ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایک صدی بعد نیا ورلڈ آرڈر؟ …(1)

تحریر: فرح سٹاک مین

جب 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے تو امریکا کئی عشروں تک اپنی اس فتح کا جشن منانے میں مصروف رہا۔ اس کے خیال میں یہ کمیونزم پر سرمایہ دارانہ نظام کی، آمریت پر آزادی کی اور یک جماعتی حکومت پر جمہوریت کی فتح تھی۔ وہ سمجھا کہ شاید اب کھیل ختم ہو گیا ہے اور وہ یہ جنگ جیت گیا ہے۔ وہ تاریخ کے دھارے کے آخری کنارے تک پہنچ چکا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ چین بھی چند دنوں کی مار ہے‘ جو فری مارکیٹ کی کئی اصلاحات پہلے ہی اپنے ہاں متعار ف کرا چکا تھا اور مغربی ممالک جیسے نظام کو اپنا چکا ہے۔ امریکا چین کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑی حد تک نارمل کر چکا تھا اور بڑی بے تابی سے کسی ’’چینی گورباچوف‘‘ کا انتظار کر رہا تھا۔ اگر آپ ابھی تک اس کے منتظر ہیں تو اپنا سانس روکنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔

یکم جولائی کو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں اپنی 100ویں تاسیسی سالگرہ منائی۔ صدر شی جن پنگ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ایک مختلف نوعیت کا سبق سیکھا ہے۔ سوویت یونین اس لیے نہیں ٹوٹا کیونکہ کمیونزم کی قسمت میں شکست لکھی ہوئی تھی بلکہ اس لیے ٹوٹا کیونکہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار کرپٹ ہو گئے تھے اور اپنے عہد اور عزم کو فراموش کر بیٹھے تھے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں کمیونسٹ پارٹی کے قائد کے طور پر جو پہلا عہد کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ سوویت یونین والے انجام کو چین میں دہرائے جانے کا موقع نہیں دیں گے۔ ابھی تک یہ بحث ماند نہیں پڑی کہ کون سا نظام کارکردگی کے لحاظ سے بہتر ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ابھی تک اپنے اگلے رائونڈ کی تیاری کر رہا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ چین کے ساتھ مسابقت کو ایک زیرو سم گیم کے طور پر دیکھتا، امریکا مسابقت کی ایک ایسی راہ بھی اپنا سکتا تھا جو اسے اس بات پر اکساتی کہ وہ اپنے عوام پر سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچتا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسی راہ پر گامزن رہتا۔

صدر شی جن پنگ کی کمیونسٹ پارٹی 1949ء سے چین میں برسر اقتدار ہے اور یہ شمالی کوریا کی کمیونسٹ پارٹی کے بعد اس کرہ ارض پر طویل ترین مدت سے حکمرانی کر رہی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے سوویت سر پرستوں کے بعد محض زندہ ہی نہیں رہی بلکہ اس نے ایک ایسی معیشت کو فروغ دیا جو سوویت یونین کی معیشت سے کہیں زیادہ متحرک اور خوشحال ہے۔ جب کمیونسٹ چین پر قابض ہوئے تو اس وقت چین میں صرف 20 فیصد لوگ لکھ پڑھ سکتے تھے۔ آج چین کے 97 فیصد افراد خواندہ ہیں۔ آج چین میں جی ڈی پی کی فی کس گروتھ 10 ہزار امریکی ڈالر ہو چکی ہے جو 1960ء میں 90 ڈالر سے بھی کم تھی۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ 2028ء تک چین کی معیشت امریکی معیشت سے حجم میں کہیں آگے نکل جائے گی۔ اگرچہ یہ تخمینہ پہلے سے لگایا گیا ہے مگر اب یہ ایسا رجحان ہے جس میں کووڈ کی عالمی وبا کے بعد خاصی تیز ی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

 چین اب اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی کھلے دل کے ساتھ سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہ جبوتی میں اپنا پہلا اوورسیز فوجی اڈا کھولنے والا ہے مگر ا س کی معاشی ترقی زیادہ خوفناک ہے۔ چین بڑی خاموشی سے دنیا کا سب سے بڑا قرض دینے والا ملک بن چکا ہے اور اس سلسلے میں عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ اور قرضے دینے والی تمام حکومتیں مل کر بھی چین کو اس شعبے میں مات نہیں دے سکتیں۔ ڈیوڈ شپ با چین پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں‘ جن میں ایک نئی کتاب بھی شامل ہے جس کا عنوان ہے ’’China's Leaders‘‘۔ ڈیوڈ لکھتے ہیں ’’اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چین ابھر رہا ہے۔ چین ابھر چکا ہے اور یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے‘‘۔

جب سے چین ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے امریکا کو خاصی پریشانی لاحق ہے۔ صدر جو بائیڈن اور ان کی حکومت نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ امریکا چین کو 21ویں صدی کے سب سے بڑے جیو پولیٹکل چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔ چند ہفتے قبل ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن ارکان نے اپنی دیرینہ نفرت کو پس پشت ڈال دیا تھا تاکہ یونائیٹڈ سٹیٹس انوویشن اینڈ کمپٹیشن ایکٹ 2021ء کو پا س کرایا جا سکے‘ جس کے بعد ریسرچ اور ہائر ایجوکیشن میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو جائے گا۔ نیٹو کی حالیہ سربراہ کانفرنس میں ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کس طرح نیٹو اتحاد کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آ رہا ہے اور اس کے ساتھ کس طرح نمٹا جائے۔ یہاں ہونے والی بحث سے ایک نئی اور خوفناک سرد جنگ کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی قابلِ فہم ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی مخاصمت کی وجہ سے تصادم وغیرہ کا قوی امکان ہے اور یہ کہ معاملہ اگر ہاتھ سے نکل گیا تو یہ ناقابلِ تصور نقصان کا باعث بن سکتا ہے؛ تاہم اگر اس کے ساتھ سمجھ بوجھ سے ڈیل کیا گیا تو یہ نہ صرف امریکا اور چین بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے شاید 2012ء میں درست ہی کہا تھا جب انہوں نے صدر شی کو بتایا ’’ایک امریکی کے طور پر ہم ہمیشہ مسابقت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہے اور امریکا کے عوام وہ شہری ہیں جو ہمیشہ ہرچیلنج پر پورا اترتے ہیں‘‘۔ اگر امریکا کو ایک مسابقت کار ملک کے طور پر ایک بات جاننے کی ضرورت ہے تو وہ یہ کہ مسابقت ایک صحت مند عمل ہے۔ اجارہ داریاں ہمیشہ سستی، استحصال اور دادا گیری پیدا کر تی ہیں۔ یہ بات اکنامکس کے شعبے میں بھی درست ہے اور یہ جیو پولیٹکل بالا دستی کے لیے بھی درست ہے۔

امریکی عوام کے سپر پاور کے سٹیٹس نے انہیں گلوبل سائوتھ کے عوام کے جذبات سے لاپروا اور بیگانہ کر دیا ہے جب انہوں نے افغانستان اور عراق میں وسائل لوٹنے کے لیے تباہ کن جنگیں لڑنے اور انسانی خون بہانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اب امریکی عوام نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت پوری انسانیت کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ اور یہ بات اس قدر عیاں ہو کر سامنے آ چکی ہے کہ اب ا س کے لیے ہمیں کوئی جواز تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی؛ چنانچہ امریکا میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی ہے کہ ہم تعلیم، سماجی شعور اور مشترکہ مقاصد پر سرمایہ کاری کیے بغیر بھی آگے بڑھ سکتے ہیں حالانکہ یہ سب جمہوریت کو صحت مند اور توانا رکھتے ہیں۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement