ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

لبنان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال

تحریر: بین ہبرڈ

23سالہ لین حسامی اپنی گاڑی میں بیٹھی پٹرول ڈلوانے والی قطار میں کھڑی تھی۔ اس کے پاس ایک سمارٹ فون تھا، وقت گزاری کے لیے اس نے گیمز کھیلنا شروع کر دیں، پھر اپنی ایک پرانی دوست سے گپ شپ کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ موبائل میں مشغول ہو گئی اور اس طرح چا رگھنٹے گزر گئے مگر وہ پٹرول پمپ تک نہ پہنچ سکی۔ وہ پسینے سے شرابور تھی اور اسے واش روم جانے کی حاجت بھی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ ا س وجہ سے نہیں جا رہی تھی کہ کہیں اپنی باری نہ کھو دے۔ ’’ میں مایوس ہوں، میں غصے میں ہوں، میں بہت پریشان ہوں‘‘۔ بہت سے لبنانی نوجوانوں کی طرح وہ بھی ان میں سے ایک ہے جو اس وقت مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے پرس خالی اور دن ڈرائونے خوابوں سے لبریزہیں۔ وہ بولی ’’حالات سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ میرا نہیں خیال کہ ہم انہیں درست کر سکیں گے‘‘۔

لبنان اس وقت سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اسے پچھلی دو صدیوں کی سب سے بدترین معاشی زبوں حالی کا سامنا ہے جس سے یہاں کا معیارِ زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 2019ء کے بعد سے اس کی کرنسی کی قیمت 90 فیصد تک گر چکی ہے اور بیروزگاری آسمانوں کو چھو رہی ہے کیونکہ بزنس بند ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر درآمدات پر انحصار تھا مگر اب شدید قلت کا سامنا ہے۔ کووڈ سے لبنان کو دُہرا نقصان ہوا ہے جبکہ گزشتہ سال اگست میں بیروت پورٹ پر ہولناک دھماکوں میں 200 سے زائد لوگ مارے گئے تھے اور 4000سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ پہلے سے تباہ شدہ بیروت مزید بربادی کا شکار ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد پورے لبنان میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کا مرکزی ملک‘ جو کبھی یہاں کا ثقافتی اور معاشی مرکز سمجھا جاتا تھا‘ اس وقت طرح طرح کے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اسے دس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کا بوجھ سنبھالنا پڑ رہا ہے۔ ایران، اسرائیل اور مغرب کی خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی جدوجہد کا بھی سامنا ہے۔ اس کے داخلی انتشار نے لبنانی نوجوانوں کو اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی میں دھکیل دیا ہے۔ یہاں کے متمول طبقے کو بھی سارا سار ادن پٹرول کی قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، بجلی کی طویل بندش سے شدید گرمی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک دوائی کی تلاش میں پورا شہر گھومنا پڑتا ہے جو پھر بھی نہیں ملتی۔ 60 لاکھ آبادی کے اس ملک کا جی ڈی پی 2018ء میں 55 بلین ڈالرز سے کم ہو کر 33 بلین ڈالرز رہ گیا ہے۔ فی کس آمدنی بھی اسی شرح سے کم ہوئی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق‘ جنگ یا کشیدگی کے شکار ممالک کو ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

لبنان کے بحران کی اصل وجہ کم آمدنی کے باوجود حکومت کے زیادہ اخراجات کرنا ہے جس کے نتیجے میں ملک قرضوں میں ڈوبتا چلا گیا اور ناپائیدار مالی پالیسیوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا۔ بینک دیوالیہ ہو گئے اور ملکی کرنسی کی قدر بہت گھٹ گئی۔ گزشتہ ماہ حکومت نے غریب خاندانوں کی مدد کے لیے راشن کارڈ پروگرام کی مد میں 556 ملین ڈالرز منظور کیے تھے؛ تاہم اس کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی کہ یہ سسٹم کام کیسے کرے گا اور ریاست اس کی ادائیگی کیسے کرے گی؟ بیروت پورٹ دھماکوں کے بعد موجودہ کابینہ مستعفی ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود وہ ایک عبوری حکومت کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ کابینہ ارکان کا کہنا ہے کہ ہمیں بڑے بڑے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ہم پالیسی نہیں بنا سکتے کیونکہ سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ گزشتہ اگست میں اپنی حکومت کے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم حسن دیاب نے کرپشن کو سارے سسٹم کا ناسور قرار دیا تھا جو ریاست کی جڑوں تک سرایت کر چکا ہے۔ لبنان میں موجود کرپشن مافیاز کے سرپرست اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ریاست سے بھی بالاتر سمجھے جاتے ہیں اور ریاست ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ جوں جوں بحران سنگین تر ہوتا چلا گیا‘ لبنان شدید مشکلات میں گھرتا چلا گیا۔ لوگ لفٹ کی جگہ سیڑھیاں استعمال کرتے ہیں کیونکہ بجلی ہی نہیں آتی۔ لوگوں نے قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گوشت کھانا بند کر دیا ہے بلکہ اب تو ایک وقت کا کھانا بھی کم کر دیا ہے۔ دن کا زیادہ وقت کار کا پٹرول لینے کی قطار میں کھڑے گزر جاتا ہے۔

