ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایک صدی بعد نیا ورلڈ آرڈر؟…(2)

تحریر: فرح سٹاک مین

چین کے ساتھ معاشی مسابقت سے امریکا ایک بار پھر اسی راہ پر گامزن ہو سکتا تھا جس پر چل کر وہ دنیا کا ایک عظیم ملک بنا تھا۔ اگر چین پر بغور نظر ڈالیں تو اس امر میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ اس نے امریکی عوام کو سائنسی ریسرچ اور تعلیم پر بھاری اخراجات کرنے پر مجبور کیا ہے جو ہمارے لیے ایک مفید بات ہے۔ اگر وہ انہیں اس امر کی یقین دہانی کرا دے کہ ان کی سپلائی چینز زیادہ پائیدار ہیں اور ان کی معیشت محض کسی ایک سہارے پر قائم نہیں ہے تو یہ بہتر ہو گا۔ اگر امریکا میں کوئی اس طرح کی بحث شروع کرا دے کہ انفرادی کے بجائے اجتماعی خوش حالی کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے‘ تو یہ ایک قابلِ تحسین امر ہو گا۔ اگر چین کی کووڈ ڈپلومیسی امریکا کو باقی دنیا کے لیے ویکسین کا پروڈیوسر بنا دے‘ جیسا کہ جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا‘ تو یہ سب کے لیے ایک نادر موقع ہو گا۔ چین‘ جس نے دنیا بھر میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے 1.2 ٹریلین ڈالر سے بیلٹ اینڈ روڈ پلان ترتیب دیا ہے‘ اگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور مغربی ممالک ترقی پذیر ملکوں کو کم تر شرح سود پر قرضے فراہم کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس عمل کو افریقی اور لاطینی ممالک کے ساتھ ایک منصفانہ سلوک سمجھا جائے گا۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ بروس ڈکنز‘ جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے امور کے ماہر ہیں‘ نے مجھے بتایا ’’اگر اس طرح ہم مندی سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم امریکا میں اپنے لبرل ایجنڈے کے حصول میں کافی پیش رفت کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں چین کے ساتھ مسابقت امریکا اور اس کے شہریوں کے لیے ایک مفید عمل ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسابقت کبھی نسل پرستی کے شکنجے میں پھنس جاتی ہے اور کبھی قوم پرستی کے جذبات سے الجھ جاتی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ اس کے عسکری پہلوئوں کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں‘‘۔

ستم ظریقی یہ ہے کہ جس وقت بھی اس مخاصمت میں شدت آتی ہے تو چین اور امریکا‘ دونوں ایک جیسے مسائل میں پھنس جاتے ہیں یعنی وسیع تر عدم مساوات، مینو فیکچررز کی کم لاگت والے ممالک کی طرف منتقلی، ماحولیاتی نقصانات اور مڈل کلاس کے ناممکنات پر مبنی خواب اور خواہشات۔ تمام ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ روابط برقرار رکھنے چاہئیں اور مشترکہ چیلنجز کا سامنا کر نے کے لیے سب ملکوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ شاید ایک دن آ جائے گا جب چین کی موجودہ قیاد ت خوش حالی اور جدت کے حقیقی ذرائع پر سوچنے پر مجبور ہو جائے گی اور اپنے نظام کے دروازے خیالات کے آزادانہ تبادلے کے لیے کھول دے گی۔ کمیونسٹ پارٹی کی شاندار کامیابی محض کمیونزم کی مرہونِ منت نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ چینی قیادت کا اپنے نظام کو فری مارکیٹ کے مطابق ڈھالنا ہے۔

چین چیئرمین مائوزے تنگ کی پالیسیوںکی وجہ سے ایک عالمی طاقت کا سٹیٹس حاصل کرنے میں ناکام ہوا جنہوں نے نجی ملکیت کو ختم کر دیا تھا اور تعلیم یافتہ پروفیشنلز کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کر دی تھی۔ ان پالیسیوں کی بدولت چین کو انسانی تاریخ کے ایک بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے سیاسی کشیدگی اور ریڈ گارڈز کا ایک دوسرے کو قتل کرنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کی تمام تر کامیابیاں ان اصلاحات کی مرہون منت ہیںجو ڈینگ ژیائو پنگ نے متعارف کرائی تھیں اور جنہوں نے چینی نظام کو نجی ملکیت کے لیے کھول دیا تھا۔ نیا سسٹم کسی آئیڈیالوجی کے بجائے عوام کے فیڈ بیک اور نتائج پر مبنی فیصلوں کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ اگر امریکی نظام حکومت ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن ارکان کے درمیان کبھی ادھر کبھی ادھرلڑھک رہا ہے تو چینی کا نظام بھی ان دونوں گروپوں کے درمیان گھوم رہا ہے جن میں سے ایک گروپ عوام اور معیشت پر سخت کنٹرول کا خواہش مند ہے اور دوسرا گروپ اسے نسبتاً آزاد ی دینا چاہتا ہے۔ ڈینگ ژیائو پنگ دوسرے گروپ کے ساتھ کھڑے تھے جو دنیا بھر سے ہر نئی چیز سیکھنے کا حامی تھا۔

صدر شی جن پنگ سخت کنٹرول کے حامی ہیں اس وقت تاثر یہ ہے کہ چین میں اصلاحات کا سلسلہ رول بیک کر دیا گیا ہے اور ایک سخت گیر قسم کی مطلق العنان حکومت قائم ہے۔کمیونسٹ پارٹی میں ان کے ونگ کے لوگ دیگر ممالک پر یہ دیکھنے کے لیے نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کیا نہیں کر رہے۔ انہوں نے سوویت ریاستوں کے رنگین انقلاب (colour revolution) اور عرب ریاستوں کے سپرنگ انقلاب کا دقیق مطالعہ کیا ہے تاکہ ان ناکامیوں سے بچا جا سکے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ انٹر پرینیورز انقلاب کے حامی بنتے جا رہے ہیں تو انہوں نے چین کے ابھرتے ہوئے سرمایہ داروں کو کمیونسٹ پارٹی میں شامل کر نا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ سوویت یونین کی معاشی تنہائی اس کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی تھی تو انہوں نے عالمی معیشت سے تعاون اور تعلق کا راستہ اپنا لیا اور اس طرح چین کو مغرب کے لیے ناگزیر بنا دیا۔ یقینی طور پر صدر شی جن پنگ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ایک مختلف نوعیت کا سبق سیکھا ہے۔ سوویت یونین کے بارے میں ہمارے ہاں جو بھی بتایا جاتا رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین اس لیے نہیں ٹوٹا تھا کہ کمیونزم کی قسمت میں شکست لکھی ہوئی تھی بلکہ سوویت یونین کو شکست اس لیے ہوئی تھی کہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار کرپٹ ہو گئے تھے اور اپنے عہد اور عزم کو فراموش کر بیٹھے تھے۔دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں کمیونسٹ پارٹی کے قائد کے طور پر جو پہلا عہد کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ سوویت یونین والے انجام کو چین میں دہرائے جانے کا موقع نہیں دیں گے۔

حالیہ برسوں کے بغور مشاہدے کے بعد یہ احساس ہو رہا ہے کہ صدر شی جن پنگ سمجھتے ہیں کہ اب مزید سیکھنے کے لیے کچھ بچا ہے اور نہ اب اس کی ضرورت رہی ہے۔ 2008ء کے سنگین معاشی بحران اور 2016ء میں امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد صدر شی جن پنگ کی اس خواہش کو معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر جلد امریکا کی تباہی کا انتظار کر رہے تھے۔ کسی دور میں امریکا بھی بڑی بے تابی سے کسی ’’چینی گورباچوف‘‘ کا انتظار کر رہا تھا۔ چینی صدر نے مارچ میں گفتگو کرتے ہوئے بڑے کھلے الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ، انہوں نے واضح طور پر کہا تھا ’’مشرق طلوع ہو رہا ہے اور مغرب غروب ہو رہا ہے‘‘۔

میں کچھ زیادہ یقین سے تو بعد کے حالا ت میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ امریکی جمہوریت کی حالت جتنی دگرگوں ہو گئی ہے‘ میں آج بھی اس کے مقابلے میں آمریت کے حق میں شرط لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہوں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ہم یونی پولر دنیا اور اس کی آلائشوں سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں اور میرے خیال میں اس سارے قضیے میں یہ سبق پوشیدہ تھا کہ اگر مسابقت ختم ہو جائے تو معیار گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اس لیے مثبت مسابقت کو باقی رہنا چاہیے۔امریکی عوام کو چین کے ساتھ شروع ہونے والی مسابقت سے گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement