ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی کمیونسٹ پارٹی کی 100ویں سالگرہ …(2)

تحریر: کرس بکلے

صدر شی جن کا دوبارہ منتخب ہونے کا اقدام اپنے پیشرو سابق صدر ہوجن تائو کی روایت کے بالکل برخلاف ہوگا جس کے تحت چین کے لیڈرز صرف 2 اداور کے لیے ہی اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ اب کمیونسٹ پارٹی کے تمام تنظیمی عہدیدار صدر شی جن پنگ کی تقریر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائیں گے۔ چین میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ کارکن پارٹی قیادت کو اپنی مکمل اطاعت اور فرماں برداری کی یقین دہانی کراتے رہتے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں چائنا سٹڈیز کی فری مین چیئر کے سربراہ جوڈی بلانشیٹ کا کہنا ہے ’’یہ تقریر کسی ایسے لیڈر کی نہیں لگتی جو بہت جلد اقتدار چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ اس قدر شان و شوکت اور جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے کا واحد مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی آج بھی مضبوط اور متحد ہے اور وہ کہیں نہیں جا رہی‘‘۔

کئی مہینوں سے کمیونسٹ پارٹی اخبارات اور ایئر ویوز کے ذریعے اپنی تاسیسی سالگرہ کی تشہیر کرنے میں مصروف ہے۔ صدر شی جن اور دیگر عہدیدار اپنے انقلابی لیڈرز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے چین کے تمام تاریخی مقامات کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ملک بھر میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی ہے اور کئی ہفتوں سے دارالحکومت میں نگرانی کے لیے پولیس حکام اور رضاکار متعین کر رکھے ہیں۔ بیجنگ کی گلیاں اور سڑکیں سرخ پرچموں سے سجائی گئی ہیں۔ چینی ٹی وی نے ایک سو ڈرامے دکھانے کا شیڈول بنا رکھا ہے جن میں کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ کئی ایک ڈرامے قومی ہیروز پر بنائے گئے ہیں۔ شنگھائی میں دریا کے کنارے پر ایک لائٹ شو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جہاں یہ نعرہ لکھا ہوا تھا ’’کمیونسٹ پارٹی کے بغیر کوئی نیا چین نہیں ہو سکتا‘‘۔ ایک اور اشتہار میں جنوبی چین کے تجارتی شہر شانژن میں کمیونسٹ پارٹی کی علامت ہتھوڑے اور درانتی کی نمائش کی گئی تھی۔

بیجنگ میں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جس قدر تیاریاں کی گئی ہیں اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پارٹی لیڈرز کے نزدیک عوام کو یہ سب کچھ بتانا کتنا اہم ہے۔ صدر شی جن کے نزدیک تو ایسا کرنا سب سے زیادہ اہم ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میرے تو خاندان کی جڑیں ہی پارٹی کے انقلابی ورثے اور لبرل اقدار سے نفرت میں پیوست ہیں۔ توقع کے عین مطابق‘ انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے برسر اقتدار کمیونسٹ پارٹی کے دور میں کتنے بڑے بڑے دھچکے بھی لگ چکے ہیں جن میں مائوزے تنگ کا کلچرل انقلاب اور 1989ء میں تیان نمین چوک میں مظاہرین کے خلاف خونیں کریک ڈائون بھی شامل ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے چین کی جدید تاریخ کی جس طرح نمائش اور عکاسی کی ہے اس کے مطابق تو صرف چین کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس ہی ایسے آئیڈیاز اور تنظیم موجود ہے جن کی مدد سے ملک کو استبدادی اور داخلی استحصال سے آزادی دلائی جا سکتی ہے۔

صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں چیئرمین مائوزے تنگ اور ماضی کے دیگر عظیم لیڈرز کو بھی شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا مگر ان کی تقریر سے یہ امر بالکل واضح نظر آ رہا تھا کہ ان کی تقریر کا اصل مخاطب کون ہے۔ انہوں نے پارٹی کے اس یوم تاسیس کے موقع پر ان کارناموں اورکامیابیوں کی بھرپور ترجمانی کی جو چین نے 2012ء میں ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کس طرح چین سے غربت کا خاتمہ کیا، ملک کو ایک عظیم خوشحالی سے ہم کنار کیا اور ساتھ ہی چین کی عسکری قوت کو پہلے سے کہیں مضبوط کیا۔ چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے سنٹر فار چائنا سٹڈیز کے پروفیسر ولی وو لیپ لام کہتے ہیں ’’چینی صدرنے پوری تقریر میں کہیں اپنا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا مگر ان کا بھرپور زور اس امر کی طرف تھا کہ یہ تمام کارنامے اور کامیابیاں انہی کی مرہونِ منت ہیں۔ ان کی یہ تقریرایک طرح سے انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی تقاریرسے مماثلت رکھتی تھی جس میں ان کا پورا زور اس نکتے پر تھا کہ آخر انہیں ہی کم از کم مزید اگلے 10 سال تک چین کا سپریم لیڈر اور کمانڈر کیوں رہنا چاہئے‘‘۔

صدر شی جن پنگ کے عزائم کو پیش نظر رکھیں تو وہ بڑی حد تک روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملتے جلتے ہیں مگر صدر شی جن پنگ کی طاقت زیادہ تر پارٹی کی وسیع تنظیم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے اور اپنی تقریر میں انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں سے کمیونسٹ پارٹی کی اطاعت و فرماں برداری کرنے اور اس کے لیے مزید قربانیاں دینے کا تقاضا کیا۔ انہیں اپنی تقریر پر اس وقت اور بھی داد ملی جب انہوں نے تائیوان پر چین کے دعوے کا ذکر کیا۔ تائیوان وہ جزیرہ ہے جس کی آبادی 2 کروڑ سے زیادہ ہے اور یہاں جمہوریت قائم ہے۔ صدر شی نے اعلان کیا کہ چین تائیوان کے ساتھ ایک پُرامن انضمام چاہتا ہے مگر اس کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لیا جائے۔ ’’کسی کو بھی ہمارے ٹھوس عزائم کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ چین کے عوام اپنے مضبوط ارادوں اور طاقتور استعداد کی بدولت اپنی قومی خود مختاری اور جغرافیائی حدود کی حفاظت کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔

جب امریکا، برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کورونا جیسے مہلک وائرس سے بڑی تعداد میں شہریوں کی اموات واقع ہو رہی تھیں اس وقت چین نے بڑی سرعت اور کامیابی کے ساتھ کورونا کے اس جان لیوا وائرس پر قابو پا لیا اور تب سے صدر شی جن پنگ ا س کامیابی کو مسلسل اپنے عوام کے اندر خود اعتمادی کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مگر چین کو ابھی کئی سنگین مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے اہم ترین مسئلہ چینی شہریوں کی بڑھتی ہوئی عمریں ہیں جن کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔ صدر شی نے اپنی تقریر میں کہا کہ کسی بڑے سے بڑے مسئلے کا حل صرف ایک ہی ہے کہ آپ اپنی پارٹی سے وابستگی ہمیشہ بر قرار رکھیں۔ صدر شی نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے 100ویں یوم تاسیس کے موقع پر اپنی اہم ترین تقریرکو ان الفاظ میں ختم کیا ’’چین کی کمیونسٹ پارٹی زندہ باد! جو عظیم اور ہمیشہ درست ہوتی ہے۔ چین کے عظیم عوام زندہ باد جو ہمیشہ ہمارے ہیرو رہے ہیں‘‘۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement