ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی کمیونسٹ پارٹی کی 100ویں سالگرہ …(1)

تحریر: کرس بکلے

پورا ہجوم اپنے ہاتھوں میں پکڑے چینی جھنڈے لہرا رہا تھا، قومی نغمے گا گا کر ٹی وی پر قومی اتحاد کی عکاسی کر رہا تھا۔ فوج کے چاق و چوبند دستے مارچ کرتے ہوئے گزر رہے تھے، ہجوم کے سروں کے اوپر چینی فضائیہ کے جنگی طیارے زبردست فارمیشنز بناتے ہوئے اڑ رہے تھے۔ چین کے صدر شی جن پنگ‘ جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر مائوزے تنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے‘ اپنی گرج دار آواز میں اپنے حریفوں اور دشمنوں کو خبردار کر رہے تھے کہ جس کسی نے بھی چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اسے عظیم اور آہنی دیوار (چینی قوم) کے ساتھ ٹکرانا پڑے گا۔ صدر شی جن پنگ‘ جو کئی نسلوں کے بعد چین کے ایک عظیم اور طاقتور لیڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آئے ہیں‘ گزشتہ جمعرات کو بیجنگ میں اس بڑے ہجوم کے سامنے جارحانہ انداز میں تقریرکر رہے تھے جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 100ویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوا تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد انقلابیوں نے آج سے ایک صدی پہلے شنگھائی میں رکھی تھی۔

دن بھر کی خوشیوں کی طرح صدر شی جن پنگ کی تقریر بھی انواع و اقسام کے استعاروں سے مزین تھی، جن کا مقصد اس امر کی عکاسی کرنا تھا کہ چین اور اس کی حکمران کمیونسٹ پارٹی چین کے سپر پاور بننے کی راہ میں آنے والی کسی غیر ملکی رکاوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔ متعدد بار ایسا محسوس ہوا کہ صدر شی جن پنگ کے الفاظ کے مخاطب جتنا چین کے وہ کروڑوں عوام تھے جو اس وقت انہیں اپنے گھروں میں ٹی وی پر اور سمارٹ فونز پر دیکھ رہے تھے‘ بلکہ ان سے کہیں زیادہ واشنگٹن ان کے نشانے پر تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں حامی کووڈ کی ویکسین لگوانے کے بعد بیجنگ کے ٹیانمین چوک میں جمع تھے اور جب صدر شی جن پنگ نے یہ اعلان کیا کہ اب چین کے ساتھ کسی قسم کا غیر شائستہ طرزِ عمل برداشت نہیں کیا جائے گا تو ہجوم کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ انہوں نے پُرجوش ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’چین کی عظیم قوم کسی غیر ملکی طاقت کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ انہیں ڈرانے دھمکانے، کسی قسم کی زیادتی کرنے یا ان پر بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ جس کسی نے بھی ایسی احمقانہ حرکت کرنے کی غلطی کی‘ اس کے سر کو کچل دیا جائے گا اور اس کے خون کے چھینٹے اس عظیم دیوار چین پر جا کرگریں گے جس کی تعمیر میں ایک ارب چالیس کروڑ چینی عوام کاخون پسینہ شامل ہے‘‘۔

صدر شی جن پنگ گزشتہ 9 سال سے چین کی عنانِ اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں مگر ان کی آج کی تقریر‘ توقع کے عین مطابق‘ ایک جارحانہ رنگ لیے ہوئے تھی اور اس لیے بھی نہایت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ وہ اپنے اقتدار کی مدت میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی 100ویں سالگرہ پر منائے جانے والے اس جشن کا واضح مقصد حکومت پر ان کی گرفت کو مزید مضبوط کرنا تھا۔ چین کے بانی مائوزے تنگ اور جدید چین کے بانی ڈینگ ژیائو پنگ سے بھی زیادہ مضبوط گرفت۔ شی جن پنگ کی شدید خواہش ہے کہ انہیں چین کے ایک ایسے عظیم اور انقلابی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے جس نے اپنی رہنمائی میں چین کو ایک جدید عالمی طاقت بنا دیا اور چین میں سنگل پارٹی کی حکمرانی کو پھر سے مضبوط کیا۔ ان کی ساری سیاسی مہارت کا فوکس چین کو ایک جدید، محفوظ اور طاقتور قوم بنانے پر ہے جبکہ ابھی ساری دنیا کووڈ سے بچائو کی جدوجہد میں ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کے سامنے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی کامیابیاں گنوائیں کہ کس طرح اس نے کووڈ کی تباہ کاریوں کے خلاف کامیابی حاصل کی، ملک میں غربت میں کمی لانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا اور سابق برطانوی کالونی ہانگ کانگ میں منحرفین کی بغاوت کا بڑے جارحانہ انداز میں قلع قمع کیا۔ انہوں نے بیرونِ ملک سے درپیش تمام چیلنجز کو یکسر مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ بیجنگ ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتا کہ ہر وقت دوسروں کومنافقانہ لیکچرز اور بھاشن دیتا رہے۔

اس پُرہجوم جلسے میں کمیونسٹ پارٹی کے بزرگ اور نوجوان اراکین اور سکولوں کے طلبہ بھی موجود تھے جن کے پُرزور نعروں میں صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا ’’ہم ان ماسٹر ٹیچرز کے متکبرانہ لیکچرز کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے‘‘۔ پورے ہجوم نے بیک زبان ہو کر صدر شی جن پنگ کے ان الفاظ کی پُرجوش انداز میں تائید کی۔ چوک کے چاروں طرف بڑے بڑے سرخ چینی جھنڈے نظر آرہے تھے جو تیز ہوا میں پھڑپھڑا رہے تھے۔

جیسا کہ ایسے جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کی روایت رہی ہے‘ صدر شی جن پنگ نے امریکا اور اس کے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ چین کی کشیدگی پر کھل کر اظہارِ خیال نہیں کیا مگر آج کل چین کو بیرونی سرحدوں سے باہر جس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ صدر شی جن پنگ نے سرتوڑ کوشش کی کہ اس موقع پر اس بات کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے کہ پوری چینی قوم ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت امریکا کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جو چین کی مطلق العنان حکومت کے مقابلے میں دنیا بھر کے جمہوری آدرشوں کی حفاظت کے لیے ایک بھرپور جنگ لڑ رہا ہے۔ انسانی حقوق اور بحیرہ جنوبی چین میں پائی جانے والی کشیدگی کے خلاف چین پر دبائو بڑھانے کے لیے صدر جو بائیڈن نے فوری طور پر اپنے مغربی اتحادیوں کو اکٹھا کر لیا ہے۔

چین ہانگ کانگ کی ہنگامی صورتِ حال اور سنگکیانگ کے مغربی علاقے کے تناظر میں لگائی جانے والی مغربی ممالک کی پابندیوں پر سخت اشتعال میں ہے۔ یہ دونوں وہ علاقے ہیں جہاں صدرشی جن پنگ نے انتہائی سخت اقدامات کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول بہت مضبوط کر دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے اخبار کے سابق ایڈیٹر ڈنگ یووین‘ جو آج کل امریکا میں رہتے ہیں‘ نے ہمیں فون پر بتایا ’’چین میں ان کی تقریر سننے والے کبھی یہ بات نہیں بھولیں گے کہ ان کی تقریر میں واضح اشارہ امریکا کی طرف ہی تھا۔ ان کا اشارہ اور پیغام بڑا نمایاں تھا کہ کمیونسٹ پارٹی عوام اور پوے ملک کے مفادات کی واحد نمائندہ جماعت ہے‘ کوئی بھی پارٹی اور قوم میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں‘‘۔ قوم اور پارٹی کے متحدہ نظریے کے پیچھے صدر شی جن پنگ ہیں جو اگلے سال چین کی کمیونسٹ پارٹی کی کانگرس سے بطور لیڈر اپنی تیسری مدت کے لیے توسیع کی منظوری کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔(جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement