ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت میں آکسیجن کی قلت سے انسانی ہلاکتیں… (2)

تحریر: جیفری گیٹل مین

دہلی کے نائب وزیراعلیٰ منیش سیسوڈیا نے بتایا کہ جب مودی حکومت نے محدود مقدار میں آکسیجن کی سپلائی دی تو دہلی کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے ہسپتالوں میں صرف ایک ہی چھوٹا سا آکسیجن پلانٹ لگایا گیا تھا کیونکہ اس سے پہلے آکسیجن کی اتنی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ دہلی کووڈ کے زمانے میں اپنے ہسپتالوںمیںصرف ایک دن کی آکسیجن سٹور کر سکتا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا ’’ہمارے ہاں آکسیجن کی مناسب سپلائی تھی مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب دہلی کو سپلائی دینے والے پلانٹس کو دیگر ریاستوں کو آکسیجن دینے کا حکم دیا گیا‘‘۔ انہوں نے ٹویٹر پر مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ ہمارے بڑے ہسپتالوں کے پاس محض چند گھنٹے کے لیے آکسیجن رہ گئی ہے اور پھر سپلائی بالکل ہی ختم ہو گئی کیونکہ دہلی کی آکسیجن دوسری ریاستوں نے ضبط کر لی تھی۔21 اپریل کو ریاست ہریانہ نے دہلی جانے والے ایک آکسیجن ٹینکر کو روک لیا تھا۔ اترپردیش کے حکام نے بھی ایسا ہی کیا۔ راجستھان کے حکام نے بھی آکسیجن کے کئی ٹینکرز پکڑ لیے تھے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ تھی کہ دیگر ریاستوںمیں بھی مریض آکسیجن کی قلت کی وجہ سے مر رہے تھے۔ ہریانہ کے وزیرصحت انیل وجے نے بتایا ’’اگر ہمارے پاس فالتو آکسیجن ہو گی تو ہی ہم دوسروں کو دیں گے‘‘۔ دہلی نے اپنے پولیس حکام کو ہریانہ کی سرحد پر بھیجا تو آکسیجن ٹینکرز کو آنے کی اجازت دی گئی۔ اس دن دہلی کو صرف 178 میٹرک ٹن آکسیجن ملی جو مرکزی حکومت کے منظو رکردہ کوٹے کا نصف اور دہلی کی ضرورت کا صرف ایک چوتھائی تھی۔

دہلی ہائیکورت نے مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ وہ دیگر ریاستوںکو آکسیجن کی سپلائی میں مداخلت کرنے سے روکے۔ اس امرکو یقینی بنانے کے لیے دہلی حکومت نے آکسیجن ٹینکرز کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ پولیس سکواڈ بھیجنا شروع کر دیے۔ ٹینکرز کی کمی پوری کرنے کیلئے فوری طور پر دیگر ممالک سے ٹینکرز درآمد کیے گئے مگر وہ بھارتی ٹینکرز کے سائز کے مطابق نہیں تھے۔ 21 اپریل کو مسٹر سیسوڈا نے دہلی آکسیجن ڈسٹری بیوشن آفس کے منیجر وی کے بدھوری کو طلب کیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہم آج رات اپنے لوگوں کو بچا پائیں گے؟ 23 اپریل کو مرکزی حکومت نے دہلی کی ضرورت سے آدھی یعنی 308 میٹرک ٹن آکسیجن فراہم کی۔ جے پورگولڈن ہسپتال کے تمام 250 بیڈ مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ایمرجنسی روم کے باہر بھی لوگ وہیل چیئرز پر بیٹھے داخلے کے منتظر تھے۔ ایک سکول پرنسپل سیما اواشی کو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر بھیجنے کا کہا گیا تھا۔ رات پونے نو بجے انہوں نے اپنی فیملی کو میسج کیا ’’امید ہے میں جلد ٹھیک ہو جائوں گی۔ میں خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہوں‘‘۔ اسی صبح نریندر مودی سب سے زیادہ متاثرہ 10 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ملے تھے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے وڈیو لنک پر نریندر مودی کو بتایا ’’مجھے خدشہ ہے کہ ہمیں آکسیجن کی قلت کی وجہ سے ایک سنگین المیے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہم کبھی خود کو معاف نہیں کر سکیں گے‘‘۔

دہلی نے ایک دن پہلے آکسیجن کی سپلائی اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ اب ہر ہسپتال کی سپلائی کی معلومات ان کے پاس تھیں۔ جے پور گولڈن ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈی کے بلوجا نے بتایا کہ ہمارے ہسپتال کو روزانہ شام پانچ بجے آکسیجن کی سپلائی ملتی تھی مگر اس روز کوئی ٹرک ہسپتال نہیں پہنچا۔ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی سے کسی نے فون اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ جب کمپنی سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ ہم نے دہلی حکومت کی ہدایات کے مطابق آکسیجن سپلائی کر دی ہے۔ دہلی کے حکام نے کہا کہ ہم 23 اپریل کو سپلائی کا ریکارڈ پیش کر دیںگے مگر انہوں نے اس کی تعمیل نہیں کی۔ شام سات بجے ڈاکٹر بلوجا نے دہلی کے آکسیجن کمانڈ سنٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس آکسیجن دستیاب نہیں۔ جے پور ہسپتال کی آکسیجن تقریباً ختم ہونے والی تھی مگر ملازمین اور مریضوں کے لواحقین نے بتایا کہ انہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ کچھ افراد نے کہا کہ اگر ہمیں اس بات کا علم ہوتا تو ہم خود آکسیجن سلنڈرزکی تلاش میں دہلی کی سڑکوں پر نکل جاتے۔ شام سات بجے مسز بانسل کو آئی سی یو میں بلایا گیا۔ ان کے شوہر اٹل کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ان کے وینٹی لیٹر پر آکسیجن کی مقدار کم زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بیڈ پر پڑے تلملا رہے تھے، سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ مسز بانسل کہتی ہیں کہ میں یہ منظر برداشت نہ کر سکی اور وہاں سے چلی گئی۔ رات پونے دس بجے وینٹی لیٹرکا الارم پورے آئی سی یو میں گونجنے لگا۔ آکسیجن بالکل ختم ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر بلوجا نے بتایا کہ جے پور ہسپتال میں 50 آکسیجن سلنڈرز کا بیک اپ ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر وہ بھی ختم ہو گئے تھے۔ دس بجکر 28 منٹ پر ایمسٹراڈیم سے روچیکا گپتا کا فون آیا‘ وہ اپنے والد ستیش کمار گپتا کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ فون پر تھوڑی دیر بات ہوئی تو ریسور نیچے گر گیا۔ روچیکا بار بار ہیلو ہیلو کہہ رہی تھی مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ اسے پس منظر میں وینٹی لیٹر کے الارم کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ساتھ ہری اوم‘ ہری اوم‘ ہری اوم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ روچیکا کہتی ہیں کہ شاید اس وقت میرے والد اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ اس کا بھائی روہت گپتا راست ساڑھے گیارہ بجے ہسپتال پہنچا۔ ہر طرف ایک ہنگامہ تھا۔ ہر کوئی سلنڈر پکڑے ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ پریشان حال رشتے دار ڈاکٹروں کو قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ایک شخص چلا رہا تھا کہ اگر مری ماں کو کچھ ہوا تومیں ان ڈاکٹروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ نصف شب کے وقت آکسیجن کے دو ٹینکر آئے اور ایک چھوٹا ٹینکر دہلی حکومت کی طرف سے آیا۔ اٹل بانسل، ستیش کمار گپتا، سیما اواشی سمیت 21 مریض‘ جو آکسیجن کا انتظار کر رہے تھے‘ اب بہت دور جا چکے تھے۔

اگلے ہفتے ان مریضوں کی موت کی وجہ جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آکسیجن گیس کی قلت کی وجہ سے ہونے والی اموات کا تعین نہیں ہو سکا۔ مسٹر سیسوڈا نے اعتراف کیا کہ ہم بہتر کر سکتے تھے اور ہمیں اس سے زیادہ کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے کہا کہ ہم نے ہزاروں انسانوںکی جانیں بچائی بھی ہیں۔ جے پور ہسپتال کو اس وقت کئی افراد کی طرف سے عدالتی کارروائی کا سامنا ہے مگر اس نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بہت سے افراد مودی اور دہلی حکومتوں اور ہسپتالوں کو ان اموات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مسز بانسل آج بھی اپنے بیڈ کے ساتھ اپنے شوہر اٹل بانسل کی تصویر لگائے بیٹھی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’میں اپنی زندگی کے ہر لمحے میں ان کی کمی محسوس کرتی ہوں‘ انہوں نے میرے شوہر کو مار دیا‘‘۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement