ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

مود ی کابینہ میں تبدیلی: چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے

تحریر: رشیدالدین

ٹیم چاہے کرکٹ کی ہو یا پھر کسی حکومت کی‘ کامیابی یا شکست کا دارومدار کپتان کی قیادت پر ہوتا ہے۔ کھیل کے میدان میں ٹیم کا مظاہرہ ناقص ہو یا کابینہ عوام کی توقعات پر اترنے میں ناکام ہوجائے‘ دونوں صورتوں میں چند ارکان کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا۔ قیادت اور رہنمائی جیسی ہوگی‘ نتیجہ بھی اسی طرح کا برآمد ہوگا۔ ان دنوں سیاسی میدان ہو یا سپورٹس ٹیم‘ ناقص کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے اور ناکامی کا ٹوکرا کسی اور کے سر ڈال کر خود کو ذمہ داری سے بچا لیا جاتا ہے۔ جس طرح کسی کلاس کے پرفارمنس کا انحصار ٹیچر کی تعلیم پر ہوتا ہے اور ٹیچر کی نااہلی اور تساہل کے لئے طلبہ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ویسے ہی ٹیم کا کپتان چاہے وہ چیف منسٹر ہو یا وزیراعظم‘ اپنا دامن نہیں بچاسکتے۔ 

نریندر مودی کو دوسری میعاد کے دو سال بعد حکومت کی ناکامیوں کا احساس ہوا اور انہوں نے کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ چند وزرا کی تبدیلی کے ذریعہ یہ تاثر دیا گیا کہ وہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے ذمہ دار تھے حالانکہ جب قیادت میں کمی یا خامی رہ جائے تو پھر ٹیم سے بہتر مظاہرے کی توقع کرنا فضول ہے۔ نریندر مودی کو اپنی ناکامی کا وبال دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنی جگہ کسی اور کو قیادت کا موقع دینا چاہئے۔ کب تک وزرا کی تبدیلیوں کے ذریعے خود کو بچانے کی کوشش کی جائے گی ؟ کورونا سے نمٹنے میں ناکامی ہو یا پھر آسمان کو چھوتی مہنگائی‘ معیشت کا انحطاط ہو یا بڑھتی بیروزگاری، ان تمام کیلئے نریندر مودی ذمہ دار ہیں۔ مودی نے اقتدار کے ایک سال میں مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا لیکن سات برس بعد مہنگائی کی جو حالت ہے، اس کے لئے وزیراعظم نہیں تو کون ذمہ دار ہے ؟ معیشت کے زوال کا سبب بننے والے نوٹ بندی کے فیصلے کیلئے صرف اور صرف مودی ذمہ دار تھے۔ کورونا کو بھگانے کیلئے علاج کے بجائے تالی، تھالی اور موم بتی جلاؤ ‘بجھاؤ کا کھیل کس نے کھیلا تھا؟ اپنے غلط فیصلوں کی سزا وزرا کو دینا کہاں کا انصاف ہے؟ وزیر صحت کی وزارت سے علیحدگی کے ذریعے حکومت نے کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے۔ معاشی انحطاط کی ذمہ دار وزیر خزانہ کی کابینہ میں برقراری سے پتا چلتا ہے کہ نرملا سیتا رامن نے بی جے پی سے قربت رکھنے والے صنعتی گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کیا اور یہ وزیراعظم کی مرضی تھی۔ وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد میں پہلی مرتبہ 12 وزرا کو کابینہ سے علیحدہ کرتے ہوئے 43 وزرا کو حلف دلایا گیا۔ 7 منسٹر آف سٹیٹس کو کابینہ کا درجہ دیا گیا۔ 15 کابینہ ارکان اور 28 منسٹرز آف سٹیٹ نے حلف لیا۔ وزرا کی تعداد میں اضافے سے مودی کابینہ کی تعداد 77 ہوگئی ہے جن میں 30 کابینہ ممبران اور 47 منسٹر آف سٹیٹس ہیں۔ جن 12 وزرا کو کابینہ سے علیحدہ کیا گیا، ان میں ڈاکٹر ہرش وردھن، روی شنکر پرساد اور وکاش جاؤڈیکر کے نام ہر کسی کو چونکا دینے کیلئے کافی تھے۔ حلف برداری سے چند گھنٹے قبل تک بھی انہیں پتا نہیں تھا کہ وزارت کی کرسی کھسکنے والی ہے۔ یہ تینوں وزرا ہر معاملے میں حکومت کا دفاع کرنے کیلئے ہراول دستے کی طرح تھے۔ جو لوگ کل تک حکومت کی زبان تھے، وہ اچانک بے زبان ہوگئے۔ حکومت کو ہر بحران اور مصیبت سے بچانے والے خود بحران کا شکار ہوگئے۔ ان تینوں کی علیحدگی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چمچہ گری کی بھی ایک حد ہونی چاہئے جو لوگ چمچہ گری میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں تو ان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے۔ ملک کو حکومت کی ہر خبر دینے والے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاؤڈیکر کو چند گھنٹے قبل تک بھی یہ اطلاع نہیں تھی کہ ان کا پتا کابینہ سے کٹنے والا ہے۔ دراصل حکومت کے بچاؤ میں غلو نے عوام میں ان کا اعتبار ختم کردیا تھا۔ ہم ضرور یہ کہنا چاہیں گے کہ جب تک مودی کو ان کا جھوٹ پسند آیا، پذیرائی کرتے رہے اور جب جھوٹ بے اثر ہوگیا تو گھر واپسی کرادی۔ کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی پانچ ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کی گئی ہے۔ بی جے پی کو یو پی اور گجرات میں سخت چیلنج کا سامنا ہے اور پنجاب میں کانگریس سے اقتدار چھیننے کا خواب ہے۔ یو پی اے گجرات کے قائدین کی ناراضی دور کرنے کیلئے ان ریاستوں کو زائد نمائندگی دی گئی۔ کانگریس کے باغیوں‘ جونیئر سندھیا اور نارائن رانے کو بطورِ انعام وزارت کا تحفہ دیا گیا۔ بی جے پی قائدین کا یہ دعویٰ ہے کہ مودی نوجوان وزرا کو آگے لائے ہیں حالانکہ زیادہ تر وزرا کی عمر 55 تا 58 سال کے درمیان ہے۔ اگر عمر کی بنیاد پر ہی وزرا کو ہٹایا ہے تو پھر اس کا اطلاق نریندر مودی، راج ناتھ اور امیت شاہ پر کیوں نہیں؟

مودی کابینہ میں 43 نئے وزرا نے حلف لیا لیکن ایک بھی مسلم وزیر کو شامل نہیں کیا گیا۔ مودی کے اس اقدام نے سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس(ترقی) اور مسلمانوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے دعوے جھوٹے ثابت کردیے ہیں۔بی جے پی کابینہ میں پانچ اقلیتی نمائندوں کی موجودگی کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ بی جے پی کا کیا سلوک ہے؟ کیا بی جے پی کو ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آیا جو مودی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کی اہلیت رکھتا ہو؟نریندر مودی اپنی کابینہ میں دلت اور پسماندہ طبقات کو برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے بغل میں کسی مسلمان کو نہیں دیکھ سکتے۔ مودی وزارت میں مسلم کوٹہ کے تحت جو وزیر پہلے سے موجود ہیں‘ وہ کس قسم کے ہیں، اس بارے میں قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ مودی وزارت میں عملاً کوئی مسلم وزیر ہی نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں سطح کے نیچے طوفان کا اشارہ دے رہی ہیں۔ 

کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ویکسین کے حوالے سے بھی بھارت میں کئی مقامات پر ویکسین کے نام پر نمک ملا پانی دیے جانے کے معاملات منظر عام پر آئے اور کئی گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ یہ تو چند ایک معاملات تھے جو منظر عام پر آگئے۔ دیہی علاقوں میں پتا نہیں ویکسین کے نام پر کیا کچھ دیا جارہا ہے۔ بھارت میں نقلی ویکسین دی جارہی ہے لیکن برازیل کو جو اصلی ویکسین دی گئی تھی‘ اس میں کمیشن کے حصول کے الزامات کے بعد برازیل کی حکومت نے بھارت سے معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ رافیل طیاروں کی خریداری میں بھاری کمیشن کی شکایت پر فرانس کے سابق صدر کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ویکسین اور جنگی طیاروں کے معاملے میں دیگر ممالک تحقیقات کر رہے ہیں تو پھر مودی حکومت تحقیقات سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ کابینہ میں تبدیلیوں پر مظفر وارثی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎

چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے ؍ اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے

(بشکریہ: سیاست انڈیا)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement