ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

درخت زندگی کے محافظ! … (2)

تحریر: کیٹرین این ہارن

کیسی بیلارڈ ایک غیر منافع بخش گروپ ’’ٹریز فار ایور‘‘ چلاتی ہیں‘ جو اس وقت شہر کی تمام سڑکوں پر شجر کاری کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’ہم درخت اگاتے بھی ہیں اور چھوٹے درختوں کو پالتے بھی ہیں‘‘۔ درختوں سے ماحولیاتی فوائد ملنے کے ساتھ ساتھ معاشی مواقع بھی ملتے ہیں۔ ایک غیر منافع بخش گروپ امیریکن فاریسٹس کے صدر جیڈ ڈیلی کہتے ہیں ’’یہ وہ شعبہ ہے جس میں آجر ملازمین کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہاں ہر وقت کوئی ملازمت آپ کی منتظر رہتی ہیں‘‘۔ موسم خزاں میں ڈیس مونیز میں شجر کاری مہم دوبارہ شروع ہو گی اور اس میں ان کمیونٹیز پر زیادہ فوکس ہو گا جنہیں درختوں کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں جاری نسل پرستانہ پالیسیز کی وجہ سے ان کے علاقے گرم اور بنجر رہ گئے ہیں۔ ٹریز فار ایور کی ڈائریکٹر لیزلی برکس کو امید ہے کہ شہر کے ساتھ ایک معاہدے کی روشنی میں اس سال کے آخر تک ہم ایک ہزار درخت ضرور لگا لیں گے مگر یہ تعداد زیادہ حوصلہ افزا نہیں لگتی۔ ریاست کا ہدف 2050ء تک اس سے کم از کم تین گنا زیادہ شجر کاری کا ہے جبکہ ہمیں سرکاری اور نجی زمین پر اس سے چار گنا شجر کاری کی ضرورت ہے۔ مس برکس کہتی ہیں ’’ہم اگر چاہیں تو یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے‘‘۔

ڈیس مونیز کے میئر ہر طرح سے اپنی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈیس مونیز نے شجر کاری کے لیے اپنا بجٹ 2 لاکھ ڈالر سے بڑھا کر 3 لاکھ ڈالر اور اس سے اگلے سال کے لیے 4 لاکھ 50 ہزار ڈالر کر دیا ہے اور ان کا ہدف اسے ایک ملین ڈالرز تک لے کر جانا ہے۔ محکمہ جنگلات نے بھی اپنے 2 ملین ڈالرز کے بجٹ سے 13 ارکان پر مشتمل ماہرین اشجار کی ایک ٹیم رکھی ہوئی ہے۔ یہ ٹیم درختوں کی عمر بڑھانے کے لیے ان کی مناسب دیکھ بھال کرتی ہے مگر یہ تواز ن برقرار رکھنے کے لیے ایک پیچیدہ اقدام ہے۔ میئر کونی کہتے ہیں ’’آپ کو اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ آپ یہ سارا کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو تو بے گھر افراد کے لیے گھر بنانے چاہئیں۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات کے خیال میں اس مسئلے کا نچوڑ یہ ہے کہ ایک عام امریکی شہری ہو یا کوئی حکومتی اہلکار‘ ان میں سے کوئی بھی درختوں کے فوائد کے بارے میں آگہی نہیں رکھتا‘‘۔ موسم کی حدت کم کرنے کے لیے درخت ماحولیاتی آلودگی کو فلٹر کر تے ہیں، طوفان سے آنے والے پانی کو چوس لیتے ہیں، کاربن کو سٹور کر تے ہیں، جنگلی حیات کو پروان چڑھاتے ہیں حتیٰ کہ لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت میں بھی بہتری لاتے ہیں۔ جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر سٹون کہتے ہیں ’’ہمارے لیے مشکل بات یہ ہے کہ ہم درختوں کو محض ایک سہولت کے بجائے اپنے انفراسٹرکچر کے طور پر سوچیں۔ شاید اسی وجہ سے ہی ہم شجرکاری کے لیے وافر مالی وسائل مختص نہیں کرتے۔ اگر ہم درختوں کو بھی اپنے حقیقی انفراسٹرکچر کے طور پر دیکھیں گے‘ بالکل ایسے ہی جیسے ہم سڑکوں، سیوریج اور دیگر تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو شجرکاری پر آنے والی لاگت ہمارے لیے کہیں زیادہ قابل قبول ہو جائے گی‘‘۔

ایک درخت کا سایہ ہمیں سورج کی حدت سے بچاتا ہے‘ درخت اپنے پتوں کے ذریعے زمین سے پانی کو چوستے ہیں اور پھر بخارات کی صورت میں انہیں ہوا میں خارج کر دیتے ہیں۔ اسی لیے کسی تنہا درخت کے نیچے بیٹھنے کے مقابلے میں ہمیں کسی گھنے جنگل میں سے گزرتے ہوئے یا درختوں سے گھرے ہوئے کسی پلے گرائونڈ میں بیٹھ کر زیادہ تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ محکمہ توانائی کے مطابق‘ اگر کسی صحیح مقام پر درخت لگائے جائیں تو ہم اپنے گھر کی توانائی کی لاگت کو 25 فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔ ملک بھر کے درخت قومی سطح پر 18.3 ارب ڈالر کا فائدہ دیتے ہیں یعنی جب وہ ہوا میں پائی جانے والی کاربن کی تطہیر کرتے ہیں، گھروں اور دفاتر میں توانائی کا خرچ کم کر دیتے ہیں اور پاور پلانٹس سے خارج ہونے والی آلودگی میں تخفیف کا باعث بھی بنتے ہیں۔ آج بھی پورے ملک میں لوگ درختوں کو ایک پریشانی یا ذمہ داری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ نٹس، بیج اور پتے گرا دیتے ہیں۔ وہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ درخت لگا دیں گے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پائپ کریک ہو جاتے ہیں تو درختوں کی جڑیں ان سے خارج ہونے والے پانی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں مگر حقیقت میں پانی کے پائپ خراب کرنے والی بات محض ایک الزام ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ درختوں کے اضافی حصے ٹوٹ جاتے ہیں جو ایک خطرناک صورت حال کو جنم دے سکتے ہیں۔ ڈیوڈ نوواک‘ فاریسٹ سروس کے ایک سینئر سائنسدان ہیں‘ جو اربن ٹریز کو سٹڈی کرتے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے طوفانوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں‘ خاص طور پر گھروں کے قریب لگے ہوئے درختوں پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کمزور تو نہیں ہو گئے‘‘۔ مگر وہ اس امر کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ درخت ہوا کو روکتے ہیں جس سے طوفان کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’آپ ایک رسک کے لیے دوسرے رسک پر کمپرومائز کرتے ہیں۔ درختوں کی شاخیں گر جاتی ہیں۔ آپ کو یا تو شاخوں کی صفائی کرنا پڑتی ہے یا اس کے برعکس گھروںکی ٹوٹی ہوئی چھتوں کی صفائی کرنا پڑتی ہے‘‘۔

ایسے پراپرٹی مالکان‘ جن کی شہروں اور قصبوں میں کافی زیادہ زمین ہوتی ہے‘ کو اپنے صحن میں درخت لگانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر قائل کرنے میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔ درختوں کی نسل کا انتخاب ایک مزید مشکل اور محتاط مرحلہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف ڈیلویئر کے پروفیسر ڈوگ ٹیلمے کہتے ہیں کہ بڑے سائے والے درخت زیادہ ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں اور زیادہ کاربن سٹور کرتے ہیں۔ جنگلی حیات کے لیے عام طور پر شاہ بلوط کا درخت مفید ہوتا ہے۔ یہ کیٹر پلرز کی 900 سے زائد انواع کے لیے خوراک فراہم کر سکتے ہیں جو بعد میں پرندوں کی خوراک بن جاتے ہیں جن کی آبادی میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگوں کو ترغیبات دی جا سکتی ہیں مگر ہر مرتبہ کم بجٹ آڑے آ جاتا ہے۔ ریاست کینکٹکی کا شہر لوزیولی امریکا کا سب سے تیزی سے گرم ہونے والا شہر بنتا جا رہا ہے یہاں شجر کاری کی مہم اپنے زوروں پر ہے۔ یہاں کے مکینوں کو فی گھر 30 ڈالر میں تین سایہ دار پودوں کا پیکیج مل جاتا ہے اور وہ ایسے تین پیکیج لے سکتے ہیں۔ ڈیس مونیز کے ڈائریکٹر پبلک ورکس جوناتھن گانو ایک نیا آئیڈیا لے کر آئے اور انہوں نے چھوٹے پودوں کے بیج دکھائے جو محض جڑوں والی چھڑی کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ ہر گھر ایسے پانچ پودے لے سکتا ہے۔ ’’یہ دیکھنے میں چھوٹے لگتے ہیں۔ یہ بالکل مفت ملتے ہیں اور ہمیں اس پودے کا بیج ایک ڈالر میں پڑتا ہے۔ میں نے بھی اپنی پراپرٹی میں یہ لگائے تھے۔ ان میں سے پچاس فیصد پروان چڑھے۔اب ان میں سے ایک درخت 11 فٹ اونچا ہو چکا ہے‘‘۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement