران پورے بھارت کے ہسپتالوں میں بیڈز اور دیگر اہم سپلائی کی قلت پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کووڈ کی صورتحال بد سے بد تر ہو گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق صر ف آکسیجن کی قلت کی وجہ سے دو مہینوں میں 600 سے زائد مریض جاں بحق ہوئے تھے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی تھی کہ بھارت کو کورونا سے سنگین خطرہ لاحق ہے؛ تاہم وزیراعظم نریندر مودی اور مقامی حکام کورونا کی اس دوسری لہر کو روکنے میں بری طرح ناکام ہو گئے۔ بھارت کمپریسڈ آکسیجن کا ایک بڑا پروڈیوسر ہے مگر بھارتی حکومت نے آکسیجن کی سپلائی اور تقسیم میں بہت تاخیر کر دی۔ ریاستی حکومتوں کی باہمی لڑائیاں شروع ہو گئیں اور انہوں نے آکسیجن سپلائی والے ٹینکرز اپنے قبضے میں لے لیے جو سپلائی میں تاخیر اور رکاوٹوں کا باعث بن گئے۔ دہلی سٹی کے حکام نے آکسیجن بنانے یا سٹور کرنے کیلئے مناسب انتظامات نہیں کیے۔ جب کم سپلائی اور حکومت کے غلط اقدامات کے نتیجے میں ہسپتالوں میں آکسیجن کی قلت پیدا ہوئی تو کئی افراد نے الزام لگایا کہ ہسپتال انتظامیہ نے قلت کے بارے میں ہمیں کوئی پیشگی وارننگ نہیں دی تھی۔ ایک جامع کورونا وائرس پلان کے بغیر مودی حکومت نے زیادہ تر ذمہ داری ریاستی اور شہری حکومتوں، ہسپتالوں اور افراد پر ڈال دی۔ آکسیجن کی قلت نے خود کفالتی والی اپروچ کی محدود افادیت کو پوری طرح آشکار کر دیا تھا۔ اگرچہ انفیکشن کے کیسز میں کمی واقع ہو چکی ہے مگر ویکسین کی قلت نے ایک مرتبہ پھر بھار ت کے لیے تیسری لہر کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مناسب تیاری کے بغیر دوسری لہر والے المناک نتائج پھر سامنے آ سکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او سے منسلک ایک ہیلتھ تنظیم یونی ٹیڈ کے ڈائریکٹر رابرٹ میٹیرو کہتے ہیں ’’ایک موثر پلان کی مدد سے ہی اس صورتحال سے نمٹا جا سکتا ہے‘‘۔
انورادھا بانسل کو جب 13 اپریل کو جے پور ہسپتال لایا گیا تو انہیں 102 ڈگری بخار تھا۔ مسز بانسل ایک بزرگ سکول ٹیچر تھیں اور ان کا کورونا پازیٹو آیا تھا۔ ان کے شوہر اٹل اور دو بیٹیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ جے پور ایک اچھی شہرت کا حامل ہسپتال ہے‘ یہ چار منزلہ نجی ہسپتال ہے جہاں ہر طرح کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز دستیاب ہیں مگر مسز بانسل دہلی کے تمام ہسپتالوں میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سکتے میں آ گئیں۔ اس ہسپتال کا ریسیپشن ایریا بھی لوگوں سے بھرا ہو ا تھا کئی لوگ تو دیواروں کے ساتھ چپکے بیٹھے تھے۔ مسز بانسل کے کووڈ وارڈ میں اضافی بیڈ لگائے گئے تھے۔ ان کے شوہر اٹل‘ جو ایک وکیل ہیں‘ کے منہ پر ماسک چڑھا ہوا تھا اور وہ آئی سی یو میں مسز بانسل کے عقب میں لیٹے ہوئے تھے۔ 54 سالہ اٹل ایک پیراک بھی تھے‘ وہ کئی منٹ تک اپنی سانس روک سکتے تھے۔ وہ بڑی محتاط اور صحت بخش غذا کھاتے تھے۔ جب کووڈ کیسز میں اضافہ ہونے لگا تو شمالی بھارت میں میڈیکل آکسیجن کی قلت ہونے لگی۔ صرف دہلی شہر میں کیسز کی تعداد 419 سے بڑھ کر 13468 تک روازنہ پر پہنچ گئی۔ دہلی کے 650 ہسپتالوں اور نرسنگ ہومز میں مریضوں کا اتنا رش ہو گیا کہ انہیں اپنے گیٹ بند کرنا پڑے؛ چنانچہ مریض سڑکوں اور کاروں میں مرنے لگے۔
اگرچہ مصر جیسے دیگر ممالک میں آکسیجن کی قلت پیدا ہونے سے جو تجربات ہوئے تھے ان سے اتنا تو علم تھا کہ کس قسم کی تباہی ہو سکتی ہے مگر بھارت پھر بھی ایسی صورتحال کے لیے تیار ی نہیں کر سکا تھا۔ بھارت میں روزانہ صنعتی استعمال کے لیے 7100 میٹرک ٹن آکسیجن گیس بنائی جاتی تھی مگر کووڈ کے عروج کے دنوں میں اس کی ڈیمانڈ 9500 میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی۔ اصل مشکل یہ تھی کہ آکسیجن دور دراز مقاما ت پر بنتی تھی۔ زیادہ تر آکسیجن جنوبی بھارت کے سٹیل پلانٹس پر بنائی جاتی تھی جو نئی دہلی جیسے متاثرہ شہر سے سینکڑوں ہزاروں میل دور واقع تھے۔ نومبر میں پارلیمانی کمیٹی نے حکومتی عہدیداروں پر زور دیاکہ آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ حکومت کی طرف سے ایک پلان پیش کیا گیا کہ ہوا سے ہسپتالوں میں استعمال ہونے والی آکسیجن بنانے کے لیے160 پلانٹ لگائے جائیں گے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق سرکاری ہسپتالوں نے اپنی آکسیجن سٹوریج کی استعداد ایک تہائی تک مزید بڑھا لی۔ جب کووڈ کی دوسری لہر میں شدت آئی تو یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ اس کے لیے تیاری کوئی خاص نہیں تھی۔ ابھی تک محض بیس فیصد گیس پلانٹ لگائے جا سکے تھے۔ بھارت بھر کی اضافی ضرورت کی محض ایک چوتھائی سٹوریج استعداد تھی۔ کئی علاقوں میں ابھی تک آکسیجن کی قلت موجود تھی۔ 15 اپریل کو مودی حکومت نے بھارت کی میڈیکل آکسیجن کو قومی ملکیت میں لے لیا اور ہر ریاست کو اپنی مرضی سے آکسیجن الاٹ کی۔ ایئر فورس کے جہاز آکسیجن کے خالی ٹینکرز کو لے کر اوڈیسہ ریاست میں واقع ٹاٹا سٹیل پلانٹ تک لے کر جاتے تھے جہاں انہیں مائع آکسیجن سے بھرا جاتا اور پھر ٹرین پر رکھ کر ایک ہزار میل دور دہلی کے ہسپتالوں میں پہنچایا جاتا۔ پھر بھی سپلائی کا زیادہ تر بوجھ ریاستوں پر ہی رہا۔ 17 اپریل کو بھارتی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھان نے گیارہ ریاستوں کے وزرائے صحت کو ہدایات جاری کیں کہ وہ پیشگی بندوبست کریں اور اپنے میڈیکل انفراسٹرکچر میں اضافہ کریں جن میں بڑھتے ہوئے کووڈ کیسز کی وجہ سے آکسیجن کی سہولت والے بیڈز بھی شامل ہوں۔
دہلی کے حکام نے وارننگ دی کہ مرکزی حکومت انہیں آکسیجن کی مناسب سپلائی نہیں دے گی۔ مودی حکومت نے دہلی شہرکے لیے 350 میٹرک ٹن آکسیجن روزانہ کی منظور ی دی تھی جبکہ اس کی ضرورت اس سے دوگنا زیادہ تھی۔ عدالتی کارروائی میں دہلی حکومت نے مرکز پر الزام لگایا کہ وہ ہمیں کووڈ سے پہلے کی ضرورت کے مطابق آکسیجن سپلائی کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے موقف اپنایا کہ ابھی دیگر ریاستوں میں اس کی اشد ضرورت ہے۔ اس اثنا میں دلی کے جے پور ہسپتال میں مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھنے لگی۔ 20 اپریل تک یہ ہسپتال مریضوں سے اَٹ گیا اور اسے آکسیجن کی سپلائی ضرورت سے کہیں کم ہو گئی۔ دہلی کے سیلز منیجر روہت گپتا‘ جن کے والد ستیش کما رگپتا کو اپریل کے اوائل میں ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا‘ کا کہنا تھا ’’میرے والد کی تکلیف اور غصہ ناقابل برداشت ہو رہا تھا‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میرے والدکا بیڈ بھی گندا ہو گیا تھا کیونکہ ہسپتال میں کسی نے بھی انہیں باتھ روم تک لے جانے میں ہماری مدد نہیں کی تھی۔ میرے والد چیخ رہے تھے کہ مجھے یہاں سے فوراً لے چلو۔ جب ہسپتال انتظامیہ سے اپنا موقف دینے کے لیے کہا گیا تو اس نے کچھ کہنے سے انکارکر دیا۔ (جاری)