ایک دن 45 سالہ سعد الدین اپنی کار کو دھکیل کر لے جا رہا تھا تا کہ پٹرول پمپ تک جاتے جاتے پٹرول کی بچت ہو سکے۔ اس نے پٹرول ڈلوانے کے لیے اپنی ملازمت سے چھٹی لی تھی۔ وہ ایک شو کمپنی میں ملازم ہے مگر قطار اتنی طویل تھی کہ اس کی باری آتے آتے کافی تاخیر ہو گئی تھی۔ اس کے سفید بال اور جینز پسینے سے شرابور تھی اور اس نے گرمی سے بچنے کے ایک سفید کپڑا سر کے اوپر رکھا ہوا تھا مگر اس کی پریشانی پٹرول لینے سے ختم نہیں ہوئی۔ اس کے گھر محض چندگھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے۔ اسے چند گھنٹے کے لیے ایک نجی جنریٹر سے بجلی لینا پڑتی ہے پھر اس کے بعد بھی بجلی کے بغیر سونا پڑتا ہے۔ جونہی اے سی بند ہوتا ہے توگرمی اور مچھر انہیں گھیر لیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ دورانِ ملازمت سخت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے جہاں اس کی تنخواہ بارہ لاکھ لبنانی پونڈ ہے جو پہلے 800 امریکی ڈالر بنتے تھے مگر اب ان کی قدر صرف 80 ڈالر رہ گئی ہے۔ اپنی بیوی اور بچوں پر پڑنے والے اس مالی دبائو کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ ’’جب میرا بیٹا مجھ سے کوئی فرمائش کرتا ہے اور میں وہ پوری نہیں کر سکتا تو مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا‘‘۔

اس قطار میں کھڑے ہر شخص کے جذبات ایسے ہی تھے۔ ایک سکول ٹیچر جو 41 سال تک ملازمت کر تا رہا تاکہ اسے بڑھاپے میں پنشن مل سکے‘ وہ بھی برائے نام تھی۔ ایک 70 سالہ ڈرائیور اس لیے پریشان تھا کہ اس کی گاڑی اب بھاری مرمت مانگتی ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہے۔ سوویت یونین سے تعلیم یافتہ ایک الیکٹریکل انجینئر بھی پٹرول کی لائن میں کھڑی تھی اور بہت غصے میں تھی کیونکہ یہاں کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ جن کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ یا کارآمد ہنر ہے‘ سب ملک سے باہر جا رہے ہیں۔31 سالہ احمد ایوینی کے پاس لبنان میں فارماسسٹ کی اچھی ملازمت تھی اور ساتھ ہی وہ ایک یونیورسٹی میں بھی پڑھا رہا تھا۔ ایک صبح وہ پٹرول لینے کے لیے قریبی گیس سٹیشن پر گیا اور وہا ں چار گھنٹے پھنسا رہا جس کے نتیجے میں وہ اپنی ملازمت پر جانے سے لیٹ ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ کہ اس کی فارمیسی سے بلڈ پریشر حتیٰ کہ پین کلرز اور اینٹی بایوٹکس کی دوائی بھی نہیں ملتی جبکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اب اسے ابوظہبی میں ملازمت مل گئی ہے جہاں اس کی تنخواہ یہاں سے دس گنا زیادہ ہو گی اور اسے پٹرول کے لیے لمبی لائن میں بھی نہیں لگنا پڑے گا۔ 

کرنسی کے بحران نے تاجروں کے لیے ادویات کی درآمد میں سنگین مسائل پیدا کیے ہیں۔ وقت پر ادائیگی نہ کرنے سے ادویات کی فراہمی میں تاخیر ہو جاتی ہے اور ملک میں ان کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ بیروت کی ایک اور فارمیسی والے نے بتایا کہ اس کے ڈاکٹر نے ایک مریض کو مائیگرین کے لیے 5 ادویات تجویز کی تھیں مگر مریض ابھی تک جتنی بھی فارمیسیز پر گیا ہے‘ اسے ان میں سے ایک بھی دوائی کہیں سے نہیں مل سکی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر مجھے یہ دوائی نہ مل سکی تو مجھے ساری رات یہ درد برداشت کرنا پڑے گا۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement