ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ڈاکٹرز کیا کیا کرشمے دیکھتے ہیں

تحریر: ڈینیلا لیمس

آئی سی یو میں یہ صبحِ صادق کا وقت تھا کہ وہاں ایک حیران کن واقعہ رونما ہوا۔ کووِڈ کے ایک مریض کی حالت کافی بگڑتی جا رہی تھی اور ہم نے اس کے لواحقین کو حتمی طور پر بتا دیا تھا کہ اب اس کا مزید علاج ممکن نہیں۔ وہ تیزی سے موت کی طر ف گامزن تھا مگر اس رات میری ٹیم یہ دیکھ کر حیران تھی کہ ا س کا آکسیجن لیول اچانک بڑھنے لگا۔ پہلے دھیمی رفتار سے اور پھر تیزی سے۔ میں اس کے کمرے کے پاس پریشان کھڑی کسی کرشمے کی منتظر تھی۔ ایک آئی سی یو ڈاکٹر کے طور پر میں کرشمے کا خیال آتے ہی نروس ہو گئی۔ جب یہ لفظ میرے ذہن میں آیا تو مجھے اس کی فیملی کی ملاقاتوں اور جھوٹی امیدوں کا خیال آنے لگا۔ اس کے عزیز و اقارب کا خیال آیا جو باہر کسی معجزے یا کرشمے کے منتظر بیٹھے تھے۔ مریضوں کے خاندان اکثر کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں اور یہ ایسی امید ہے جو میں کبھی پورا نہیں کر سکتی مگر یہاں اس طرح کے مریض بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے پاس خاص طور پر کووڈ کے زمانے میں ایسے ایسے کیس آتے ہیں جو انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور ہمیں اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے ایسے مریض آئے ہم جن کی زندگی بچانے سے قاصر تھے‘ ہمارے پاس ایسے مریض بھی آئے جن کی زندگی بچنے سے ہمارے نظریات یکسر غلط ثابت ہو گئے۔ میں سخت مشکل میں تھی اور میرے لیے ان کے سوالا ت کے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا۔ جوں جوں آئی سی یو میں میری پریکٹس بڑھتی رہی‘ میری حیرانی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ کسی آئی سی یو میں کیسے کوئی معجزہ، کوئی کرشمہ رونما ہو سکتا ہے؟ 

اگرچہ معجزے کے لفظ میں قدرے مذہبی رنگ پایا جاتا ہے مگر میں یہاں کسی روحانی یا مذہبی بحث میں نہیں پڑتی۔ ایک ڈاکٹر کی ٹریننگ کے دوران ہمیں صرف یہی سکھایا جاتا ہے کہ مریض کے لواحقین کے ساتھ کیسے بات چیت کرنی ہے جو اس بات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں کہ کس طرح ڈاکٹرز معجزاتی طور پران کے عزیز کو موت کے منہ سے چھین کر واپس لے آتے ہیں۔ میری ساری دلچسپی اس امر میں ہوتی ہے کہ ان لاکھوں مریضوں میں سے کسی ایک کے علاج کے کیا نتائج آتے ہیں‘ ایسے مریض جو ہمیں حیران اور عاجز سا بنا دیتے ہیں۔ ذرا اس رات والے مریض کا تصور کریں۔ وہ ایک نوجوان باپ تھا‘ جو کووڈ کا مریض تھا‘ اسے شدید نمونیا تھا، اس کا جسم گل سڑ رہا تھا اور خون بھی بند نہیں ہو رہا تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو اسے بستر پر لیٹے ایک ماہ ہو چکا تھا۔ وہ وینٹی لیٹر تھا اور اسے مصنوعی سانس کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا تھا۔ دن اور ہفتے گزرتے گئے، ایک کے بعد ایک مصیبت آتی گئی اور آئی سی یو میں موجود ہم سب افراد کو یقین ہو گیا تھا کہ اب اس کے پھیپھڑے اسے کوئی سہارا نہیں دے سکیں گے۔ وہ مر رہا تھا۔ اس کی فیملی بھی اسے الوداع کہنے کے لیے تیار ہو چکی تھی مگر اس نے ہمیں کہا کہ آپ وینٹی لیٹر سے اتارنے سے پہلے کچھ دن مزید انتظار کر لیں۔ ایک سال گزرنے کے بعد گوکہ وہ ابھی تک صحت یابی کے مراحل سے گزر رہا ہے مگر اپنے گھر پر اپنی فیملی کے ساتھ۔ میں اس کی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔

اگرچہ کہانی بڑی زبردست ہے مگر اس کا میرے ساتھ بھی کچھ تعلق ہے جسے میں شیئر کرنا پسند نہیں کروں گی۔ اس لیے نہیں کہ اس کے بارے میں ہماری تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہو  گئیں بلکہ اس لیے کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس کے علاج کے نتائج کے حوالے سے ہمارے تمام اندازے غلط ثابت ہو گئے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر جب لوگوں کو کسی سنگین بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ دل ہی دل میں سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرغلط کہتے ہیں، یہاں بہتری آنے سمیت کچھ بھی ناممکن نہیں۔ خواہ سارے تشخیصی ثبوت اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہوں۔ ڈاکٹرز بھی اپنے مریض کی بھلائی چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انکالوجسٹ آخری درجے کے کینسر مریض کو بھی کیمو تھراپی کی پانچویں ڈوز لگانے اور آخری کلینکل ٹرائل کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہی بات انہیں آخری مرتبہ آپریشن تھیٹر میں لے جاتی ہے۔ بیماری کو شکست دینے کی ایسی کوشش کبھی کبھی ڈاکٹر کو شہرت اور عظمت کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے مگر زیادہ تر یہ کوشش محض ایک جھوٹی امید ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ سے مریض اور اس کے لواحقین کی اذیت طول پکڑ جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آئی سی یو میں آئے مریض کے بارے میں ہماری ابتدائی تشخیص ہی درست ہوتی ہے لہٰذا کسی مریض کے بیڈ کے ساتھ کھڑے ہوکر ایسا سوچنا سنگین رسک بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری تمام تر پیش گوئیوں کے باوجود ایک مریض صحت یاب ہو کر گھر واپس چلا گیا تھا۔ ہمارا ذاتی تجربہ پیشہ ورانہ فیصلہ کرتے اور سفارشات دیتے وقت انہیں بہت زیادہ متاثر بھی کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر صرف ہمیں حیران کرنے کے لیے اپنے مریض کوجان بچانے کے آخری چانس سے محروم نہیں کرنا چاہتے مگر ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ ہم ایک انسان کی زندگی بچانے کی امید پر کتنے مریضوں کو اس تجربے سے گزار کر مو ت کا طویل انتظار کرا سکتے ہیں؟

کسی کی جان بچانا ایک مشکل اور پیچیدہ تجربہ بھی ہو سکتا ہے۔ آئی سی یو میں پڑے مریض کی زندگی بچانے اور اس کی مکمل صحت یابی میں ایک وسیع فاصلہ بھی ہو سکتا ہے حتیٰ کہ جو مریض آئی سی یو سے زندہ نکل کر ہمیں حیران کر دیتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ وہ اتنے بہتر ہو گئے ہوں کہ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں دوبارہ حصہ لے سکیں۔ اگر ہم کسی مریض کی زندگی بچا لیں مگر وہ عرصے تک وینٹی لیٹر سمیت طرح طرح کی اذیت برداشت کر رہا ہو تو اسے مکمل کامیابی کہنا مشکل ہے۔ یقینا ایسے کیسز بھی ہوتے ہیں جن میں بہتری ناممکن نظر آتی ہے۔ میں ایسے مریض کو اینٹی بائیوٹکس کی اضافی ڈوز یا آخری کوشش کے طور پر سٹیرائیڈز کی ہائی ڈوز ہی دے سکتی ہوں؛ تاہم ایسی صورت میں اپنے مریض کو میں چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے مزید چانس دے سکتی ہوں اور اس دوران میں اپنے آپ کواور اس کے لواحقین کو اس بات کیلئے تیار کرتی رہتی ہوں کہ شاید ان کا پیارا ٹھیک نہ ہو سکے۔ پچھلے ویک اینڈ پر آئی سی یو میں میرے پاس ایک 60 سالہ مریضہ آئی جسے کینسر تھا۔ ا س کا جگر اور پھیپھڑے ناکارہ ہو چکے تھے۔ اس کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے مجھے اس کے علاج کا مکمل پلان دیا۔ اگر وہ پیر کے دن تک صحت یاب نہ ہوئی تو اس کے لواحقین اسے وینٹی لیٹر سے اتارنے کے لیے تیار ہیں مگر وہ ویک اینڈ تک مزید انتظار کرنا چاہتے تھے۔ میں نے پوچھا: مگر کیوں؟ ڈاکٹر نے کہا کہ وہ کسی معجزے کے رونما ہونے کے لیے یہ وقت دینا چاہتے ہیں۔

میں جب ہفتے کی صبح اس کے پاس گئی تو وہ نیم بے ہوش سی تھی۔ اس کی آنکھیں مسلسل حرکت کر رہی تھیں۔ اسے کسی قسم کا درد بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر جونہی رات ہوئی تو اس کا بلڈ پریشر بڑھنے لگا، جب میری شفٹ ختم ہوئی تو اس سے پہلے میں ایک مرتبہ پھر اس کے کمرے میں پہنچی‘ اس کے بچے اس کے بیڈ کے گرد جمع تھے۔ اس کی بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تو ٹھیک نہیں ہو رہیں، کیا ٹھیک ہو جائیں گی؟ میں انتہائی نرمی سے اسے بتایا کہ ہماری تمام تر کوشش کے باوجود وہ ٹھیک نہیں ہو رہیں۔ جب اس کی بیٹی کو احسا س ہوا کہ اب کوئی کرشمہ بھی رونما نہیں ہو سکتا تو وہ زار و قطار رونے لگی۔ پھر سوموار تک انتظار کرنے کا کیا فائدہ؟ اب شاید کو ئی کرشمہ تو نہ رونما ہو مگر اس کو سکون ضرورمحسوس ہو گا۔ اب اسے الوداع کہنے کا وقت آ گیا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement