صدر جو بائیڈن اور ماحولیاتی تبدیلی
تحریر: جین براڈی
صدر بائیڈن کا مجوزہ انفراسٹرکچر پلان جو کلین انرجی ‘پبلک ٹرانسپورٹیشن اور الیکٹرک وہیکلز میں بھاری سرمایہ کاری کا متقاضی ہے یقینا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاری کی رفتار کو سست کر دے گا۔یہ امریکی شہریوں خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی صحت کا بھی تحفظ کرے گی کیونکہ سال ہا سال سے آلودہ ہوا میں سانس لے لے کر ان کی صحت پر جو غیر مرئی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں ان میں خاطرخواہ کمی آجائے گی۔جب موٹر گاڑیوں اور ہیٹنگ یونٹس میں جلنے والے معدنی تیل اور جنگلات میں آتش زدگی سے اٹھنے والے دھوئیں سے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور اوزون ہمارے ماحول میں داخل ہوتی ہے تو اس کی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔اتنی آلودہ فضا میں سانس لینے سے انسانی جسم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ سلسلہ سال ہا سال تک جاری رہنے سے موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
فضائی آلودگی کو ہمیشہ انسانی صحت کاشدید ترین دشمن گردانا جاتا ہے اسی لیے امریکہ میں 1963ء میں کلین ایئر ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا۔اس قانون کی منظوری کے بعد انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی نے ہوا کی کوالٹی کے معیار پر نظر ثانی کی تھی۔اگرچہ ان معیاروں کو اپ ٹوڈیٹ ریسرچ کی روشنی میں تشکیل دیا گیا تھا مگر بعض اوقات انسانی صحت کی قیمت پر بھی انہیں سیاسی اور معاشی پریشرز کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ۔
فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں جانے والوں میں بچوں‘حاملہ خواتین ‘عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں پہلے سے امراضِ قلب اور امراض ِتنفس کاسامنا تھا۔ سب سے زیادہ خطرہ افلاس زدہ علاقوں میں رہنے والوں کو ہوتا ہے جن کی اکثریت بڑی شاہراہوں یا فضائی آلودگی پیدا کرنے والے صنعتی یونٹس کے قریب رہائش پذیر ہے۔1990ء سے جب سے کلین ایئر ایکٹ کا نفاذ ہوا ہے آلودگی کے اخراج میں 50فیصدتک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔تاہم نئی ریسرچز سے معلوم ہو ا ہے کہ اتنی کمی بھی امریکی شہریوں کی صحت کے تحفظ کے لیے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔
ہسپتالوں کا 17سالہ ریکارڈ جس میں 63ملین مریضوں کے کیسز کا مطالعہ کیا گیا ہے‘ کی سٹڈی سے معلوم ہوا ہے کہ 2016ء میں مریضوں کی صحت کو ایسی آلودہ فضا میں سانس لینے سے بھی سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا معیار امریکی اور عالمی گائیڈلائنز کے معیار سے کم تر تھا۔مثال کے طو رپر ہوا میں ہر یونٹ میں پارٹیکولیٹس کی طویل مدت تک موجودگی (جن کا سائز نصف قطر کے حساب سے 2.5مائکرو میٹرز تھا اور انہیں انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں تھا) میں 2536مریضوں کو سٹروکس کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل ہونا پڑا تھا۔
ایک جرنل ’’سرکولیشن ‘‘میں شائع ہونے والی رپورٹ سے معلوم ہو اہے کہ جب سال ہاسال تک ایسی ہوا میں سانس لیا جائے جس میں فائن پارٹیکولیٹس کی بھاری مقدار پائی جاتی ہو تو نائٹروجن آکسائیڈ اور اوزون کی موجودگی کی وجہ سے امریکہ کی عمر رسیدہ آبادی کے افرا دکو امراضِ قلب اور امراضِ تنفس کا سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔عمر رسیدہ شہریوں کو فضائی آلودگی کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ‘سٹروکس ‘اور نمونیا جیسی بیماریوں کا رسک بڑھ جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال ہسپتالو ں میں داخل ہونے والے شہریوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔
ہاورڈ سکول آف ہیلتھ کی ایک ٹیم نے مہدی ڈینیش یزدی کی سربراہی میں اپنی ایک سٹڈی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق فائن پارٹیکولیٹ میٹرکے لیولز کے ہر یونٹ میں اضافے سے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور اوزون ہر سال ہزاروں اضافی مریضوں کے داخلے کا باعث بنتی ہیں۔ڈاکٹر یزدی جو ایک پروفیسر اور انوائرمینٹل ہیلتھ کی ریسرچر بھی ہیں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ امریکی جس فضا میں سانس لیتے ہیں ا س کی کوالٹی کو بہتر بنا کر لاکھوں امریکیوں کی زندگی کو بچایاجا سکتا ہے۔ نصف سے زائد امریکی آبادی ایسی فضا میں سانس لینے پرمجبو رہے جو سٹڈیز کے مطابق انتہائی مضر ہے ۔ریسرچرز نے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ یہ مسئلہ ڈاکٹرز اور پالیسی میکرز دونوں کے لیے یکساںتشویش کا باعث ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر یزدی نے ہوا کی کوالٹی اور صحت سے متعلق ڈیٹا کو عوام کودستیاب کر دیا ہے اور ان کی ٹیم کو قوی امید ہے کہ ہوا کی کوالٹی میں بہتری لانے اور صحت عامہ کے بہتر تحفظ کے لیے عوام کو مزید بااختیار بنایا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹرز اور مریض دونوں ہی آلودگی پر کام کر سکتے ہیں اور ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں سرکاری حکام پر دبائو ڈال کر اس کی آلودگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر فضائی آلودگی کو پوری طرح کنٹرول نہیں بھی کیا جا سکتا پھر بھی ہمیں اس میں بہتری لانے کی ہر ممکن کوشش کر نی چاہئے۔آلودگی کے جن لیولز کو اب محفوظ سمجھا جاتا ہے اس کے مضر اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
ٹیم نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ عوام جن جگہوں پر رہائش پذیر ہیں وہاں کی فضا ئی کوالٹی پرتوجہ دیں اور زیادہ عرصے تک اس آلودگی میں سانس لینے سے گریز کریں۔گزشتہ سال ا س کی ایک ڈرامائی مثال دیکھنے میں آئی جب ریاست کیلیفورنیامیں بڑے پیمانے پر جنگلا ت میں آگ لگ گئی تھی اور لوگوں کی اکثریت اپنے گھروں میں مقید رہنے اور اپنی کھڑکیاں دروازے بند رکھنے پر مجبو رہو گئی تھی تاکہ کم سے کم زہریلا دھواں ان کی سانس کے ذریعے جسم کے اندر جائے ۔ای پی اے کے مطابق امریکہ اور خاص طو رپرمغربی امریکہ میں جب بڑے پیمانے پر آتشزدگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو یہ بہت زیادہ زہریلا دھواں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اور لوگوں کو مسلسل اسی دھوئیں میں سانس لینا پڑتا ہے۔
فرنٹیرز ان پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی ہر سال نوملین اموات کا باعث بنتی ہے۔حساس افراد تو کم درجے کی فضائی آلودگی سے بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔آلودگی کے ان پارٹیکولیٹس میں ننھے ننھے مائع یا ٹھوس قطرے موجود ہوتے ہیں جو آسانی سے سانس کے ذریعے انسانی جسم کے اندر چلے جاتے ہیں۔یہ ذرات پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ہمارے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور پھر انسانی دماغ سمیت جسم کے دیگر حصوں کو بھی بری طرح متاثرکرتے ہیں۔65سال کے مقابلے میں 75سالہ شہری زیادہ تعداد میں ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں اور سیاہ فام شہریوں کے مقابلے میں سفید فاموں کی زیادہ تعداد داخل ہوتی ہے۔معدنی تیل سے خارج ہونے والی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیس میں سفید فاموں کے مقابلے میں سیا ہ فام افراد کا سانس لینا زیادہ مضر ثابت ہوا ہے۔
چونکہ فضائی آلودگی کا ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ براہ راست تعلق ہوتا ہے ا س لیے یہ انسانی صحت پر بالواسطہ بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔آلودگی کے ذرات زمین پر پہنچنے والی سورج کی روشنی کی مقدار میں اضافہ کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں زمین کی حدت بڑھ جاتی ہے اور زیادہ گرم فضا متعدی امراض کے پھیلائو میں اضافے کا باعث بن جاتی ہے جو آگے چل کرایک وبا کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہیں۔ہمیں معدنی تیل کے بجائے شمسی ‘برقی اور ہوا سے حاصل ہونے والی انرجی کے ذرائع کی طرف پیش رفت کر نی چاہئے کیونکہ پٹرول اور ڈیزل ہوا کی کوالٹی کو زیادہ شدت سے متاثرکرتے ہیں۔
(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز، انتخاب : دنیا ریسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)